کیا پاکستان بھی مصر بن سکتا ہے؟ از قلم - حامد میر

ملکی اور غیرملکی واقعات، چونکا دینے والی خبریں اور کچھ نیا جو ہونے جا رہا ہے
Post Reply
علی عامر
معاون خاص
معاون خاص
Posts: 5391
Joined: Fri Mar 12, 2010 11:09 am
جنس:: مرد
Location: الشعيبہ - المملكةالعربيةالسعوديه
Contact:

کیا پاکستان بھی مصر بن سکتا ہے؟ از قلم - حامد میر

Post by علی عامر »

جمہوریت کے نام پر قائم لبرل فاشزم کا یہ مکروہ چہرہ مجھے فروری 2009ء میں بہت قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ مقبوضہ فلسطین کے علاقے غزہ پر اسرائیل کی وحشیانہ بمباری شروع ہوچکی تھی اور میں مصر کے سرحدی قصبے رفاع سے غزہ میں داخل ہونے کی کوشش کررہا تھا۔ میرے پاس مصر کی وزارت خارجہ کا اجازت نامہ اور وزارت اطلاعات کا خط موجود تھا لیکن رفاع بارڈر پر مصر کی خفیہ پولیس کو میرے غزہ جانے پر اعتراض تھا۔ میں نے بہت سمجھایا لیکن انہوں نے مجھے وزارت خارجہ کا نیا خط لانے کو کہا۔ میں رفاع سے 500 کلو میٹر کا سفر طے کرکے واپس قاہرہ پہنچا۔ خط لیا اور پھر رفاع پہنچ گیا۔ مصر کی خفیہ پولیس کے ایک افسر نے مجھے کہا کہ ہم تو چاہتے تھے کہ تم واپس نہ آؤ لیکن تم ایک ہی دن میں ایک ہزار کلو میٹر کا سفر مکمل کرکے پھر میرے سامنے کھڑے ہو۔ میں نے اس کے ساتھ بہت بحث کی۔ قاہرہ میں پاکستانی سفارتخانہ بھی بے بس تھا۔ یہیں پر فرانس کے ایک صحافی دوست نے مجھے مشکل میں پھنسا دیکھا۔ اس نے اپنے موبائل فون سے کسی کے ساتھ بات کی اور مصری خفیہ پولیس نے چند ہی لمحوں میں مجھے غزہ جانے کی اجازت دیدی۔جب ہم غزہ میں داخل ہوئے تو فرانس کے صحافی نے مسکراتے ہوئے کہا کہ تم نے ایک دفعہ افغانستان میں میری مدد کی تھی اور میں نے فلسطین میں تمہاری مدد کرکے حساب برابر کردیا۔ جب میں نے اصرار کیا کہ تم نے فون کس کو کیا تھا؟ فرانس کے صحافی نے مسکراتے ہوئے کہا کہ اس نے مصر کے صدر حسنی مبارک کے ایک عزیز کی فرنچ گرل فرینڈ کو فون کیا تھا جو قاہرہ میں موجود ہے۔ رفاع بارڈر پر میں نے مصر کی خفیہ پولیس کے ہاتھوں مجبور اور بے بس فلسطینی عورتوں کے ساتھ بدتمیزی کے جو مناظر دیکھے وہ میں کبھی نہیں بھلا سکتا۔ ایسا لگتا تھا کہ یہ مصر کی نہیں بلکہ اسرائیل کی پولیس ہے اور جب میں غزہ پہنچا تو یہاں کے فلسطینیوں نے اسرائیل اور امریکہ کے بعد جس ملک کو سب سے زیادہ بددعائیں دیں وہ مصر تھا۔ غزہ کے فلسطینی مصری صدر حسنی مبارک کو فرعون جدید کہتے تھے اور 2011ء میں اس فرعون جدید کے خلاف پورا مصر سڑکوں پر آچکا ہے۔تیونس سے شروع ہونے والی تبدیلی کی لہر مصر تک پہنچ چکی ہے۔ اس صورتحال میں امریکی حکومت بڑی ہوشیاری سے غیر جانبداری اور جمہوریت کا ڈھونگ رچانے کی کوشش میں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ حسنی مبارک اپنے دور اقتدار میں اسرائیل اور امریکہ کے مفادات کا تحفظ کرتا رہا اور اب امریکہ حسنی مبارک کی جگہ اپنے ایک اور منظور نظر محمود البرادی کو اقتدار میں لانے کی کوشش کررہا ہے۔ شمالی افریقہ اور مشرق وسطیٰ میں تبدیلی کی حالیہ لہر سے زیادہ پریشانی اسرائیل اور امریکہ کو ہے۔ تیونس، مصر اور اُردن وہ ممالک ہیں جو فلسطینیوں کے مقابلے میں اسرائیل کو ترجیح دیتے رہے لیکن اب ان ممالک کے عوام نے اپنے لبرل فاشسٹ حکمرانوں کے خلاف بغاوت کردی ہے۔ غور کریں تو ان ممالک کے لبرل فاشسٹ حکمرانوں کو ہمیشہ امریکہ کی حمایت حاصل رہی ہے جبکہ پچھلے دس پندرہ سالوں میں ان لبرل فاشسٹوں کو مذہبی انتہا پسندوں نے خودکش حملوں کے ذریعہ اقتدار سے نکالنے کی کوشش کی۔ دونوں اقلیت میں ہیں لیکن دونوں طاقت کے استعمال پر یقین رکھتے ہیں۔ ایک جمہوریت کے نام پر بم اور گولیاں چلاتا ہے اور دوسرا اسلام کے نام پر خودکش حملے کرتا ہے۔ اکثریت ان دونوں کے درمیان پھنسی ہوئی ہے لیکن اب یہ مجبور اکثریت سڑکوں پر نکل رہی ہے۔ بظاہر پاکستان میں جمہوریت ہے اور میڈیا قدرے آزاد ہے لیکن مغربی مبصرین کو پاکستان میں بھی تیونس اور مصر جیسے عوامی مظاہروں کا خطرہ نظر آرہا ہے کیونکہ پاکستان کے عوام کو بھی پچھلے دس سال سے امریکہ نواز حکمرانوں کی پالیسیوں نے دکھ اور تکلیفوں کے سوا کچھ نہیں دیا۔ پاکستان کے عوام بھی لبرل فاشسٹوں اور مذہبی انتہا پسندوں کے درمیان پھنسے ہوئے ہیں اب پاکستانیوں کے صبر کا پیمانہ بھی لبریز ہوتا دکھائی دیتا ہے۔ تیونس کے صدر زین العابدین بن علی اور مصر کے صدر حسنی مبارک کی تصاویر کے ساتھ عوام سڑکوں پر جو کررہے ہیں اسکے بعد پاکستان کے حکمران طبقے کو سمجھ لینا چاہئے کہ جب مشکل وقت آتا ہے تو امریکہ کسی کی مدد نہیں کرتا۔ امریکہ مشکل میں پھنسے ہوئے اتحادی حکمرانوں کی مدد کرنے کی بجائے ان کیلئے مزید مشکلات پیدا کرتا ہے۔ لاہور میں امریکی قونصل خانے کے ایک اہلکار نے دو افراد کو گولی مار دی اور پھر امریکی قونصل خانے کی گاڑی نے ایک تیسرے شخص کو اپنے پہیوں کے نیچے کچل دیا۔ پنجاب پولیس نے تین افراد کے قاتل امریکی کو گرفتار کرکے مقدمہ درج کیا تو امریکی حکومت نے قاتل کو اپنا سفارتکار قرار دے کر جنیوا کنونشن کے تحت اس کی رہائی کا مطالبہ کردیا ہے۔ میڈیا میں موجود لبرل فاشسٹ اپنے امریکی بھائی کو معصوم ثابت کرنے کے لئے مقتولین کو ڈاکو ثابت کرنے پر تلے بیٹھے ہیں حالانکہ فیصلہ عدالت کو کرنا ہے۔ پنجاب پولیس کے بعض افسران کچھ امریکی سفارتکاروں کے براہ راست رابطے میں ہیں تاکہ کمزور تفتیش کے ذریعے ملزم کو فائدہ پہنچایا جاسکے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ لاہور میں امریکی قونصل خانے کا اہلکار جعلی نمبر پلیٹ والی گاڑی میں بغیر لائسنس کے اسلحے کے ساتھ کیوں گھوم رہا تھا؟ امریکی حکومت بین الاقوامی قوانین کے تحت اپنے اہلکار کو گرفتاری سے مستثنیٰ سمجھتی ہے لیکن کیا امریکی حکومت ہمیں یہ بتائے گی کہ وہ پاکستان پر ڈرون حملے کس بین الاقوامی قانون کے تحت کرتے ہیں؟ ایک پاکستانی شہری عافیہ صدیقی کو افغانستان سے گرفتار کرکے امریکہ کیسے لے جایا گیا حالانکہ یہ بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی تھی؟ سچ تو یہ ہے کہ تین پاکستانیوں کے قاتل امریکی کو عدالتی کارروائی کے بغیر رہا کرنے کا مطالبہ پاکستان کو مصر بنانے کے لئے کافی ہے۔ اسے کہتے ہیں لبرل فاشزم۔
ذرا سوچئے کہ اگر سلمان تاثیر کو قتل کردیا جائے تو امریکہ مذمت کرتا ہے لیکن جب امریکی قونصل خانے کی گاڑی ایک پاکستانی نوجوان عبادالرحمن کو کچل ڈالے تو کہا جاتا ہے کہ قاتلوں کو بین الاقوامی قانون کا تحفظ حاصل ہے۔ یہ ہے وہ تضاد جو پاکستان میں امریکہ کے خلاف نفرت میں اضافے کی وجہ ہے اور اس تضاد کی نشاندہی کرنے والوں کو امریکہ نواز لبرل فاشسٹ انتہا پسندوں کا ساتھی قرار دے کر چپ کرانے کی کوشش کرتے ہیں۔ وقت آگیاہے کہ پاکستانی قوم متحد ہو کر امریکہ کی بلیک میلنگ سے نکلے اور آئین و قانون کی بالادستی قائم کرکے مذہبی انتہا پسندوں کے ساتھ لبرل فاشسٹوں سے بھی نجات حاصل کرے۔ تین پاکستانیوں کے قاتل امریکی کے مستقبل کا فیصلہ صرف اور صرف پاکستانی عدالتیں کریں گی اور اگر ایسا نہ ہوا تو پھر پاکستان بھی تیونس اور مصر بنے گا۔ تیونس سے صرف ایک حسنی مبارک بھاگے گا لیکن پاکستان سے کئی حسنی مبارک بھاگیں گے۔

کالم نویس: حامد میر
بشکریہ - روزنامہ جنگ
31-جنوری-2011ء
Post Reply

Return to “منظر پس منظر”