Page 1 of 1

علامہ سید سلیمان ندوی

Posted: Wed Feb 02, 2011 4:19 pm
by نورمحمد
[center]علامہ سید سلیمان ندوی[/center]

علامہ سید سلیمان ندوی22 نومبر1884ء کو دیسنہ پٹنہ میں پیدا ہوئے، آپ کے والد حکیم ابوالحسن ایک سنجیدہ عالم دین، ریاست اسلام پورہ کے شاہی طبیب اور نقش بندی ابوالعلائی سلسلہ کے شیخ کامل تھے۔ ابھی آپ نے مولانا ابوحبیب سے ابتدائی تعلیم پاکر اپنے والد ماجد سے کچھ کتابیں ختم کی تھیں کہ 1899ء میں پھلواری شریف پٹنہ بھیج دیے گئے۔ وہاں ایک برس تک مولانا محی الدین سجادہ نشین سے کچھ اور کتابوں کی تکمیل فرمائی۔1901ء میں ندوة العلماء لکھنو میں داخلہ لیا اور 1906ء میں سندِ فراغ حاصل کی ۔ ندوہ میں حضرت علامہ کو شبلی نعمانی کی آغوش تربیت میسر آئی جس میں خداداد صلاحیتوں کو نشو ونما پانے کا بہترین موقعہ ملا۔ مولانا شبلی کو اپنے انتقال سے پہلے سیرت نبوی کی ناتمامی کا رنج اور اس کی تکمیل کی فکر تھی، چناں چہ انہوں نے سیرة النبی کے تمام مسودات کپڑے میں بندھوا کر ایک الماری میں مقفل کرادیے اور وصیت کی کہ ”یہ مسودے حمید الدین فراہی اور سید سلیمان کے علاہ کسی اور کو ہر گز نہ دیے جائیں“ اس سے استاد کا اپنے شاگرد پر خصوصی اعتماد ظاہر ہے ۔ حضرت سید صاحب فارغ التحصیل ہونے کے فوراً بعد الندوہ جیسے بلند پایہ علمی ماہنامہ کے ایڈیٹر مقرر ہوئے۔ اس ڈھائی تین سالہ دور میں انہوں نے علوم وفنون پر ایسے بلند پایہ مضامین لکھے کہ جدید وقدیم حلقوں میں ان کی دھاک بیٹھ گئی، ان مضامین میں اسلام اور اشتراکیت، علم ہیئت اور مسلمان ، اسلامی رصد خانے، مکررات القرآن اور طبقات ابن سعد کا تعارف شامل ہیں ۔ اسی زمانہ میں آپ کو ندوہ میں استاد مقرر کیا گیا، بعد میں آپ پونہ کالج تشریف لے گئے اور یہیں اپنی مشہور کتاب” خیام“ تحریر فرمائی ،جس کے متعلق علامہ اقبال نے فرمایا کہ” عمر خیام پر آپ نے جوکچھ لکھ دیا ہے اس پر کوئی مشرقی یا مغربی عالم اضافہ نہ کرسکے گا، الحمدلله کہ اس بحث کا خاتمہ آپ کی تصنیف پر ہوا۔“ علامہ اقبال حضرت سید صاحب کے بے حد معترف اور گرویدہ تھے او رکئی مسائل میں آپ سے استفادہ کیا کرتے تھے۔ ایک خط میں علامہ اقبال لکھتے ہیں ”مولانا شبلی کے بعد آپ استاذ الکل ہیں ۔ علوم اسلامیہ کی جوئے شیر کافر ہاد آج کل ہندوستان میں سوائے سلیمان ندوی کے اور کون ہے۔“

حضرت تھانوی سے تعلق
حضرت علامہ کو تلاشِ شیخ کی جستجو میں حضرت تھانوی سے کس طرح تعلق پیدا ہوا۔ وہ بھی ایک دلچسپ واقعہ ہے ۔ مفتی عبداللطیف ( مفتی ریاست حیدر آباد دکن) نے ایک رسالہ الاستفتاء شائع کیا، جس میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ رباء ( سود) صرف بیع وشراء ہی میں محقق ہوتا ہے، قرض کی صورت میں اس کا تحقق نہیں ہوتا۔ چوں کہ اس رسالہ سے نہ صرف عام مسلمانوں، بلکہ خواص کی بھی گمراہی کا خدشہ تھا، اسی لیے حضرت حکیم الامت نے اس کے رد اور نفس مسئلہ کی تحقیق میں ایک جوابی رسالہ مولانا ظفر احمد عثمانی سے لکھوایا اور انہیں اس پر علمائے عصر کی تصدیقات حاصل کرنے کا مشورہ دیا، تاکہ اس کی اہمیت بڑھ جائے۔ مولانا ظفر احمد عثمانی نے کتاب کا ایک نسخہ سید صاحب کی خدمت میں بھی بھیجا۔ آپ نے یہ خیال کیا کہ شاید یہ رسالہ حضرت تھانوی کی طرف سے آیا ہے، اس لیے مندرجہ ذیل خط حضرت تھانوی کی خدمت میں بھیجا۔

”حضرت العلامہ المفضال متع الله المسلمین بطول بقائکم السلام علیکم ورحمة الله
رسالہ النور متضمن رسالہ کشف الدجیٰ مع ہدایت نامہ سرفرازی کا باعث ہوا۔ میں اس کو اپنے لیے سعادت کا طغریٰ سمجھتا ہوں کہ آپ اس ظلوم جہول سے تقریظ لکھنے کو فرمائیں۔ خدا گواہ ہے کہ میں اپنے آپ کو اس سے کمتر سمجھتا ہوں کہ آپ کی کسی تحریر پر تقریظ لکھوں۔ مجھے یہ بھی شک ہے کہ میرا طریقہ تحریر اور طرز استدلال خاطرِ اشرف ہو، مگر بحکم ”الامر فوق الادب“ تعمیل کروں گا۔ حضرت مشفقی میرے استاد وشیخ ہیں۔ یہ رسالہ انہوں نے مجھے حیدر آباد دکن میں دیکھنے کو دیا تھا۔ میں نے پڑھ کر ان کو ان الفاظ کے ساتھ واپس کر دیا تھا کہ آپ جس کو مکروہ سمجھتے ہیں میں اس کو عین ربوٰہ سمجھتا ہوں۔ رسالہ کشف الدجیٰ کے مطالعہ سے بہرہ مند ہوا۔ طرز عبارت اور انشا کی سلاست اور جاذبیت نور علی نور ہے ۔ بارہا جب میرا دل زمانہ کے فتن وحوادث سے گھبرااٹھتا ہے اور بے اختیار کسی سکینت وطمانینت کی تلاش ہوتی ہے تو خانقاہ امدادیہ کی یاد آتی ہے، لیکن ڈر تھا کہ معلوم نہیں کہ اجنبیت وبیگانگی سے میرے متعلق کیا کیا اب تک پہنچا ہو او رمجھے تخاطب کا اہل سمجھیں یانہیں، میں تو اس رسالہ استفتاء کا ممنون ہوں کہ اس اجنبیت وبیگانگی کی جگہ دانست ویک جہتی کی صورت پیدا ہوئی۔ اب میں اس کش مکش کی اس منزل میں ہوں جس میں علوم ظاہری دل کی تسکین کا باعث نہیں بنتے۔ دعا کا طالب اور ہمت کا خواست گار ہوں۔ والسلام سلیمان ندوی“

جواب اشرف
”مولانا المحترم دامت فیوضہم السلام علیکم۔ عجیب بات ہے کہ انبساط کا مقصد نہ میرا تھا نہ جناب کا، دونوں طرف اتقاقاً ہی اس کے اسباب پیش آگئے۔ اس طرف کا واقعہ تو جناب نے ہی تحریر فرما دیا۔ اس طرف یہ واقعہ کہ میں نے بالیقین کسی بزرگ کے پاس رسالہ بھیجنے کو نہ کہا تھا۔ دو وجہ سے ایک تویہ کہ مجھے بزرگوں کی فہرست ہی غیر مکمل معلوم ہے۔ دوسرے کسی کو ایسے تکلیف دیتے ہوئے ہمت نہیں ہوتی۔ خصوصاً اگر میرا کلام ہو تو بے حد حجاب ہوتا ہے ۔ یہ رسالہ میرے ہمشیرہ زادے نے میرے ہی کہنے سے لکھا، چوں کہ عام طبائع کی حالت پر نظر کرکے اس استفتاء کی مضرتِ عامہ کا قوی اندیشہ تھا۔ اس لیے اس کے انسداد کی سب سے انفع تدبیر علماء کی موافقت حاصل کرنا ذہن میں آیا کہ عوام پر اس کا خاص اثر ہوتا ہے، اس لیے میں نے عزیز موصوف کو مصارف دے کر مشورہ دیا کہ جہا ں جہاں مناسب ہو بھیج دیا جائے، میں ان کا ممنون ہوں کہ انہوں نے جناب کو بھی تکلیف دے کر یہ موقع دیا کہ میں جناب کا مخاطب بن سکا۔

بہرحال اب حجاب مرتفع ہونے کے بعد مضامین محبت کا جواب دیتا ہوں ۔ جناب کی تواضع نے ضرورمجھ کو ایک معتدبہ درجہ معتقد بنا دیا اور غالب یہ ہے کہ اس میں اضافا اور قوت ہو، باقی طرز استدلال او رعبارت کی پسندیدگی وعدم پسندیدگی، سواس کے متعلق اعتقاد دلی سے ایک نظیر عرض کرتا ہوں کہ سادے کپڑے پہننے والے کو کسی طرح یہ حق نہیں کہ رنگین کپڑے پہننے والے کو ناپسند کرے، عبارت کے متعلق جو ارشاد فرمایا ہے اس سے میں کاتبِ عبارت کا زیادہ معتقد ہو گیا کہ ماہر کی شہادت ہے۔

آخر میں جو خانقاہ کے متعلق اپنا انجذاب او راس کے ساتھ کچھ موانع متحملہ کا ذکر فرمایا ہے، اگر خانقاہ پر حضرت شیخ قدس سرہ رونق افزا ہوتے تو یہ سب مضامین حقیقت پر منطبق ہو سکتے تھے، لیکن اب محض حسن ظن پر منطبق ہو سکتے ہیں۔ اس سے آگے ہیچ۔ البتہ زیادہ تکلیف کرنے کو بھی اعاد ہ حجاب اور موہن انبساط لاحق سمجھ کر پسند نہیں کرتا۔ اس لیے بلا تکلف معاملہ کی سچی بات کہتا ہوں کہ جناب کا حسن ظن اگر کسی روایت پر مبنی ہے تو لایوثق بہ اور اگر ذوق وجدانی ہے تو میں دوستی کرنے کو تیا ر ہوں، التماس جناب کا الطاف نامہ رکھ لیا ہے، اگر اجازت ہو گی تو اس کے بعض جملے جن کا تعلق مسئلہ سے ہے تقریظ کے ساتھ منضم کر دیے جائیں گے۔ یہ کاتب کی درخواست ہے، جس کے قبول کرنے میں آپ بالکل آزاد ہیں۔ اگر مصلحت یا طبیعت کے ذرہ بھی خلاف ہو، ممانعت پر بھی وہی مسرت ہو گی جو اجازت پر ہو گی ۔ فقط ناکارہ، آوارہ، ننگ انام اشرف برائے نام، از تھانہ بھون،28 دسمبر1929ء“

مکتوب سلیمان
”حضرت ہادی طریقت متع الله المسلمین بطول بقائکم السلام علیکم ورحمة الله۔ والانامہ جو الطاف سے بھرا ہوا تھا ورود فرما ہوا، اس سے ایک پریشان حال ومتشت البال کی سکینت ہوئی، مولانا میں آپ کی دعاء ودعوت کا بہترین مستحق ہوں۔ مسائل علمی کی الجھن سے نجات کا خواست گار نہیں، بلکہ روح کی الجھن سے نجات کے لیے دعا وہمت کاطالب ہوں۔

میرے لیے کوئی ایسا نسخہ تجویز فرمائیں کہ مجھ میں استقامت وتثبت ورغبت الی الطاعت پیدا ہو، فرائض کا پابند ہوں، بدعات سے نفور ہوں کبھی کبھی ذوق سجود کی لذت بھی پاتا ہوں، امام ربانی مجدد الف ثانی اور شاہ ولی الله صاحب رحمة الله علیہ اور ان کے سلسلہ سے عقیدت تامہ رکھتا ہوں، خرافات وطامات صوفیہ کا دل سے منکر ہوں۔ صالح نہیں مگراصلاح حال کا دل سے خواست گار ہوں ۔ یورپ کے مذہبی وعلمی حملوں کے مقابلہ میں اسلام کی خدمت کا ولولہ ہے او راب تک پچیس سال کا زمانہ ان ہی مشاغل میں گزرا۔ اب آپ سے دعا کا طالب، ہمت کا خواست گار اور حصولِ اخلاص اور اصلاحِ قلب کے لیے کسی نسخہ کا سائل ہوں۔

رسالہ کشف الدجےٰ پر قلم نے جو یاوری کی ہے مولوی ظفر احمد صاحب کی خدمت میں ارسال ہے ۔ سلیمان ندوی11 شعبان1348ھ۔“

جواب اشرف
”از خاکسار اشرف علی عفی عنہ۔ بخدمت مکرمی محترمی دام فیضہم

السلام علیکم ورحمة الله وبرکاتہ۔ الطاف نامہ نے مع تقریظ مسرور فرمایا اور تقریظ نے علوم مفیدہ میں اضافہ فرمایا۔ الله ہمیشہ آپ کو مسرور رکھے بمسرت ظاہرہ وباطنہ۔

سب سے اول اس عنوان کے تبدیل کے متعلق درخواست کرتا ہوں کہ جس سے مجھ کو خطاب فرمایا ہے یعنی ہادی طریقت اس کو دیکھتے ہی یہ ذہن پر وارد ہوا #
او خویشتن گم است کہ مرا راہبری کند
صلاح کار کجا دمن خراب کجا
بیا جامی رہا کن شرمساری
زصاف ودور پیش آر آنچہ داری

اگرجامی کا یہ شعر فوراً ذہن میں نہ آجاتا تو عجب نہیں کہ یہی عنوان خطابت غایت درجہ کے خجلت زا ہونے سے عرض جواب سے عذر مانع ہو جاتا۔ مگر اب صرف اس درخواست پر اکتفا کرتا ہوں کہ جو عنوان خود میں نے آپ کے لیے اختیار کیا ہے اس سے تجاوز نہ کیا جائے ،گو میں اس کے بھی اہل نہیں۔ اس کے بعد الطاف نامہ کا جواب عرض کرتا ہوں، مگر اس کے ساتھ یہ شرط یا درخواست ہے کہ میرے معروضات کو قول فیصل نہ خیال فرمایا جائے بلکہ خذ ماصفا ودع ماکدر پر عمل رہے اور اس انتخاب سے مجھ کو مطلع فرمانا بھی ضرور ی نہیں۔ اب بے تکلفی سے جواب عرض کرتا ہوں۔

مجھ کو اس بات سے خاص مسرت ہوئی کہ میرا معروضہ کسی درجہ میں موجب سکینت ہوا اور بالیقین یہ اثر میرے عریضہ کا نہیں، بلکہ جناب کے حسن ظن کا ہے اور عادة الله یونہی جاری ہے کہ حسن ظن کے محل سے عطایا تقسیم فرماتے ہیں، اس حسنِ ظن سے مجھ کو بھی ان شاء الله تعالیٰ اپنے نفع کی امید ہے۔

جناب نے جو بے تکلف اپنا مسلک تحریر فرما دیا اس سے میری عقیدت میں زیادہ سے زیادہ اضافہ ہو گیا ۔ دووجہ سے ایک صدق وخلوص پر دال ہونے سے اور دوسرے خود مسلک کے پاکیزہ ہونے سے، تمام اہل حق کا یہی مسلک ہے کسی جزئی تفاوت سے حقیقت نہیں بدلتی، صرف رنگ بدلتا ہے، چناں چہ احقر پر دو جگہ دوسرا رنگ ہے ۔ ایک یہ کہ میں بوجہ اپنی قلتِ روایت ودرایت کے متاخرین کا بھی متبع ہوں ۔ دوسرے یہ کہ صوفیہ کے اقوال واحوال کو متحمل تاویل سمجھتا ہوں۔

شرف وبرکات خاندانی سے حقیقہ الحقیقت تک وصول کی بہت جلدی اور قوی امید ہو کر خاص طمانینت ومسرت حاصل ہوئی۔ اس ضمن میں میں نے بھی اپنا کچھاچٹھہ اس لیے عرض کر دیا کہ آپ کو خذماصفاودع ماکدر پر عمل فرمانے میں سہولت ہو ۔ دوسرے یہ طبعاً چاہتا ہوں کہ اپنے احباب سے اپنا کوئی راز مکتوم نہ رہے ۔ میری رائے میں اس سے تعلق بڑھتا ہے اور یہ خاص نعمت ہے۔ الله تعالیٰ کی کہ دو مسلمانوں میں خاص اور خالص تعلق رہے او راس مصلحت سے آج ہی ایک رسالہ ،جو میرے رسالہ کی تسہیل ہے ،روانہ خدمت کر رہا ہوں اس سے میرا مسلک جو طریق کے متعلق ہے، ضروری درجہ میں واضح ہو گا۔،،

پہلی ملاقات اور شیخ کا تاثر
1935ء کے آغاز میں حضرت سید صاحب ڈاکٹر اقبال کی دعوت پر لاہور تشریف لے گئے ،چوں کہ ابھی تک حضرت تھانوی سے ملاقات نہیں ہوئی تھی، اس لیے لاہور سے واپسی پر تھا نہ بھون جانے کاپروگرام بنایا اور حضرت تھانوی سے ملاقات کی ۔ اس ملاقات سے خود حضرت حکیم الامت نے جو اثر لیا اس کو خود ان کے ہی پر کیف الفاظ میں سینے ” مولانا سلیمان ندوی صاحب دفعتہ تشریف لائے ،میں مکان پر تھا ،پڑھیے ہی حاضر ہوا ،میرے ذہن میں ان کا جثہ طویل وعریض تھا، ملا تو معتدل الخلقت پاکر قلب کو بہت انس ہوا، پھر ملاقات ومکالمت سے ان کی تواضع وسادگی ورعایت جلیس کو دیکھ کر تو مسخر ہی ہو گیا۔“

بیعت وخلافت
جولائی ،اگست1938ء میں مولانا عبدالباری ندوی تھا نہ بھون میں مقیم تھے۔ آپ نے حضرت سید صاحب سے تھانہ بھون آنے پر اصرار کیا کہ ” حضرت کا سلسلہ علالت طول پکڑتا جارہا ہے اور ڈر ہے کہ کہیں یہ آفتاب رشد وہدایت وتربیت لب بام نہ ہو۔ “ حضرت سید صاحب نے اس پراپنی آمادگی ظاہر کی او رتھانہ بھون روانہ ہو گئے، لیکن اسی دوران میں حضرت حکیم الامت لکھنو تشریف لے جاچکے تھے، اس لیے آپ بھی لکھنو پہنچے۔حضرت حکیم الامت کی علالت کے سبب مخصوص حضرات کے علاوہ عام ملاقات کا سلسلہ بند کر رکھا تھا۔ جب حضرت سید صاحب کی آمد کی خبر آپ کو ملی تو فوراً بلایا گیا اور ان کی درخواست پر تربیت کی خدمت بلاتامل قبول فرمائی۔

مناسبت کا فوری اثر
اس ملاقات کے بعد پیرومرشد او رمرید کی مناسبت نے جذب واثر کا حیرت انگیز کرشمہ دکھایا۔ چا ردن کے مختصر قیام کے بعد حضرت سید سلیمان صاحب نے جس تاثر کا اظہار فرمایا، وہ قابل دید ہے۔ فرمایا ”لکھنو میں چار ہی روز صحبت رہی۔ مگر مولاناتھانوی کی شفقت میری عقیدت کو بڑھاتی رہی آخر ان کی ہدایت کے بموجب اور آپ (مولانا عبدالباری) کا مشورہ تو پہلے تھا، باب مکاتب واہے او راب تو وہی وہ ہیں #
آتے ہیں نگاہوں میں ، خیالوں میں، دلوں میں
بہرحال اپنی طرف سے سفر شروع کر دیا ہے، منزل پر پہنچانا جس کا کام ہے وہ پہنچا دے گا، دعا کیجیے گا۔ مولانا کے مواعظ ورسائل پڑھتا ہوں، اکثر عملی مسائل بھی اپنے ہی مذاق کے مطابق پائے اور احوال وکیفیات میں ان سے نئی گرہیں کھلتی ہیں۔ افسوس کہ اتنے دنوں کیوں محروم وغافل رہا؟“

تبدیلی احوال
اب حضرت سید صاحب کی طبیعت دفعتاً بدل گئی، چناں چہ مولانا عبدالباری ندوی صاحب مدظلہ کو لکھا ”دس بارہ سال سے جو چیز فطری طور پر سمجھ میں نہ آئی تھی وہ عملاً سمجھ میں آگئی اور اب تلافی مافات میں مصروف ہوں۔ اب نہ دارالمصنفین سے زیادہ دلچسپی ہے، نہ ندوہ سے، نہ علمی مقالات سے، چوں کہ میری روزی قلم سے وابستہ ہے او رگھر میں اثاثہ بھی نہیں، اس لیے ناچار پڑا پھرتا ہوں ۔ خدا تعالیٰ ہمت دے کہ ترک تعلق کر سکوں۔“ بقول سید صباح الدین عبدالرحمن ” اس تعلق کے بعد سید صاحب کے لیل ونہار ہی بدل گئے، اگرچہ ان کی پوری زندگی دین داری اور پرہیز گاری میں گزری تھی، لیکن بادہٴ طریقت سے سرشار ہونے کے بعد ان کی دین داری میں تقوی وتورّع کا اور بھی زیادہ گہرا رنگ پیدا ہو گیا ۔ عبادت وریاضت بڑھ گئی ، ذکر خفی کے ساتھ ذکر جلی بھی کرنے لگے، تقریر وخطابت نے وعظ وپند کی صورت اختیار کر لی۔ زیادہ وقت علمی مذاکروں کی بجائے رشد وہدایت میں صرف ہونے لگا۔“

ایک اور خاص کیفیت جو ارادت کے تعلق کے بعد ظاہر ہوئی وہ جذبات شوق کا وفور تھا، خود فرمایا ” میری اس دور کی شاعری کا آغاز حضرت والا ( تھانوی قدس سرہ) کے تعلق سے ہوا اور انجام بھی حضرت کی رحلت ہی پر ہو گیا۔ بعد میں مشکل سے دو چار غزلیں ہوئیں، اس کی وجہ یہ تھی کہ حضرت کی موجودگی میں جذبات کا وفور تھا ،جو پھر باقی نہ رہا“

اب حضرت سید صاحب کی طبیعت پوری قوت کے ساتھ اپنے شیخ عالی مرتبت سے اخذ فیض کی طرف متوجہ ہو گئی ۔ ذوق وشوق نے بار بار تھا نہ بھون کی حاضری پر مجبو رکر دیا۔ ڈاکٹر عبدالحئی صاحب نے فرمایا” ایک مرتبہ حضرت سید صاحب تھا نہ بھون تشریف لائے۔ محفل خاص آراستہ تھی ۔ حضرت سید صاحب نے جو حضرت تھانوی سے متصل بیٹھے تھے۔ چپکے سے کوئی بات مولانا تھانوی کے گوش گزار کر دی اور کچھ دیر کی خاموشی کے بعد حضرت مولانا تھانوی نے سید صاحب کے کان میں کچھ ارشاد فرمایا۔ ہم لوگ اس عرض وارشاد کو نہ سن سکے، مگر یہ دیکھا کہ سید صاحب پر دفعةًگریہ طاری ہو گیا۔ یہاں تک کہ سسکیاں بندھ گئیں۔ پھر سید صاحب رخصت ہو گئے۔ ساری محفل محو حیرت تھی کہ یہ کیا ماجرا ہے؟ ایک عرصہ بعد خواجہ عزیز الحسن مجذوب نے جرات کرکے وہ بات پوچھی تو حضرت حکیم الامت نے اس کا اظہار فرمایا اور خواجہ صاحب نے یہ واقعہ اشرف السوانح میں بھی درج فرما دیا کہ ” ایک مشہور فاضل ندوی اتفاقاً چند گھنٹوں کے لیے حضرت والا کی خدمت میں حاضر ہوئے اور چلتے وقت عرض کیا کہ مجھ کوئی نصیحت فرمائیے۔ حضرت والا فرماتے ہیں کہ میں متردد ہوا کہ ایسے فاضل شخص کو میں کیا نصیحت کروں۔ پھر الله تعالیٰ نے میرے دل میں ایک مضمون ڈالا جوبعد کو معلوم ہواکہ ان کے بالکل مناسب حال تھا۔ میں نے کہا کہ حضرت آپ جیسے فاضل کو نصیحت تو میں کیا کرسکتا ہوں، لیکن ہاں! میں نے جو اپنی اس تمام عمر میں سارے طریق کا حاصل سمجھا ہے وہ عرض کیے دیتا ہوں ۔ وہ حاصل فنا وعبدیت ہے، بس جہاں تک ممکن ہو اپنے آپ کو مٹایا جائے او راسی کے لیے سارے مجاہدات کیے جاتے ہیں ۔ اس تقریر کا ان پر اس درجہ اثر ہوا کہ وہ آبدیدہ ہو گئے۔“

درخواست بیعت
اس مناسبت تامہ کے بعد جو بہت جلد شیخ ومرید میں پیدا ہو گئی تھی ۔ جب حضرت سید صاحب نے بیعت کی درخواست کی تو حضرت حکیم الامت نے ارشاد فرمایا کہ ” پچاس خط لکھ چکیں تو پھر ان شاء الله“ پھر فرمایا” خواہ روزانہ صبح وشام خطوط لکھ کر یہ وعدہ پورا کر دیں۔“ لیکن ابھی چند ہی خط آئے تھے کہ تھانہ بھون کی ایک حاضری میں از خود بیعت سے سرفراز فرمایا او رکہا کہ ”الحمدلله میرے حصہ میں سارے عقلاہی آئے ہیں۔“

خصوصی تربیت
حضرت حکیم الامت کے مرتبہ شناس جانتے ہیں کہ وہ اپنے وقت کے مجدد او رایک محقق کامل مرشد تھے، ان کے دامن تربیت میں ہر رنگ اور ہر مزاج کے انسان کوپناہ اس لیے ملتی اور اطمینان کامل اسی لیے میسر آتا کہ ان کے طریقہ اصلاح میں مزاج کا لحاظ بطورخاص رکھا جاتا تھا۔ اس لیے حضرت تھانوی نے علامہ سید صاحب کی تربیت روحانی ایک خاص نہج پر کی تھی۔ مفتی محمد حسن صاحب فرماتے تھے کہ” ہم لوگوں کو تعجب ہوتا تھا کہ حضرت سید صاحب کو اتنی جلدی اس قدر رسوخ کس طرح حاصل ہو گیا، مگر بعد کو معلوم ہوا کہ جو ہر ہی کچھ اور تھا ۔“ڈاکٹر عبدالحئی صاحب فرماتے ہیں ” حضرت سید صاحب کا معاملہ کچھ سمجھ میں نہ آتا تھا ۔د یکھنے والوں کو صرف نظر آتا تھا کہ سید صاحب تھانہ بھون تشریف لاتے ہیں ۔ محفل میں شرکت فرماتے ہیں، چپ چاپ بیٹھ کر چلے جاتے ہیں، نہ کوئی گفتگو ہوتی ہے نہ کچھ عرض معروض مگر دیکھتے ہی دیکھتے درجہ کمال کو پہنچ گئے ۔“

حاجی محمد عثمان صاحب فرماتے ہیں ” ایک مرتبہ سید صاحب ہی کے کمالات کا ذکر آگیا تو حضرت تھانوی نے فرمایا کہ جو لکڑی سوکھی ہوتی ہے دیا سلائی دکھاتے ہی بھڑک اٹھتی ہے او رجو گیلی ہوتی ہے اس کو عمر بھر پھونکتے رہیے تو سوائے دھوئیں کے کچھ اور نہیں اٹھتا۔ ان میں ( سید صاحب ) کس بات کی کمی تھی۔“

ادھر ارادت کا یہ رنگ تھا، ادھر شیخ بھی اپنے وقت کا سب سے بڑا جوہر شناس اور محبت نواز، محب ومحبوب کی جاں نثاری اور دل نوازی میں مسابقت کی ادا جھلکنے لگی، مفتی محمد حسن صاحب نے بارہا فرمایا” حضرت سید صاحب جب خانقاہ تشریف لاتے توہمارے حضرت کی طبیعت میں جوش پیدا ہو جاتا تھا۔ گھنٹہ بھر کی محفل کو دو گھنٹے طول دے دیتے، حالت مرض میں یہ معلوم ہوتا تھا کہ گویا مرض چلا گیا ہے ۔“ ڈاکٹر عبدالحئی صاحب نے فرمایا ” آخر زمانہ میں تو حضرت حکیم الامت یہی فرماتے تھے کہ سید صاحب کی وجہ سے بڑا اطمینان ہے او رخود مجھ سے فرماتے تھے کہ جب رات کے دو ڈھائی بجے آنکھ کھلتی ہے تو جی چاہتا ہے کہ سید صاحب کو بلا کر باتیں کرتا رہوں، لیکن پھر ان کی زحمت کے خیال سے چپ رہتا ہوں۔“

ایک مرتبہ حکیم الامت نے ایک چھڑی تحفہ محبت کے طور بھیجی اوراس کے ساتھ ایک رقعہ بھی، جس میں خطاب اس بلیغ جملہ سے فرمایا تھا ”راحت جاں! راحت جسم کا سامان بھیج رہا ہوں۔“

خلافت سے سرفرازی
اگست1938ء میں سید سلیمان صاحب نے راہِ سلوک میں قدم رکھا اوراب اکتوبر1942ء آپہنچا تھا۔ مسافر نے عشق ومعرفت کی اتنی منزلیں طے کر لی تھیں کہ اب وہ حکیم الامت کی نگاہ میں راستہ کے سارے نشیب وفراز اور پیچ وخم سے پوری طرح باخبر او رناواقفوں کی راہبری کے لیے ہر طرح لائق اعتبار تھا۔

حضرت حکیم الامت نے اپنے قلبی داعیہ کی مزید تشفی کی خاطر استخارہ فرمایا۔ استخارہ سے تائید وتقویت پائی، پھر سید صاحب کے نام ایک مکتوب لکھا، جس کا عنوان تھا” استشارہ بعد از استخارہ“ کہ” میرا جی چاہتا ہے کہ آپ کو خلافت دے دوں ،میں نے اس سلسلہ میں استخارہ بھی کر لیا ہے اب آپ کا کیا مشورہ ہے ؟“ حضرت سید صاحب فرماتے تھے کہ چوں کہ دو تین ہی روز میں تھانہ بھون کی حاضری کا قصد تھا، اس لیے میں نے اس گرامی نامہ کا جواب نہیں دیا اور جب حاضر خدمت ہوا تو خاموش ہی رہا۔ ایک دن حضرت والا کی طرف سے ایک پرچہ ملا کہ:

”آپ نے میرے استشارہ کا جواب نہیں دیا“ اس اصرار پر میں نے جواباً عرض کیا کہ ”حضرت والاکا مکتوب گرامی پڑھ کر قدموں تلے سے زمین نکل گئی۔ میں کہاں اور یہ ذمے داری کہاں؟“

حضرت حکیم الامت اپنے مریدوں کو ہر مرحلہ پر آزماتے اور پرکھتے رہتے تھے۔ چناں چہ جب سید صاحب کا وہ جواب پہنچا تو حضرت حکیم الامت بے حد مسرور ہوئے اور حاضرین سے فرمایا کہ: ”الحمدلله! وہی جواب آیا جس کی توقع تھی“ بس اس کے بعد سید صاحب کو 22 اکتوبر1942ء میں سلاسل اربعہ میں خلافت باطنی عطا فرمائی۔ حافظ محمد عثمان صاحب اس بات کے راوی ہیں کہ ” حضرت سید صاحب کو خلافت عطا فرما کر حضرت حکیم الامت اس درجہ مسرور ومطمئن تھے کہ بارہا فرمایا کہ الحمدلله! مجھے اب کچھ فکر نہیں، میرے بعد ایسے ایسے لوگ موجود ہیں۔“

حضرت سید صاحب نے حکیم الامت کے بغیر کسی اشارہ وکنایہ کے از خود اپنے احساس سے مجبور ہو کر رجوع واعتراف کے نام سے جنوری1943ء کے معارف میں ایک تحریر شائع فرمائی اور شمارہ حضرت والا کی خدمت میں پیش کیا۔ حضرت تھانوی کے قلب مبارک پر اس تحریر کا بڑا اثر ہوا اورانہوں نے اپنی عادت ومزاج کے خلاف پہلی اور آخری مرتبہ اپنے خلیفہ ارشد کی مدح میں چند اشعار لکھ کر بھیجے #
اغتراف ( یعنی اخذ اعلان) ازاعتراف ( یعنی رجوع سلیمان)
لمثل ہذا فلیعمل العاملون وفی ذالک فلیتنافس المتنافسون
اقتباس ترغیب دلپذیر از مثنوی رومی بتصرف یسیر
از سلیمان گیر اخلاص عمل دان توندوی راہ منزہ از دخل
اے دلت معمورِ از اسرارِ حق اے دلت مخمور از آثارِ حق
اے دلت پُر نور از انوارحق اے دلت مسرور از اخبار حق
صد مبارک باد ایں اظہار حق صد مبارک باد ایں اقرار حق
لیک باشد ایں طریق نفع خاص کہ بہ اہل علم دارد اختصاص
سعی نفع عام اینجا واجب است آنکہ نافع بہر ہر ہر طالب است
در کلام خود نظر خود کردنی یا کہ نقادے بدست آوردنی!
ہمچناں کردم بہ تالیفات خویش صرف ہم کردم اے او نقد خویش
گرچہ ناظم نیستم ابیات را نثر کردم لیک ایں جذبات را
مقصد من خیر خواہی ہست وبس بو کہ با رغبت فتددر گوش کس
اشرف علی27 محرم1361ھ

حضرت حکیم الامت نے19 اور20 جولائی کی درمیانی رات کو سفر آخرت اختیار کیا۔ اس واقعہ کا سید صاحب کے قلب پر بے حد اثر ہوا۔ اس کا اندازہ مندرجہ ذیل اشعار سے بہ خوبی ہو جائے گا، جو سید صاحب نے رحلت شیخ کے عنوان سے موزوں فرمائے #
داغِ فراقِ یار مٹایا نہ جائے گا
اب دل کا یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا
حرفِ دمِ وداع خدا کے سپرد ہو
تا آخر حیات بھلایا نہ جائے گا
اے دل خموش صبر ورضا کا مقام ہے
نقش دوامِ فیض مٹا یا نہ جائے گا
پیر مغاں نہیں ہے مگر میکدہ تو ہے
جام وسبو یہاں سے ہٹایا نہ جائے گا
یوں ہی بچھا رہے گا یہاں خوان فیض عام
جب تک ہیں مہمان بڑھایا نہ جائے گا
چاہا خدانے تو تری محفل کا ہر چراغ
یونہی جلا کرے گا بجھایا نہ جائے گا

اس کے علاوہ معارف میں موت العالم موت العالم کے زیر عنوان اپنے اندازکا ایک مضمون بڑے سوز وگداز سے لکھا، جس کے ابتدائی جملے یہ ہیں۔

”محفل دوشین کا وہ چراغ سحر، جو کئی برس سے ضعف ومرض کے جھونکوں سے بجھ بجھ کر سنبھل جاتا تھا، بالآخر82 سال3 ماہ دس روز جل کر رجب1362ھ کی شب کو ہمیشہ کے لیے بجھ گیا #
داغ فراق صحبت شب کی جلی ہوئی
اک شمع رہ گئی تھی سو وہ بھی خموش ہے

یعنی حکیم الامت، مجدد طریقت، شیخ الکل، حضرت مولانا اشرف علی تھانوی نے مرض ضعف واسہال میں کئی ماہ علیل رہ کر19،20 جولائی1943ء کی درمیانی شب کو دس بجے نماز عشا کے بعد اس دار فانی کو الوداع کہا او راپنے لاکھوں مریدوں، معتقدوں، مستفیدوں کو غمگین ومجہور چھوڑا۔ انا لله وانا الیہ راجعون.

اب یہ دور بالکل ختم ہو گیا جو حضرت شاہ امدادالله صاحب مہاجر مکی، مولانا محمد یعقوب صاحب نانوتوی اورمولانا محمد قاسم صاحب نانوتوی اور مولانا شیخ محمد صاحب تھانوی کی یادگار تھا اور جس کی ذات میں حضراتِ چشت اور حضرت مجدد الف ثانی اور حضرت سید احمد بریلوی کی نسبتیں یک جا تھیں، جس کا سینہ چشتی ذوق وشوق اور مجددی سکون ومحبت کا مجمع البحرین تھا، جس کی زبان شریعت وطریقت کی وحدت کی ترجمان تھی، جس کے قلم نے فقہ وتصوف کو ایک مدت کی ہنگامہ آرائی کے بعد باہم ہم آغوش کیا تھا۔“

جون1946ء سے لے کر اکتوبر1949ء تک آپ نے بھوپال میں قیام فرمایا، جون1950ء میں آپ پاکستان تشریف لائے اور 22نومبر1955ء کو وفات پاگئے۔ (انتخاب)

بشکریہ : فاروقیہ ڈاٹ کام

Re: علامہ سید سلیمان ندوی

Posted: Wed Feb 02, 2011 5:03 pm
by چاند بابو
بہت خوب محترم نور محمد بھیا علامہ سید سلیمان ندوی رحمتہ اللہ علیہ کے حالاتِ زندگی کے بارے میں طویل اور بہت معلوماتی مضمون شئیر کرنے کا بہت بہت شکریہ۔

Re: علامہ سید سلیمان ندوی

Posted: Wed Feb 02, 2011 6:24 pm
by عبیداللہ عبید
خوب بہت خوب ۔

سید صاحب کے بارے میں پڑھی باتیں دوبارہ تازہ ہوگئیں۔جزاک اللہ

Re: علامہ سید سلیمان ندوی

Posted: Fri Feb 04, 2011 2:45 pm
by نورمحمد
شکریہ

Re: علامہ سید سلیمان ندوی

Posted: Sat Feb 05, 2011 1:08 pm
by اعجازالحسینی
بہت خوب نور بھیا۔ بزرگوں کی یادیں ان سے بھی بڑا فائدہ ہوتا ہے اگر کوئی کوشش کرے تو ۔

Re: علامہ سید سلیمان ندوی

Posted: Thu Mar 03, 2011 5:50 pm
by نورمحمد
شکریہ آپ سب کا -

بالکل اعجاز بھائی - ہم اپنے اسلاف سے بڑا نفع اٹھا سکتے ہیں