چارہ گر ۔۔۔

ملکی اور غیرملکی واقعات، چونکا دینے والی خبریں اور کچھ نیا جو ہونے جا رہا ہے
Post Reply
علی عامر
معاون خاص
معاون خاص
Posts: 5391
Joined: Fri Mar 12, 2010 11:09 am
جنس:: مرد
Location: الشعيبہ - المملكةالعربيةالسعوديه
Contact:

چارہ گر ۔۔۔

Post by علی عامر »

ہم سبھی ناکردہ کار ثابت ہوئے۔ قائد اعظم کے پاکستان سے وفا کے تقاضے کسی نے بھی پورے نہ کئے لیکن علماء کرام ؟ مگر افسوس، مگر افسوس!
اس وکیل کو کیا کہا جائے، عدالت جس کے حق میں فیصلہ کر دے لیکن وہ خطابت کے جوہر دکھاتا رہے؟ علماء کرام سے بار بار بہت موٴدبانہ یہ سوال کیا جا چکا کہ ناموسِ رسالت پر جب ان کا موقف تسلیم کیا جا چکا تو اب جلسہ، جلوس کس لئے؟
ہر بار دفتر جاتے ہوئے میں ایک طویل قطار دیکھتا ہوں۔ بھوکوں کی قطار جو مفت کا کھانا حاصل کرنے کے لئے دو تین گھنٹے پہلے سے جمع ہونے لگتے ہیں۔ بیشتر ہٹے کٹے اور صحت مند۔ کیا اس لئے کہ اب ان کے لئے کوئی مزدوری نہیں یا ایسے لوگ بھی جو کام کرنا پسند ہی نہیں کرتے۔ پہلی صورت میں یہ خوفناک غربت ہے، جو علم سے یکسر محرومی اور گاہے کفر کی طرف لے جاتی ہے۔ دوسری صورت میں ایک سنگین اخلاقی مسئلہ۔ دوسروں کے علاوہ علماء کرام کو بھی اس کی فکر ہونی چاہئے۔ معاشرے کے پیرہن کا تار پود بکھر رہا ہے اور انہیں پرواہ ہی نہیں۔
ناموسِ رسالت کا مسئلہ محض علماء کرام کا نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ سبھی کا۔ سرکار اصحاب کے درمیان تشریف فرما تھے کہ آنکھیں بھر آئیں۔ وہ پاک طینت جانثار جن کی تربیت کی جا چکی اور جو مقامِ رسالت سے آشنا تھے، گھبرائے اور سوال کیا کہ کیا کوئی گستاخی ہوئی ؟ فرمایا : میں نے انہیں یاد کیا، جو تمہارے بعد آئیں گے، جنہوں نے مجھے دیکھا تک نہ ہو گا لیکن مجھ سے اتنی ہی محبت کریں گے جتنی تم کرتے ہو۔ نہ صرف اپنے عہد کی بلکہ آنے والی تمام نسلوں کے لئے عالی جناب اس قدر فکر مند تھے کہ پروردگار کو جتلانا پڑا۔ امت کو بتایا گیا کہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آدمیت کے لئے اور سب سے بڑھ کر امت کے لئے پریشان ہوتے ہیں۔ ”حریص علیکم“ تمہارے بارے میں وہ حرص میں مبتلا ہیں کہ ہدایت پاؤ، پاکیزگی اختیار کرو اور نجات پاؤ۔ قرآن کریم کو عالی مرتبتﷺ کی عظمت پہ اصرار ہے اور بہت اصرار۔ صوفی نے کہا تھا : خالق کون و مکان کی منشا اگر یہ تھی کہ انسان اپنے ارادہ و اختیار کے ساتھ، اس سے محبت کرے تو سرکار کے وجود میں ، اپنے مقصود کو اس نے پا لیا۔ بدبختوں کے سوا، پھر کون ہے جو ان سے محبت نہ کرے گا۔ وہی صداقتوں کی طرف رہنمائی کرنے والے وہی شافع محشر۔
پاکستانی مسلمانوں نے حکم لگا دیا اور فیصلہ صادر کر دیا۔ ناموسِ رسالت کے قانون کو چھیڑا نہیں جا سکتا ۔ حکومت نے سرِ تسلیم خم کر دیا۔ صرف یہی نہیں کہ گورنر سلمان تاثیر کے نظریے کو مسترد کر دیا بلکہ ان کی سیاست کو بھی۔ حقیقت تو یہ ے کہ گورنر لطیف کھوسہ پیہم اور عملاً ہر روز سلمان تاثیر کے اندازِ فکر کی مذمت کرتے ہیں۔ وہ اپوزیشن سے متصادم تھے۔یہ اس سے ہم آہنگ ہونے کے لئے بے تاب۔ اس قدر بے قرار کہ اپنے منصب کی شان و شوکت ہی سے دستبردار ہو گئے۔ کل ایک اخباری اشتہار میں شکایت تھی کہ پیپلز پارٹی نے سلمان تاثیر کو بھلا دیا۔ بھلا نہیں دیا، ان سے لاتعلقی کا اعلان کر دیا۔ رہا ممتاز قادری کا معاملہ تو وہ عدالت میں ہے۔ عوامی دباؤ اتنا شدید کہ ناانصافی کا اندیشہ نہیں۔ عدلیہ آزاد ہے اور اپنی آزادی کو بے باکی کے ساتھ استعمال کرنے پر تلی ہوئی۔ اس کے باوجود یہ جلسے اور جلوس، گھن گرج اور چمک دمک کے ساتھ یہ احتجاج؟ آخر کیوں؟ ہفتے اور اتوار کی درمیانی شب پنجاب حکومت کے افسروں کو میں نے ہراساں پایا۔ بہت فکر مند کہ مذہبی جماعتوں کے جلوس میں اگر کوئی حادثہ ہو گیا، اگر داخلی یا خارجی شرپسند فساد کرنے میں کامیاب رہے تو کیا ہو گا۔ آئے دن بموں کے دھماکے ہیں، آئے دن یہ مودبانہ التجائیں کہ مذہبی تقریبات محدود کر دی جائیں مگر افسوس ، مگر افسوس۔ ملک کی خارجہ پالیسی یرغمال ہے اور معیشت کی خرابی کے علاوہ حکمران طبقے کی لوٹ مار کے سبب۔ امریکہ سے بھیک مانگنی پڑتی ہے اور ظاہر ہے کہ جس سے بھیک مانگی جائے گی، وہ بلیک میل کرے گا۔ دریوزہ گری اور ا س سے دریوزہ گری جس سے نفرت کی جاتی ہے۔ کیا یہ شرم کی بات نہیں ؟ نوبت یہاں تک آ پہنچی کہ امریکی سفارت کار راہ چلتے پاکستانی شہریوں پر گولیاں برسانے اور گاڑیوں تلے کچلنے لگے۔ کیا اب بھی وقت نہیں آیا کہ تقسیم در تقسیم کا شکار، خودشکنی پر تلے معاشرے میں ایک کم از کم اتفاق رائے پیدا کرنے کی کوشش کی جائے۔ کیا اس سلسلے میں علماء کرام کی کوئی ذمہ داری نہیں؟ جمہوریت احتجاج کا حق دیتی ہے لیکن کس لئے؟ ظاہر ہے کہ جائز مطالبات منوانے کیلئے وگرنہ کیا یہ ایک مشغلہ ہے اور اگر مشغلہ ہی بن جائے گا تو نتیجہ کیا ہو گا ؟
مسئلہ ظاہر ہے کہ سیاسی ہے۔ صحت مند اور مثبت حکمرانی کے بغیر ادبار ختم نہ ہو گا۔ ضرورت تو ہے غور و فکر اور سوچ بچار کی۔ ابتدائی نوعیت کا مباحثہ ختم ہو چکا۔ پوری طرح واضح ہو گیا کہ مسائل کیا ہیں۔ اب ترجیحات مرتب کرنے اور عمل کا آغاز کرنے کی ضرورت ہے۔ اگرچہ اکیلی نون لیگ ہی حکومت سے مذاکرات کر رہی ہے لیکن یہ فقط اسکا ایجنڈا نہیں یہ مسلسل بحث سے ابھرا ہے اور سیاست دانوں سے زیادہ اس میں میڈیا کا کردار ہے۔ کوشش اب یہ ہونی چاہئے کہ اس ایجنڈے پر عملدرآمد کی حکمت عملی مرتب ہو۔ متوازی کام یہ ہے کہ معاشرے کی بگڑتی ہوئی اخلاقی حالت سنوارنے کیلئے علماء بروئے کار آئیں۔ مگر افسوس، مگر افسوس
مشاہدہ یہ ہے کہ پولیس سٹیشن اور عدالت میں ظالم تو کیا مظلوم بھی جھوٹ بولتا ہے۔ مساجد میں کوئی بتانے والا نہیں کہ سچائی کی اپنی ایک قوت ہوتی ہے۔ مبالغے سے وہ مقصد کبھی حاصل نہیں ہو سکتا جو ایک سادہ سی سچی بات سے ہوسکتا ہے۔ پڑوسی سے حسن سلوک، رشتہ و پیوند کی تقدیس اور اس کی حفاظت کا عزم۔ صلہ رحمی اور غریب پروری ۔ مظلوم اور محتاج کی دست گیری۔ سیاسی جماعتوں میں ایسی ہیں جو مظلوم اور درماندہ کی مدد کرتی ہیں کہ مخلص کارکنوں کے لشکر رکھتی ہیں۔ زلزلے اور سیلاب میں جماعت اسلامی اور جماعة الدعوة کے کارکن بروئے کار آئے اور لاکھوں کی دعائیں لیں لیکن ان کے بارے میں کیا ارشاد ہے جو مصیبت کی ماری اللہ کی مخلوق سے یکسر بے نیاز رہے۔ اس احتجاج میں وہی پیش پیش ہیں اور اب تو قاف لیگ بھی۔ لال مسجد کا سانحہ رونما ہونے کے بعد، جنرل پرویز مشرف کو دس بار منتخب کرانے کا عزم کرنے والے پرویز الٰہی کی قاف لیگ، صدر زرداری کے ایما پر جو شہباز شریف کے خلاف ہمہ وقت مورچہ زن ہیں۔ ہم سبھی ناکردہ کار ثابت ہوئے۔ قائد اعظم کے پاکستان سے وفا کے تقاضے کسی نے بھی پورے نہ کئے لیکن علماء کرام ؟ مگر افسوس، مگر افسوس!!
ہر چارہ گر کو چارہ گری سے گریز تھا
ورنہ ہمیں جو دکھ تھے، بہت لادوا نہ تھے
حرف آخر: تازہ ترین یہ کہ تحریک انصاف بھی جا شامل ہوئی مزید افسوس کہ اخلاقی اور مذہبی نہیں ، یہ سیاسی ایجنڈا ہے۔

کالم نویس: ہارون الرشید
بشکریہ - روزنامہ جنگ
31-جنوری-2011ء
نورمحمد
مشاق
مشاق
Posts: 3928
Joined: Fri Dec 03, 2010 5:35 pm
جنس:: مرد
Location: BOMBAY _ AL HIND
Contact:

Re: چارہ گر ۔۔۔

Post by نورمحمد »

شکریہ علی عامر بھائی
Post Reply

Return to “منظر پس منظر”