اس سلسلے میں اینی فرینک کی ڈائری، جعل سازی اور جھوٹ کا شاہکار ہے۔ یہ کتاب کئی سال تک امریکہ اور یورپی ممالک کے نازی دشمن لٹریچر پر چھائی رہی۔ اس کے چالیس ایڈیشن ہاتھوں ہاتھ بک گئے۔ ہالی ووڈ نے اس کی فلم بھی بنائی جوبہت کامیاب رہی۔ لڑکی کے باپ آٹو فرینک نے رائلٹی میں لاکھوں ڈالرکمائے۔ کتاب میںاینی فرینک کی زندگی کا المیہ بیان کیا گیا ہے۔ بیان کردہ کہانی انسانی جذبات سے براہ راست اپیل کرتی ہے اور کتاب اور فلم سے دنیا بھر میں لاکھوں افراد متاثر ہوئے۔ لیکن سات سال بعد انکشاف ہوا کہ ساری کہانی محض فراڈ تھی، اور یہ انکشاف کسی فرد یا اخبار نے نہیں کیا۔ بلکہ اس کا فیصلہ نیویارک سپریم کورٹ نے دیا۔
اینی فرینک کی ڈائری کے متعلق ناشر نے لکھا تھا کہ یہ ایمسٹرڈم کی ایک یہودی لڑکی نے بارہ برس کی عمر میں اس وقت لکھی جب اس کا خاندان اور چار دیگر یہودی جرمنی کے زمانہ تسلط میں ایک مکان کے پچھواڑے کے ایک کمرے میں چھپے رہے تھے۔
پھر کسی نے مخبری کی اور جرمنوں نے انہیں گرفتار کرکے کنسٹریشن کیمپ میں بھیج دیا۔ جہاں اینی فرینک چودہ سال کی عمر میں مر گئی۔ جنگ ختم ہونے کے بعد آٹو فرینک کیمپ کے زنداں سے آزاد ہو کر ایمسٹرڈم پہنچا جہاں پناہ گاہ سے اسے اپنی بیٹی کی ڈائری مل گئی، جسے اس نے پرچھتی میں چھپا دیا۔