فہرست
ٹیکسٹ، وائس اور ویڈیو میسجز کی دنیا کی سب سے مقبول ایپ واٹس ایپ اس وقت اپنی نئی پالیسی 2021 کی وجہ سے دنیا بھر میں شدید تنقید کے نشانے پر ہے۔ واٹس ایپ کے بارے میں طرح طرح کی پشین گوئیاں کی جا رہی ہیں خاص طور پر پاکستان میں چونکہ عام طور پر نہ تو ڈیٹا پرائویسی کے متعلق لوگ زیادہ جانتے ہیں بلکہ حکومتی سطح پر بھی اس بارے میں کوئی واضح قانون سازی موجود نہیں ہے۔
واٹس ایپ کی تاریخ
واٹس ایپ کی بنیاد یاہو کے دو سابق ملازمین برائن ایکٹن اور جان کوم نے 2009 میں رکھی اور وقت کے ساتھ ساتھ اس میں جدید خطوط پر تبدیلیاں کرتے رہے۔ شروع میں یہ ایپ بالکل مفت فراہم کی گئی لیکن بعد میں اس کے سرور کے اخراجات پورے کرنے کی مدد میں کچھ عرصہ کے لئے اس کی فیس ایک ڈالر مقرر کی گئی لیکن جلد ہی اسے دوبارہ مفت فراہم کر دیا گیا۔
2009 میں واٹس ایپ میں تصویری میسجز بھیجنے کی سہولت بھی شامل کر دی گئی اور اس کے بعد بہت جلد یعنی 2011 میں واٹس ایپ ایپل سٹور پر ٹاپ 20 ایپس میں شمار ہونے لگی۔ اور 2013 تک واٹس ایپ کے یوزرز کی تعداد 200 ملین تک پہنچ گئی اور سٹاف کی تعداد 50 تک بڑھا دی گئی۔ اور دسمبر 2013 میں ایک بلاگ پوسٹ میں واٹس ایپ نے دعوی کیا کہ ہر مہینے واٹس ایپ کو 400 میلین صارفین استعمال کرتے ہیں۔
2014 میں فیس بک نے 19 بلین ڈالر کی خطیر رقم ادا کر کے واٹس ایپ کو خرید لیا۔ 2014 سے 2020 تک واٹس ایپ ایک الگ ایپ کی صورت میں کام کر رہی ہے اور اس نے بلاشبہ دنیا کا سب سے بڑا میسنجر ہونے کا اعزاز حاصل کر رکھا ہے۔
ستمبر 2015 میں لوکلائزیشن کے تحت واٹس ایپ کو اردو زبان میں بھی متعارف کرا دیا گیا اور اپریل 2016 میں واٹس ایپ کو مزید محفوظ بنانے کے لئے اس میں انکریپشن کا اضافہ کر دیا گیا جس کے بعد آپ کے اور بھیجے جانے والے صارفین کے درمیان میں کوئی بھی آپ کے میسجز کو پڑھ نہیں پاتا ہے۔ اور اپریل 2016 میں ہی اس میں مختلف اقسام کے نئے فنکشنز بھی شامل کیئے گئے۔
واٹس ایپ کی نئی پالیسی 2021 کیا ہے؟
دسمبر 2020 میں واٹس ایپ نے اپنی نئی پرائیویسی پالیسی کا اعلان کیا جس کا اطلاق 08 فروری 2021 سے شروع ہو رہا ہے جس کے تحت آپ کو مجبور کیا جا رہا ہے کہ یا تو آپ ان کی نئی پالیسی سے اتفاق کریں وگرنہ 08 فروری 2021 کے بعد آپ کے پاس موجود واٹس ایپ کام کرنا بند کر دے گی۔
اس نئی پالیسی کے مطابق واٹس ایپ نے واضح کر دیا ہے کہ وہ آپ کے ڈیٹا تک فیس بک، انسٹاگرام اور دیگر کاروباری اداروں کو رسائی دے سکتا ہے اور اس کا جب چاہے جہاں چاہے استعمال کر سکتا ہے، گو کہ اس نئی پالیسی میں بہت ساری قانونی اصطلاحات کو شامل کیا گیا جو عام قاری کی سمجھ سے ہی باہر ہیں لیکن ڈیٹا شئیرنگ کے الفاظ اس قدر واشگاف انداز میں تھے کہ عام صارفین میں بے چینی کی لہر دوڑ گئی۔
اس نئی پالیسی کے مطابق صارف اپنا نام، موبائل نمبر، تصویر، سٹیٹس، فون ماڈل، آپریٹنگ سسٹم کے ساتھ ساتھ ڈیوائس کی انفارمیشن، آئی پی ایڈریس، موبائل نیٹ ورک اور لوکیشن بھی واٹس ایپ اور اس سے منسلک دیگر سوشل میڈیا پلیٹ فارم کو مہیا کرے گا۔ اس کے ساتھ ساتھ وٹس ایپ آپ کی ٹرانزیکشن اور پیمنٹ کے نئے فیچر کی انفارمیشن بھی اپنے پاس رکھے گا۔
واٹس ایپ کی نئی پالیسی پر شدید تنقید
واٹس ایپ کی نئی پالیسی 2021 کے نفاذ کے ساتھ ہی دنیا بھر کے صارفین کی جانب سے اس پر شدید قسم کی تنقید شروع ہو چکی ہے اور صارفین کی طرف سے اپنے ڈیٹا کے شئیر کیئے جانے کی خبر پڑھنے کے بعد شدید تحفظات سامنے آ رہے ہیں۔ اس کے علاوہ لوگ واٹس ایپ کی متبادل ایپس کی طرف رجوع کر رہے ہیں جس میں ٹیلی گرام اور سگنل نامی ایپ سب سے نمایاں ہیں۔
دوسری طرف بے شمار صارفین اس بات پر غم و غصہ کا اظہار کر رہے ہیں کہ فیس بک پہلے ہی ان کا ڈیٹا واٹس ایپ کی مدد سے استعمال کر رہی ہے البتہ اب باقاعدہ طور پر اطلاع دے دی گئی ہے تاکہ قانونی طور پر موجود مسائل کا خاتمہ کیا جا سکے۔ اور یہ بات ایک حد تک درست بھی ہے کیونکہ ماضی میں فیس بک پر یہ الزام لگتا رہا ہے کہ وہ واٹس ایپ کے صارفین کا ڈیٹا استعمال کر رہی ہے۔ بلکہ جرمنی میں فیس بک پر اسی وجہ سے 2019 میں پابندی بھی عائد کی گئی تھی۔
فیس بک ہمارا ڈیٹا کیوں حاصل کرنا چاہتی ہے؟
آخر ہمارے ڈیٹا میں ایسا کیا ہے کہ فیس بک اسے خود بھی حاصل کرنا چاہتی ہے اور دوسرے کاروباری اداروں کو اسے بیچنے کا ارادہ بھی رکھتی ہے؟ جیسا کہ آپ سب جانتے ہی ہوں گے کہ فیس بک ایک کاروباری ادارہ ہے اور اس کی آمدنی کا سب سے بڑا ذریعہ اشتہارات ہیں۔ 2020 کی تیسری سہ ماہی میں جب پوری دنیا کے کاروباری ادارے کرونا کی وباء کی وجہ سے مندی کا شکار تھے اس وقت فیس بک نے 21.5 بلین ڈالر کی آمدنی صرف فیس بک اشتہارات سے حاصل کی۔
![واٹس ایپ کی نئی پالیسی 2022 اور ایک عام پاکستانی پر اس کے اثرات How and Why WhatsApp is Sharing Data with Facebook واٹس ایپ کیوں اور کیسے ڈیٹا فیس بک سے شئیر کرے گا۔](https://urdunama.org/unblog/wp-content/uploads/2021/01/How-and-Why-WhatsApp-is-Sharing-Data-with-Facebook.jpg)
فیس بک کو اپنی اپلیکشن کو بہترین طریقہ سے چلانے اور اس پر صارفین کے رجحانات کو مدنظر رکھتے ہوئے اشتہارات دکھانے کے لئے ضروری ہے کہ اسے پتہ ہو کہ آپ کے رجحانات کیا ہیں آپ کی چیز پسند اور کیا ناپسند کرتے ہیں، آپ کو کیا کھانا پسند ہے اور کیا پہننا پسند کرتے ہیں، کہاں جاتے ہیں کیا کماتے ہیں تاکہ وہ اس سب ڈیٹا کی بنیاد پر آپ کے لئے بہترین نتائج تلاش کر کے اشتہارات دکھا سکے۔
اور یہ سب ڈیٹا آپ کے موبائل فون کے پاس پہلے سے موجود ہے۔ کیسے؟ اس کا بہت سادہ سا جواب ہے، آپ اپنے پسند کی چیزیں اپنے موبائل کے براوزر سے دیکھتے ہیں، آپ اپنے گھر سے دفتر، دفتر سے بازار اور وہاں سے کسی اور جگہ جاتے ہیں تو آپ کا سمارٹ فون آپ کو ٹریک کر رہا ہوتا ہے بلکہ اس کا مکمل ریکارڈ اپنے پاس محفوظ کر رہا ہوتا ہے۔ آپ عموما اپنے کاروباری لین دین کے لئے مختلف ایپس استعمال کرتے ہیں، مختلف کاروباری سودے موبائل کی مدد سے طے کرتے ہیں، بنک اکاؤنٹ موبائل سے آپریٹ کرتے ہیں یہ سب چیزیں موبائل کو معلوم ہوتی ہیں۔
آپ کچھ اچھا کھانا کھانا چاہتے ہیں تو موبائل پر اپنی پسند کی چیزیں ڈھونڈتے ہیں، آپ کے موبائل کو معلوم ہے کہ کھانے پینے میں آپ کی پسند کیا ہے اور آپ اس پر تقریبا کتنی رقم خرچ کرتے ہیں، آپ کو پہننے میں کیا پسند ہے اور آپ کہاں کہاں سے کیسے کیسے اور کتنی قیمت کے کپڑے منگواتے ہیں یا منگوا سکتے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ ایسی چیزیں جو آپ بڑے شوق سے دیکھتے ہیں لیکن قیمتی ہونے کی بناء پر خرید نہیں پاتے وہ بھی آپ کے ڈیٹا میں محفوظ ہوتا رہتا ہے۔
آپ گھر میں کتنا وقت گزارتے ہیں گھر میں کون کون آپ کے ساتھ موجود ہوتا ہے، آپ دفتر کس وقت جاتے ہیں اور وہاں کیا کرتے ہیں کس کے ساتھ وقت گزارتے ہیں آپ کا کام کس نوعیت کا ہے اور آپ وہاں سے کیا کماتے ہیں یہ سب آپ کے موبائل ڈیٹا کا حصہ ہے اور یہ ہر چیز آپ چاہیں یا نہ چاہیں ہر وقت ریکارڈ ہوتا رہتا ہے حتی کہ اگر آپ انٹرنیٹ استعمال نہ بھی کر رہے ہوں تب بھی۔
اس ضمن میں اردونامہ فورم کی ایک پرانی تحریر ضرور پڑھیں تاکہ آپ کو پتہ چل سکے کہ آپ کا موبائل کیا معلومات رکھتا ہے اور گوگل کو کیسے یہ معلومات فراہم کرتا ہے جب کہ آپ کہ پاس انٹرنیٹ بھی موجود نہ ہو اور آپ کی خواہش اس ڈیٹا کو شئیر کرنے کی نہ بھی ہو تب بھی۔
اب اگر فیس بک آپ کے ڈیٹا سے یہ تمام معلومات حاصل کر لیتا ہے تو ذرا سوچئے اسے کس قدر فائدہ ہو گا، وہ آپ کو اشتہارات ایسے دکھائے گا جو آپ کی پسند ہیں، وہ آپ کو اس وقت چھیڑے گا جب آپ کا فارغ وہ ہو گا تب نہیں جب آپ دفتر میں مصروف ہوتے ہیں، وہ آپ کو آپ کی قوت خرید کے مطابق اشیاء مہیا کرنے کی کوشش کرے گا تاکہ اس کی اشیاء زیادہ سے زیادہ بک سکیں۔
اس سب سے بڑھ کر اگر کسی تھرڈ پارٹی نے فیس بک سے معاہدہ کیا کہ انہیں ایسے صارفین کے فون نمبر یا ای میل ایڈریس چاہیں جو سرکاری ادارے کے ملازم ہیں یا ایسے افراد جو اپنا بزنس کرتے ہیں، یا ایسے افراد جو امپورٹڈ کپڑے پہننے کے شوقین ہیں یا پھر ایسے افراد جو نوکری کی تلاش میں رہتے ہیں تو کس قدر آسانی سے فیس بک آپ کا ڈیٹا انہیں مہیا کر کےکروڑوں ڈالر کما سکتی ہے۔
کیا واٹس ایپ کی نئی پالیسی پوری دنیا کے لئے ایک جیسی ہے؟
بہت سارے یوزرز کو اس حوالے سے میسجز موصول ہو رہے ہیں کہ واٹس ایپ کی پالیسی ساری دنیا کے لئے ایک نہیں اور یہ ڈیٹا شئیرنگ کی پالیسی برصغیر یا اس طرح کے علاقوں کے لئے ہے۔ سب سے پہلے تو یہ جان لئجئے کہ مکمل طور پر تو ایسا نہیں ہے البتہ یورپ، امریکہ اور ایشیاء کی پالیسیوں میں واقعی تھوڑا تھوڑا اختلاف موجود ہے لیکن ڈیٹا بہرحال سب کا شئیر کیا جانا پالیسی کا ایک حصہ ہے۔ اس لئے یہ کہنا کہ یورپ اور امریکہ جیسے ممالک کا ڈیٹا شئیر نہیں کیا جائے گا بالکل غلط ہے۔
البتہ یہ ضرور ہے کہ وہاں چونکہ اس حوالے سے بہت سخت قوانین موجود ہیں اس لئے کمپنی نے ان قوانین کے حساب سے صارفین کے لئے صرف پرائیویسی پالیسی کی سٹیٹمنٹ میں الفاظ کا ہیر پھیر کیا ہے لیکن ان سب کا مطمع نظر ایک ہی یعنی صارفین کا ڈیٹا فیس بک کے ساتھ شئیر کیا جانے کی پالیسی ہی ہے۔
ایک عام پاکستانی کو اس پالیسی کا کیا نقصان ہو سکتا ہے؟
اب بڑھتے ہیں اپنی اصل بات کی طرف کہ آیا اس نئی پالیسی کے مطابق پاکستانی صارفین کو کوئی نقصان ہو سکتا ہے یا نہیں، تو اس ضمن میں یہ بات تو طے ہے کہ دنیا کے ہر فرد کی طرح ایک عام پاکستانی کو بھی اس بات کی مکمل اجازت ہے کہ وہ اپنے ڈیٹا کو پرائیویٹ رکھ سکے اور یہ چاہتا ہے کہ اس کا خفیہ نوعیت کا ڈیٹا جو وہ کسی سے شئیر نہیں کرتا وہ خفیہ ہی رہے۔
![واٹس ایپ کی نئی پالیسی 2022 اور ایک عام پاکستانی پر اس کے اثرات WhatsApp Policy Effects on Common Pakistani واٹس ایپ پالیسی کے عام پاکستانیوں پر اثرات](https://urdunama.org/unblog/wp-content/uploads/2021/01/WhatsApp-Policy-Effects-on-Comon-Pakistani.jpg)
لیکن واٹس ایپ کی اس نئی پالیسی کے تحت اب آپ کا خفیہ ترین ڈیٹا بھی آپ کا نہیں رہتا اور واٹس ایپ اور فیس بک دونوں ہی اس ڈیٹا کا جس طرح چاہیں گے استعمال کر سکیں گے۔ لیکن کیا آپ کے اس ڈیٹا کو استعمال کرنے سے آپ کو مسائل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے؟
اس کا سادہ ترین جواب ہے نہیں۔ واٹس ایپ اور فیس بک دونوں ہی کاروباری ادارے ہیں اور انہیں آپ کے ڈیٹا میں سے اپنی پسند کی معلومات چاہیں ہوتی ہیں نہ کہ وہ آپ کی جاسوسی کرنے والی ایپس ہیں، فیس بک کو کوئی سروکار نہیں کہ آپ کے رابطے کس کے ساتھ جائز اور کس کے ساتھ ناجائز ہیں البتہ یہ اس کے مطلب کی بات ہے کہ جس کے ساتھ آپ کے رابطے ہیں آپ اسے کس قسم کے تحائف دینا پسند کرتے ہیں تاکہ وہ آپ کو اس قسم کے اشتہارات دکھا سکے۔
اس کے علاوہ فیس بک کو یہ بھی جاننے کی ضرورت نہیں ہے کہ آپ اپنی انکم پر ٹیکس پورا ادا کرتے ہیں یا نہیں البتہ اگر آپ کی انکم شاندار ہے تو وہ مہنگی مہنگی چیزوں کے اشتہارات دکھا کر آپ سے زیادہ سے زیادہ منافع ضرور کمانا چاہے گی۔
اگر آپ اپنے واٹس ایپ دوستوں کے ساتھ مل کر دنیا کے امن کو تہہ و بالا کر دینے کے منصوبے بنا رہے ہیں تو فیس بک کی بلا سے، لیکن اگر آپ کو ان منصوبوں کو حقیقت کا روپ دینے کے لئے چند چیزوں کی ضرورت ہے جو فیس بک کے ساتھ کام کرنے والے اداروں کے پاس موجود ہیں تو فیس بک اپنے اشتہارات کے ذریعے یہ اشیاء آپ کو ضرور بیچنا چاہے گا۔
ساری بات کا نچوڑ
اوپر دی گئی ساری معلومات اور گفتگو کا نچوڑ یہ ہے کہ گو کہ واٹس ایپ کی نئی پالیسی آپ کے حقوق پر ایک ڈاکہ ہے لیکن یہ ڈاکہ فیس بک اور گوگل اس سے کہیں پہلے اور کہیں زیادہ پہلے ہی مار رہے ہیں اور شاید اس ڈیجیٹل دور میں اس سے بچنا ناممکن ہے اس لئے زیادہ پریشان ہونے کی ضرورت نہیں فیس بک یا واٹس ایپ آپ کے آن لائن اکاؤنٹ سے پیسے نہیں چرائے گی اور آپ کے پاسورڈ کسی کو نہیں بیچے گی صرف آپ کے رجحانات کو جانچ کر اپنے کاروبار کو فوقیت دے گی اور اتنی آسان اور مفت انٹرٹینمنٹ ایپس دینے کے بعد یہ تو ان کا حق بھی بنتا ہے۔
دوسری طرف اگر آپ صبح اٹھتے ہی اپنی جانو کو گڈ مارننگ کہتے ہیں تو واٹس کی طرف سے اسے پاپولر نہیں کیا جائے تا کہ آخر آپ اسے کے لئے زندہ رہتے ہوئے سونے کی مرغی تو ہیں اور ان پیغامات کے پبلک ہو جانے کی صورت میں آپ کے جان سے جانے کا اندیشہ تو بہرحال موجود ہے اور فیس بک یا واٹس ایپ دونوں ہی یہ سونے کی مرغی کھونا نہیں چاہے گا۔
صارفین کی تنقید اور ان کے درمیان پائے جانے والے ابہام کے پیش نظر واٹس ایپ سربراہ ول کیتھکارٹ نے اپنے ٹوئیٹر اکاؤنٹ سے اس پالیسی کی وضاحت بھی جاری کی ہے جسے واٹس ایپ نے اپنے آفشیل اکاؤنٹ سے ری ٹوئیٹ بھی کیا ہے۔ جو درج ذیل ہے۔
انہوں نے کہا کہ نئی پالیسی لانے کا مقصد صارفین کے ساتھ مزید شفاف ہونا اور لوگوں اور کاروباروں کے درمیان رابطے کے فیچرز کو مزید بہتر طریقے سے واضح کرنا ہے،کیونکہ واٹس ایپ پر روزانہ ساڑھے 17 کروڑ کے لگ بھگ افراد مختلف قسم کے بزنس اکاؤنٹس کو پیغامات بھیجتے ہیں اور مزید لوگ ایسا کرنا چاہتے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ پرائیویسی کے حوالے سے ہمارا ان اداروں سے مقابلہ ہے جو کہ دنیا کے لیے بہت اچھا ہے، لوگوں کے پاس انتخاب ہونا چاہیے کہ وہ کس طرح رابطہ کرنا چاہتے ہیں اور انہیں اعتماد ہونا چاہیے کہ ان کے پیغامات کوئی اور نہیں دیکھ سکتا لیکن کچھ لوگ بشمول بعض حکومتیں اس سےاتفاق نہیں کرتیں۔ انہوں نے واضح کیا کہ لوگوں کے پیغامات فیس بک بھی نہیں پڑھ پائے گی اور یہ اب بھی اسی طرح محفوظ رہیں گے۔
ان تمام باتوں کے بعد میری نظر میں اگر واٹس ایپ صارفین اس کا استعمال اسی طرح جاری رکھیں گے تو بھی انہیں کوئی فرق نہیں پڑے گا کیونکہ فرض کریں آج ہم ٹیلیگرام کا رخ کر بھی لیتے ہیں تو اس بات کی کیا گارنٹی ہے کہ کل ٹیلیگرام بھی ایسا نہیں کرے گا کیونکہ آخر اداروں کا مقصد ہمیشہ منافع کمانا ہی ہوتا ہے آپ کو سہولیات مفت فراہم کرنا ہرگز نہیں۔