ہمارے لوگوں کا رد عمل بہت شدید ہوتا ہے۔ ہم میں سے کسی کو یقین نہیں کہ یہ الزامات سچ ہیں یا ان کے پیچھے کوئی اور امر کارفرما ہے۔ اگر ہم انگلینڈ میںاپنی ٹیم کے دوروں کی تاریخ دیکھیں تو وہ ایسے واقعات سے بھری پڑی ہو گی۔ آسٹریلین امپائر ڈیرل ہیر کا جھگڑا ہو یا ثقلین مشتاق کی بالنگ پر تھرو کا الزام، شعیب اختر پر بال ٹمپرنگ کا الزام ہو یا ڈبلیوز کی جوڑی پر بال ٹمپرنگ کا الزام۔۔۔ گوری قوم پاکستانی ٹیم کو ذلیل کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتی۔ ایک پرانی کہانی بھی ہے، کہ دنیا بھیڑ چال ہے۔ جس طرف ایک بھیڑ گئی سبھی بھیڑیں اسی کے پیچھے جائیں گی۔
جس طرح کا یہ رد عمل پاکستانیوں کی طرف سے آیا ہے ، گالیاں ، الزامات، نفرت انگیز تبصرے، مجھے یہ کہنے میںکوئی عار نہیں، کہ یہ سو فیصد اسی رد عمل کی طرح ہے جس طرح کا رد عمل سیالکوٹ میں دو بھائیوں کو ایک آدمی کی طرف سے چور ڈاکو قرار دینے پر وہاں کی پبلک کی طرف سے آیا۔ سب نے یہی کہا، مار دو ان کو، یہ ڈاکو ہیں، کوئی کہتا ہے سر پر مارو، کوئی کہتا ہے اسکو ٹھڈا مارو، کوئی کہتا ہے اسکو جلا دو، کوئی کہتا ہے الٹا لٹکا کر مارو، کسی نے بھی یہ نہیں کہا کہ ہو سکتا ہے یہ ڈاکو نہ ہوں ، اور کہنے والا جھوٹ بول رہا ہو، کسی نے یہ نہیں سوچا، جس نے ڈاکو کہا اس کی کریڈیبلٹی کیا ہے، وہ کوئی جھوٹا مکار فریبی غنڈا ہے یا کوئی نیک سیرت انسان جس کی بات پر اعتبار کیا جا سکے۔
سچ کہوں تو پاکستانی قوم ، تماشا چاہتی ہے، عزتیں اچھالنے میں اسے سکون ملتا ہے، دوسروں کو تکلیف دینے میں اس کی تفریح ہوتی ہے، ہم لوگ تماش بین بن چکے ہیں۔
پڑھناجاری رکھئے۔۔۔