،،، شمے لا. ،،،

اردو کے منتخب افسانے یہاں شیئر کریں
Post Reply
انور جمال انور
کارکن
کارکن
Posts: 119
Joined: Wed Sep 26, 2012 12:08 am
جنس:: مرد

،،، شمے لا. ،،،

Post by انور جمال انور »

اسماعیل عرف شمیلا نے اپنی مونچھوں پر ہاتھ پھیرا اور کہا ،، چودھری تو فکر نہ کر. کل سویر تک او منڈا تیرے قبضے وچ ہووے گا ،، بھاویں جو مرضی سلوک کریں فیر ،،،
چوہدری نے اپنے شیر جیسے بہادر جوان کی پیٹھ تھپکی اور کہا ،،
ہاں اس حرام زادے کو گھر سے اٹھا لاؤ اس کی جرات کیسے ہوئی کہ چوہدری نیامت کے گھر کی کسی عورت کو فون کرے ،،
مگر سنو اسے یہاں گھر پر نہیں ،، ڈیرے پر لے کے آنا ،،

شمیلے نے ڈرامائی طریقے سے اپنے لباس میں سے ایک آتشیں اسلحہ برآمد کیا. اور اس کا رخ آسمان کی طرف کرتے ہوئے بولا ،،
چوہدری اگر وہ میرے ہاتھوں مارا گیا تو تھانے کے معاملات سنبھال لینا ،، تجھے تو پتہ ہی ہے میرا غصہ بہت خراب ہے ،،

ایک نو سالہ لڑکی گلی کے موڑ پر کب سے گھات لگائے بیٹھی تھی ،، اسے یاسر بھائی کا بہت بے چینی سے انتظار تھا

بلآخر اسے یاسر بھائی سائیکل پر آتے ہوئے نظر آئے ،،
اس نے جلدی سے ہاتھ ہلا کر انہیں روکا ،،اور ہاتھ جوڑ کر کھڑی ہوگئی ،،

یاسر بائس سال کا ایک معصوم صورت لڑکا تھا ،، اس نے سائیکل روکی اور پوچھا ،،کیا ہوا ؟

گلی میں لوگ انہیں گھورتے ہوئے گزر رہے تھے ،،
یاسر کو احساس تھا اس لیے وہ جلد سے جلد اس لڑکی کی بات سن کے آگے بڑھ جانا چاہتا تھا ،،

جلدی بولو ،، اس نے تند لہجے میں سرگوشی کی ،،

یاسر بھائی ،، لڑکی اسی طرح ہاتھ جوڑ کر بولی
نازیہ باجی نے کہا ہے کہ میں تیرے آگے ہاتھ جوڑتی ہوں ،، تو گھر سے کہیں بھاگ جا ،، میرے مامے کو پتہ چل گیا ہے کہ کون اس کے گھر ٹیلی فون کرتا تھا ،، نازیہ باجی نے کہا ہے میں ہاتھ جوڑتی ہوں میرے سارے خط جلا دینا ،، اور میری عزت اب تمہارے ہاتھ میں ہے ، ، مجھے بدنام مت ہونے دینا ،، نہیں تو ماما مجھے بہت مارے گا ،،

جب وہ غصے میں ہوتا ہے تو اپنی بیوی کو بھی بہت مارتا ہے ،،

*****
اچھا ٹھیک ہے ،، یاسر نے جان چھڑائی ،، نازیہ سے کہہ دو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ،، میں کبھی اس کا نام نہیں لوں گا ،،
یہ کہہ کر وہ آگے بڑھ گیا ،،

وہ نائٹ ڈیوٹی کر کے آ رہا تھا ،اس وقت اس کیلئے سب سے اہم چیز ایک پر سکون نیند تھی ،،

لیکن جب وہ اپنے گھر کے دروازے پر پہنچا تو بدنام زمانہ شمیلے کو وہاں پا کر پریشان ہو گیا ،،

وہ شمیلے کو غائبانہ جانتا تھا ،، زندگی میں پہلی بار اس سے مدبھیڑ ہو رہی تھی ،،

شمیلے نے اسے دیکھ لیا تھا اس لیے واپس پلٹ جانا اس کے حق میں اور بھی برا ہوتا ،،

اس نے قریب جا کے ادب سے سلام کیا ،،

چوہدری نیامت کے گھر تو نے فون کیا تھا ،،؟
شمیلا سلام کو نظر انداز کر کے پوچھنے لگا ،،

یاسر سمجھ گیا کہ اس کی شامت اعمال آ پہنچی ہے ،

وہ شمیلے سے نگاہیں چراتے ہوئے بولا ،
ہاں ،،،، مگر میں چوہدری صاحب سے معافی مانگ لوں گا ،،

شمے لے نے یکدم اس کی گردن دبوچ لی ،،

چل تجھے میں معافی دلواتا ہوں حرام خور
اس نے یاسر کو کھینچا اور گدی پر کس کے مکا رسید کیا ،،
یاسر کے ہاتھ سے سائیکل چھوٹ کر گری ،،

گلی میں بیٹھنے والی دو عورتیں اور ایک بابا جی یہ تماشا دیکھ رہے تھے ،،
چھت پر پتنگ اڑانے والے پڑوسی نے بھی یہ منظر دیکھا ،،مگر کسی نے اف تک نہ کی ،،

سب جانتے تھے کہ شمیلا اب تک دو بندے دن دیہاڑے قتل کر چکا ہے ،، مگر چوہدری کی پشت پناہی اور گواہوں کی عدم دستیابی اسے اور کھل کھیلنے کا موقع دے رہی تھی ،،

وہ یاسر کو گھسیٹتے ہوئے لے گیا ،،

اری بہن اس بیچارے نے کیا کیا ہے ؟ یہ تو غریب یہاں کرائے پہ رہتا ہے ،،
چشم دید گواہ دونوں عورتوں نے درد بھرے لہجے میں تبصرہ شروع کیا ،،

دوسری عورت بولی ، میں نے اس لڑکے کو ایک دن نازیہ سے بات کرتے ہوئے دیکھا تھا ،،اور تمہیں تو پتہ ہے نازیہ چوہدری نیامت کی سگی بھانجی ہے ،،اور ہفتوں ہفتوں وہ اسی کی حویلی میں رہتی ہے ،،

ہاں بہن جانتی ہوں ،وہ جھاڑو پوچھا کرتی ہے وہاں ،، جب سے اس کے باپ کا انتقال ہوا ہے گھر میں کمائی کا ذریعہ نہیں رہا کوئی ،، اس لیے مامے کے گھر رہتی ہے تاکہ اچھا کھائے پیئے ،، بہت تیز اور چالاک لڑکی ہے چھوٹی عمر میں ہی بہت کچھ جھیل لیا ہے اس نے ،،

******

اوئے تیری جرات کیویں ہوئی فون کرن دی ،،
چوہدری نیامت نے خالص فلمی سلطان راہی کی طرح بڑھک ماری
اور قدموں میں پڑے ہوئے لڑکے کو زور زور سے ٹھوکریں ماریں ،
شمیلا اسے پہلے ہی ادھ مرا کر چکا تھا ،،

ڈیرے پر آئے ہوئے ایک مہمان نے پوچھا ،
چوہدری ساب گل کی اے ؟

یار اسی بڑے حریان سی کہ حویلی میں فون آئے تو جب چودھرانی فون چکے تو آگے سے کوئی بولے وی نا
اے سور دا بچہ ٹیلی فون کردا سی میری بھانجی نوں

شمیلے نے کہا ،، جوہدری صاب ،،اس کو ننگا کر کے یہیں درخت سے باندھ دیتے ہیں ،، شام تک اسکا عشق کا بخار اتر جائے گا ،،

******

چوہدری نے کہا اس کو فی الحال اندر ایک کمرے میں بند کر دو ،،اور مہمانوں کیلئے کوئی لسی شسی کا انتظام کرو ، ،

مہمانوں کے رخصت ہونے کے بعد مار دھاڑ سے بھرپور ایک دوسرا راؤنڈ شروع ہوا جس میں یاسر کی چیخیں نکل گئیں ،،

چوہدری کا ایک ہی مطالبہ تھا کہ وہ خط جو نازیہ نے لکھے ہیں وہ بتا کہاں ہیں ،،

چوہدری فکر مند تھا کہ اس کی بھانجی کے عشقیہ خطوط کسی اور کے ہتھے لگ گئے تو ٹھیک ٹھاک بدنامی ہوگی ،،
اس دوران شمیلا اس کے گھر کی مکمل تلاشی بھی لے آیا تھا مگر کسی قسم کا کوئی خط برآمد نہ ہوا ،،

ادھر یاسر زبان کھولنے کیلئے تیار نہیں تھا ،، جب بھی وہ کچھ کہنا جاہتا ،،نازیہ اس کے خیالوں میں آ کر ہاتھ جوڑ دیتی ،،
اگر خطوط میں محض نازیہ اور اس کی محبت کا ذکر ہوتا تب بھی وہ انہیں چوہدری کے حوالے کر کے اپنی جان بچا لیتا ،، لیکن وہ جانتا تھا کہ ان میں شمیلے کی کچھ ایسی باتیں درج ہیں جو کھل گئیں تو نازیہ ماری جائے گی ،،

نہیں دوں گا خط ،،اس نے خیالوں کی وادی سے نازیہ کو پکارا ،، تیرے لیے اپنی جان دے دوں گا نازیہ ، خط نہیں دوں گا ، ،

پھر نجانے وہ سو گیا یا بیہوش ہو گیا ،،
اس نے خواب میں دیکھا ، نازیہ کی چھوٹی بہن آسیہ اسے ایک کاغذ کا ٹکڑا دے رہی ہے ،،

یہ کیا ہے ؟ وہ پوچھتا ہے ، نازیہ کا خط تو نہیں لگ رہا یہ ،،

آسیہ کہتی ہے یاسر بھائی ،، باجی نے کہا ہے کہ مجھے اس نمبر پر فون کرنا ،،دو بجے کے بعد مامی سو جاتی ہے ،،

منظر بدلتا ہے ،، اب وہ ایک پی سی او سے فون کر رہا ہے ،،تم نے مجھے اپنے مامے کے گھر کا فون نمبر کیوں دیا ؟ اگر اسے پتہ چل گیا تو ،،
نہیں پتہ چلے گا ،، نازیہ کہنے لگی اور پھر میں سارا دن ادھر ہی رہتی ہوں ،،اپنے گھر تو بہت کم جاتی ہوں ،،اس لیے یہیں کا نمبر بھیجا ہے ،،کیا آپ کو اچھا نہیں لگا ؟
وہ افسوس سے پوچھتی ہے ،،

کیوں اچھا نہیں لگا ،، یاسر جلدی سے کہتا ہے ،، اور وہ دونوں دیر تک محبت بھری باتیں کرتے ہیں ،،

یاسر سے بہت بڑی غلطی یہ ہوئی کہ وہ نازیہ کی آواز سن کر بے چین ہوگیا اور وقت بے وقت فون کرنے لگا ،، کبھی کبھی چودھرانی فون رسیو کر لیتی ،، اور اس کے جواب نہ دینے پر خوب گالیاں دیتی ،،
وے کون ایں توں ،،بیڑہ غرق ہوئے تیرا ،، وہ کہتی ،،
* * *
انور جمال انور
کارکن
کارکن
Posts: 119
Joined: Wed Sep 26, 2012 12:08 am
جنس:: مرد

Re: ،،، شمے لا. ،،،

Post by انور جمال انور »

چوہدری صاحب یہ تو بیہوش ہو چکا ہے ،، شمیلے نے اعلان کیا ،،

چل ابھی اس کو لے جا کے تہہ خانے میں پھینک دے ،،میں ملک شہباز سے مل کے آتا ہوں ،، آج وہ زمین کا مسئلہ بھی نمٹانا ہے ،، چوہدری نے کہا اور اپنی پجیرو میں بیٹھ کر چلا گیا ،،

*****
صبح سے بے شرم ، بے حیا ، بے غیرت کے طعنے سننے والی نازیہ پھٹ پڑی ،،

تے مامی توں کی ایں

مامی نے حیرت اور صدمے کی کیفیت میں نازیہ کو دیکھا ،،،
آج تک سر جھکا کر کام کرنے والی نے یہ کیا کہہ دیا تھا ،،
اکلوتی ملازمہ ڈر کے مارے وہاں سے کھسک گئی

مامی غصے سے پھنکاری ،،
آنے دے چوہدری کو آج تیرا قیمہ کرواتی ہوں ،،

نازیہ بے خوف ہو چکی تھی اس نے سوچ لیا تھا کہ اب جو ہونا ہے ہوتا رہے
وہ آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بےباکی سے بولی ، ہاں آنے دے مامے کو میں بھی اسے بتاؤں گی کہ تیرا اور شمیلے کا کیا چکر ہے ،،

مامی کے اوسان خطا ہو گئے ،،

یہ کیسا الزام لگا رہی ہے کمینی ،، اس لیے تجھے اپنے گھر میں رکھا تھا میں نے ؟

یہ الزام نہیں ہے مامی میں اپنی آنکھوں سے دیکھ چکی ہوں ،،میرا منہ مت کھلوا ،، نازیہ بدتمیزی پر آمادہ تھی ،،

مامی چپ ہو گئی ،،اس کے غبارے سے ہوا نکل چکی تھی ،،
******
مامی سے جھگڑا کر کے نازیہ خوش نہیں تھی ، ،

شام تک وہ افسردہ رہی پھر اچانک اسے پچھتاوے نے گھیر لیا ،،

مامی گھر ہی میں موجود تھی مگر اب اس سے بات نہیں کر رہی تھی ،،
وہ اٹھی اور مامی کے کمرے میں جا کر اس کے قدموں میں گر گئی ،،،

معاف کر دے مجھے ،،

وہ اس سے زیادہ کچھ نہ کہہ پائی ،،اس کا گلا رندھ گیا ،، اور ٹپ ٹپ آنسو گرنے لگے ،،

*******

رات کے نو بج رہے تھے ،، چوہدری ابھی تک نہیں آیا تھا ،،
اس کے کھیتوں سے گزرتے ہوئے دو سائے تیزی سے ڈیرے کی طرف بڑھ رہے تھے ،،

ڈیرے پر شمیلا آج ضرورت سے زیادہ شراب پی کر ایک طرف لیٹا ہوا تھا ، ،

قید خانے میں یاسر اپنی زندگی کے حسین لمحات گن رہا تھا تاکہ مرتے وقت اسے زیادہ افسوس نہ رہے ،،

نازیہ اور جوہدری نیامت کی بیوی چوروں کی طرح وہاں آئیں اور شمیلے کو نشے میں دھت دیکھ کر خوش ہو گئیں ،، ڈیرے پر اور کوئی نہیں تھا ،،

نازیہ جلدی سے یاسر کو تلاش کرنے لگی
اس کا دل زور زور سے دھڑک رہا تھا اور طرح طرح کے اندیشے سر اٹھا رہے تھے ،،
کہیں شمیلے نے اسے جان سے تو نہیں مار دیا ،،

ایک کمرے میں تالا پڑا ہوا تھا
جس کی چابی شمیلے کی جیب سے برآمد ہوئی ،،

چوہدرانی ان دونوں کو ڈیرے کی حدود سے باہر تک چھوڑنے آئی ،،

جا رہی ہوں مامی اب یہاں کبھی نہیں آؤں گی ،،

رخصت ہوتی ہوئی نازیہ نے جذباتی لہجے میں کہا ،، مجھے آخری بار دیکھ لے مامی

مامی خود بھی جذباتی ہو گئی ،،
اس نے اپنے گلے سے سونے کی چین اتاری اور زبردستی نازیہ کو دینے لگی ،،

رکھ لے ، تو میری بیٹی فاطمہ کی طرح ہے ،، اس نے نازیہ کو گلے لگا لیا ،،

یاسر تھوڑا دور ہٹ کر یہ جذباتی منظر دیکھ رہا تھا

اوئے منڈیا ،، مامی نے اسے آواز دی ،،
لے جا اسے اور ہمیشہ خیال رکھنا اس کا ،، اور اس علاقے میں کبھی پلٹ کر نہیں آنا ،،

دونوں کو رخصت کرنے کے بعد چودھرانی ڈیرے پر واپس آئئ

اور آتے ہی اس نے شمیلے پر تھوک دیا ،،
اٹھ نمک حرام ،، تو نے میری بیٹی فاطمہ کی طرف بھی ہاتھ بڑھایا تھا
اگر نازیہ مجھے نہ بتاتی تو پتہ نہیں میرے گھر میں کیا کیا ہوتا رہتا ،،،،

چوہدری نیامت پجیرو سے اترا ،، وہ دس کنال کی ناجائز زمین اپنے نام کروا کے آ رہا تھا اور بہت خوش تھا ،، لیکن چودھرانی کو دیکھ کر حیران رہ گیا ،،
تو اس وقت ڈیرے پر کیا کر رہی ہے ؟ اس نے پوچھا ،،

نازیہ مجھ سے لڑ کے ادھر آ گئی تھی ،،،،،،

میں نے سوچا پتہ کروں کہ آپ ڈیرے پر ہو کہ نہیں ،مگر مجھے دیر ہو گئی ،،

وہ لڑکے کے ساتھ بھاگ چکی ہے ،،اور اس نے شمیلے کو بھی زندہ نہیں چھوڑا ،،

چوہدری کو یقین نہ آیا ،، وہ بھاگتا ہوا اندر گیا ،،

شمیلا خون میں لت پت پڑا تھا ، اس کی گردن کسی تیز دھار چھری سے کاٹی گئی تھی ،
*****
ساڈے تے اپنے ای حرامدے نیں ، اسی کی کریئے ،،
چوہدری نہایت افسوس کے ساتھ بولا ،،

__________

تحریر *** انور جمال انور
اضواء
ٹیم ممبر
ٹیم ممبر
Posts: 40424
Joined: Sun Aug 15, 2010 4:26 am
جنس:: عورت
Location: {الدمام}المملكةالعربيةالسعوديه

Re: ،،، شمے لا. ،،،

Post by اضواء »

بہت خوب ...

شئیرنگ پر آپ کا شکریہ
[center]یہ بھی انداز ہمارے ہے تمہیں کیا معلوم
ہم تمہیں جیت کے ہارے ہے تمہیں کیا معلوم[/center]
میاں محمد اشفاق
منتظم سوشل میڈیا
منتظم سوشل میڈیا
Posts: 6107
Joined: Thu Feb 09, 2012 6:26 pm
جنس:: مرد
Location: السعودیہ عربیہ
Contact:

Re: ،،، شمے لا. ،،،

Post by میاں محمد اشفاق »

بہت ہی خوب جناب :clap: :clap: ;fl;ow;er;
ممکن نہیں ہے مجھ سے یہ طرزِمنافقت
اے دنیا تیرے مزاج کا بندہ نہیں ہوں میں
بلال احمد
ناظم ویڈیو سیکشن
ناظم ویڈیو سیکشن
Posts: 11973
Joined: Sun Jun 27, 2010 7:28 pm
جنس:: مرد
Contact:

Re: ،،، شمے لا. ،،،

Post by بلال احمد »

عمدہ تحریر کے لیے شکریہ محترم ;fl;ow;er; ;fl;ow;er; ;fl;ow;er;
بڑی بے چین رہتی ہے طبیعت اب میری محسن
مجھے اب قتل ہونا ہے، مگر قاتل نہیں ملتا
Post Reply

Return to “اردو افسانہ”