فہرست
میں ایک آزاد ملک میں ایک آزاد شہری کی حیثیت سے پیدا ہوا۔میں جب چھوٹا سا تھاتو اپنے بڑوں سے آزادی، غلامی اور حریت کی کہانیاں سنا کرتا تھا۔
اردونامہ فورم سے منتخب کردہ مشرقی پاکستان کی ہزاروں کہانیوں میں سے ایک کہانی۔
وہ بتایا کرتے تھے کہ ہم نے آزادی کیسے حاصل کی ۔ ہم کیسے ہندوستان سے پاکستا ن آئے۔
میں اس وقت بہت چھوٹا تھا اور آزادی کا صحیح مطلب نہیںسمجھ سکتا تھا اور جیسے جیسے وقت گزرتا گیا ویسے ویسے آزادی اور غلامی میرے لیئے اہم سوال بنتی گئی۔میںسوچا کرتا تھا کہ ہمیںآزادی کی کیا ضرورت تھی اور غلامی کیا چیز تھی۔
اگر ہم غلامی میں ہی رہتے تو کیا ہوتا۔
یہ سب وہ سوالات تھے جن کے جوابات میں تلاش کرتا رہتا تھا۔میں اپنے استادوں سے اکثر سوال کرتا تھا کہ غلامی اور آزادی کیا چیز ہے ۔؟ وہ اپنے علم اور تجربے کے مطابق مجھے سمجھانے کی کوشش کرتے۔
لیکن مجھے کوئی خاص سمجھ نہ آتی، آج اچانک میں عنایت اللہ کی لکھی ہوئی ایک کتاب “منزل اور مسافر “ کا مطالعہ کر رہا تھا۔مصنف نے اس میں جنگِ عظیم دوئم کا ذکر کرتے ہوئے بنگال کا ایک واقعہ تحریر کیا جو اس کے ساتھ پیش آیا تھا۔ اس واقعہ کو پڑھنےکے بعد مجھے ایسا لگا کہ مجھے سب سوالوں کے جواب مل گئے۔
بنگالیوں نے فوج میں بھرتی ہونے سے انکار کردیا تھا اور انگریز انکی اس حرکت سے بہت نالاں تھے۔انگریزوں نے ایک شاہی فرمان کے ذریعے انکی تمام پیدا وار اپنے قبضے میں اسطرح کر لی کہ تمام لوگ سمجھ ہی نہ سکے اور ملک میں قحط پڑ گیا۔ یہ مصنوعی قحط ایسا پڑا کہ کہیں چاول کاایک دانہ نظر نہیں آتا تھا۔یہ انگریزوں کی غلامی کا دور تھا اور انکی مرضی کے بغیر ایک پتا بھی نہیں ہل سکتا تھا۔فرعونیت تھی اور بس فرعونیت تھی۔
میں نے وہاں جو منظر دیکھے ہیں آج بھی یاد کرتا ہوں تو رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔بڑے ہوٹلوں میں جہاں فوجی افسر جاتے تھے چاول پکتے تھے۔ میں نے دیکھا کہ ہوٹل کے برتن دھلنے اور جو پانی نالی میں آتا تھا وہاں بنگالی بچے ایک دوسرے کو دھکے دے دے کر اس پانی میں ہاتھ ڈالتے تھے کیوں کہ اس پانی میں چاول کے دانے باہر آتے تھے اور وہ ایک ایک دانہ لڑائی کے بعد حاصل کرتے تھے۔
ایک دن میں ڈھاکہ شہر میں جا رہاتھا کہ اچانک ایک ادھیڑ عمر آدمی نے روک لیا ۔ فٹ پاتھ پر ساتھ ہی دو جوان لڑکیاں کھڑی تھیں ۔ ان لڑکیوں کا انداز طوائفوں والا تھا ہی نہیں ۔ انہوں نے میلے کچیلے کپڑ ے پہن رکھے تھے اور انکے سانولے چہروں پر اداسی تھی۔
صاھب ! بی بی ؟ اس آدمی نے پوچھا۔
ہر فوجی کو یہ الفاظ “صاحب ! بی بی؟“ ہر دس پندرہ قدم پر سننے پڑتے تھے۔ اس شخص نے مجھے روکا اور یہی سوال کیا تو میں نے لڑکیوں کو دیکھا تو مجھے کچھ شک ہوا۔
تم کون ہو؟ میں نے آہستہ سے پوچھا ۔ مسلمان ہو یا ہندو!
مسلمان ہوں صاحب ۔ اس نے کہا ، لڑکی دیکھیں۔۔۔
کیا یہ تمہار پیشہ ہے؟ میں نے پوچھا
نہیں صاحب ۔ اس کے ساتھ ہی اس کے آنسو نکل آئے اور وہ بولا پیسے نہ دو ایک ٹائم کا چاول دے دو، روٹی کھلا دو۔
اس نے جب کہا کہ وہ مسلمان ہے اور یہ اسکا پیشہ نہیں تو میرے خون میں ایسا اُبال آیا کہ پہلے یہ جی میں آئی کہ اس اس آدمی کا گلا گھونٹ دوں لیکن میں بے بس تھا اور یہ شخص مجبور۔
بھوک نے اسکے دماغ پر سیا ہ کالا پردہ ڈال دیا تھا۔ میں نے اس سے پوچھا اس کے کتنے بچے ہیں؟ اس نے آٹھ بتائے
یہ دو لڑکیاں بڑی تھیں ایک کی عمر چودہ سال اور دوسری کی سولہ سال تھی۔ میں نے اس سے کہا کہ وہ کسی گاہک کو پھانسنے کی کوشش نہ کرے میں تھوڑی دیر بعد آتا ہوں۔
میں واپس اپنے دفتر میں آیا اور فوج میں راشن کی کوئی کمی نہیں تھی ۔
غلامی کی کہانی پڑھنا جاری رکھئے۔۔۔