’ریمنڈ ڈیوس کو مکمل سفارتی استثنیٰ حاصل نہیں ہے‘
Posted: Wed Feb 16, 2011 3:18 pm
پاکستان کے سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ دو پاکستانی شہریوں کے قتل میں گرفتار امریکی اہلکار ریمنڈ ڈیوس کو ملکی اور بین الاقوامی قوانین کے تحت مکمل استثنی حاصل نہیں ہے اور انہوں نے یہ رائے وزارت خارجہ کی مشاورت اور حقائق کا جائزہ لینے کے بعد قائم کی ہے۔
وفاقی کابینہ کی تحلیل اور وزیر خارجہ کے منصب سے ہٹائے جانے کے بعد پہلی بار اسلام آباد میں اخباری کانفرنس سے خطاب کرتے انہوں نے کہا کہ وہ اس معاملے پر پہلے اس لیے نہیں کھل کر نہیں بولے تھے کیونکہ انہیں اس پر خاموشی اختیار کرنے کا حکم دیا گیا تھا۔
شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ ریمنڈ ڈیوس کے متعلق یہ موقف اختیار کرنے کے لیے ان پر پاکستانی فوج اور اس کے خفیہ ادارے آئی ایس آئی کا کوئی دباؤ نہیں ہے بلکہ ان کے بقول ان پر ان کے ضمیر کے دباؤ ہے۔شاہ محمود قریشی کے بقول انہوں نے ایسا کر کے اصل میں وزارت خارجہ کی ترجمانی کی اور اس معاملے پر اب بھی وزارت خارجہ کا ہر افسر ان کے ساتھ کھڑا ہے۔
’وزارت خارجہ میں مجھے اکتیس جنوی کو جو بریفنگ دی گئی اس میں مجھے بتایا گیا کہ ہماری ماہرانہ رائے یہ کہتی ہے کہ جو امریکہ کا سفارتخانہ مکمل استثنیٰ کا مطالبہ کر رہا ہے ہماری رائے میں (ریمنڈ ڈیوس کے معاملے میں) وہ مکمل استثنی نہیں بنتا۔‘انہوں نے کہا کہ دفتر خارجہ نے ان کے سامنے ریمنڈ ڈیوس کے متعلق جو دستاویزات رکھیں ان کے گہرے مطالعے اور غور وخوض کے بعد وہ بھی اسی نتیجے پر پہنچے کہ ڈیوس کو مکمل استثنی حاصل نہیں۔
پریس کانفرنس میں انہوں نے کہا کہ کئی بار قومی وقار کے لیے سر اٹھانا پڑتا ہے۔’ہم نے سر جھکانا سیکھا ہے۔ یہ وقت سر جھکانے کا نہیں اٹھانے کا ہے۔ پاکستان کی عوام جھکا ہوا سر نہیں اٹھا ہوا سر دیکھنا چاہتی ہے۔‘
اخباری کانفرنس کے دوران معتدل مزاج اور دھیمے لہجے والے شاہ محمود قریشی خاصے برہم نظر آ رہے تھے اور انہوں نے نہ صرف وزارت خارجہ کا قلمدان واپس لیے جانے پر کھل کر غم و غصے کا اظہار کیا بلکہ اپنی جماعت کے ان ارکان کے بیانات کا بھی جواب دیا جو پارٹی کے نکتہ نظر سے اختلاف کرنے پر انہیں تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔
انہوں نے تصدیق کی کہ خارجہ کے بعد انہیں پانی اور بجلی کی وزارت کی پیشکش کی گئی لیکن ان کے بقول انہوں نے اسے اس لیے قبول نہیں کیا کیونکہ ’یہ میری ذات کا سوال نہیں بلکہ یہ سوال تھا اس کام کا، جو میں نے (بحیثیت وزیر خارجہ) شروع کیے تھے۔‘
انہوں نے امریکہ کے ساتھ سٹریٹیجک تعلقات، یورپی یونین اور آسیان کے ساتھ تعلقات میں پیش رفت اور بھارت کو مذاکرات کی میز پر واپس لانے سے لے کر افغانستان سے پاکستان کے تعلقات کی بہتری اور خاص طور پر امریکہ، افغانستان اور پاکستان کے سہہ فریقی مذاکرات کے آغاز کو اپنے کارناموں کے طور پر بیان کیا۔
’(امریکہ کی افغانستان سے متعلق نظر ثانی شدہ پالیسی کے اعلان سے پہلے) میں نے واشنگٹن میں پاکستان کے سیاسی چہرے کی نمائندگی کی اور میرے ساتھ پاکستان کی جو سکیورٹی سٹیبلشمینٹ کے قابل قدر اور نمایاں حضرات ڈائریکٹر جنرل آئی ایس آئی جنرل پاشا اور ڈائریکٹر جنرل ملٹری آپریشنز جنرل جاوید اقبال بھی موجود تھے اور اللہ کے فضل و کرم سے ہم نے پاکستان کا نکتہ نظر پیش کیا۔‘
بی بی سی کے نامہ نگار احمد رضا کے مطابق سابق وزیر خارجہ نے اخباری کانفرنس کے دوران ایک سے زیادہ مرتبہ موجودہ حکومت کی خارجہ پالیسی کو اپنی ذاتی کاوش کے طور پر پیش کیا اور کسی موقع پر بھی یہ تاثر نہیں دیا کہ موجودہ حکومت کی خارجہ پالیسی مشترکہ سوچ کا نتیجہ ہے۔
انہوں نے ایک سے زیادہ مرتبہ کہا کہ ’میرے پاس پاکستان کی خارجہ پالیسی کی ایک سمت ہے جو میں نے دی ہے۔ میرا یہ کہنا ہے کہ مجھے وہ کرنے دیں جو میں کررہا ہوں۔‘شاہ محمود قریشی نے اپنی جماعت کے ارکان کی جانب سے ہونے والی تنقید کا ذکر کرتے کہا کہ ’فاروق لغاری نے اپنی حکومت پر وار کیا تھا، شاہ محمود تو وار سے اپنی حکومت اور پارٹی کو بچانا چاہ رہا ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ وہ اپنی جماعت کی قیادت اور کارکنوں کے سامنے خود کو پیش کرنے کے لیے تیار ہیں۔’اور اگر مجھے سننے کے بعد میں جھوٹا ثابت ہوں تو پیپلز پارٹی کا کارکن ریگل چوک پر الٹا لٹکادیں۔‘
بی بی سی
وفاقی کابینہ کی تحلیل اور وزیر خارجہ کے منصب سے ہٹائے جانے کے بعد پہلی بار اسلام آباد میں اخباری کانفرنس سے خطاب کرتے انہوں نے کہا کہ وہ اس معاملے پر پہلے اس لیے نہیں کھل کر نہیں بولے تھے کیونکہ انہیں اس پر خاموشی اختیار کرنے کا حکم دیا گیا تھا۔
شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ ریمنڈ ڈیوس کے متعلق یہ موقف اختیار کرنے کے لیے ان پر پاکستانی فوج اور اس کے خفیہ ادارے آئی ایس آئی کا کوئی دباؤ نہیں ہے بلکہ ان کے بقول ان پر ان کے ضمیر کے دباؤ ہے۔شاہ محمود قریشی کے بقول انہوں نے ایسا کر کے اصل میں وزارت خارجہ کی ترجمانی کی اور اس معاملے پر اب بھی وزارت خارجہ کا ہر افسر ان کے ساتھ کھڑا ہے۔
’وزارت خارجہ میں مجھے اکتیس جنوی کو جو بریفنگ دی گئی اس میں مجھے بتایا گیا کہ ہماری ماہرانہ رائے یہ کہتی ہے کہ جو امریکہ کا سفارتخانہ مکمل استثنیٰ کا مطالبہ کر رہا ہے ہماری رائے میں (ریمنڈ ڈیوس کے معاملے میں) وہ مکمل استثنی نہیں بنتا۔‘انہوں نے کہا کہ دفتر خارجہ نے ان کے سامنے ریمنڈ ڈیوس کے متعلق جو دستاویزات رکھیں ان کے گہرے مطالعے اور غور وخوض کے بعد وہ بھی اسی نتیجے پر پہنچے کہ ڈیوس کو مکمل استثنی حاصل نہیں۔
پریس کانفرنس میں انہوں نے کہا کہ کئی بار قومی وقار کے لیے سر اٹھانا پڑتا ہے۔’ہم نے سر جھکانا سیکھا ہے۔ یہ وقت سر جھکانے کا نہیں اٹھانے کا ہے۔ پاکستان کی عوام جھکا ہوا سر نہیں اٹھا ہوا سر دیکھنا چاہتی ہے۔‘
اخباری کانفرنس کے دوران معتدل مزاج اور دھیمے لہجے والے شاہ محمود قریشی خاصے برہم نظر آ رہے تھے اور انہوں نے نہ صرف وزارت خارجہ کا قلمدان واپس لیے جانے پر کھل کر غم و غصے کا اظہار کیا بلکہ اپنی جماعت کے ان ارکان کے بیانات کا بھی جواب دیا جو پارٹی کے نکتہ نظر سے اختلاف کرنے پر انہیں تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔
انہوں نے تصدیق کی کہ خارجہ کے بعد انہیں پانی اور بجلی کی وزارت کی پیشکش کی گئی لیکن ان کے بقول انہوں نے اسے اس لیے قبول نہیں کیا کیونکہ ’یہ میری ذات کا سوال نہیں بلکہ یہ سوال تھا اس کام کا، جو میں نے (بحیثیت وزیر خارجہ) شروع کیے تھے۔‘
انہوں نے امریکہ کے ساتھ سٹریٹیجک تعلقات، یورپی یونین اور آسیان کے ساتھ تعلقات میں پیش رفت اور بھارت کو مذاکرات کی میز پر واپس لانے سے لے کر افغانستان سے پاکستان کے تعلقات کی بہتری اور خاص طور پر امریکہ، افغانستان اور پاکستان کے سہہ فریقی مذاکرات کے آغاز کو اپنے کارناموں کے طور پر بیان کیا۔
’(امریکہ کی افغانستان سے متعلق نظر ثانی شدہ پالیسی کے اعلان سے پہلے) میں نے واشنگٹن میں پاکستان کے سیاسی چہرے کی نمائندگی کی اور میرے ساتھ پاکستان کی جو سکیورٹی سٹیبلشمینٹ کے قابل قدر اور نمایاں حضرات ڈائریکٹر جنرل آئی ایس آئی جنرل پاشا اور ڈائریکٹر جنرل ملٹری آپریشنز جنرل جاوید اقبال بھی موجود تھے اور اللہ کے فضل و کرم سے ہم نے پاکستان کا نکتہ نظر پیش کیا۔‘
بی بی سی کے نامہ نگار احمد رضا کے مطابق سابق وزیر خارجہ نے اخباری کانفرنس کے دوران ایک سے زیادہ مرتبہ موجودہ حکومت کی خارجہ پالیسی کو اپنی ذاتی کاوش کے طور پر پیش کیا اور کسی موقع پر بھی یہ تاثر نہیں دیا کہ موجودہ حکومت کی خارجہ پالیسی مشترکہ سوچ کا نتیجہ ہے۔
انہوں نے ایک سے زیادہ مرتبہ کہا کہ ’میرے پاس پاکستان کی خارجہ پالیسی کی ایک سمت ہے جو میں نے دی ہے۔ میرا یہ کہنا ہے کہ مجھے وہ کرنے دیں جو میں کررہا ہوں۔‘شاہ محمود قریشی نے اپنی جماعت کے ارکان کی جانب سے ہونے والی تنقید کا ذکر کرتے کہا کہ ’فاروق لغاری نے اپنی حکومت پر وار کیا تھا، شاہ محمود تو وار سے اپنی حکومت اور پارٹی کو بچانا چاہ رہا ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ وہ اپنی جماعت کی قیادت اور کارکنوں کے سامنے خود کو پیش کرنے کے لیے تیار ہیں۔’اور اگر مجھے سننے کے بعد میں جھوٹا ثابت ہوں تو پیپلز پارٹی کا کارکن ریگل چوک پر الٹا لٹکادیں۔‘
بی بی سی