عظمتِ مقامِ نبوت(قسط :1)

مذاہب کے بارے میں گفتگو کی جگہ
Post Reply
احمداسد
کارکن
کارکن
Posts: 74
Joined: Fri Apr 15, 2011 6:54 pm
جنس:: مرد
Location: rawalpindi
Contact:

عظمتِ مقامِ نبوت(قسط :1)

Post by احمداسد »

تحریروترتیب: مولانا مدثر جمال تونسوی

منصب نبوت جس قدر عالی شان،رفیع المرتبت اور خاص عطیہ ربانی ہے،اسی قدر اسکی تشریحات وتوضیحات حد درجہ نازک، نہایت باریک اور بہت گہری ہیں،اس میدان میں قلم آزمائی کرنا بڑے دل گردے کا کام ہے،جو راسخ علم و معرفت، خاص توفیق الہٰی اور ہدایتِ ربانی کے بغیر ممکن نہیں۔اس نازک مقام کے حقائق و کمالات کے بیان میں جو کچھ بھی محقق اہل علم نے کہا ہے ،وہ انسانی فہم وبصیرت کی حد تک اس حقیقت کبریٰ کی جلوہ نمائی کے لیے تو یقینا کافی ہے لیکن یہ حقیقت اپنی جگہ قائم ہے کہ اس عظیم الشان منصب کی تہہ تک رسائی پا لینا ممکن نہیں ہے۔ محدث العصر مولانا بنوری رحمہ اللہ نے’’منصب نبوت کی اجمالی تشریح‘‘کے زیر عنوان رقم فرمایا ہے:
’’نبوت کی اصل حقیقت تو اسی رب العزت -قدّوس و سبّوح جلّ ذکرہ -کو معلوم ہے،جس نے نظام عالم کی ظاہری و باطنی اصلاح کے لیے اس ربانی عطیہ کی سنت عالم میں جاری کر دی تھی،یا پھر اس کو (معلوم ہے ) جو اس عطیہ الہی سے سرفراز کیا گیا ہو۔کسی اور پر اس کی پوری حقیقت کا روشن ہونا حقیقت سے بعید ہے،اس لیے کہ انسان کے پاس حقائقِ اشیاء کے معلوم کرنے کے لیے عقل ہے اور نبوت ایک ایسی حقیقت ہے جو عقل سے وراء الوراء ہے۔عقل و عقلیات کی سرحد جہاں ختم ہوتی ہے،وہاں سے نبوت کی سرحد شروع ہوتی ہے‘‘۔(بصائروعبر،ج:۱،ص:۱۵۵)
اس اجمالی تشریح کے بعد حضرت بنوری نے ان محققین کے بڑے بڑے نام گنوائے ہیں جنہوں نے اس نازک موضوع پر قلم فرسائی کی ہے اور انہی کے ضمن میں محققین ہند کے تذکرے میں حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی قدس سرہ اور حضرت مولانا قاسم نانوتوی قدس سرہ کے اسماء گرامی کو سر فہرست قرار دیا ہے۔جو اپنی جگہ بالکل درست اور قرین حقیقت ہے۔مگر راقم السطور اس جگہ اس حقیقت کا اظہار ضروری سمجھتا ہے کہ ان علماء و محققین کی فہرست میں حجۃ الاسلام حضرت شاہ اسماعیل شہید قدس سرہ کا نام نامی بھی نمایاںطور سے شریک کرنے کے قابل ہے۔ہمارے اس دعوے کی بنیاد وہ تحریر ہے جوحضرت شاہ شہید نے اپنی بصیرت افروز ،منفرد اور شاہکارِ اجتہاد و تحقیق کتاب ’’منصب اِمامت‘‘میں رقم فرمائی ہے۔چونکہ یہ کتاب بنیادی طور پر’ منصب امامت‘ اور اسکے متعلقہ ضروری امورومباحث کی تفصیل وتوضیح کے لیے لکھی گئی ہے،اس لئے اس میں موجود یہ اہم علمی و تحقیقی بحث اوجھل سی ہو گئی ہے۔حضرت شاہ شہید نے منصب امامت کی توضیح سے قبل واضح طور پر باب اول کی فصل اول میں کہا ہے:
’’اس فصل میں حضرات انبیاء کرام کے ان کمالات کاذکر ہے جو اِمامت کے مفہوم کو واضح کرتے ہیں‘‘
غالباً اس وجہ سے کہ یہ بحث ضمنی تھی،اس لیے نظروں سے اوجھل رہی، ورنہ بلا مبالغہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ حضرت شاہ شہید صاحب نے اس موضوع پر جو کچھ تحریر کیا ہے وہ اپنی مثال آپ ہے اور اس موضوع پر خامہ فرسائی کرنے والے دیگر اہل علم باوجود اپنی قدرو منزلت کے اس مقام تک کم پہنچ سکے ہیں۔شاید اسی لیے حضرت بنوری نے اس کتاب میں مذکور علوم واَفکار کو ’’اجتہادی اَفکار‘‘کہا ہے۔حضرت بنوری نے اس کتاب کے متعلق جو تحریرفرمایا وہ پورا اقتباس درج ذیل ہے:
’’جب آپ (شاہ اسماعیل شہید)کسی موضوع پر قلم اٹھاتے ہیں تو آپ کی علمیت کے جوہر کھلتے ہیں۔ایسا معلوم ہوتا ہے کہ غیب کے پردوں سے اجتہاد کے چشمے اُبل پڑے ہیں، جو آپ کے باغِ علم کی آبیاری کر رہے ہیں۔اس سلسلہ میں آپ کی چند تصانیف کی مثال دینا کافی ہے۔(پھر منصب امامت کے بارے میں لکھتے ہیں)اور ’’منصب امامت‘‘دیکھئے،جو ’حکومت الہٰیہ علی منہاج النبوۃ‘ کے موضوع پر ہے۔اس میں اس حکومت کے اصول ومبادی کی کیسی اچھی وضاحت کی ہے اور اسکے مبادی کو کس عمدہ طریق پر بیان کیا ہے۔
یہ کتاب واقعی اپنے موضوع پر ایک منفرد کتاب ہے۔جس میں آپ کے اجتہادی افکار پوری آب و تاب سے ظاہر ہوتے ہیں۔اپنے طرز بیان میں بھی منفرد ہے اور عمدہ ترتیب و عمدہ اسلوب میں بھی ممتاز ہے ۔ یہ کتاب ایسی بصیرت افروز ہے کہ پڑھنے والے کے دل میں خلافت اور حکومت اسلامیہ کے لیے مضبوط اُمیدیں بندھ جاتی ہیں اور اسکے فوائد روشن ہو جاتے ہیں‘‘۔
(مقدمہ:بدعت کی حقیقت اور اس کے احکام،ص:15،14)
ان تمہیدی باتوں کے بعد اب حضرت شاہ صاحب کے افکار و تحقیقات اور نادر علمی تدقیقات جو عمدہ ترتیب وتہذیب سے انہوں نے پیش کی ہے، انکو تسہیل و توضیح کے ساتھ بیان کیا جاتا ہے۔ ان تفصیلات سے قبل یہ حقیقت اچھی طرح ذہن نشین رہنی چاہئے کہ اس بات پرتمام اہل علم، اصحاب تحقیق اور عارفان حقیقت کا اتفاق ہے کہ منصب نبوت کے درجات وکمالات کا احاطہ اور ان تک پوری رسائی ناممکن ہے۔ باری تعالیٰ کا ارشاد ہے:
اللہ اعلم حیث یجعل رسالتہ
ترجمہ:اللہ ہی خوب جانتا ہے کہ اپنے عطیہ رسالت و نبوت سے کس کو شرف بخشے۔
البتہ علمائے اسلام نے خداداد فہم وبصیرت سے اس بحر معرفت کی غواصی کر کے بہت سے علمی موتی حاصل کیے ہیں جو انہوں نے اپنی زبان و اسلوب کے سانچے میں ڈھال کرامت کو پیش کیے ہیں۔ اس بارے میں علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی ’’ النبوات ‘‘حضرت مجدد الف ثانی رحمہ اللہ کی’’اثبات النبوۃ‘‘اور حضرت شاہ ولی اللہ صاحب رحمہ اللہ کی ’’حجۃ اللہ البالغہ‘‘کا نام خاص طور پر ذکر کیا جا سکتا ہے۔
حضرت شاہ شہید نے بھی یہ دعویٰ نہیں کیا کہ انہوں نے اپنی تحریر میں اس مقام کے درجات وکمالات کا احاطہ کر لیا ہے بلکہ اسے نا ممکن قرار دیا ہے اورصاف کہہ دیاہے کہ اس تحریر میں ان کمالات کا بیان کروں گاجو حقیقت امامت سے تعلق رکھتے ہیں کیوں کہ انبیاء کرام منصب نبوت کے ساتھ اپنی قوم و اُمت کے حق میں ’’امام‘‘بھی ہوتے ہیں، تو یقینا وہ کمالات امامت سے بھی متصف ہوتے ہیں۔اگلی بات خود شاہ صاحب کی زبانی سنیے:
’’امام،رسول کانائب،اور اِمامت ظلّ رسالت ہے۔نائب کے احکام کو منیب سے پہچانا اور ظلّ کی حقیقت کو اصل سے معلوم کیا جاتا ہے۔لہذا اس مقام پر انبیاء علیہم السلام کے ان کمالات کا ذکر کیا جاتا ہے جو امامت کے مفہوم کو واضح کرتے ہیں ۔انبیاء کرام کے درجات و کمالات اتنے زیادہ ہیں کہ ان کا شمار و احاطہ مجھ جیسے اُمتی سے مشکل بلکہ ناممکن ہے ، لیکن میں ان کمالات کا ذکر کروں گا جو حقیقت امامت سے تعلق رکھتے ہیں‘‘۔
اس کے بعدآپ نے بتایا ہے کہ انبیاء کرام کو منصب نبوت کے ساتھ جو امامت ملتی ہے اس میں پانچ کمالات بنیادی ہیں اور پھر ان میں سے ہردرجے وکمال کی متعدد شاخیں ہیںاور یہ تمام کمالات اس خوبصورتی سے نبوت کی لڑی میں پرو دیئے جاتے ہیں، جسے دیکھ کرحضرات انبیاء کرام علیہم السلام کی عظمت ومحبت دل میں پیوست ہوجاتی ہے۔یہ پانچ بنیادی کمالات یوں بیان فرمائے ہیں:
’’دین کی پیش وائی یا یوں سمجھئے کہ قوم کی راہبری کا مرجع اور منبع پانچ اصولوں پر ہے۔ (1)وجاہت (2)ولایت(3)بعثت(4)ہدایت(5)سیا ست‘‘۔
اس تمہید کے بعد حضرت شاہ شہید صاحب نے بڑی تفصیل اور عمدگی سے ان کمالات کی تحقیق و توضیح سپرد قلم کی ہے اور ان کے ضمن میں ایمان افروز ،حقیقت کشا اور جاذب نظرادیبانہ عبارات لائے ہیں اور کمالات کی شرح و توضیح میں علم وتحقیق اور معرفت و حقائق کے دلچسپ ،نادر اور دقیق و غریب نکات و لطائف بھی تحریرکئے ہیں۔ اب ان پانچ کمالات میں سے پہلے کمال وصف وجاہت کی تفصیل وتشریح ذکر کی جاتی ہے۔
وجاہت کی توضیح:
حضرت شاہ شہید کے بیان مطابق ’’وجاہت‘‘ کے مفہوم میں تین باتیں شامل ہیں :
(1)اللہ تعالیٰ کے ہاں محبوبیت(2)ملائکہ مقرّبین میں عزت (3)نیک بندوں کیلئے وسیلۂ فیض (جس کوسیادت سے بھی تعبیر کیاہے)۔گویاوجاہت کاوصف تین باتوں سے مرکب ہے ۔ محبوبیت،عزت اور سیادت ۔ یہ عظیم منصب انبیائے کرام کو اللہ تعالی کی طرف سے عطاء کیا جاتا ہے۔جیسا کہ حضرت عیسی علیہ السلام سے متعلق ارشاد ربانی ہے:
’’ جب فرشتوں نے کہا:اے مریم !اللہ خوشخبری دیتا ہے تجھ کو اپنے ایک حکم کی ،جس کا نام مسیح ابن مریم ہے،دنیا وآخرت میں وجیہ اور مقربوں میں سے ہے‘‘۔
اور حضرت موسی علیہ السلام کے بارے میں فرمایا ہے:
’’ اے ایمان والو!ان لوگوںکی مانندنہ ہوجائوجنہوں نے موسی علیہ السلام کوتکلیف دی،پس بری کردیا اللہ نے اس کو اس سے جو وہ کہتے تھے۔وہ تواللہ کے نزدیک وجیہ ومقرب تھے‘‘۔
اس مقام پرحضرت شاہ شہید یہ بھی بتاتے ہیں کہ وجاہت کی دو قسمیں ہیں۔ایک وجاہت اِجتبائی (وہبی)،دوسری وجاہتِ کسبی (جونیک اعمال کی پابندی سے حاصل کیجائے)۔پھران دونوں قسموں کو ایک ایک مثال سے سمجھانے کے بعد قرآنی آیات وحدیث میں موجود ان کے اشارات پر متنبہ کیا ہے۔ وہ مثالیں اور اشارات ملاحظہ کریں:
’’وجاہت کسبی کی مثال ،یوں سمجھئے کہ اُمراء اور رؤساء کو بادشاہوں کے دربارمیں ایک خاص وجاہت (عزّت)حاصل ہوتی ہے۔لیکن اس کا حصول دو طرح سے ہوتاہے۔اول یہ کہ بعض نے بادشاہ کی پسندکے ذاتی کمال حاصل کیے،اس کے حسب خواہش خدمت انجام دی اور بہت سے رنج آمیزاور تکلیف دہ اوامر کی بجاآوری میں اپنی جان کو ہلکان کیا اور جان ومال اور عزت و آبرو کو اس کی اِطاعت میں صرف کردیا۔پس اس کی لیاقت اوراطاعت کے سبب آقا کی نظرِ عنایت اس پر ہو گئی اور اس کووجاہت وبرتری کا مقام حاصل ہوگیا۔وجاہت اجتبائی کی مثال یوں سمجھئے، جیسے بادشاہ ارادہ کرتا ہے کہ کسی کو تادیب وتعلیم دے کر امارت ووزارت کے منصب پر فائز کرے۔بنابریںاس نے اپنی رعایا میں سے ایک لڑکے کو ممتاز فرما کر، نائب خا ص کے نام سے سرفراز کیا اور اس کی تادیب وتربیت میں ولی اور کفیل ہو کر اس کی پرورش کی۔اوراُس کے نہال تربیت کو اپنی عنایت کے زلال(چشمے) سے پانی دیا۔یہاں تک کہ اس کو اپنی حمایت کے سائے میں نشو ونما کے کمال تک پہنچا دیااور جس منصب پراسے فائزالمرام کرناتھا سرفراز فرمادیا۔اگرچہ متذکرہ منصب سطحی نظرسے اس کے کمالات ظاہری کانتیجہ ہوتاہے۔لیکن دراصل یہ منصب مذکور پر مأمورکرنے کے لیے پرورش کیا جارہاتھا۔پس یہ منصب،وجاہتِ اول(وجاہت اجتبائی) کا نتیجہ ہوااورحصول کمالات وادائے خدمات اس کے فروعات سے ہیں۔پس وجاہت اول تحصیل کمالات وادائے خدمات پر مترتب ہے۔برخلاف دوسری کے کہ کمالات کا حصول وجاہت پر مبنی ہے۔
اسی طرح خاص بندگان خداکوبادشاہ مطلق ومالک ومختارکے حضور میں منصب وجاہت دوہی طریق سے حاصل ہوتاہے ۔اول اجتبائی یعنی خداوندتعالی خودودیعت فرمائے۔دوم عبادت کا نتیجہ یعنی کسبی۔چنانچہ حدیث لایزال عبدی یتقرب بالنوافل(الحدیث)وجاہت کسبی کی طرف اشارہ کرتی ہے، اور آیات واصطنعتک لنفسی(طہ)، واجتبیناہم وہدیناہم الی صراط مستقیم(انعام) ، والقیت علیک محبۃ منی ولتصنع علی عینی(طہ) اور حدیث: اولئک عزمت کرامتہم بیدی میں وجاہت اجتبائی(وہبی)کااشارہ ہے۔اوریہ منصب ان خاص بندگان خداسے مخصوص ہے جو انبیاء اور مرسلین کے نام نامی سے مخاطب کیے جاتے ہیں۔(منصب امامت)
User avatar
چاند بابو
منتظم اعلٰی
منتظم اعلٰی
Posts: 22224
Joined: Mon Feb 25, 2008 3:46 pm
جنس:: مرد
Location: بوریوالا
Contact:

Re: عظمتِ مقامِ نبوت(قسط :1)

Post by چاند بابو »

جزاک اللہ نہایت مفصل مضمون شئیر کرنے پر محترم احمد اسد صاحب کا شکر گزار ہوں.
قصور ہو تو ہمارے حساب میں لکھ جائے
محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو
میں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو
عبیداللہ عبید
ماہر
Posts: 512
Joined: Mon Dec 29, 2008 6:26 pm
جنس:: مرد
Location: Pakistan

Re: عظمتِ مقامِ نبوت(قسط :1)

Post by عبیداللہ عبید »

شکریہ بھائی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اضواء
ٹیم ممبر
ٹیم ممبر
Posts: 40424
Joined: Sun Aug 15, 2010 4:26 am
جنس:: عورت
Location: {الدمام}المملكةالعربيةالسعوديه

Re: عظمتِ مقامِ نبوت(قسط :1)

Post by اضواء »

احسنت و اللہ یجزاکم الخیر

شئیرنگ پر آپ کا بہت بہت شکریہ
[center]یہ بھی انداز ہمارے ہے تمہیں کیا معلوم
ہم تمہیں جیت کے ہارے ہے تمہیں کیا معلوم[/center]
Post Reply

Return to “مذہبی گفتگو”