سینیٹ یا اسمبلی – عوام کی حکمرانی یا اشرافیہ کی حکمرانی؟

پاکستان سینیٹ بلڈنگ : Senate Building of Pakistan

سینیٹ یا اسمبلی – عوام کی حکمرانی یا اشرافیہ کی حکمرانی؟

تحریر کنندہ: غزالی فاروق

17 فروری2021، بروز بدھ، سپریم کورٹ آف پاکستان نے اس خدشہ کا اظہار کیا تھا کہ اگر 3 مارچ 2021 کو سینیٹ کے انتخابات کے نتائج اسمبلیوں میں موجود سیاسی جماعتوں کی نمائندگی کے تناسب سے نہ آئے تو پورا نظام ڈھیر ہوسکتا ہے۔کیونکہ اس کا مطلب یہ ہو گا کہ اس بار بھی ووٹوں کی خریدوفروخت (ہارس ٹریڈنگ) کی گئی ہے جو کہ آزادانہ اور شفاف انتخابات (فری اینڈ فیئر الیکشنز ) کے اصول کے عین منافی ہے ۔

انتخابات چاہے قومی و صوبائی اسمبلیوں کے لئے ہوں یا سینیٹ کے لئے، ان میں پیسے کے لالچ میں ووٹوں کی خرید و فروخت کا عام ہونا اب روز روشن کی طرح عیاں ہو چکا ہے۔ اس حوالے سے کئی ویڈیوز اور وائس کلپس بھی لیک ہو کر منظر عام پر آ چکے ہیں۔ ایک ایک ووٹ پچاس کروڑ سے لے کر سو کروڑ تک کا بھی بکتا ہے۔ اور پھر اس خرید و فروخت میں ملوث ہونے والے یہی ” نمائندے ” حکومت میں آنے کے بعد عوام کی تقدیر کے فیصلے کرتے ہیں۔

پاکستان سینیٹ بلڈنگ : Senate Building of Pakistan

پاکستان سینیٹ بلڈنگ : Senate Building of Pakistan

یہاں ایک سوال تو یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان اسمبلیوں اور سینیٹ کی نشستوں میں ایسی کون سی کشش موجود ہے جس وجہ سے اربوں روپے پانی کی طرح بہا دیے جاتے ہیں جبکہ ایم این اے، ایم پی اے اور سینیٹر کی تنخواہیں اور مراعات اس کا عشر عشیر بھی نہیں

میڈیا پر بالعموم اور سیاسی مسائل پر مبنی ٹاک شوز میں بالخصوص اس موضوع پر اس سے بڑھ کر کوئی بحث نہیں کی جاتی کہ ووٹوں کی خرید و فروخت کس طرح ہوئی۔ جبکہ یہ سوال مکمل طور پر جواب طلب رہ جاتا ہے کہ ان گنتی کی نشستوں میں آخر ایسا کیا ہے کہ اس کے لئے اربوں روپے کی ” سرمایہ کاری ” کی جاتی ہے ؟

یہ بھی ضرور پڑھیں:  “چاہیے“ کا روگ ( زاویہ) از اشفاق احمد

ہم دیکھتے ہیں کہ جمہوریت میں ایم این ایز، ایم پی ایز اور سینیٹرز محض عوامی نمائندے نہیں ہوتے ، نہ ہی یہ محض ایک مشورے کا فورم ہے، بلکہ یہ نمائندے دراصل” قانون ساز” ہیں جو ملک کے لیے آئین، قوانین، پالیسیاں اور ضوابط بنانے کا مکمل اختیار رکھتے ہیں ۔ اور یہ ہے وہ دروازہ جس میں داخل ہو کر اپنے اور دیگر سرمایہ داروں اور جاگیرداروں کے مفادات کو "فری مارکیٹ” کے اصولوں کا نام دے کر قوانین اور پالیسیوں کی شکل میں منظور کیا جاتا ہے۔

اور یہ وہ چیز ہے جس کے لیے سیاسی جماعتوں میں موجود "عوامی نمائندے” انتخابات کے دوران بڑی بڑی قیمتیں ادا کر کے ووٹ خریدتے ہیں تا کہ انتخابات جیت کر قانون ساز بن سکیں ، اور پھر اسمبلیوں اور سینیٹ میں براجمان ہو کر اپنی اربوں کے حساب سے کی گئی” سرمایہ کاری” پر بھرپور "منافع ” حاصل کرتے ہیں ۔ اس سلسلہ میں تیل، بجلی، گیس، چینی، ادویات ، بینک، گاڑیوں اور انشورنس کمپنیوں سمیت مختلف مافیا ؤں کے حق میں بنائے گئے قوانین اور پالیسیاں اس عمل کی چند مثالیں ہیں۔

ایسا صرف پاکستان میں رائج جمہوریت ہی کے ساتھ نہیں بلکہ دنیا کی مستحکم ترین جمہوریتوں کے ساتھ بھی ہے۔ اور اس کی وجہ قانون سازی کا مطلق اختیار اسمبلیوں اور سینیٹ میں بیٹھے نمائندگان کے پاس ہونا ہے ۔ قانون سازی کا یہی مطلق اختیار حاصل کرنے کی طلب انہیں اس جانب کھینچتی ہے کہ وہ انتخابات کے دوران اربوں روپیہ بہا دینے میں بھی کوئی جھجک محسوس نہیں کرتے۔

اگر جمہوریت کے زاویے سے دیکھا جائے تو یہ کوئی خارجی مسٔلہ نہیں جو باہر سے جمہوریت کے نظام پر اثر انداز ہوتا ہو۔ بلکہ یہ اس نظام کا داخلی مسٔلہ ہے، اور اس وجہ سے یہ اس نظام کا لازمی حصہ بھی ہے۔ لہٰذا جہاں جہاں یہ نظام رائج ہو گا وہاں وہاں یہ مسٔلہ بھی درپیش ہو گا۔ یہ کرپشن اسمبلیوں اور سینیٹ دونوں میں مشترکہ طور پر پائی جاتی ہے کیونکہ دونوں ہی کے پاس قانون سازی کا مطلق اختیار موجود ہے۔

یہ بھی ضرور پڑھیں:  50 کاروبار جو بغیر سرمایہ شروع کیئے جا سکتے ہیں :: 50 Excellent Business Ideas

اس مماثلت کے علاوہ ایک نہایت اہم بات صرف سینیٹ سے متعلق بھی ہے جس پر میڈیا میں بحث نہیں کی جاتی ۔ اور یہ بہت لطیف اور غور طلب نکتہ ہے ۔ سینیٹ کے اراکین کوعوام براہ راست منتخب نہیں کرتے بلکہ انہیں قومی و صوبائی اسمبلیوں کے اراکین منتخب کرتے ہیں۔ سینیٹ کے پچاس فیصد اراکین کی مدت عموماً قومی و صوبائی اسمبلیوں کی مدت کے ساتھ ختم نہیں ہوتی۔

لہٰذا سینیٹ انتخابات عموماً عام انتخابات کے ساتھ منعقد نہیں ہورہے ہوتے ۔ اس طرح سینیٹ کے انتخابات، سیاسی جماعتوں کی جانب سے قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کے لئے ملک میں چلائی جانے والی الیکشن مہمات سے متاثر بھی نہیں ہوتے۔ یوں عمومی طور پر حکومت کو قومی اسمبلی میں تو اکثریت حاصل ہو جاتی ہے لیکن سینیٹ میں اکثریت حاصل نہیں ہو پاتی ، جس کی وجہ سے حکومت سینیٹرز کی مرہون منت رہتی ہے۔

سینیٹ کی موجودگی ان لوگوں کو منتخب کرنے کا موقع فراہم کرتی ہے جو عام انتخابات میں براہ راست لوگوں کے ووٹوں سے منتخب نہیں ہوسکتے۔ لہٰذا ہم دیکھتے ہیں کہ عالمی بینک اور آئی ایم ایف کے سابق ملازمین، بینکرز، بڑے بڑے کاروباری حضرات اور صنعتکار، ریٹائرڈ فوجی افسران اور ریٹائرڈ ججز سینیٹر بن جاتے ہیں۔ یوں سینیٹ کے ذریعے ان لوگوں کو نظام کا حصہ بننے کا موقع فراہم ہوتا ہے اور پھر وہ اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ نظام حکمران اشرافیہ کی مرضی و منشا کے مطابق ہی چلتا رہے،اور اس سے باہر نہ جائے۔

لہٰذا ایوان بالا یعنی سینیٹ، ایک طرح کا سیفٹی والو ہے کہ اگر کبھی عام انتخابات میں ایسے لوگ یا ایسی حکومت آجائے جو حکمران اشرافیہ کی مرضی و منشا کے مطابق نہ چلتے ہوں تو حکمران اشرافیہ اس سیفٹی والو کو استعمال کر کے اپنے مفادات کی حفاظت کو یقینی بنائے۔

اس بات کا اندازہ قانون سازی کے طریقہ کار کو دیکھ کر بھی لگایا جا سکتا ہے جس کے تحت اگر قومی اسمبلی سو فیصد اکثریت کے ساتھ بھی کوئی بل منظور کر دے تو وہ اس وقت تک ملکی دستور یا قانون کا حصہ نہیں بن سکتا جب تک کہ وہ سینیٹ سے بھی اکثریت کے ساتھ پاس نہ ہو جائے۔ "ایوان بالا ” کی جانب سے "ایوان زیریں” پر اس چیک کاموجود ہونا بھی صرف پاکستان تک محدود نہیں ہے بلکہ دنیا بھر کے ایوان بالا چاہے وہ امریکی سینیٹ ہو یا برطانوی ہاوس آف لارڈز یا بھارتی راجیہ سبھا، سب کے یہاں ایسا ہی ہے۔

یہ بھی ضرور پڑھیں:  سست عورت :: بشکریہ ام طلحہ پاک نیٹ فورم

اس سے ایک بہت اہم راز افشا ہوتا ہے ۔ وہ یہ کہ جمہوریت عوام کی حکمرانی کادعوی تو کرتی ہے کہ عوام ہی با اختیار ہیں اور خود مختار ہیں اور یہ کہ اصل حکومت عوام کے پاس ہے ، وہ خالصتاً اپنی مرضی سے چاہے جس کو حکومت میں لائیں اور چاہے جس کو مسترد کر دیں ۔ لیکن اس نظام کو استوار یوں کیا گیا ہے کہ حکمران اشرافیہ کے مفادات کی نگہبانی یقینی رہے ۔

عوام کی منتخب کردہ حکومت صرف ایک محدود دائرے کے اندر مقید رہتے ہوئے حکومت کر پاتی ہے جبکہ عوام کو یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ ان کی منتخب کردہ حکومت خود مختار ہے۔ لیکن اس حکومت کا سیفٹی والو حکمران اشرافیہ کے ہاتھ میں ہی رہتا ہے جس کے ذریعے وہ منتخب کردہ حکومت کو اپنے کنٹرول میں رکھتے ہیں اور اسے مخصوص حدوں سے تجاوز نہیں کرنے دیتے۔ لہٰذا جمہوریت میں یہ سوال بہت اہمیت حاصل کر جاتا ہے کہ اصل حکمرانی کس کی ہے ؟ عوام کی یا اشرافیہ کی؟

ادارتی نوٹ

یہ مضمون اردونامہ بلاگ کے لئے محترم غزالی فاروق صاحب نے فراہم کیا ہے، ان سے رابطہ کرنے کے لئے ان کے بلاگ ایڈریس پر تشریف لے جائیں یا پھر ان کے ٹوئیٹر اکاؤنٹ پر رابطہ کریں۔
اردونامہ فورم، اردونامہ بلاگ، اردونامہ کتاب گھر اور اس کی انتظامیہ کا اس مضمون سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

76 / 100

Share:

اردونامہ پر تازہ ترین

Artificial Sweeteners
اردونامہ سے انتخاب

The Safety of Artificial Sweeteners: Is Sucralose (Splenda/Sucral) Safe for Daily Use?

Artificial sweeteners, including sucralose, have revolutionized the way we enjoy sweet flavors while managing calorie intake. Sucralose, marketed under the brand name Splenda, is one of the most popular sugar substitutes worldwide. But is sucralose safe for daily use? Let’s delve into its safety profile, uses, and potential risks to provide the ultimate guide for making informed choices.

Read More »
Top 10 Most Romantic Urdu Navils of All Time
اردو افسانہ

Top 10 Most Romantic Urdu Navils of All Time

If you’re a fan of Urdu literature, diving into romantic Urdu navils offers a profound journey into love, sacrifice, and emotional depth. This post explores ten of the most cherished Urdu navils that continue to captivate readers with their powerful storytelling, unique characters, and timeless themes. Below, you’ll find summaries, extensive reader reviews, and download links for these unforgettable Urdu navils.

Read More »
Top 10 Recent Good Urdu Novels
اردو کتب :: Urdu Books

Top 10 Recent Good Urdu Novels

Exploring the world of good Urdu novels brings a rich collection of stories that capture the depth of human emotions, societal conflicts, and timeless themes of love, faith, and resilience. Whether you’re a seasoned reader or just beginning your journey with Urdu literature, these ten good Urdu novels offer fresh narratives that resonate with contemporary readers. Urdu Nama Blog brings each novel here includes a detailed storyline, in-depth reader reviews, and a link for Free Download PDF.

Read More »
اردونامہ سے انتخاب

Mastering Prompt Engineering for ChatGPT and Large Language Models: The Ultimate Guide

The field of prompt engineering has transformed the way we interact with artificial intelligence, especially with powerful large language models (LLMs) like ChatGPT. Whether you’re a professional aiming to improve productivity or an AI enthusiast, mastering prompt engineering is invaluable. In this guide, we’ll explore everything from foundational principles to advanced techniques that can help you harness the true power of AI. A very useful article for Urdu Nama Readers.

Read More »

جملہ حقوق محفوظ © 2024