فہرست
کیا ہم اس کے ذمہ دار نہیں ؟؟؟
ابّا کے انتقال کے بعد مجھے جو سب سے بڑا بوجھ اٹھانا پڑا، وہ تھا پورے ہردوئی شہر کے سارے دوکانداروں، دفتروں میں کام کرنے والوں اور ہر محلے میں مقیم عمر رسیدہ لوگوں سے ملتے، راہ چلتے، خرید و فروخت کرتے سلام کرنا، ان کی کبھی نہ ختم ہونے والی ہمدردی کا سرجھکاکر متانت سے جواب دینا۔ حد یہ تھی کہ مجھے یتیم ہوئے سال گذر گیا ، میرے زخم بھر گئے، لیکن ان تمام لوگوں نے بلا تفریق مذہب و ملت اپنے سلوک میں ذرا بھی کمی نہیں آنے دی۔ پتہ نہیں ابا نے ان کے درمیان کس قدرمحبت لٹائی تھی اور اخوت کی کون سی روایت جاری کی تھی کہ اچانک ان کے بعد وہ سب مجھ کو ہی مع سود واپس کر رہے تھے۔
مجھے ایک کاپی خریدنے کے لئے بڑے چوراہے جانا ہے، لیکن راستہ میں ابراہیم ٹیلرماسٹر کی آواز پر رکنا ضروری ہے، دو قدم بعد خراد کے کارخانے سے مختار چچا کو اپنی خیریت بھی بتانا ہے اور انکے گلے کی خرابی پر تشویش بھی ظاہر کرنی ہے۔ چھوٹے چوراہے پر قطار سے ابا کے چاہنے والے پنساری دوکانداروں، پان فروشوں، سبزی فروشوں اور کپڑے کی دوکانوں میں بیٹھے سبھی لوگوں کو میرے لئے بنی انکی تشویش کا ازالہ کرنا ضروری تھا۔ یہ سب ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ تھا۔ ۔۔۔ کیسے لوگ تھے اور کیا زمانہ تھا۔۔۔محبت بھی بوجھ بن سکتی ہے اس کا تجربہ بھر پور ہو رہا تھا۔ کسی چھوٹی سے چھوٹی ضرورت کے لئے بھی مجھے واپس آنے کے لئے آدھا گھنٹہ چاہئے ۔ ابا نے اپنی وراثت میں دولت چاہے کم چھوڑی ہو ، لیکن پیار و اخوت کی بارش میں بھیگ بھیگ کر میرا برا حال تھا۔ یہ دنیا تھی جو میرے ابا نے میرے لئے چھوڑی تھی اس پر نہ تو تقسیم ملک کا کالا سایہ پڑا اور نہ ہی بدلتی تہذیب کے تند جھونکے اس کا رخ موڑ سکے۔
پڑھناجاری رکھئے…