ناہیدطاہر
(ریاض،سعودی عرب )
چاند اپنے پورے شباب پر تھا۔۔۔۔وہ اپنی چاندنی کے ساتھ ہمیشہ کی طرح آنکھ مچولی کھیلتا ہوا کافی سرشار نظر آرہا تھا ، کبھی بادلوں کی اوٹ چھپ جاتا تو کبھی پوری طرح سامنے آکر کھلکھلا اٹھتا۔۔۔۔۔مریم اداس کھڑی چندہ اور اسکی چاندنی کی دلچسپ شوخیوں اور آنکھ مچولی کو دیکھتی رہی۔۔تم دونوں کتنے خوش نصیب ہو، کبھی ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوئے۔۔۔۔صدیاں گزگئیں لیکن تم دونوں کی وفا ، بے وفا ئی میں تبدیل نہ ہوپائی۔۔۔۔۔!!!
کاش میرا محبوب بھی ایک چاند ہوتا اور میں اسکی چاندنی اور ہماری محبت صدیوں تک قائم رہتی۔۔۔۔!!!
نہیں یہ ممکن نہیں۔۔۔۔۔!!! اس سوچ کے ساتھ گرم آنسو کی دو بوندیں موتی بن کر اسکے رخسار پر ڈھلک آئے۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فیصل کو سعودی عرب گئے پانچ سال گزر چکے تھے وہ ہرسال صرف ایک ماہ کی چھٹی پر ہندوستان آتا ، پانچ سال کی شادی شدہ زندگی میں وہ دونوں صرف جدائی کا زہر چکھ رہےتھے۔
فیصل ہمیشہ کہتا ، ہررات تم چھت پر آجانا اور چاند پر اپنی خوبصورت آنکھیں مرکوز کئے چاند کوتکتی رہنا، میں خود بھی یہاں پردیس سے اس چاند کو دیکھا کرونگا۔۔۔۔۔۔۔اسطرح ہم دونوں کی نظریں آپس میں ٹکرا سکتی ہیں آنکھوں کی اس خوبصورت ملن سے ہم اپنے وجود کو سیراب کرلیں گے ۔
یہ چاند ہماری محبت کا گواہ ہوگا۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!!
جب تک ہم جدا رہیں ، تب تک ہم یہ عہدِ وفانبھائیں گے۔…!!!