فہرست
ڈی این اے (DNA) کیا ہے؟
یہ 21 نومبر 1983ء کا ایک سرد ترین دن کی دوپہر تھی جب برطانیہ کی ریاست لیسسٹر شائر (Leicestershire) کے گاؤں نربوروغ (Narborough) سے تعلق رکھنے والی 15 سالہ لینڈا مان (Lynda Mann) نزدیکی بستی میں موجود اپنی سہیلی سے ملنے گھر سے نکلی لیکن اس دوپہر کے بعد لینڈا پھر کبھی لوٹ کر گھر واپس نہ آئی شام تک اس کے واپس نہ آنے سے اس کے والدین پریشان ہوئے اور اس کی سہیلی کے گھر اسے لینے پہنچ گئے
لیکن وہاں ان پر یہ انکشاف ہوا کہ وہ اپنی سہیلی کے گھر پہنچی ہی نہیں تھی۔ ابھی اس کی گمشدگی کو صرف چوبیس گھنٹے ہی گزرے تھے کہ اس کے والدین کو وہ دل دہلا دینے والی خبر ملی جسکا اس کے والدین تو کیا، دنیا کے کوئی بھی ماں باپ کبھی تصور تک نہیں کرسکتے۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں نے انہیں بلیک پیڈ نامی علاقے سے ملنے والی لاش کی پہچان کرنے کے لیے بلایا۔
تفتیش کاروں کا ایک بچی کی لاش ملی تھی جسے ریپ کے بعد بری طرح تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور پھر گلا گھونٹ کر جان سے مار دیا گیا تھا۔ لاش دیکھنے پر اس بدقسمت خاندان پر قیامت ٹوٹ پڑی کیونکہ بد قسمتی سے یہ لینڈا مین کی لاش ہی تھی۔ لاش شناخت ہوجانے کے بعد لینڈا کے جسم سے ملنے والے خون کے نشانات کو اکھٹا کر کے محفوظ کر لیا گیا
اور اس وقت تک دریافت ہونے والی جدید طبی تحقیق سے خون کے خلیوں کی جانج پڑتال کی گئی لیکن ناکافی تحقیق کی وجہ سے لینڈا کے ساتھ ہونے والی زیادتی اور اس کے بعد اس کے قتل اور اسے قتل کرنے والے سفاک قاتل کے صرف دس فی صد نتائج ہی حاصل ہو پائے جسکی بنیاد پر کوئی بھی نتیجہ اخذ کرنا یا کسی شخص کو قاتل قرار دینا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہوتا ہے۔ ٹھوس شواہد اور گواہ نہ ہونے کے سبب معصوم بچی کو انصاف ملنے سے قبل ہی اس کے کیس کی فائل بند کردی گئی اور لینڈا مان کا کیس سرد خانے کی نذر ہوگیا۔
ابھی لینڈا مان کے قتل کو صرف تین سال ہی گزرے تھے کہ 31 جولائی 1986 کو اسی علااقے میں بالکل اسی طرز سے ریپ اور قتل کا ایک اور واقعہ رونما ہوا جس میں ڈان ایشورتھ (Dawn Ashworth) نامی بچی سکول سے واپسی پر اپنی سہیلی کے گھر جاتے ہوئے غائب ہو گئی اور جلد ہی اس کی لاش بھی اس علاقے کے نزدیکی مقام سے تقریبا اسی حالت میں ملی جس میں لینڈا کی ملی تھی۔
اس قتل کے بعد علاقہ مکینوں میں خوف و ہراس کی فضا قائم ہوگئی۔ لوگوں نے اپنی بچیوں کو گھروں کے اندر تک محدود کر دیا اور انہیں سختی سے ہدایت کی کہ کسی بھی صورت اکیلی گھر سے باہر قدم نہ نکالیں۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں پر دباؤ ڈالا جانے لگا کہ ان دونوں بچیوں کو قتل کرنے والوں کو جلد از جلد گرفتار کر کے قرار واقعی سزا دی جائے تاکہ اس علاقے کے لوگوں کے سروں سے خوف کی یہ کالی گھٹا چھٹ سکے اور لوگ پہلے کی طرح بے خوف و خطر آزادانہ فضا میں سکون کا سانس لے سکیں۔
قتل کے یہ دونوں کیس آپس میں گہری مماثلت رکھنے کے باوجود ابھی تک سوالیہ نشان بنے ہوئے تھے اور تفتیش کاروں کو ابھی تک کوئی ایسا ثبوت نہیں مل سکا تھا جس سے وہ کسی ایک شخص پر فرد جرم عائد کر سکتے، اداروں نے ایک بار پھر باقاعدہ نئے سرے سے اس قتل کے کیسوں کی تفتیش کا آغاز کیا اور شواہد کی بناء پر بہت جلد وہ اس نتیجے پر پہنچ گئے کہ ممکنہ طور پر دونوں بچیوں کے قتلوں میں ایک ہی شخص ملوث ہوسکتا ہے۔
دونوں قتل کے کیسز میں مماثلت ہونے کی بناء پرپولیس نے نتیجہ اخذ کیا کہ دونوں وارداتوں میں ممکنہ طور پر ایک ہی شخص ملوث ہوسکتا ہے۔ اس ممکنہ قاتل کے حوالے سے اندازہ لگایا گیا کہ یہ کوئی سیریل کلر ہے جو اس علاقے میں چھوٹی بچیوں کو اپنی ہوس کا نشانہ بناتا ہے اور قتل کر دیتا ہے۔ دونوں قتل کیسز کے جائے وقوعہ میں صرف چند کلومیٹر کا فاصلہ ہی تھا اس کے علاوہ ڈان کے جسم سے ملنے والے شواہد کو لینڈا کی نعش کے پاس سے ملنے والے شواہد سے ملایا گیا تو دونوں میں بڑی حد تک مماثلت ملی جس سے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اس اندازے کو تقویت ملی کہ دونوں بچیوں کا قاتل ایک ہی شخص ہے۔
جامع قسم کی تفتیش کے بعد پولیس نے نربوروغ سے تعلق رکھنے والے ایک سترہ سالہ نوجوان ریچرڈ بکلینڈ (Richard Buckland) کو گرفتار کیا جو ذہنی طور پر بیمار تھا اور اسے پڑھائی میں بھی دشواری کا سامنا رہتا تھا۔ لیکن وہ نہ صرف ڈان کو اچھی طرح جانتا تھا بلکہ اس کے پاس اس کیس کے حوالے سے ایسی معلومات بھی تھیں جو تفتیشی ذرائع نے ابھی تک عام نہیں کی تھیں۔
دوسری طرف ریچرڈ نے دوران تفتیش اعتراف جرم کیا کہ اسی نے ڈان ایشورتھ کا قتل کیا ہے ریچرڈ کے اس اعتراف جرم کے بعد یونیورسٹی انتظامیہ نے اس کا داخلہ منسوخ کر دیا۔ 10 اگست 1986ء کو اس پر فرد جرم عائد کرتے ہوئے گرفتار کر کے اسی روز اسے عدالت میں پیش کر دیا گیا جہاں اس نے لینڈا مین کے قتل سے انکار کرتے ہوئے اسے جاننے پہچانے سے بھی انکار کر دیا،
جبکہ ڈان ایشورتھ نامی بچی کے قتل کا اعتراف کرتے ہوئے عدالت کو بیان دیا کہ اسے اس کا قتل کر کے کوئی شرمندگی یا افسوس نہیں ہے۔ لیکن چونکہ پولیس کو یہ بات اچھی طرح معلوم تھی کہ دونوں بچیوں کا قاتل ایک ہی شخص ہے ایسے میں قاتل کا ایک قتل کا اعتراف اور دوسرے سے انکار نے پولیس اہلکاروں کو عجیب کش مکش میں ڈال دیا
ان کے اندازے کہ مطابق یہ تو ریچرڈ جھوٹ بول رہا ہے کہ اس نے ایک قتل کیا ہے یا پھر دونوں قتل اسی نے کیے ہیں۔ اب سوال یہ پیدا ہوا کہ آخر مجرم جھوٹ کیوں بول رہا ہے اگر اس نے قتل نہیں کیے تو الزام اپنے سر کیوں لیے رہا ہے یہ تو وہ اصل مجرم کو بچانے کی کوشش میں ہے اور یا پھر یہ دونوں قتل اسی نے کیے ہیں۔
پولیس ان کیسوں کی تفتیش میں مصروف کار تھی کہ اسی دوران 10 ستمبر 1984 کو برطانیہ کے ماہر جینیات پروفیسر ڈاکٹر علیک جیفریز (Alec Jeffreys)نے یونیورسٹی آف لیسسٹر (University of Leicester) میں دورانِ تجربہ دریافت کیا کہ کس طرح مختلف بیماریاں وراثتی طور منتقل ہوتی ہیں۔
انہوں نے انسانی خلیوں سے ڈی این اے (DNA) کو علیحدہ کرکے انہیں فوٹوگرافک فلم سے منسلک کیا جس سے ان کی خاص ترتیب (Genetic Code) کا عکس حاصل ہوگیا۔ اس کے مشاہدے سے انہیں فوراً ہی معلوم ہوا گیا کہ جن افراد کے خلیے تجربے کے لیے حاصل کیے گئے تھے ان تمام خلیوں کے ڈٰی این اے کی ترتیب (Genetic Code) ایک دوسرے سے مختلف تھی،