نماز کی اہمیت اور اس کی تشریعی حکمت (حصہ دوم)

مذاہب کے بارے میں گفتگو کی جگہ
Post Reply
العلم
کارکن
کارکن
Posts: 32
Joined: Sat Dec 21, 2013 12:34 pm
جنس:: مرد

نماز کی اہمیت اور اس کی تشریعی حکمت (حصہ دوم)

Post by العلم »

أما بعد: فقد قال اللہ تعالی فی القرآن العظیم، أعوذباللہ من الشیطان الرجیم، بسم اللہ الرحمن الرحیم:
(وَارْكَعُوا مَعَ الرَّاكِعِينَ) (البقرۃ:43)
"اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرو۔"
"وقال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: صلاۃ الرجل فی جماعۃ تزید علی صلاتہ فی بیتہ، وصلاتہ فی سوقہ بضعا وعشرین درجۃ" (متفق علیہ)
حاضرین کرام! نماز کے منجملہ دیگر شرائط کے علاوہ ایک شرط نماز کا جماعت سے ادا کرنا بھی ہے۔صرف یہی نہیں کہ جماعت سے نماز کی ادائیگی پر پچیس سے ستائیس گنا اجر وثواب ملتا ہے؛بلکہ محققین کی ایک جماعت، جماعت سے نماز کی ادائیگی کو فرض قراردیتی ہے۔ اور ان کی رائے میں کافی وزن بھی ہے۔
ارشادنبوی ہے:
"لقد ھممت أن أمر بالصلاۃ فتقام، ثم آمر رجلا فیصلی بالناس، ثم انطلق معی برجال، معھم حزم من حطب إلی قوم لا یشھدون الصلاۃ، فأحرق علیھم بیوتھم بالنار" (متفق علیہ)
"کبھی میراارادہ ہو تا ہے کہ نماز کھڑی کرنے کا حکم دوں، پھر ایک شخص کو حکم دوں کہ وہ لوگوں کونماز پڑھائے اور میں چند آدمیوں کو لے کر جن کے ساتھ لکڑیوں کے گٹٹھر ہوں، ان لوگوں کے پاس جاؤ ں، جو نماز کے لیے جماعت میں حاضر نہیں ہوتے اور ان کے گھروں میں آگ لگا دوں۔"
بعض روایات میں آتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا نہ کرنے کی وجہ یہ بیان کی کہ گھروں میں وہ لوگ بھی ہوتے ہیں،جن پر جماعت سے نماز ادا کرنا فرض نہیں ہے۔ جیسے؛ عورتیں،بچے، غلام اور مریض۔
نماز باجماعت کی اہمیت پر عظیم ترین فقیہ اور صحابی رسول حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے اس فرمان سے روشنی پڑ تی ہے: "تم ان پانچوں نمازوں کو پابندی سےوہاں ادا کرو، جہاں ان کے لیے ندا دی جاتی ہے۔ کیونکہ یہی ہدایت کی راہ ہے۔ اور ہم صحابۂ رسول تو یہ سمجھتے تھے کہ نمازباجماعت سے وہی غیر حاضر رہتا تھا، جو کھلا ہو ا منافق ہوتا تھا۔ہم تو یہ دیکھتے تھے کہ کوئی معذور آدمی دو شخصوں کے کندھوں پر ہاتھ رکھ کر چلایا جاتا تھا۔ یہاں تک کہ اس کو صف میں لاکر بیٹھا دیا جاتا تھا۔
تم میں سے ایسا کوئی شخص نہیں جس کے گھرکے قریب مسجد نہ ہو؛ لیکن اگر تم نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ چھوڑ دیا، تو تم گمراہ ہوجاؤگے۔ ایک روایت میں ہے کہ کافر ہو جاؤگے۔ (صحیح مسلم، کتاب المساجد، باب رقم:44، حدیث رقم: 654/ سنن أبی داؤد حدیث رقم:55)
کم از کم جوآدمی اذان کی آواز سن لے، اس پر تو جماعت واجب ہی ہے۔(سنن أبی دا‎ود، رقم:551-552)
نماز باجماعت کی اہمیت پر اس حدیث سے بھی روشنی پڑ تی ہے۔
حضرت ابو الدرداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تین آدمی کسی بستی یاجنگل (یا بیابان) میں ہوں، اور وہ جماعت سے نماز نہ پڑھیں، تو ان پر شیطان مسلط ہو جاتا ہے۔لہذا تم جماعت سے نماز کو لازم پکڑو۔ اس لیے کہ بھیڑ یا، اسی بکری کو کھاتا ہے، جو ریوڑ سے الگ ہو جاتی ہے۔ (سنن أبی داود، رقم:547)
خصوصاً عشا ء اور فجر کی جماعت کی اہمیت یہ ہے کہ ان نمازوں سے غیرحاضری کو منافق کی پہچان بتایا گيا ہے۔ارشاد نبوی ہے:
"إن ھاتین الصلاتین أثقل الصلوات علی المنافقین" (سنن أبی داود، رقم: 554/ وحسنہ الألبانی)
"منا فقوں پر سب سے بھاری یہ دو نماز یں ہیں۔"
ان نصوص اور ارشاد باری تعالیٰ (وَارْكَعُوا مَعَ الرَّاكِعِينَ) (البقرۃ:43) "اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرو۔" کی بنیاد پر علماء کی ایک جماعت کے نزدیک، جماعت سے نماز فرض ہے، خواہ مسجد کے باہر کسی جگہ ہو۔ بلکہ بعض کے نزدیک بغیر جماعت کے نماز صحیح نہیں ہوتی۔
بہر حال جمہور کے نزدیک جماعت فرض علی الکفایہ اور سنت مؤکدہ ہے اور اس کا اجر وثواب اکیلے نماز سے پچیس سے ستائیس گنا تک بڑھ جاتا ہے۔ارشاد نبوی ہے:
"صلاۃ الرجل فی جماعۃ تزید علی صلاتہ فی بیتہ وصلاتہ فی سوقہ خمسا وعشرین درجۃ۔ وذلک بأن أحدکم إذا توضأ فأحسن الوضوء وأتی المسجد لا یرید إلا الصلاۃ، ولاینھزہ إلا الصلاۃ، لم یخط خطوۃ إلا رفع بھا درجۃ، وحط عنہ بھا خطیئۃ، حتی یدخل المسجد، فإذا دخل المسجد، کان فی صلاۃ ما کانت الصلاۃ ھی تحبسہ، والملائکۃ یصلون علی أحدکم مادام فی مجلسہ الذی صلی فیہ، یقولون: اللھم أغفرلہ، اللھم أرحمہ، اللھم تب علیہ، ما لم یؤذیہ أویحدث" (متفق علیہ من حدیث أبی ھریرۃ)
" آدمی کی باجماعت نماز اس کے گھر، یا بازار کی نماز سے پچیس درجہ بڑھ کرہے۔ بعض روایات میں ستائيس درجہ اور بعض میں تئیس سے اوپر ستا ئیس تک کا لفظ بھی ہے۔ اور یہ اس وجہ سے ہے کہ تم میں سے کوئی جب اچھی طرح وضو کر کے مسجد آئے اور نماز کے سوا کوئی اور مقصد اس کے پیش نظر نہ ہو، تو وہ جو بھی قدم اٹھا تا ہے۔ اس کے بدلے میں اس کا ایک درجہ بلند ہوتا ہے اور ایک گناہ معاف ہوتا ہے۔ یہاں تک کہ وہ مسجد میں داخل ہوجائے۔ پھر جب وہ مسجد میں داخل ہو جاتا ہے، تو وہ نماز ہی میں رہتا ہے،جب تک کہ نماز اسےروکے رہتی ہے۔اور فرشتے اس کے لیے دعا کرتے رہتے ہیں، جب تک کہ وہ اس جگہ بیٹھا رہتا ہے، جہاں اس نے نماز پڑھی تھی۔ فرشتے کہتے ہیں: اےاللہ! اس کو بخش دے، اے اللہ!اس پررحم فرما، اے اللہ! اس کی توبہ قبول فرما۔ وہ یہ دعابرابر کرتے رہتے ہیں، جب تک کہ وہ اس مجلس میں جہاں وہ بیٹھا ہے، کسی کو تکلیف نہ دے،یا وضو نہ توڑدے۔"
ایک دوسری حدیث میں عشاء اور فجر کی باجماعت ادائیگی کا اجر وثواب اللہ کے رسول یوں بیان فرماتے ہیں:
"من صلی العشاء فی جماعۃ کان کقیام نصف لیلۃ، ومن صلی العشاء والفجر فی جماعۃ کان کقیام لیل‍ۃ" (مسلم، کتاب المساجد، باب:46، حدیث رقم:656)
" جس آدمی نے عشاء کی نماز جماعت سے پڑ ھی، گویا اس نے آدھی رات تک قیام کیا۔ اور جس نے عشاء اور فجر دونوں جماعت سے پڑھی، اس نے گو یا پوری رات قیام کیا۔" (یعنی نفل نماز پڑھی)
حاضرین کرام ! نماز باجماعت کے مذکورہ مقام ومرتبہ اور اہمیت کے پیش نظر اگر کسی کےدل میں حقیقت میں ایمان ہے، تو وہ مجبوری کے سو ا کبھی بھی جماعت سے غیر حاضر نہیں ہوسکتا۔ مجبوری کی صورتیں علماء نے کتاب وسنت کی روشنی میں بیان کردی ہیں۔ جیسے ایک عاقل بالغ مرد کے لیے مجبوری اس کی بیماری یا حالت سفر ہے۔ اور مطلق مجبو ر افراد؛ جیسے عورتیں، نابالغ بچے اورغلام ہیں۔
ایک عاقل ،بالغ تندرست مرد کےلیے بیماری اور سفرکے علاوہ بھی بعض حالات میں مجبوری ہو سکتی ہے۔مگر خواہ مخواہ شیطانی تاویلات کے سہارے مجبوری کاشوشہ آدمی کو نہیں چھوڑ نا چاہے،بلکہ اپنے من سے پوچھ ملا سےنہ پو چھ۔
حاضرین کرام ! ہمارے ماضی قریب اور بعید کے سبھی پیش رو ایسے ہی تھے، جو (اِن شاء اللہ) کامیاب ہوں گے۔ اور وہ انبیاء وصدیقین اور شہداء وصالحین کے ساتھ ہوں گے۔ ہم بھی کوشش کریں تاکہ ہمیں بھی ان کی رفاقت نصیب ہو۔
یہ عجیب المیہ ہے کہ ہم سے جہاز یا ٹرین نہيں چھوٹتی ہے۔ چاہے ان کا وقت دن اوررات میں جو بھی ہو۔ ہم دو چار گھنٹے پہلے ہی سے فکر اور تیاری میں لگ جا تے ہیں۔مگر جماعت چھوٹ جاتی ہے، آخر اتنی تساہلی کیوں؟ حد تو یہ ہے کہ اب علمائے کرام اور واعظین عظام کی سستی بھی ایک بلائے عام کی شکل اختیار کر چکی ہے۔جلسوں، کانفرنسوں اور جمعہ کے خطبوں میں ایسی زوردار تقریر فر ماتے ہیں کہ اس کے مقابلے میں ہماری یہ ٹوٹی پھوٹی تقریر کیا حیثیت رکھتی ہے۔
خطبہ کےوقت کی تنگ دامانی کے پیش نظر ،نماز باجماعت کی اہمیت اور ترک نماز پر یہ چند وعیدیں سنا کر آج میں اپنی بات یہیں سے ختم کرنا چاہتا ہوں۔ ہم اللہ تعالیٰ سے دست بدعا ہیں کہ وہ تمام مسلمانوں کو صحیح مسلمان بننے کی توفیق دے اور جو صحیح مسلمان بنے اور با جماعت نماز ادا کرتے ہوئے دنیا سے رخصت ہوئے، قیا مت کے روز ہمیں ان کی رفاقت نصیب ہو۔ "وحسن أولئک رفیقا" وآخر دعوانا أن الحمد للہ رب العالمین۔
http://www.minberurdu.com/" onclick="window.open(this.href);return false;باب_عبادات/نماز_کی_اہمیت_اور_اس_کی_تشریعی_حکمت.aspx
Post Reply

Return to “مذہبی گفتگو”