ولادتِ با سعادت ۔۔۔!
نبی کریم کی دادی جان کا نام بھی فاطمہ تھا۔آپ کے والد عبداللہ سولہ بہن بھائی تھے مگر عبداللہ خوبصورت اور پاکدامن ہونے کی وجہ سے اپنے والدین کے چہیتے تھے۔آپ کے دادا حضرت عبدالمطلبؓ نے اپنے صاحبزادے کی شادی قریش کی افضل ترین خاتون آمنہؓ سے کر دی۔ اس حسین و جمیل جوڑے کو شاید کسی کی نظر لگ گئی کہ شادی کے چند ماہ بعد ہی جواں سال عبداللہ اس دار فانی سے کوچ فرما گئے۔ بی بی آمنہ ؓ کو جب اپنے شوہر کی وفات کی خبر ملی تو وہ صدمے سے نڈھال ہو گئیں اور ایک درد انگیز مرثیہ کہا ”بطحا کی آغوش ہاشم کے صاحبزادے سے خالی ہوگئی۔ وہ ایک لحد میں آسودہ خواب ہو گیا۔ اسے موت نے ایک پکار لگائی اور اس نے لبیک کہہ دیا۔اب موت نے لوگوں میں ابن ِ ہاشم جیسا کوئی انسان نہیں چھوڑا ۔وہ شام جب لوگ انہیں تخت پر اٹھائے لے جا رہے تھے،اگر موت اور موت کے حوادث نے ان کا وجود ختم کر دیاہے تو ان کے کردار کے نقوش نہیں مٹائے جا سکتے۔وہ بڑے دانا اور رحم دل تھے“۔ والد کی وفات کے بعد ان کی لونڈی ام ایمن ؓ نے آپ کو گود کھلایا ۔نبی کریم ﷺ کی ولادت با سعادت والد کی وفات کے چند ماہ اور واقعہ فیل کے 55 روز بعد20اپریل 571کو 12ربیع الاول پیر کے روزبوقت فجر ہوئی۔ ابن سعد ؓ کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی والدہ نے فرمایا”جب آپ کی ولادت ہوئی تو میرے جسم سے ایک نور نکلا جس سے ملک شام کے محل روشن ہو گئے“۔ بعض روایات کے مطابق ایوان کسریٰ کے چودہ کنگرے گر گئے۔ مجوس کا آ تش کدہ ٹھنڈا ہو گیا۔بحیرہ ساوہ خشک ہو گیا اور اس کے گرجے منہدم ہو گئے۔