اس نے سامان چوری کے بعد چلتی ٹرین سے سے چھلانگ لگائی تو یوں گرا کہ ٹرین اس کی ایک ٹانگ سے گذر گئی ۔ٹانگ سے محروم ہونے کے باعث چوری کا پیشہ چھوٹا تو اس نے جیب تراشی شروع کر دی ۔اسے باقاعدہ فن سمجھ کر سیکھا اور ایسی لگن سے سیکھا کہ استاد کہلایا ۔لوگ اس کی شاگردی اختیار کرنا فخر سمجھتے ۔
ایک وقت ایسا آیا کہ شاگرد ہی کام کرتے ۔وہ خود نمازیں پڑھنے اور غریبوں کی مدد میں مصروف رہتا ۔انتہائی مجبوری میں ہی کسی صحت مند شاگرد کی پشت پر سوار ہو کر بازار میں نکلتا اور کسی تگڑی آسامی کو تاڑ کر اس کا بٹوا پار کر لیتا ، ورنہ شاگرد ہی سارا دن بازاروں میں گھومتے رہتے اور شام کو بادشاہی مسجد کی سیڑھیوں میں بیٹھے استاد کے سامنے اپنی کمائی لا کر رکھ دیتے ۔ایک روز اس کے سب سے ہونہار شاگرد نے جب ڈھائی روپےکی " کمائی " لا کر سامنے رکھی تو اسے غصہ آگیا ۔
شاگرد کو تھپڑ مار کر کہا حرام خور ، لاہور شہر میں سارا دن پھرتا رہا اور اب لا کر ڈھائی روپے سامنے ڈال رہا ہے ۔ بتا باقی کے پیسے کہاں ہیں فرمانبردار شاگرد نے اطمینان سے تھپڑ کھایا استاد کی ڈانٹ سنی اور خاموش رہا ۔
جب استاد نے چوری کا الزام مسلسل لگایا تو شاگرد نے کہانی سنائی کہنے لگا ، استاد جی ! آج صبح ایک گورے کو دیکھا تو اس کی پتلون کی پچھلی جیب میں پڑے بٹوے میں سے روپے باہر نکل رہے تھے ۔میں نے نہایت آرام سے بٹوہ اڑا لیا ۔ابھی اس گورے کی جیب کاٹ کر دو قدم ہی چلا تھا کہ خیال آیا کہیں قیامت کے دن حضرت عیسیٰ علیہ السلام ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ نہ کہہ دیں کہ دیکھو آپ ﷺ کے امتی نے میرے امتی کی جیب کاٹ لی ۔تو میرے نبی کریم ﷺ کو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے سامنے کتنا دکھ ہوگا ۔
بس یہ سوچا اور گورے کے پیچھے بھاگ کر اس کا بٹوہ واپس کر دیا ۔اس نے بہت پوچھا لیکن میں چلا آیا ۔اس کے بعد سارا دن کوئی شکار ہاتھ نہیں لگا ۔شام کو واپس آ رہا تھا کہ سیٹھ نظر آنے والے کی جیب پر ہاتھ مارا ، تو بہت سے کاغذوں کے ساتھ یہ ڈھائی روپے ہاتھ آئے سو لے کر آپ کے پاس آ گیا ۔شاگرد بات ختم کر کے رونے لگا تو استاد کی آنکھوں میں بھی جھڑی لگ گئی ۔
استاد نے ہچکیاں لیتے ہوئے شاگرد کو گلے لگایا اور پھر اس دن کی ساری " کمائی " فقیروں کی نذر کر دی ۔اور شکرانے کے نوافل ادا کیے کہ شاگرد نے آقا صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی لاج رکھ لی ۔ورنہ نا معلوم حضرت عیسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام کا شکوہ آقا صلی اللہ علیہ وسلم کو کتنا گراں گذرتا ۔
پچھلی صدی کے اوائل کا یہ واقعہ اردو کے ممتاز شاعر احسان دانش نے اپنی خود نوشت سوانح " جہانِ دانش " میں لکھا ہے ۔حبیب اکرم کے کالم " آگ لگاتی پھرے گی بو لہبی " سے اقتباس
چوری
-
- منتظم سوشل میڈیا
- Posts: 6107
- Joined: Thu Feb 09, 2012 6:26 pm
- جنس:: مرد
- Location: السعودیہ عربیہ
- Contact:
چوری
ممکن نہیں ہے مجھ سے یہ طرزِمنافقت
اے دنیا تیرے مزاج کا بندہ نہیں ہوں میں
اے دنیا تیرے مزاج کا بندہ نہیں ہوں میں