ڈاکٹر محمد اعظم رضا تبسم کی عورت کی زندگی پر تلخ حقائق سے بھرپور مگر زندگی جینے کا سلیقہ بتاتی تحریر۔
ایک رات مجھے دو بجے کے قریب ایک کال آئی ۔انکل آپ ڈاکٹر تبسم ہیں ۔جی بیٹا ۔ انکل ایک بات پوچھنی ہے جی جی پوچھیں بیٹا۔انکل میرے پاپا مجھ سے ذرا پیار نہیں کرتے ۔وہ ماما کو بھی بہت مارتے ہیں کہتے ہیں اور گالیاں بھی دیتے ہیں ۔ یہ آواز کچھ زیادہ نہیں سات سال کی یا آٹھ سال کی بچی کی تھی ۔میرا دل کانپ اٹھا۔ کیوں بیٹا کیا وجہ ہےمیں نے فوری سوال کیا تو وہ رونے لگی اور کہنے لگی انکل بابا کو بھائی چاہیے تھا اور میں پیدا ہو گئی ۔ بابا نے ماما کو ایک دفعہ بالوں سے پکڑ کر بھی مارا تھا ۔ ادھر اس بچی کی روتے روتے ہچکی بندھ گئی اور کال بھی کٹ گئی ۔یہ بات سن کر میرے جسم پہ کپکپی طاری ہوگئی ۔ رات بھر نیند نہ آئی اور دوبارہ کال اس خوف سے نا ملائی کہ جس ظالم کے ظلم کی داستان رات گئے اسی کی معصوم بیٹی چھپ کر سنا رہی ہے وہ کال جانے پرناجانے مزید کتنا طوفان بدتمیزی برپا کرے گا ۔ مجھے آج بھی یاد ہے کہ جب میری بہنوں کی رخصتی ہو رہی تھی تو میں نے اماں ابا دونوں کو پھوٹ پھوٹ روتے دیکھا اور یہ کہتے بھی سنا بیٹا آج تم اپنے گھر جا رہی ہو آج سے وہی تمھارا گھر ہو گا ۔