عصمتِ انبیاء علیہم السلام

مذاہب کے بارے میں گفتگو کی جگہ
Post Reply
احمداسد
کارکن
کارکن
Posts: 74
Joined: Fri Apr 15, 2011 6:54 pm
جنس:: مرد
Location: rawalpindi
Contact:

عصمتِ انبیاء علیہم السلام

Post by احمداسد »

تحریر: مولانا مدثر جمال تونسوی . فاضل دارالعلوم کراچی

حضرت شاہ اسماعیل شہید(رح) کے بیان کے مطابق ،اللہ تعالیٰ کی طرف سے حضرات انبیاء علیہم الصلاۃو السلام کو ’’ولایت‘‘ کاجو عظیم کمال دیا جاتا ہے، وہ ان کی’’عبودیت اور عصمت‘‘ کے لباس میں جلوہ نما ہوتا ہے۔’’ عبودیت‘‘ کی توضیح کے بعد اب’’مسئلہ عصمت‘‘ کی تفصیل بیان کی جاتی ہے۔

حضرت شہید(رح) اس کی توضیح کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
عصمت:اس کامعنیٰ یہ ہے کہ اُن کے اقوال وافعال، عبادات وعادات، معاملات ومقامات اوراخلاق واحوال میں حق تعالیٰ اپنی قدرت کاملہ کی بدولت اُن کومداخلتِ نفس وشیطان اورخطاونسیان سے محفوظ رکھتا ہے اورمحافظ ملائکہ کو ان پر متعین کردیتا ہے تاکہ بشریت کاغُبار اُن کے پاک دامن کو آلودہ نہ کردے اورنفس بہیمیہ اپنے بعض اموراُن پر مسلّط نہ کردے اور اگر قانون رضائے الٰہی کے خلاف اُن سے شاذ ونادر کوئی امرواقع ہو بھی جائے تو فی الفور حافظ حقیقی﴿اللہ تعالیٰ﴾اس سے انہیں آگاہ کردیتا ہے اور جس طرح بھی ہوسکے غیبی عصمت ان کوراہ راست کی طرف کھینچ لاتی ہے‘‘
﴿منصب امامت،ص:۷۱﴾

حضرت شاہ اسماعیل شہید(رح) نے اس موضوع پریہ چند سطور تحریر کی ہیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان چند سطروں میں تمام تحقیقات کا نچوڑ آگیا ہے۔ اب ہم اس موضوع کو قدرے تفصیل سے بیان کرتے ہیں تاکہ اس کے تمام پہلو سامنے آجائیں۔

منصب نبوت ورسالت سے اللہ تعالیٰ نے جن پاکباز حضرات کو نوازا ہے۔ ان کی برگزیدگی، شان عظمت و کمال اور اعلیٰ ترین خصائص و کمالات اس درجہ بلند ہوتے ہیں جن کے تصور سے دیگر مخلوق عاجز ہوتی ہے۔
لایمکن الثناء کم کان حقہ
بعدازخدا بزرگ توئی قصہ مختصر

البتہ جو خصالص و امتیازات قرآن و سنت کی روشنی میں حضرات اہل علم نے چنے ہیں ان میں ایک اہم و لازمی وصف ’’عصمت انبیاء علیہم السلام ‘‘ کے عنوان سے پہچانا جاتا ہے۔ یہ وصف، منصب نبوت کیساتھ اس درجہ خصوصیت و نسبت رکھتا ہے کہ اگر ایک لمحہ کے لئے منصب نبوت کے عالی مقام حاملین سے اس وصف کو الگ کر لیا جائے تو نبوت کی پوری عمارت منہدم ہوجاتی ہے۔ شاید یہی وجہ کہ یہود ونصاریٰ اور دیگر دشمنان انبیائ ورسل نے اکثر و بیشتر اپنی بد طینت طبائع سے مجبور ہو کر حضرات انبیائ علیہم السلام کے دامن عصمت کو داغدار بنانے کی مذموم حرکت کی ہے۔

محدث العصر حضرت مولانامحمد یوسف بنوری(رح) اسی بات کونمایاں کرتے ہوئے یوں رقم طراز ہیں:
’’نبوت ایک عطیۂ ربانی ہے، جس کی حقیقت تک رسائی غیر نبی کو نہیں ہو سکتی ۔ اس کی حقیقت کو یا تو حق تعالیٰ جانتا ہے جو نبوت عطا کر نیوالا ہے یا پھر وہ ہستی جو اس عطیہ سے سرفراز ہوئی۔ مخلوق بس اتنا جانتی ہے کہ اس اعلیٰ وارفع منصب کے لئے جس شخص کا انتخاب کیا گیا ہے وہ:
۱: معصوم ہے، یعنی نفس کی ناپسندیدہ خواہشات سے پاک صاف پیدا کیا گیا ہے اور شیطان کی دسترس سے بالاتر، عصمت کے یہی معنیٰ ہیں کہ ان سے حق تعالیٰ کی نافرمانی کا صدور ناممکن ہے
۲:آسمانی وحی سے ان کا رابطہ قائم رہتا ہے اور وحی الٰہی کے ذریعے ان کو غیب کی خبریں پہنچتی ہیں ۔کبھی جبریل امین کے واسطے سے اور کبھی بلاواسطہ، جس کے مختلف طریقے ہیں ۔
۳:غیب کی وہ خبریں عظیم فائدہ والی ہوتی ہیں اور عقل کے دائرے سے بالا تر ہوتی ہیں۔ یعنی انبیائ علیہم السلام بذریعہ وحی جو خبریں دیتے ہیں ان کو انسان نہ عقل وفہم کے ذریعہ معلوم کر سکتا ہے، نہ مادی آلات و حواس کے ذریعہ ان کا علم ہو سکتا ہے‘‘﴿بصائرو عبر﴾

دیکھئے!اس عبارت میں حضرت بنوری نے سب سے پہلی چیز جو نبوت کے حامل شخص کے لئے ضروری و لازمی ہے،’’عصمت‘‘ بیان کی ہے، حضرات انبیاء علیہم السلام کی ’’عصمت‘‘ یعنی پاگیزگی و پاکبازی کے لازمی ہونے کو تمام اہل علم نے بیان کیا ہے بلکہ اس مسئلہ پر تمام اُمت کا اجماع ہو چکا ہے، اور سوائے چند گمراہ لوگوں کے اورکسی نے اس میں اختلاف نہیں کیا ہے۔

امام اعظم ابو حنیفہ(رح)، علم عقائد کے موضوع پر لکھی گئی اپنی معروف تصنیف’’الفقہ الا کبر‘‘میں تحریر فرماتے ہیں:
’’والانبیاء علیہم الصلوۃ والسلام کلھم منزھون عن الصغائر والکبائروالکفروالقبائح، وقدکانت منہم زلات والخطایا‘‘
’’تمام انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام صغائر اور کبائر اور کفر و قبائح سے بالکل منزہ اور پاک تھے۔ ہاں البتہ لغزش اور بھول چوک ان سے بھی سرزد ہوتی رہی ہے‘‘
﴿البیان الازہر اردو ترجمہ الفقہ الا کبر:ص۸۳﴾

اب ارداہ یہ تو تھا کہ اس موضوع پر حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی(رح) کی عبارت پیش کروں لیکن ، حضرت محدث العصر بنوری(رح) کا ایک اور اقتباس نظر پڑ گیا جسے نظر اندازکرکے آگے بڑھنا دشوار ہو رہا ہے ،اس لئے پہلے وہ اقتباس پھر اسی اقتباس کے حاشیے میں’’مدیر بینات‘‘ نے جو توضیحی نوٹ درج کیا ہے وہ بھی ساتھ ہی ملاحظہ کر لیں۔حضرت مولانا یوسف بنوری(رح): فرماتے ہیں:
’’نبوت کیلئے حق تعالیٰ جل ّ ذکرہ ایک ایسی برگریدہ اور معصوم شخصیت کا انتخاب فرماتا ہے جو اپنے ظاہر و باطن، قلب وقالب، روح وجسدہراعتبار سے عام انسانوں سے ممتاز ہوتا ہے، وہ ایسا پاک طینت اور سعید الفطر ت پیدا کیا جاتا ہے کہ اس کی تمام خواہشات رضاء و مشیت الٰہی کے تابع ہوتی ہیں، ردائے عصمت اس کے زیب تن ہوتی ہے، حق تعالیٰ کی قدرت کا ملہ ہر دم اس کی نگرانی کرتی ہے۔ اس کی ہر حرکت وسکون پر حفاظت خداوندی کا پہرہ بٹھا دیا جاتا ہے اور وہ نفس و شیطان کے تسلط و استیلائ سے بالا تر ہوتا ہے۔ ایسی شخصیت سے گناہ و معصیت اور نا فرمانی کا صدور ناممکن اور منطقی اصطلاح میں محال و ممتنع ہے، اسی کانام ’’عصمت‘‘ ہے اور ایسی ہستی کو ’’معصوم‘‘ کہا جاتا ہے، عصمت لازمۂ نبوت ہے، جس طرح یہ تصور کبھی نہیں کیا جا سکتا کہ کسی لمحہ نبوت، نبی سے الگ ہو جائے، اسی طرح اس بات کا وہم و گمان بھی نہیں کیا جاسکتا کہ عصمت نبوت اور نبی سے ایک آن کیلئے بھی جدا ہو سکتی ہے معاذ اللہ۔‘‘

اس کے حاشیے میں تو ضیحی عبارت یوں درج کی گئی ہے:
’’اس کے یہ معنیٰ نہیں کہ انبیاء کرام علیہم السلام سے قدرت سلب کر لی جاتی ہے بلکہ عصمت کا مدار ان ہی دو چیزوں پر ہے جس کی طرف اوپر اشارہ کیا گیا ، یعنی اول تو ان کی فطرت اتنی پاکیزہ اور مصفیٰ اور مزکیٰ ہوتی ہے کہ وہ گناہ و معصیت کا تصور بھی نہیں کر سکتے اور گناہ کا تصور فطرۃً ان کیلئے ناقابل برداشت ہے، دوم یہ کہ حفاظت الٰہی کی نگرانی ایک لمحہ کیلئے ان سے جدا نہیں ہوتی، ظاہر ہے کہ ان دوباتوں کے ہوتے ہوئے صدور معصیت کا امکان نہیں رہتا۔﴿مدیر﴾‘‘ ﴿بصائرو عبر حصہ اول ص۳۷۱﴾

قطب الا قطاب حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی(رح) ’’العقیدۃ الحسنۃ‘‘ میں تحریر فرماتے ہیں:
’’تمام انبیاء علیہم السلام کفر، شرک اور عمداً گناہ کبیرہ سے اور صغائرپر اِصرار کرنے سے معصوم اور پاک ہوتے ہیں، اللہ تعالیٰ ان کو تین طریقوں سے ان نقائص سے بچاتا اور معصوم رکھتا ہے:﴿۱﴾ ایک یہ کہ اللہ تعالیٰ ان کو پیدائشی طور پر ہی سلیم الفطرت اور اخلاق کے کامل اعتدال پر پیدا کرتا ہے، اس لئے وہ معاصی میں رغبت نہیں کرتے بلکہ ان سے متنفر ہوتے ہیں﴿۲﴾ دوسری یہ کہ اللہ تعالیٰ ان کی طرف وحی نازل کرتا ہے کہ معاصی پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے سزاہوگی اور طاعات اور نیکیوں پر اچھا بدلہ دیا جائے گا اور یہ وحی ان کیلئے گناہوں اور معاصی سے روکنے کا باعث ہوتی ہے۔اور﴿۳﴾ تیسری صورت یہ ہے کہ ان انبیائ علیہم السلام کے درمیان اور معاصی کے درمیان اللہ تعالیٰ کسی لطیفہ غیبیہ کے ذریعے حائل ہو جاتے ہیں جیسا کہ حضرت یوسف علیہ السلام کے واقعہ میں حضرت یعقوب علیہ السلام کی صورت کو دانتوں میں انگلی دبائے ہوئے ظاہر کیا گیا۔
﴿العقیدۃ الحسنۃ مع البیان الازہر : ص ۳۹﴾

امام رازی(رح)﴿یہ تفسیرکبیرکے مصنف کے علاوہ ہیں﴾ نے ’’عصمت الانبیاء ‘‘ کے عنوان سے ایک مستقل کتاب تحریر کی ہے،جو اس موضوع پر بڑی جامع اور علمی اسلوب سے مزین ہے، اس کتاب میں آپ نے پہلے نفس مسئلہ پر بحث کی ہے، پھر اس سے فراغت کے بعد بعض انبیائ کرام علیہم السلام کے بعض واقعات جو بظاہر ’’عصمت‘‘ کے منافی محسوس ہوتے ہیں ان کے شافی جوابات دیئے ہیں اور حقیقی صورت حال واضح کی ہے۔

امام رازی(رح) نے ’’عصمت انبیاء ‘‘ کی بحث کو چار خانوں میں تقسیم کیا ہے اور ہر پہلو میں اہلسنت و الجماعت کا مسلک واضح کیا ہے اور بعدازاں پندرہ دلیلوں سے اس مسلک کو مدلل و مبرہن کیا ہے،یہاں صرف ان کے ذکر کردہ چار پہلواختصار اور قدرے ترتیب کی تبدیلی کے ساتھ بیان کئے جاتے ہیں۔

﴿۱﴾اِعتقادات سے متعلق عصمت انبیائ:
اس بات پر امت کا اجماع ہے کہ انبیائ علیہم السلام کفر اور بدعت ﴿جو تمام فاسداِعتقادات کی جڑہیں﴾ سے معصوم ہوتے ہیں ۔اس مسئلہ میں صرف خوارج کے ایک فرقہ فضیلیہ اور اہل تشییع کا اختلاف ہے۔

﴿۲﴾ اَحکام و شرائع الٰہی سے متعلق عصمت:
اس باب میں بھی پوری امت کا اجماع ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے حضرات انبیائ علیہم السلام کو جو اَحکام و شرائع دئیے جاتے ہیں وہ ان میں عمداً اور سہواًدونوں طرح تحریف یا خیانت کرنے سے معصوم ہوتے ہیں۔

﴿۳﴾فتویٰ و اِجتہاد سے متعلق عصمت:
اِس بارے میں تمام اُمت کا اِجماع ہے کہ ان سے فتویٰ اور اجتہاد کے باب میں عمداً تو کوئی خطائ نہیں ہو سکتی البتہ بھول چوک ہو سکتی ہے﴿ لیکن اس پر بھی انہیں برقرار نہیں رکھا جاتا فوراً صحیح صورت حال بتادی جاتی ہے۔ اس کاحوالہ آگے آرہا ہے۔﴾

﴿۴﴾اَفعال و اَحوال سے متعلق عصمت:
اس بارے میں امام رازی(رح) نے پہلے انفرادی پانچ مذاہب بیان کئے ہیں، آخر میں اپنا اور اہلسنت والجماعت کا مسلک بیان کیا ہے۔اپنا مسلک بیان کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:انبیاء علیہم السلام زمانہ نبوت میں اپنے اَفعال اور اَحوال میں عمداً کبائر اور صغائر دونوں سے معصوم ہوتے ہیں ، البتہ سہواً ایسا ہونا ممکن ہے۔

گزشتہ تفصیلات یہ معلوم ہو گیا کہ:
انبیاء علیہم السلام کفر وشرک اور بدعت سے معصوم ہوتے ہیں۔
انبیاء علیہم السلام عمداًکبائر اور صغائر پر اِصرار سے معصوم ہوتے ہیں۔
انبیاء علیہم السلام احکام الٰہی میں کسی قسم کی تحریف یا خیانت سے معصوم ہوتے ہیں۔
انبیاء علیہم السلام سے فتویٰ و اجتہاد میں چوک ممکن ہے البتہ اس کی اصلاح ضرورکی دی جاتی ہے۔
انبیاء علیہم السلام اپنے افعال و احوال میں عمداً کبائرو صغائر سے معصوم ہوتے ہیں البتہ سہواً اس کا امکان باقی رہتا ہے۔

انبیاء علیہم السلام کے اجتہاد کی توضیح کرتے ہوئے حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی بانی دارالعلوم دیوبند(رح) رقم طراز ہیں:
’’عرض پنجم یہ ہے کہ احکام انبیائے کرام علیہم السلام دو قسم کے ہوتے ہیں۔ایک تو ازقسم روایت اورایک ازقسم درایت۔ اول میں تو احتمال خطاممکن نہیں۔انبیاء کرام علیہم السلام صادق ومصدوق ہوتے ہیں﴿جب﴾وہ راوی ﴿ہیں اور﴾خداتعالیٰ مروی عنہ﴿ہیں تو﴾ خطاآئے تو کدھرسے آئے؟

ہاں احکام قسم ثانی میں گاہ بگاہ خطا کابھی احتمال ہوتا ہے اور اس لئے احتیاط کی بھی ضرورت ہوتی ہے .البتہ اتنی بات مقررہے کہ انبیاء کرام علیہم السلام کی خطا کی اصلاح ضروری ہے اور اس دعوے پر احادیث کثیرہ شاہد ہیں‘‘ ﴿کیامقتدی پرفاتحہ واجب ہے؟ص۰:۵﴾

یاد رہے کہ انبیاء کرام علیہم السلام کی عصمت کاعقیدہ رکھنا ضروریات دین میں سے ہے اور اس میں کوئی بھی جھول ایمان کے خطرناک ہوسکتا ہے۔حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ ، نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کو خطاب کرتے ہوئے کتنی پیاری بات کہتے ہیں:
واحسن منک لم ترقط عین
واجمل منک لم تلد النساء
خلقت مبرأ من کل عیب
کانک قدخلقت کما تشاء
بلال احمد
ناظم ویڈیو سیکشن
ناظم ویڈیو سیکشن
Posts: 11973
Joined: Sun Jun 27, 2010 7:28 pm
جنس:: مرد
Contact:

Re: عصمتِ انبیاء علیہم السلام

Post by بلال احمد »

شیئرنگ کیلئے شکریہ
بڑی بے چین رہتی ہے طبیعت اب میری محسن
مجھے اب قتل ہونا ہے، مگر قاتل نہیں ملتا
اضواء
ٹیم ممبر
ٹیم ممبر
Posts: 40424
Joined: Sun Aug 15, 2010 4:26 am
جنس:: عورت
Location: {الدمام}المملكةالعربيةالسعوديه

Re: عصمتِ انبیاء علیہم السلام

Post by اضواء »

شئیرنگ پر آپ کا بہت بہت شکریہ ....
[center]یہ بھی انداز ہمارے ہے تمہیں کیا معلوم
ہم تمہیں جیت کے ہارے ہے تمہیں کیا معلوم[/center]
Post Reply

Return to “مذہبی گفتگو”