میں اپنے آئینہ ء دل کے روبرو بیٹھا
خود اپنی شکل کو تکتا ہوں ہوبہو بیٹھا
مئے نظارہ کی خاطر اس انجمن میں تری
لئے ہوئے میں رہا آنکھ کا سبو بیٹھا
اب آنسوؤں کی رواں نہر پر دل ِ خستہ
شب ِ فراق میں اٹھ کر کرے وضو بیٹھا
کوئی نہیں ہے سزا وار ِ خلوت ِ غم ِ جاں
میں اپنے آپ سے کرتا ہوں گفتگو بیٹھا
افق میں ڈوب کے سورج جگر سے ابھرا ہے
چراغ ِزخم کے درپن میں آ لہو بیٹھا
نگارخانہ ء عالم پہ کیوں نظر رکھوں
شہاب خانہ ء دل میں جو میرے ہُو بیٹھا
بہزاد حسن شہاب
معزز حضرات گذشتہ دو برس مختلف ماہرین کے بلاگز ، سخنوروں سے شاعری اور اصول شاعری کے بارے جتنا پڑھا فاروق درویش جیسے اساتذہ سے جو کچھ سیکھا اس کے بعد چند نظمیں اور اب یہ ایک غزل لکھ سکا ہوں اور یہ میری پہلی غزل ہے ۔ آپ حضرات کی سچی اور کھری رائے میرے لئے بہت اہم اور مدد گار ہو گی ۔ شکریہ
میں اپنے آئینہ ء دل کے روبرو بیٹھا
-
- کارکن
- Posts: 6
- Joined: Sun Mar 04, 2012 8:33 pm
- جنس:: مرد
-
- ٹیم ممبر
- Posts: 40424
- Joined: Sun Aug 15, 2010 4:26 am
- جنس:: عورت
- Location: {الدمام}المملكةالعربيةالسعوديه
Re: میں اپنے آئینہ ء دل کے روبرو بیٹھا
بہترین کاوش ہے ....
آپ کا شکریہ ......
آپ کا شکریہ ......
[center]یہ بھی انداز ہمارے ہے تمہیں کیا معلوم
ہم تمہیں جیت کے ہارے ہے تمہیں کیا معلوم[/center]
ہم تمہیں جیت کے ہارے ہے تمہیں کیا معلوم[/center]
Re: میں اپنے آئینہ ء دل کے روبرو بیٹھا
بہت عمدہ شیئرنگ ہے ، بہزاد بھائی کیپ اٹ اپ
بڑی بے چین رہتی ہے طبیعت اب میری محسن
مجھے اب قتل ہونا ہے، مگر قاتل نہیں ملتا
مجھے اب قتل ہونا ہے، مگر قاتل نہیں ملتا