فہرست
سمارٹ فون ڈسپلے کی ’’نیلی روشنی‘‘: آنکھوں کے بگاڑ کا سبب
آنکھوں کے ماہرین نے ایک نئی سائنسی تحقیق میں آنکھوں کے مسائل جیسے کہ سبز موتیا (glaucoma)، دبیدار اپکرش (macular degeneration)اور ڈیجیٹل ڈیوائسزکے ڈسپلے جیسے کہ سمارٹ فون ڈسپلے وغیرہ میں براہ راست تعلق دریافت کیا ہے۔ انسانی آنکھ سفید روشنی کے اسپیکٹرم میں تین رنگوں کو پہچاننے کی صلاحیت رکھتی ہے جو کہ لال، سبز اور نیلے رنگ ہیں۔
پرائمری سکول کی سائنس میں یہ بات بتائی جاتی ہے کہ انسانی آنکھ سورج کی روشنی میں موجود تمام طول موج والی روشنیوں کو پہچاننے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ سائنس کے طلبہ نے میڑک میں منشور رکھ کر سفید روشنی کو سات مختلف رنگوں کی روشنیوں میں بدلنے کا تجربہ بھی کیا ہو گا۔ گزشتہ زمانے کے برعکس، ہم اب اپنا زیادہ وقت سورج کی روشنی میں نہیں گزارتے اور زیادہ تر وقت عمارتوں کے اندر مصنوعی روشنی میں گزارتے ہیں۔
سائنٹیفک رپورٹ جرنل (Scientific Report Journal)میں شائع ہونے والے ایک مقالے میں، یونیورسٹی آف ٹولیڈو (University of Toledo)کے محققوں نے یہ ثابت کیا ہے کہ 445نینو میٹر طول موج والی روشنی (جسے ہم عام زبان میں ’’نیلی روشنی‘‘ جو سمارٹ فون کے ڈسپلے میں ہوتی ہے کہتے ہیں)کو طویل عرصے تک دیکھنے کی وجہ سے آنکھوں کے خلیات کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچتا ہے۔ اس مطالعے کے ڈیجیٹل ڈیوائسز بنانے والی جدید ٹیکنالوجی پر بڑے شدید اثرات پڑسکتے ہیں۔ اس سائنسی مطالعے کے مصنف اور کیمیاء کے پروفیسر اجیت کرناراتھنے(Ajith Karunarathne)کا کہنا ہے کہ آنکھ میں موجود ضیائی آخذے (Photoreceptors)بمثل موٹر گاڑی کے ہیں اور آنکھ کا پردہ (retina)اس کا ایندھن ہے۔
جب ہم موبائل فون ڈسپلے یا کمپیوٹر سکرین کی جانب دیکھتے ہیں تو آنکھ براہ راست نیلی روشنی کے زیرِ اثر ہوتی ہے۔ اس تحقیق میں بھی آنکھ کے خلیات پر براہ راست نیلی روشنی ڈالی گئی، جس کی وجہ سے آنکھ کے پردوں میں خطرناک کیمیائی تعامل شروع ہو گیا ۔ اس کیمائی تعامل کے نتیجے میں ضیائی آخذوں کے خلیات ختم ہونا شروع ہو گئے، جو کہ بعد میں دوبارہ پیدا نہیں ہوتے۔
اجیت کرناراتھنے کے مطابق اگر آنکھ کا پردہ ایندھن ہے تو نیلی روشنی ایک ایسا شعلہ ہے جو پوری آنکھ کو ہی پھونک ڈالے گی۔
لیکن آپ لوگ حوصلہ کیجئے، اس سے پہلے آپ سمارٹ فون ڈسپلے کی وجہ سے پھینکیں (جو کہ ہو نہیں سکتا)ایک حوصلہ افزاء بات یہ ہے کہ آپ کے سمارٹ فون ڈسپلے کی نیلی روشنی کوئی بہت زیادہ تباہ کن نقصان نہیں کرتی۔ تاہم، تجربات میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ نیلی روشنی ضیائی آخذوں کا خاتمہ کر سکتی ہے، اور اگر یہ ضیائی آخذے ضرورت سے زیادہ ختم ہو گئے تو یہ مستقل نابینا پن کی وجہ بن سکتی ہے جس کا علاج ممکن نہیں ہو گا۔
یہاں یہ بات بھی بیان کرنا مناسب رہے گا کہ سورج کی سفید روشنی میں نیلے رنگ کی روشنی بھی پائی جاتی ہے جو کہ ڈیجیٹل دیوائسز سے زیادہ طاقتور ہوتی ہے اورا س کے ساتھ ساتھ سورج کی روشنی میں الٹرا وائیلٹ اور انفرادیڈ کی آمیزش بھی ہوتی ہے۔ لیکن ہم میں سے کتنے لوگ ہیں جو سورج کی طرف منہ کر کے اُسے گھورتے رہتے ہیں؟
شاید کوئی بھی نہیں، کیونکہ بچپن سے ہی ہمیں یہ بات ازبر کروا دی جاتی ہے کہ سورج کی طرف منہ کر کہ اسے براہ راست دیکھنا آنکھوں کیلئے انتہائی مضر ہے۔ موبائل ڈیوائسز آنکھوں کیلئے اس سے کئی بڑا خطرہ ہیں کیونکہ 2016ء کے نیلسن پول کے مطابق لوگ اوسطاً ایک دن میں گیارہ گھنٹے کسی نا کسی قسم کی سکرین کے دیکھتے پائے جاتے ہیں۔
جب ہم براہ راست سکرین کی جانب دیکھتے ہیں، خاص طور پر اندھیرے میں ، تو یہ روشنی ہماری آنکھ میں موجود ایک چھوٹے سے حصے پر مرتکز ہو جاتی ہے جو کہ نیلی روشنی کے نقصانات کو کئی گنا زیادہ بڑھا سکتی ہے۔ آپ میں سے بعض لوگوں نے بچپن میں محدب عدسے سے سورج کی روشنی کو کاغذ پرایک جگہ مرتکز کرنے کا تجربہ کیا ہو گا جس کی وجہ سے بعض دفعہ کاغذ کو آگ لگ جاتی تھی۔ یہی حال آنکھ کا سمارٹ فون ڈسپلے کی نیلی روشنی کے مرتکز ہونے کیوجہ سے ہوتا ہے جو بالآخر آنکھ کو پھونک ڈالے گی۔
بعض لوگ نیلی روشنی پر ضرورت سے زیادہ انحصار پر کافی تنقید کرتے رہے ہیں اور ان نقادوں میں Calm Technologyکتاب کی مصنفہ Amber Case بھی شامل ہیں جو اپنے بلاگ پر وقتاً فوقتاً اس حوالے سے پوسٹس کرتی رہتی ہیں۔ بات اگر سمارٹ فون ڈسپلے سکرین تک محدود ہوتی تو شاید اتنی نقصان دہ نا ہوتی لیکن LED بلبوں کا بڑھتا ہوا استعمال بھی آنکھوں کیلئے شدید نقصان دہ ہے۔
امبر کیس کا کہنا ہے کہ اگر اس جدید تہذیب نے ہمیں نیلی روشنی کی راہ میں لگا دیا ہے جو کہ انتہائی نقصان دہ ہے تو امید کی جاسکتی ہے کہ ایک دن یہی تہذیب ہمیں اورنج روشنی کی جانب موڑنے میں بھی اہم کردار ادا کرے گی۔ امبر کیس کا مزید یہ بھی کہنا ہے کہ ملٹری ابھی بھی اپنے کنٹرول روم وغیرہ میں اورنج رنگ کی روشنی استعمال کرتی ہے، کیونکہ اس کے اثرات آنکھوں پر کم ہیں اور رات کے لئے یہ روشنی انتہائی مناسب ہے۔
اپیل کمپنی اپنے آئی فون میں ’’نائٹ شفٹ‘‘ نام کی سیٹنگ مہیا کی ہے جس کی وجہ سے نیلی روشنی کو فلٹر کیا جا سکتا ہے۔ اسی طرح مارکیٹ میں ایسے سکرین پروٹیکٹر بھی دستیاب ہیں جو نیلی روشنی کو چھان دیتے ہیں۔
حتیٰ کہ مارکیٹ میں گیمنگ کے شوقین افراد کیلئے ایسے چشمے بھی دستیاب ہیں جو سمارٹ فون ڈسپلے سکرین کی مضر شعاعوں اور نیلی روشنی کو آنکھ تک پہنچنے نہیں دیتی۔ جیسے جیسے نیلی روشنی کے تباہ کن اثرات سامنے آ رہے ہیں ویسے ویسے ہماری بینائی بھی کمزور ہوتی جا رہی ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ جب تک بہتر موبائل ڈیوائسز نہیں آ جاتیں جو اپنے سمارٹ فون ڈسپلے میں نیلی روشنی کا استعمال نا کریں تب تک ان ڈیجیٹل ڈیوائسز کو حد سے زیادہ استعمال نا کیا جائے اور کمپیوٹر اور ٹی وی سکرین کے سامنے بھی زیادہ دیر نا بیٹھا جائے کیونکہ ایک پرانا قول ہے کہ پرہیز علاج سے بہتر ہے۔ کیا پتا مستقبل میں ایسی ڈراپس آ جائیں جنہیں استعمال کر کے نیلی روشنی کی تباہ کاریوں سے بچا جا سکے یا کم کیا جا سکے۔
تحریر ۔۔ حمزہ زاہد، لاہور۔ فیس بک گروپ علم کی جستجو