فہرست
’’ باپو! یہ توویسے نہیں ہیں‘‘
سکھ یاتریوں کاایک جتھہ حسن ابدال کی گلیوں میں اتنی آزادی سے گھوم پھررہاتھا‘ جیسے اپنے دیس میں ہو۔اس قدربے فکری یقینااس بات کاثبوت تھی کہ انھیں کسی قسم کا کوئی خوف نہیں ہے اور نہ انھیں کوئی رنج ہے۔ یاتریوں کے اس ٹولے میں مادھوی کوربھی تھی۔ٹاٹاگروپ آف کمپنیزسے وابستہ چھبیس سالہ یہ خوب رولڑکی اپنے والد کے ساتھ اپنی مذہبی رسومات کی ادائیگی کے لیے آئی ہوئی تھی اوراپنے مقدس مقامات کی یاترا کے ساتھ ساتھ پاکستان کوجاننے کی کوشش میں تھی۔وہ جانناچاہتی تھی کہ بھارت سرکارجس ملک کی سرکار اور پرجا کے حوالے سے ہمیشہ خوف کاشکارنظرآتی ہے‘وہاں کی پرجاکیاواقعی اتنی خطرناک ہے۔وہ جانناچاہتی تھی جس کے بارے میں اُس کے ملک کے پترکاروں‘ فلم سازوں اورنیتاؤں نے کاغذوں کے ڈھیرکالے کردیے ہیں‘ کیاوہ اس لائق ہے بھی یانہیں۔‘‘ وہ اپنے بوڑھے باپوکرکرید رہی تھی کہ وہ اُسے اپنے آبائی شہرجہلم کے متعلق بتائے اوریہ کہ جوجذبہ وہاں اُسے بے چین رکھتا ہے‘ یہاں شانت کیسے ہوگیا ہے۔