’’ باپو! یہ توویسے نہیں ہیں‘‘(از خاورچودھری)

ملکی اور عالمی‌ سیاست پر ایک نظر
Post Reply
خاورچودھری
مدیر
مدیر
Posts: 202
Joined: Sun Mar 09, 2008 10:05 am

’’ باپو! یہ توویسے نہیں ہیں‘‘(از خاورچودھری)

Post by خاورچودھری »

’’ باپو! یہ توویسے نہیں ہیں‘‘( چراغ بہ کف/خاورچودھری)
سکھ یاتریوں کاایک جتھہ حسن ابدال کی گلیوں میں اتنی آزادی سے گھوم پھررہاتھا‘ جیسے اپنے دیس میں ہو۔اس قدربے فکری یقینااس بات کاثبوت تھی کہ انھیں کسی قسم کا کوئی خوف نہیں ہے اور نہ انھیں کوئی رنج ہے۔ یاتریوں کے اس ٹولے میں مادھوی کوربھی تھی۔ٹاٹاگروپ آف کمپنیزسے وابستہ چھبیس سالہ یہ خوب رولڑکی اپنے والد کے ساتھ اپنی مذہبی رسومات کی ادائیگی کے لیے آئی ہوئی تھی اوراپنے مقدس مقامات کی یاترا کے ساتھ ساتھ پاکستان کوجاننے کی کوشش میں تھی۔وہ جانناچاہتی تھی کہ بھارت سرکارجس ملک کی سرکار اور پرجا کے حوالے سے ہمیشہ خوف کاشکارنظرآتی ہے‘وہاں کی پرجاکیاواقعی اتنی خطرناک ہے۔وہ جانناچاہتی تھی جس کے بارے میں اُس کے ملک کے پترکاروں‘ فلم سازوں اورنیتاؤں نے کاغذوں کے ڈھیرکالے کردیے ہیں‘ کیاوہ اس لائق ہے بھی یانہیں۔‘‘ وہ اپنے بوڑھے باپوکرکرید رہی تھی کہ وہ اُسے اپنے آبائی شہرجہلم کے متعلق بتائے اوریہ کہ جوجذبہ وہاں اُسے بے چین رکھتا ہے‘ یہاں شانت کیسے ہوگیا ہے۔
گرودوارہ حسن ابدال ہمارے شہر سے آدھ گھنٹے کی مسافت پر ہے۔ جب جب یہاں سکھ یاتریوں کی آمد ہوتی ہے‘رونقیں لگ جاتی ہیں۔اردگردکے لوگوں کااشتیاق بڑھ جاتا ہے۔ ہمارے ابلاغ کے اداروں کوبھی خبروں کی تلاش کچھ زیادہ ہوجاتی ہے۔تجسس یقیناانسانی زندگی کالازمہ ہے مگرمجھے کبھی شدت سے یہ احساس نہیں ہوا کہ کبھی سکھ یاتری آئیں اور میں حسن ابدال جاؤں۔اس باریوں ہوا کہ اسلام آباد میں ایک میڈیائی گروپ سے وابستہ میرے صحافی دوست نے فون کرکے بتایا کہ وہ سکھوں کے حوالے سے ڈاکومنٹری فلم بنا رہا ہے اور میں اس کے ساتھ ہوں گا۔ میزبان کی حیثیت سے میں انکار نہیں کرسکااوریوں دودن تک مسلسل سکھوں سے میل جول رہا۔یہ کوئی چاربرس اُدھر کی بات ہے۔میں نے پہلی بار بہت قریب سے سکھوں اوراُن کی عبادات کوقریب سے دیکھا۔پھران کی تعلیمات کوجانا۔وہ جو ہمارے یہاں سکھوں کی بے وقوفیوں کے حوالے سے لطائف مشہور ہیں‘ان سے ملنے کے بعد احساس ہوا کہ ایساتووہاں بہت کم ہے۔ان کے ساتھ گفتگو سے اندازہ ہوا کہ وہ ہمارے عام لوگوں سے کہیں زیادہ ہوشیاراورحاضردماغ ہیں۔ان کی لڑکیاں ہماری لڑکیوں سے زیادہ زمانہ شناس اورزیادہ بہادر ہیں۔مادھوی کور بھی ان میں سے ایک تھی۔مادھوی نے بتایا کہ وہ ٹاٹاگروپ آف کمپنیزسے وابستہ ہے ۔اُس نے بتایا کہ ’’میں جب کبھی اپنے کسی ساتھی سے پاکستان آنے کاذکرکرتی تھی تومجھے یک خاص زاویے سے بتایاجاتا کہ یہاں کے لوگ بہت بُرے ہیں۔کرداراورعمل کے حوالے سے بہت کم زور ہیں‘ خصوصاً لڑکیوں کے حوالے سے بہت وحشی ہیں۔مجھ پرخوف طاری ہوجاتاتھا مگرمقدس مقامات کی یاترامیرے مذہب کی مٹھاس ہے‘ جسے میں محسوس کیے بنانہیں رہ سکتی تھی۔میں نے یہاںآنے کافیصلہ کیا۔اب جو دیکھتی ہوں تووہ سب باتیں جھوٹ دکھائی دیتی ہیں۔ یہاں کے باسیوں نے جو محبت اورخلوص دیا‘ یہاں کے لوگ جتنے سچے‘ میٹھے اورپرامن ہیں وہاں بھی کم کم ہیں۔مجھے تویہاں زیادہ آزادی اور بے فکری محسوس ہوتی ہے۔‘‘ سفیدگھنی بھنوؤں والے اُس کے باپو نے گفتگو میں حصہ لیتے ہوئے بتایا کہ وہ چوتھی باریہاںآیا ہے۔اُسے یہاں کسی قسم کی اجنبیت کااحساس نہیں ہوتا۔ اور اس کاخمیراس مٹی سے اٹھا ہے‘اس لیے اسے اس بہت محبت ہے۔اس کے نیتاؤں‘ کہانی کاروں اورپترکاروں کی نفرت جسے کبھی کم نہیں کرسکے گی۔
جب رسمی گفتگوختم ہوئی تومیں نے مادھوی کورسے پوچھا کہ اُسے یہاں کیااچھا لگاتواُس نے نہایت متانت اوررس بھرے لہجے میں کہا’’ ایوری تھنگ‘ مجھے توکچھ غیرلگا ہی نہیں‘ جیسے سب میرااپناہو۔‘‘ اور جب ہم وہاں سے رخصت ہورہے تھے تویوں لگاجیسے وہ اوراُس کابوڑھاباپورو رہے ہوں۔اُس نے اپنے چھوٹے سے دستی بستے سے ہرے اورپیلے رنگوں پر مشتمل موتیوں کی مالانکالی اورمجھے تحفۃً دی اورساتھ ہی اپناای میل ایڈریس دیا کہ میں اُس سے رابطے میں رہوں۔پھراُس نے ہمیں وہاںآنے کی دعوت بھی دی۔اُس کاآخری جملہ جو میری سماعتوں میںآج بھی موجودہے‘وہ یہ تھا’’ باپو!یہ توویسے نہیں ہیں۔‘‘ وقت گزرجاتاہے‘سوگزرگیا۔میرااُس کے ساتھ کچھ ای میلوں کاتبادلہ ہوا۔پھرمیں غم ہائے روزگار میں اُلجھ گیا اوریقیناًوہ بھی اپنی مصروفیات میں کہیں رہ گئی ہوگی۔
آج مجھے وہ اوراُس کاباپوبے طرح یادآئے ہیں‘ جنھیں ہماری مٹی سے محبت ہے‘ ہمارے خلوص پراعتماد ہے۔ جنھیں ہمارے معاشرے اورلوگوں میں اپنائیت کااحساس ہوتا ہے۔میرے سامنے اخبارپھیلا ہے اوراُس میں امریکا کے حوالے سے ایک رپورٹ شائع ہوئی ہے‘جس میں ماضی کے چہرے سے گردجھاڑی گئی ہے۔اس رپورٹ میں بتایاگیا ہے کہ بھارت نے اپناپہلاجوہری دھماکا خطے میں بڑھتے ہوئے امریکی رجحان کی وجہ سے کیاتھا۔اُس وقت کے امریکی صدررکسن کادورۂ چین اُسے ہضم نہیں ہورہاتھا اوردوسری جانب پاکستان کی طرف اُس کاجھکاؤ بھی بہت تھا۔بھارت تناؤ کاشکار تھا اوراُس کے لیے ضروری تھا کہ وہ ایٹمی طاقت ہونے کااعلان کرے۔ یوں اُس نے پوکھران میں دھماکا کرڈالا۔ البتہ اس رپورٹ میں یہ بھی کہاگیا ہے کہ پاکستان کوتوڑنے کے بعدبھارت یہ چاہتاتھا کہ پاکستان انتقامی کارروائی سے بازرہے‘اس لیے بھی ان دھماکوں کاامکان موجودتھا۔
اگرچہ یہ رپورٹ سرسری انداز میں ظاہر ہوئی ہے اورخودامریکی میڈیا نے کی ہے مگر میں اسے دو حوالوں سے دیکھتا ہوں۔پہلاتویہ کہ اس کوظاہرکرنے کے لیے جس وقت کا انتخاب کیاگیا ہے‘وہ قابل توجہ ہے۔ہماری عسکری اورسیاسی قیادت امریکا کے حوالے سے تناؤ کاشکار ہے۔اس لیے وہ بہ ہرحال یہ چاہتا ہے کہ ہم’’نرم خوئی‘‘ پرآجائیں۔(اس کاایک ظہور برسلز میں ہیلری کلنٹن کے حالیہ بیان سے بھی ہوتا ہے‘ جس سے یوں محسوس ہوتا ہے کہ ڈاکٹرفردوس عاشق اعوان کی ذمہ داریاں وہ نبھارہی ہیں اورہمارے صدرمملکت کے حوالے سے بتا رہی ہیں کہ وہ جلدایوانِ صدر میں فرائض انجام دے رہے ہوں گے۔) دوسراحوالہ یہ ہے کہ وہ پاکستان کواخلاقی جوازفراہم کرناچاہتا ہے کہ اُس کی ایٹمی قوت دراصل بھارت کاردعمل ہے اوراس اخلاقی جوازکوامریکاتسلیم کرتا ہے۔اس میں اصل بات اخلاقی جواز نہیں بلکہ امریکاکاتسلیم کرنا ہے۔اسی بات کونمایاں کرنے کے لیے یہ رپورٹ منظرعام پرلائی گئی۔ ان معلومات کابہ نظرغائزجائزہ لیاجائے تواس کی مزیدپرتیں ہمارے سامنے کھل کرآجاتی ہیں۔ایک تویہ باورکرانے کی کوشش کی گئی ہے کہ امریکاپاکستان کادیرینہ دوست ہے‘جب بھارت اس کا مخالف تھا ‘ تب بھی وہ پاکستان کے ساتھ تھا اوراب بھی ہے۔اس لیے اُسے یہ غصہ اورتناؤچھوڑدیناچاہیے۔پھربین السطوریہ باورکرانے کی کوشش بھی کی جارہی ہے کہ بھارت کے ایٹمی اثاثوں سے پاکستان کوخطرہ نہیں ہوناچاہیے‘ کیوں کہ وہ تواس کے لیے بنائے ہی نہیں گئے تھے۔
بہ ہرحال جوبھی ہوایک بات کھل کرسامنے آگئی ہے کہ اس خطے میں ایٹمی ہتھیاروں کی دوڑخودامریکا کی وجہ سے عام ہوئی۔دوسرے لفظوں میں تخریب کابیج اس نے بویا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ اُس کی اس تخریب کاری کے بعدپاکستان عملاً ایٹمی طاقت بننے کے قابل ہوگیا اورآج دنیاکی ساتویں اورمسلم دنیا کی پہلی ایٹمی قوت ہونے پرنازاں بھی ہے۔کسی کے لیے بھی یہ کہنامشکل ہے کہ ہندومسلمانوں سے نفرت نہیں کرتے تھے مگرمیں یہ کہنے میں کچھ دشواری نہیں محسوس کرتا کہ اس نفرت کوہوا دینے میں امریکی طرزعمل خاص محرک کی حیثیت رکھتا ہے۔اُس کے ماضی کے فیصلے‘حال کے کارنامے اورمستقبل کی پیش قدمیاں اس خطے کے لیے دردناک ثابت ہوئی ہیں۔
آج کے منظرنامے میں مجھے مادھوی کورشدت سے یادآتی ہے۔ میرے پاس اُس کاایڈریس محفوظ ہوتاتومیں ضروراُسے اُس کاکہاہواجملہ’’باپو!یہ ویسے تونہیں ہیں‘‘ ضرور یوں کرکے سناتا’’ مادھوی! ہم ایسے تونہیں تھے۔‘‘ امریکادودھاری تلوارہے‘اس کی ایک کاٹ اگر ہم پرپڑی ہے تودوسری بھارت پرپڑے گی‘یہ وقت ثابت کرے گا۔
User avatar
چاند بابو
منتظم اعلٰی
منتظم اعلٰی
Posts: 22224
Joined: Mon Feb 25, 2008 3:46 pm
جنس:: مرد
Location: بوریوالا
Contact:

Re: ’’ باپو! یہ توویسے نہیں ہیں‘‘(از خاورچودھری)

Post by چاند بابو »

بہت خوب محترم خاور صاحب بہت بہترین تجزیہ کرنے کا بہت بہت شکریہ.
واقعی ہم ایسے نہیں تھے بلکہ ہمیں ایسا ثابت کیا گیا ہمیں ایسا بنا دیا گیا.
قصور ہو تو ہمارے حساب میں لکھ جائے
محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو
میں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو
بلال احمد
ناظم ویڈیو سیکشن
ناظم ویڈیو سیکشن
Posts: 11973
Joined: Sun Jun 27, 2010 7:28 pm
جنس:: مرد
Contact:

Re: ’’ باپو! یہ توویسے نہیں ہیں‘‘(از خاورچودھری)

Post by بلال احمد »

بہت عمدہ تجزیہ شیئر کرنے کا شکریہ
بڑی بے چین رہتی ہے طبیعت اب میری محسن
مجھے اب قتل ہونا ہے، مگر قاتل نہیں ملتا
اضواء
ٹیم ممبر
ٹیم ممبر
Posts: 40424
Joined: Sun Aug 15, 2010 4:26 am
جنس:: عورت
Location: {الدمام}المملكةالعربيةالسعوديه

Re: ’’ باپو! یہ توویسے نہیں ہیں‘‘(از خاورچودھری)

Post by اضواء »

بہترین تحریر پر آپ کا شکریہ ...
[center]یہ بھی انداز ہمارے ہے تمہیں کیا معلوم
ہم تمہیں جیت کے ہارے ہے تمہیں کیا معلوم[/center]
خاورچودھری
مدیر
مدیر
Posts: 202
Joined: Sun Mar 09, 2008 10:05 am

Re: ’’ باپو! یہ توویسے نہیں ہیں‘‘(از خاورچودھری)

Post by خاورچودھری »

:bismillah:;

چاند بابو
بلال احمد
اور اضوا
آپ سب کا شکر گزار ہوں
Post Reply

Return to “سیاست”