عظمت وحی:قسط1...حضرت شیخ الہند قدس سرہ کی ایک نایاب تحریر

مذاہب کے بارے میں گفتگو کی جگہ
Post Reply
احمداسد
کارکن
کارکن
Posts: 74
Joined: Fri Apr 15, 2011 6:54 pm
جنس:: مرد
Location: rawalpindi
Contact:

عظمت وحی:قسط1...حضرت شیخ الہند قدس سرہ کی ایک نایاب تحریر

Post by احمداسد »

افادات : شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن عثمانی نوراللہ مرقدہ

اضافہ عنوانات تقسیم پیراگراف : مولانا مدثرجمال تونسوی


بسم اﷲ الرحمن الرحیم

چو غلام آفتابم ہمہ ز آفتاب گویم
نہ شبم نہ شب پرستم کہ حدیث خواب گویم

وحی کالغوی واِصطلاحی معنیٰ:
وحی لغت عرب میں اشارہ، کتابت، مکتوب، رسالت، الہام ،القا کو کہتے ہیں اور اصطلاح اور عرف میں اُس کلام اور پیام کا نام ہے جو حضرت ربّ العزت کی طرف سے انبیاءعلیہم السلام پر نازل ہو ہر چند واسطہ، بلاواسطہ کے تفاوت اور وسائط کے اختلاف سے اُس کی متعدد اقسام ہوں مگر کلام الٰہی ہونے میں سب شریک ہیں۔ زید کا کلام بلا واسطہ سنو یا بواسطہ ہیلو گراف یا کتاب یا پیغام زبانی ہر حال میں اُس کو کلام زید کا کہنا درست ہوگا۔ گلستان کوئی پڑھے، کوئی لکھے کلامِ شیخ ہی سمجھا جائے گا بلکہ صرف مضمون جس کا ہوتا ہے اُسی کا کلام شمار کیا جاتا ہے الفاظ خواہ دوسرے کے ہوں اگر ہم کوئی مضمون کسی کو بتلا دیں اور وہ اُس کو زبانی اپنے الفاظ میں یاتحریراً اپنی عبارت میں بیان کرے اور دوسرے کو پہنچائے تو وہ ہمارا کلام اور ہمارا پیغام ضرور سمجھا جائے گا ،گودوسری وجہ سے اُس کو دوسرے کی طرف منسوب کرنا بھی غلط نہ ہو خلاصہ یہ کہ اصل کلام مضمون و معنی ہیں ،الفاظ و حروف اُس کے لئے عنوان اور اُس پر دالّ ہیں۔
قرآن کریم اوراحادیث سب وحی ہیں:
اب انشاءاﷲ تعالیٰ یہ بات بھی بسہولت سمجھ میں آجائے گی کہ قرآن شریف اور احادیث قدسیہ اور دیگر احادیث و اقوال نبویہ علی صاحبہا الصلوٰة و التسلیم سب کلام الٰہی اور وحی من اﷲ ہیں ،عوارض خاصہ اور بعض احکام میں گو اُن میں با ہم امتیاز ہو اور ضرور ہونا چاہئے مگر کلام الٰہی ہونے میں کوئی خِفا نہیں چنانچہ جملہ اکابر کے نزدیک بھی مسلم ہے کہ احادیث رسول علیہ السلام حتیٰ کہ اُن کا خواب بھی وحی ہی سمجھا جاتا ہے۔
وحی کامقامِ عظمت:
جب وحی کا مفہوم اور اُس کا مصداق اور اُس کے اقسام معلوم اور معین ہوچکے تو اب اُس کی عظمت اور صداقت میں کون کلام کرسکتا ہے جو دلیل کی حاجت ہو؟ جب کسی کو حاکم یا سلطان مان لیا جائے تو گنوار سے گنوار بھی اُس کا یہی مطلب سمجھتا ہے کہ اُس کے احکام واجب التسلیم ہیں ،ہاں اگر کوئی سلطان اور حاکم کے معنی ہی نہ سمجھے یہ دوسری بات ہے ۔یہ کسی طرح نہیں ہوسکتا کہ کوئی خدا کا تو قائل ہو اور اُس کے احکام کو واجب التسلیم نہ سمجھے اور بالفرض کوئی ایسا ہوتو اس کو ایمان کے ساتھ آدمیت سے بھی نکالنا پڑے گا بلکہ نکالنے سے پہلے خود نکل جائے گا کہ وہ حقیقت میں خدا ہی کا منکر ہے۔
وحی کے برابرعلم کااورکوئی ذریعہ نہیں:
اس کے بعد یہ التماس ہے کہ وحی کے واجب التسلیم ہونے کے ساتھ یہ امر بھی ضروری اوربدیہی ہے کہ جملہ ذرائع علم میں وحی کے برابر کوئی نہیں، جہل و خطا و نسیان کا اُس میں شائبہ تک نہیں ،اُس کے مقابلہ میں افلاطون و بقراط کے کلام کو کسی جاہل کو دن طفل مکتب کے کلام پر ہرگز فوقیت نہیں۔ کون نہیں جانتا کہ کلام کی عظمت اور اُس کی متابعت، فصاحت و بلاغت ، واقعیت و صداقت، تطابقِ حکمت و مصلحت کا مدار اُس کے متکلم پر ہوتا ہے جس درجہ کا متکلم ہو اُس درجہ کا کلام و قدر الشہادة قدرالشہود چنانچہ حضرت فخر عالم صلی اﷲ علیہ وعلی آلہ وسلم نے فرمایا کہ کلام الٰہی کو تمام مخلوقات کے کلام پر وہی فضیلت حاصل ہے جو حق جلّ و علیٰ شانہ کی ذات پاک کو تمام مخلوقات پر ،کلام الملوک ملوک الکلام کے قاعدے سے تو کلام الالٰہ الٰہ الکلام کہنا ضرور ہوگا، پھر کلام الٰہی کے برابر یا اُس سے زائد مخلوقات کا کلام کیسے ہوسکتا ہے بلکہ جیسے اُس کے مقابلہ میں کسی کی کچھ حقیقت نہیں ایسے ہی اُس کے کلام کے مقابلہ میں کسی کے کلام کی کچھ حقیقت نہ ہوگی ،سقراط اور ارسطو کے کلام کے روبرو پاگل دیوانہ کے کلام کی جتنی وقعت ہوسکتی ہے ربّ العزت کے کلام مقدس کے روبرو تمام مخلوقات کے کلام کی اتنی وقعت بھی نہیں ہوسکتی ،بالجملہ یہ امر بدیہی ہے کہ کلام الٰہی کے برابر ہرگز ہرگز کسی کا کلام قابل تسلیم اور واجب التعمیل نہیں ہوسکتا
ایک اشکال کاجواب:
اور اِس پر کوئی حُجتی بہت سے بہت کہے تو یہ کہہ سکتا ہے کہ ہم کو وحی الٰہی بلا واسطہ تو پہنچتی نہیں بیچ میں وسائط ضرور ہیں تاوقتے کہ اُن وسائط کی طرف سے اطمینان تامّ نہ ہو کلام الٰہی ہونے پر کیسے وثوق ہوسکتاہے۔صرف قائل کی صداقت کافی نہیں ہوسکتی اُس کے ساتھ ناقل کا صادق ہونا بھی ضرور ہے۔ تو وسائط کل دو ہیں ایک وحی لانے والا یعنی فرشتہ، دوسرے جس پر وحی لے کر آیا یعنی نبی اور رسول ،سو ان دونوں فریق کی صداقت اور عصمت باتفاق اہل عقل و نقل ایسی ظاہر و مُسلّم ہے کہ اصلاًحاجتِ بیان نہیں۔ کون نہیں جانتا کہ ملائکة الرحمن اور انبیائے کرام مقربین بارگاہ الٰہی سے ہیں ،لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ دنیا میں مقرب اور خواص بننے کے لئے سراپا اطاعت ہونا ضرور ہے اپنے مخالفوں کو اپنی بارگاہ میں کون گُھسنے دیتا ہے اور مسند قرب پر کون قدم رکھنے دیتا ہے اس لئے ضرور ہے کہ وہ مقرب جن پر اپنے اسرار اور مافی الضمیر آشکارا کئے جائیں اور منصب سفارت پر مقرر فرمائے جائیں اور سلسلہ ہدایتِ عالم اُن کے ساتھ وابستہ کیا جائے اور لایعصون اﷲ ما امرھم(وہ فرشتے اللہ کے حکم کی نافرمانی نہیں کرتے) اور ماآتکم الرسول فخذوہ وما نہاکم عنہ فانتھوا (رسول تمہیں جودے وہ لے لواورجس سے روکے اس سے رک جاو)فرما کر حق تعالیٰ نے اس کی صداقت کی کفالت فرمائی ہو ،معصوم اور ظاہر و باطن میں مطیع و فرماں بردار ضرور ہوں گے۔ سو اب ملائکہ اور حضرات انبیاءکی شان میں کوئی بے ہودہ خیال کرنا ہرگز اُنہیں تلک نہ رہے گا بلکہ اُس کی نوبت دور تک پہنچے گی۔ علاوہ ازیں حضرات ملائکہ کی طرف سے سوءِظنی تو اتنا بعید امر ہے کہ عاقل سے متوقع نہیں جو اُن کی اصلیت اور اُن کی حالت سے مطلع ہوگا جان لے گا کہ اُن میں رذائل کامادہ ہی نہیں اُن کی طرف کذب کا خیال ایسا ہی ہے جیسا کہ کوئی ناواقف اُن کی طرف اکل و شرب و توالدوتناسل کا خیال خام پکانے لگے۔
انبیاءعلیہم السلام کی صداقت:
البتہ حضرات انبیاءعلیہم السلام کے بشر ہونے کی وجہ سے شاید اُن کی نسبت کسی کو یہ خیال ستائے ،تو اس ضرورت سے جوابِ اوّل کے علاوہ دوسرا امر قابل التماس یہ ہے کہ ہم آپ سے پوچھتے ہیں کہ ہم کو اور تم کو جو کسی کے بہادر یا سخی یا باحیا یا عقلمند یار است باز یا امانت دار وغیرہ ہونے کا بسا اوقات یقین ہوتاہے تو اُس کی وجہ اس کے سوا کیا ہے کہ اُس کے تجربہ اور مشاہدہ احوال و افعال و اقوال سے ہم کو بسا اوقات ایسا یقین ہوجاتا ہے کہ جانبِ مخالف کا خیال بھی نہیں رہتا تو اب حضرات انبیاءعلیہم السلام کے بارے میں یہ قاعدہ مسلمہ کہاں جاتا رہا،اور حضرات علیہم السلام کو رہنے دیجئے۔ حضرت رسول عربی سید الانبیاءوالمرسلین علیہ السلام کے احوال و افعال و اقوال کو ملاحظہ فرما لیجئے کہ موافق و مخالف جو اُن کی حالت نقل کرتے ہیں بروئے انصاف اُس سے کیا نکلتا ہے ،کوئی دلیل جس سے اُن کی عقل و فہم و فراست و صداقت ،دیانت و امانت،سخاوت و شجاعت ،حیاءمتانت وغیرہ میں کمی بھی معلوم ہوتی ہو اگر ہوتو پیش کیجئے گا یا ہم آپ کو یہ دکھلاتے ہیں کہ اُن کے مخالف اور دشمن اُن کے کمالات کے کس قدر مدّاح ہیں یقیناً آپ کا کمالات حسنہ میں کامل ہونا اُس سے زیادہ قابل تسلیم ہے جیسے کہ رستم کی شجاعت و حاتم کی سخاوت مسلّم ہورہی ہے مگر تعصب و عناد کے علاج سے سب مجبور ہیں۔ کسی کی عقل میں آسکتا ہے کہ ایسا شخص جو صداقت و دیانت جملہ کمالات میں نظیرنہ رکھتا ہو وہ وحی خداوندی میں ایسا کرے اور جس نے مدت العمر کسی کے ساتھ کذب کا استعمال نہ کیا ہو وہ نعوذ باﷲ خداوند عالم پر جھوٹ لگائے ؟اِسی کے ساتھ بشرط فہم یہ امر بھی قابل لحاظ ہے کہ آپ پر جو وحی نازل ہوئی اُس کی کیا صورت ہوئی اور کیا کیا اسباب اور اہتمام اُس کے متعلق پیش آئے تاکہ اُس پر غور کرنے سے اہل فہم کو بالبداہت یہ معلوم ہو جائے کہ وحی الٰہی میں کسی قسم کے خلجان کی گنجائش نہیں اور وحی من اﷲ کوئی معمولی بات نہیں بلکہ نہایت اعلیٰ اور عظیم الشان امر ہے جس کے قابل کوئی ہی نکلتاہے اور پھر اُس پر نزول کی بھی خاص ہی شان ہوتی ہے اور پھر فرق مراتب کی وجہ سے ہر ایک وحی کا اہتمام اُسی کی شان کے موافق کیا جاتا ہے دیکھئے حضرت رسول اکرم نبی الانبیاءوالامم صلی اﷲ علیہ وسلم پر جو وحی نازل ہوئی جس کو اعلیٰ درجہ وحی کا کہنا چاہئے اُس کے حالات اور کیفیات کو ملاحظہ فرمائیے اور پھر جس کا جی چاہے انصاف سے کہہ دے کہ اُس میں کسی کوتاہی یا نقصان کی گنجائش ہوسکتی ہے؟ ہرگز نہیں! اس کی تفصیل کے لئے جو امام المحدثین امیر المومنین فی الحدیث نے صحیح بخاری میں بواسطہ احادیث بیان فرمایا ہے اُس کو بہت کافی سمجھتے ہیں۔
امام بخاری رحمہ اللہ سب سے پہلے وحی کاباب کیوں لائے؟
حضرت امام بخاری نے یہ کیا کہ اپنی کتاب میں سب سے اوّل باب کیف کان بداالوحی الی رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم منعقد فرمایا جس سے معلوم ہوگیاجملہ اصول وفروع حتی کہ ایمان اورعلم سب کاماخذومنشاءوحی الٰہی ہے اورتمام اصول و فروع وہی معتبر ہوسکتے ہیں جن کا ماخذوحی ہو اور اِس کتاب میں جو مذکورہوگا اصول ہوں یا فروع ،عبادات ہوں یا معاملات اُس کا ماخذ وحی ہوگی۔ اور اُس کی کیفیات اور اُس کے حالات بیان فرمانے سے حضرت امام رضی اﷲ عنہ و ارضاہ کی یہ بھی غرض معلوم ہوتی ہے کہ اُن کو سمجھ کر ہر کوئی سمجھ جاوے کہ بے شک وحی ہی اصل اصول ہے اور اُس کے روبرو کوئی مستحکم سے مستحکم دلیل بھی قابل قبول نہیں ہوسکتی۔ ترجمہ بیان کرکے اس کے بعد چند آیات و حدیث امام رحمہ اﷲ نے بیان فرمائیں جس سے کیفیات بدءِوحی کی توضیح ہو جائے اور اُس کی عظمت اور مفترض الطاعت ہونے میں کسی کوشبہ نہ رہے
دواہم باتیں:
مگر صرف دو باتوں کا خیال ضرور رہے، اوّل یہ کہ لفظ وحی میں جملہ اقسام مذکورہ بالا داخل ہیں، وحی متلوّ یعنی قرآن شریف ہی مقصود نہیں،دوسرے یہ کہ ابتدا سے کوئی خاص ابتدا منظور نہیں بلکہ عام ہے خواہ بلحاظ زمانہ ہو یا مکان یا باعتبار احوال خاصہ ہو یا اوصاف ،ترجمہ کے متصل ہی یہ آیت کریمہ” انا اوحینا الیک کما اوحینا الیٰ نوح والنبیین من بعدہ‘(بے شک ہم نے آپ کے پاس وحی بھیجی جیساکہ نوح اوران کے بعدوالے انبیاءکوبھیجی)‘ بیان کی جس سے معلوم ہوا کہ مبد اوحی یعنی جہاں سے یہ کلام صادر ہو وہ حق جلّ وعلیٰ شانہ ہے اور اسی طرح پر انبیائے سابقین پر وحی آئی جس سے معلوم ہوگیا کہ یہود ونصاریٰ وغیرہ کواس کا ماننا ایسا ہی پڑےگا جیسے اپنے انبیاءکی وحی کو تسلیم کرتے اور اس کا انکار گویا سب کا انکار ہے اور جن کو علم و عقل عنایت ہوا ہے وہ اس پر قناعت نہ فرمائیں بلکہ اس رکوع کو صراطاً مستقیماتک غور سے ملاحظہ کریں کہ وحی کی عظمت اور اس کی تاکید کس کس طرح سے کی گئی ہے۔ شاید کسی دوسرے موقع پر اتنی تاکیدات نہ ملیں جس سے امام بخاری رحمہ اﷲ کی فہم و تتبع کا پورا پتہ لگتا ہے۔ اس کے بعد چند روایات اور آیات کو بیان فرمایا جن کی تفصیل سے اس وقت بالکل قاصر ہوں۔
نبی کے خصائص:
ہاں بالا جمال یہ عرض ہے کہ اُن سے یہ معلوم ہوا کہ نبی کے لئے ضروری ہے کہ اس کی نیت اعلیٰ اور خالص ہو، نسب بہت اعلیٰ اور اخلاق و اعمال کامل ہوں۔ نقض عہد اور کذب سے مبّرا ہو ۔ مخالفین تلک اُس کی صدق و دیانت و عمدگی اخلاق و افعال کو تسلیم کرتے ہوں اور خاص جناب سید المرسلین ﷺکی نسبت یہ معلوم ہوا کہ آپ کو ابتداءسے وحی نہیں عنایت ہوئی بلکہ بڑے ہو جانے اور کامل العقل ہونے کے بعد یعنی چالیس سال کے بعد آپ کو وحی عطا ہوئی۔ اور فرشتوںمیں بھی خاص حضرت جبرائیل علیہ السلام جو افضل الملائکہ ہیں اس خدمت پر مامور ہوئے اور بہت سے مجاہدات و خلوات اورکثرت عبادات کے بعد۔
نزول وحی کی کیفیت:
اور ابتداءمیں یہ حالت ہوئی کہ کلمات عربی جو آپ کی زبان تھی اس کو نہ کہہ سکے مکرر سہ کرر جدوجہد کے بعد اُن چند کلمات کو کہہ تو لیا مگر نہ دل قابو میں نہ ہاتھ پیر۔ اس کی عظمت و ہیبت سے آپ کو یہاں تلک اندیشہ ہوا کہ شاید مرجاﺅں اور یہ نوبت بھی اوّل نہیں بلکہ کچھ عرصہ تک خواب میں اوّل آپ کو یہ حالات صادقہ پیش آچکے تھے اور یہ حالت تو آپ کی اخیر تلک رہی کہ نزول وحی کے وقت شدت سرما میں پسینہ بہنے لگتا تھا ،سوار ہوتے تھے تو سواری بیٹھ جاتی تھی ،کسی کے گھٹنے پر آپ کا گھٹنا ہوتا تو وہ یہ خیال کرتا کہ شاید میری ہڈی چُور چُور ہوجائے گی
روایات کاخلاصہ:
انہیں روایات سے یہ بھی معلوم ہوا کہ غار حرا جو آپ کا عبادت گاہ اور اعتکاف کی جگہ تھی وہاں اول وحی آئی اور یہ بھی معلوم ہوا کہ تمام مہینوں میں رمضان شریف کے مہینہ کو وحی سے زیادہ اختصاص ہے اور انہیں روایات سے یہ بھی مفہوم ہوتا ہے کہ چالیس برس کے بعد اور خوابوں کے بعد جب فرشتہ وحی لانے لگا تو پھر بھی متصلاً نہیں آئی بلکہ آکر ایک عرصہ تلک آنا بند رہا پھر جو آئی تو علی الاتصال آتی رہی۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ وحی کے محفوظ رہنے اور بجنسہ اُس کے لوگوں تک پہنچوا دینے کی حق تعالیٰ نے کفالت اور ذمہ داری فرمائی اور صاحب فہم کو اور امور بھی اُن روایات سے ایسے معلوم ہوتے ہیں جن سے عظمتِ وحی ہویدا ہے اور اُن کے سوا دیگر روایات سے ایسے حالات بکثرت اہل فہم کو معلوم ہوتے ہیں جن سے دو باتیں ضرور سمجھ میں آتی ہیں، اوّل تو وحی کی عظمت، دوسرے یہ کہ اس میں کسی طرف سے اندیشہ سہو و خطا وغیرہ نہیں ہوسکتا” لایاتیہ الباطل من بین یدیہ ولامن خلفہ“(باطل اس کے آگے سے آسکتاہے نہ پیچھے سے)
وحی متلواورغیرمتلودونوں کافی حجت ہیں:
حضرت امام بخاری رحمہ اﷲ کے اس طرز سے ہمارا مدعا ایک قسم کی وضاحت کے ساتھ ثابت ہوگیا کہ وحی جو بواسطہ رسول ہم کو پہنچتی ہے متلوّ ہو یا غیر متلوّ وہ ہمارے لئے ایسی کافی حجت ہے کہ اس کے ہوتے دوسری طرف نظر ڈالنی اور وہ بھی کیف ما اتفق بے شک خدا کی بندگی سے نکال کر شیطان کی بندگی میں داخل کردیتی ہے اور آپ کا ارشاد نہ فقط اہل اسلام پر بلکہ تمام اہل زمین پر بروئے انصاف ایسی حجت ہے کہ اُس کا ماننا ہر متنفس کو ضروری ہے اور اس کے مقابلہ میں اِدھر اُدھر جانا بالکل خام خیالی ہے اور مسلمانوں میں گو اس کو سب مانتے ہیں مگر ہم دیکھے ہیں کہ اپنے زور میں آکر ذرا اِدھر اُدھر ہوکر بہت دور نکل جاتے ہیں۔ الحذر،الحذر! اگر مقدر ہے تو شاید کسی وقت کچھ تفصیل کی بھی نوبت آجائے۔

یکے از عقل می لافد یکے طامات می بافد
بیاکیں داوریہا را بہ پیش داور اندازیم

والسّلام علی من اتّبع الہدی
مجیب منصور
مشاق
مشاق
Posts: 2577
Joined: Sat Aug 23, 2008 7:45 pm
جنس:: مرد
Location: کراچی۔خیرپور۔سندہ
Contact:

Re: عظمت وحی:قسط1...حضرت شیخ الہند قدس سرہ کی ایک نایاب تحری

Post by مجیب منصور »

جزاک اللہ بہترین تحریر ہے
اضواء
ٹیم ممبر
ٹیم ممبر
Posts: 40424
Joined: Sun Aug 15, 2010 4:26 am
جنس:: عورت
Location: {الدمام}المملكةالعربيةالسعوديه

Re: عظمت وحی:قسط1...حضرت شیخ الہند قدس سرہ کی ایک نایاب تحری

Post by اضواء »

موضوع ممیز و مفید ........

جزاك الله عنا كل خير .........
[center]یہ بھی انداز ہمارے ہے تمہیں کیا معلوم
ہم تمہیں جیت کے ہارے ہے تمہیں کیا معلوم[/center]
Post Reply

Return to “مذہبی گفتگو”