فہرست
سمرقند کی فتح کی حیرت انگیز کہانی: یہ 87 ہجری کی ایک نہایت سرد رات تھی لیکن سمرقند کے سب سے بڑے معبد میںموجود پادریوں کے سینوں میں آگ بھری ہوئی تھی، انہیں کسی پل چین نہیں آ رہا تھا وہ سراسیمگی سے ایک دوسرے کی شکلیں دیکھ رہے تھے، سب کے چہروں پر خوف عیاں تھا، معبد میں موجود سب سے بڑے پادری اور اس کے تمام ساتھیوں کو یقین تھا کہ ان کی موت یقینی ہے۔
بڑے پادری کی ہراساں آواز سنائی دی جو اپنے ساتھیوں سے اس موجودہ صورت حال سے نکلنے کی تجاویز طلب کر رہا تھا لیکن کسی کے پاس اس مسئلے کا حل موجود نہیں تھا سب اسی ایک بات پر متفق تھے کہ راتوں رات یہاں سے نکل کر عام لوگوں میں مل جایا جائے اور اپنی جان بچانے کی فکر کی جائے۔
معبد میں موجود دیگر افراد اپنے پادریوں کی اس حالت سے مزید خوف میں مبتلا ہو گئے کیونکہ ان کی نظر میں ان کے ملک میںبڑے کاہن سے زیادہ صاحب اقتدار شخصیت کوئی نہ تھی انہی کے کہنے پر حکومتیں بنتی اور بگڑتی تھیں اور یہی تمام لوگوں کے تحفظ کے ذمہ دار سمجھے جاتے تھے،
لیکن آج انہیں اس طرح ہراساں دیکھ کر ہر شخص پریشان تھا اور انہیں اپنا ماضی بالکل تاریک نظر آ رہا تھا، یہی نہیں ہر کوئی اپنی زندگی سے مایوس ہو چکا تھا اور انہیں آنے والے دنوں میں اپنی یقینی موت نظر آ رہی تھی۔
اتنے میں ایک کونے میں کھڑے بڑے کاہن کے نائب کی آواز ابھری کہ کوشش کر لینے میں کوئی حرج نہیں ہے میں نے سنا ہے کہ ان کا بادشاہ جو دمشق میںرہتا ہے ایک عادل شخص ہے اور مظلوموںکی داد رسائی کرنے کے لئے ہر ممکن کوشش کرتا ہے
اگر اس سے شکایت کی جائے تو شاید کوئی بات بن سکے۔ بڑے کاہن نے اس کی بات کو غور سے سنا دیگر ساتھیوں سے بہت دیر تک گفتگو کرتا رہا اور آخر میںفیصلہ کن انداز میں بولا کہ اب اس کے سوا ہمارے پاس کوئی رستہ بھی تو نہیں ہے اس لئے اس تجویز پر عمل کر لینے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
فوری طور پر ایک قاصد کو طلب کیا گیا جو قرب و جوار میں ہی رہائش پذیر تھا، قاصد بڑے کاہن کا پیغام ملتے ہی فورا حاضر ہو گیا، بڑے کاہن نے اپنے ہاتھ سے اسی رقعہ لکھ کر اس قاصد کو تھمایا اور اسے کہا کہ رات کے اسی پہر دمشق کی طرف روانہ ہو جاؤ
اور میرا یہ پیغام وہاں سمرقند کی فتح کرنے والے مسلمانوں کے امیر عمر بن عبد العزیز کے پاس لے جاؤ اور اس کا جو بھی جواب ہو فورا یہاں لے کر چلے آنا، دوسرے لوگوں کو قاصد کے زاد راہ کا بندوبست کرنے کی ہدایت کرنے کے ساتھ ہی یہ مجلس برخاست کر دی گئی۔
قاصد اپنے برق رفتار گھوڑے پر سوار ہوا، بڑے کاہن کی ہدایت کے مطابق اس نے نہایت تیز رفتاری سے سفر کیا مہینوں کی مسافتیں ہفتوں میں طے کرتا یہ اپنی آخری منزل دمشق کے قریب جا پہنچا، آخری سرائے جہاں اس نے پڑاؤکیا وہاں سے سمرقند کی فتح کرنے والوں کے بادشاہ کے شہر دمشق کے درودیوار بالکل واضح نظر آ رہے تھے،
صبح سرائے سے روانگی سے پہلے قاصد سرائے کے مسلمان مالک سے ملا اور اس سے دریافت کیا کہ میں مسلمانوں کے بادشاہ عمر بن عبد العزیز سے ملنا چاہتا ہوں اس سے ملاقات کیوں کر ممکن ہو سکے گی، سرائے کے مالک نے جواب دیا کہ ہمارے خلیفہ سے ملنا نہایت آسان سے دمشق پہنچ کر کسی سے بھی خلیفہ کے بارے میں دریافت کر سکتے ہو اور بلا روک ٹوک ملاقات بھی کر سکتے ہو۔