فہرست
شاعر کا تعارف
بورے والا سے تعلق رکھنے والے امجد خان تجوانہ پیشہ کے لحاظ سے بزنس مین اور اردو شعروادب سے گہرا شغف رکھتے ہیں۔ امجد تجوانہ جن کا پورا نام امجد خان تجوانہ ہے لیکن دوستوں کی محفل میں صرف امجد تجوانہ کہلوانا زیادہ پسندکرتے ہیں نہ صرف ایک اچھے شاعر ہیں بلکہ ساتھ ہی ساتھ سوشل ورکر اور کوہ پیما کے طور پر بھی اپنی ایک الگ شناخت رکھتے ہیں، البتہ ادبی حلقوں میں ان کی اصل شناخت بحیثیت شاعر کی ہے۔
اب تک ان کی شاعری کی دو کتابیں شائع ہوچکی ہیں۔ ان کتابوں سے امجد تجوانہ کے شعری شعور کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ ان کا شعری پہلا شعری مجموعہ’’مرے ساتھ نہ چل‘‘ 2018 میں شائع ہوا اور دوسرا شعری مجموعہ "مرشد” 2022 میں شائع ہوا۔ ان دونوں کتابوں کے مطالعے سے احساس ہوتا ہے کہ امجد تجوانہ ناقدانہ ذہن بھی رکھتے ہیں اور تخلیقی وفور بھی۔
جہاں شعر کہنا اور شاعری کے رموز و اوقاف پر عبور حاصل ہونا ایک نہایت مشکل کام ہے وہیں کسی کی شاعری کے بارے میں لکھنا اس سے بھی زیادہ مشکل کام ہے۔ پہلی مشکل تویہ ہے کہ شاعر کے پیچھے غزل کی ہزار سال کی شاندار روایت کھڑی ہے، وہ اس سے بچ بچا کر اپنے لیے اظہار کا سلیقہ کیسے نکال سکتا ہے اور پھر اس کی شاعری پر کو دوسرا فریق اپنی رائے کیسے دیتا ہے یہ ایک ایسا کام ہے جس کے لئے رائے دینے والے کو نہ صرف شاعری کے بارے میں کچھ علم ہو بلکہ شاعر کے بارے میں بھی وہ اچھی طرح جانتا ہو تب ہی وہ اس کے ساتھ کچھ حد تک انصاف کر سکتا ہے۔
جیسا کہ پہلے بیان کر چکا ہوں کہ شاعر کے ماضی میں ہزار سال کی روایت موجود ہے اور اس کے تناظر میں اب اس کے لئے دو ہی راستے بچتے ہیں۔ یا تو روایت میں اظہار و بیاں کے سلیقوں کی جگالی کرلے یا پھر اپنے لیے نیا راستہ اختیار کرلے جو بہرحال خطرات سے پر ہوتا ہے، نامقبولیت اس راستے میں کھڑی ہے۔
قاری سابق قرینوں سے اپنا تعلق محکم کر چکا ہوتا ہے اور کیفیت کے نئے پن سے اور اظہار کی نئی صورتوں سے علاقہ قائم کرنے پر جھجک محسوس کرتا ہے۔ دوسری مشکل یہ ہے کہ غزل کا ہر شعر اپنی ہئیت میں کل کا درجہ رکھتا ہے خود مکتف ہوتا ہے آسان لفظوں میں ایک نظم ہے۔ اُس کی ایک مکمل کہانی ہے۔ اس کے بارے لکھنے والا کتنی کہانیوں کے بارے میں لکھ سکتا ہے۔ کتنے اشعار دہرا سکتا ہے۔
اور پھر شاعر کا کلی طور پر اندازہ بھی مشکل سے ہوتا ہے کہ وہ اپنے اظہار میں کن کن مظاہر کو جگہ دے رہا ہے اور اس کا زندگی کے بارے میں گزارنے کا سلیقہ کیا ہے۔ علاوہ اس کے غزل کے بارے میں لکھتے ہوئے ہماری تنقیدی لغت بھی خاصی غریب ہے۔ ہم ہر شاعر کے بارے میں ایک طرح سے بات کرتے ہیں۔ اس کی ایک وجہ بھی ہے کہ ہماری غزل کی شاعری کا بڑا حصہ بھی بدقسمتی سے یکسانیت کا شکار ہے اگرچہ کہیں کہیں اس یکسانیت میں بھی لطف کی صورتیں پیدا ہو جاتی ہیں مگر ایسا کم کم دیکھنے میں آتا ہے۔
امجد تجوانہ بیسویں صدی میں اپنے آپ کو بچا کر نکل گئے اور اشعار میں ان کی جدت پسندی لوگوں کو بھا گئی اور یہ چھوٹی بات نہیں کہ امجد تجوانہ کا شعر پڑھنے پر اس کا سامع شاعر کو پہچان جاتا ہے۔ حالانکہ لفظ وہی ہوتے ہیں جو ہمارے روزمرہ استعمال میں آرہے ہوتے ہیں مگر یہ شاعر ذاتی کیفیت کو اجتماعی تجربہ بنا دیتا ہے۔
اس کی واردات ذات سے نکل کر دوسروں کے باطن کا حصہ بن جاتی ہے۔ ایک آہستہ روی امجد تجوانہ کی ذات اور شاعری دونوں کا حصہ ہے۔ وہ دیر تک خیال کی پرورش کرتے ہیں اور پھر اُس کو لفظ کا لباس دیتے ہوئے بڑے تحمل اور نرمی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ اور ان کی شاعری کا یہ حسین امتزاج ان کی دوسری کتاب مرشد میں بخوبی دیکھا جا سکتا ہے۔
شاید ان کی شاعری کو پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھنے والوں کے دلوں میں بھی یہی بات ہو جو میرے دل میں ہوتی ہے کہ امجد تجوانہ لفظوں کی شعبدہ بازی نہیں کرتے بلکہ جذبے کے موافق الفاظ استعمال کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی مختصر سی شعری زندگی اور شاعری جس میں نظموں اور غزلوں کی تعداد بھی بہت محدود ہے جس کی وجہ ممکن ہے وہ اپنے بہت سے لکھے میں سے انتخاب کرتے ہوں یا پھر ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ وہ خیالوں میں ہی قطع برید کے عمل سے گزر کر شعر کہتے ہوں اور یہی کلام ان کا کل سرمایہ ہو۔ خیریہ بات ثانوی ہے۔
امجد تجوانہ کی موسموں سے دوستی ہے، پھولوں، رنگوں، بہاروں، بادلوں، پرندوں، درختوں اور پہاڑوں کی مدد سے وہ اپنے محبوب کی شبیہیں بناتا رہتا ہے مگر کیا مجال کہ رنگ کا تناسب کہیں بڑھ جائے۔ تصویر بگڑ سکتی ہے، چوکھا رنگ دھبا بنا سکتا ہے۔ یہ اپنی واردات کے بیان میں تحمل اور ضبط کو جانے نہیں دیتے اس لیے ان کا شعر دیر تک قاری کے احاطہ ادراک میں قائم رہتا ہے۔
امجد تجوانہ نے محبت میں اعتدال کو اپنی شاعری کا حصہ بنایا ہے اس لیے ان کی شاعری محبت کرنے والوں کے لیے نعمت کا درجہ اختیار کر گئی ہے۔ یہ شاعری اپنی قرات میں جلدی اور رواروی کا تقاضا نہیں کرتی بلکہ سنبھل سنبھل کر اورٹھہر ٹھہر کر پڑھنے کا تقاضا کرتی ہے۔
امجد تجوانہ ترقی پسند اور جدیدیت کے ساتھ ساتھ مابعد جدیدیت میں اردو شاعری کا ایک درخشندہ ستارہ ہیں ان کی شاعری اپنے وقت کی معکوسیت ہے اور حالات کی تلخیوں کی روداد ہے اگر چشمہ تعصبیت کو پس پردہ رکھ کر اور نظم کی ہیئت میں نئے تجربوں ،معانی و بیان کے لیے نئے راستے تلاش کرنے کی روش کو بدعت گمان نا کیا جائے تو امجد تجوانہ کی شاعری ہمارے لیے فکر و نظر کا بہت کچھ سامان بہم پہنچاتی ہے پچھلے چند سالوں کی تجزیہ کاری سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ امجد تجوانہ کی شاعری اس کی واضح مثال بن سکتی ہے۔
امجد تجوانہ کی کتابوں کا تعارف
اس وقت امجد تجوانہ کے دو شعری مجموعے شائع ہو چکے ہیں جن کی تفصیل درج ذیل ہے۔
کتاب: مرے ساتھ نہ چل
جناب امجد تجوانہ کا پہلا شعری مجموعہ کتابی شکل میں "مرے ساتھ نہ چل‘‘ کے عنوان سے 2018 میں شائع ہوا۔ اردو نظموں اور غزلوں پر مشتمل اس کتاب کا دیباچہ معروف اردو شاعر، استاذ الشعرء جناب زعیم الرشید نے لکھا ہے۔ کتاب 120صفحات پرمشتمل ،مجلداور ٹائٹل متاثرکن ہے۔ اس شعری مجموعے کو معروف ادارے نظمینہ پبلیکشن کے زیر اہتمام شائع کیا گیا۔
کتاب مرے ساتھ نہ چل ڈاؤنلوڈ کرنے کے لئے یہاں کلک کیجئے۔
کتاب: مرشد
امجد تجوانہ کا پہلا دوسرا شعری مجموعہ کتابی شکل میں "مرشد‘‘ کے عنوان سے 2022 میں شائع ہوا۔ اردو نظموں اور غزلوں کے اس مجموعہ کا ٹائٹل کور انتہائی شاندار اور جاذب نظر ہے جس پر معروف شعراء کی کتاب کے بارے میں آراء موجود ہیں یہ شعری مجموعہ بھی معروف ادارے نظمینہ پبلیکشن کے زیر اہتمام شائع کیا گیا۔
کتاب مرشد ڈاؤنلوڈ کرنے کے لئے یہاں کلک کیجئے۔