اسباقِ فارسی - محمد یعقوب آسی

اردونامہ کی درسگاہ جہاں پر کھیل ہی کھیل میں کچھ سیکھنے سکھانے کا اہتمام موجود ہے۔
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

اسباقِ فارسی - محمد یعقوب آسی

Post by سیدتفسیراحمد »

[center]

اسباقِ فارسی


محمد یعقوب آسی

[/center]

[center]نوٹِ : یہ مضمون معروف ادبی تنظیم ”حلقہ تخلیق ِادب، ٹیکسلا“ کے ماہانہ ادبی مجلہ ”کاوش“ میں قسط وار شائع ہو چکا ہے
[/center]
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

فہرست


حرفِ غایت

باب ( 1 )
باب ( 2 )
باب ( 3 )
باب ( 4 )
باب ( 5 )
باب ( 6 )
باب ( 7 )
باب ( 8 )

ضمیمہ
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

حرفِ غایت



حرف و معنی سے تعلق رکھنے والے غیر فارسی دان طبقے کے حوالے سے ایک عجیب بات دیکھنے میں آئی ہے کہ فارسی کا رسمی علم نہ رکھنے کے باوجود ان کے ہاں فارسی کا درست استعمال پایا جاتا ہے جو در اصل فارسی کے اردو میں رچاؤ کا اثر ہے۔ تاہم جب کہیں فارسی شاعری یا نثر کی تفہیم کا معاملہ درپیش ہو تو مشکل پیدا ہو جاتی ہے۔ ضروری ہے کہ اس مشکل پر قابو پایا جائے اور فارسی زبان کے قواعد سے لازمی حد تک شناسائی حاصل کی جائے۔ حرف و معنی سے وابستہ احباب کے پاس اتنا ذخیرہ الفاظ ضرور موجود ہوتا ہے کہ انہیں یہ قواعد نہ تو اجنبی محسوس ہوں گے اور نہ ہی وہ ان کے اطلاق میں کوئی دقت محسوس کریں گے۔ ان اسباق کو ترتیب دیتے وقت ہم نے ایسے ہی احباب کو پیشِ نظر رکھا ہے، تاہم اتنی تفصیلات ضرور فراہم کر دی ہیں کہ فارسی پڑھنے والا عام طالب علم بھی ان اسباق کو بہ آسانی سمجھ سکے۔
(مضمون نگار)
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

باب (1)

برصغیر پاک و ہند کی تہذیب کا مطالعہ ظاہر کرتا ہے کہ یہاں کی ثقافت پر جتنا اثر فارسی نے چھوڑا ہے، شاید کسی اور زبان نے نہیں چھوڑا۔ سب سے اہم اور بنیادی حقیقت اردو کا رسم الخط ہے جو اسے فارسی نے عطا کیا۔ اس کے علاوہ ہم دیکھتے ہیں کہ جملے کی ساخت ہو، یا ترکیب سازی، معاملہ بندی ہو یا ایماءو اختصار ، فارسی کا نمایاں اثر ہر صاحبِ علم کو دکھائی دیتا ہے۔ اردو شاعری بالخصوص فارسی سے فیض یاب ہوئی ہے، اکثر شعری اصناف فارسی سے آئی ہیں یا فارسی کے وسیلے سے اردو میں متعارف ہوئی ہیں۔ اردو کے اساتذہ،چوٹی کے شعراء اور دیگر اہلِ ہنر کی ایک طویل فہرست بنتی ہے جو نہ صرف اردو بلکہ فارسی زبان و بیان میں بھی ماہر تسلیم کئے جاتے ہیں۔ بہت سوں نے اردو اور فارسی دونوں زبانوں میں شعر بھی کہے، نثر بھی لکھی۔ اقبال کے حوالے سے تو یہاں تک منقول ہے کہ ان کے نزدیک فارسی میں اظہار زیادہ محیط اور قوی ہے۔ ہماری اردو شاعری کی بنیاد رکھنے والوں کے ہاں غزل کے ایسے نمونے بھی ملتے ہیں جن میں ایک مصرع اردو میں تو دوسرا فارسی میں ہے۔ نثر کو لے لیجئے، جملے کی ساخت سے لے کر قواعد و انشاءتک فارسی کا اثر نمایاں ہے۔ ہماری گرامر اور گردان کی بنیاد فارسی پر ہے، اور ترکیب سازی کے سارے طریقے فارسی کے ہیں۔ ایک بڑی عجیب بات حرف و معنی سے تعلق رکھنے والے طبقے کے حوالے سے دیکھنے میں آئی ہے کہ فارسی کا رسمی علم نہ رکھنے کے باوجود ان کے ہاں فارسی کا صحیح استعمال پایا جاتا ہے(یہ در اصل فارسی کے اردو میں رچاؤ کا اثر ہے)۔ تاہم جب کہیں فارسی شاعری یا نثر سے براہ راست واسطہ پڑ جائے تو ایسے احباب کے لئے مشکل پیدا ہو جاتی ہے۔ ضروری ہے کہ اس مشکل پر قابو پایا جائے اور فارسی زبان کے قواعد سے لازمی حد تک شناسائی حاصل کی جائے۔ حرف و معنی سے وابستہ احباب کے پاس اتنا ذخیرہ الفاظ ضرور موجود ہوتا ہے کہ انہیں یہ قواعد نہ تو اجنبی محسوس ہوں گے اور نہ ہی وہ ان کے اطلاق میں کوئی دقت محسوس کریں گے۔
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

ان اسباق کو ترتیب دیتے وقت ہم نے ایسے ہی احباب کو پیشِ نظر رکھا ہے، تاہم اتنی تفصیلات ضرور فراہم کر دی ہیں کہ فارسی پڑھنے والا عام طالب علم بھی ان اسباق کو بہ آسانی سمجھ سکے۔آئیے ابتدا کرتے ہیں۔
کلمہ اور مہمل: ہر وہ بامعنی لفظ جو ہم ادا کرتے ہیں، کلمہ کہلاتا ہے۔ اس کے برعکس ایسی آوازیں یا الفاظ جو فی نفسہ کوئی معنیٰ نہ رکھتے ہوں انہیں مہمل کہا جاتا ہے۔

کلمہ کی تین صورتیں ہیں:

اسم،
فعل
اور حرف

اسم:
کسی بھی چیز، انسان، جگہ، حالت، وقت کے عام یا خاص نام کو جو اس کی شناخت بہم پہنچائے اسم کہا جاتا ہے۔ اسم کی چند اہم اقسام درج کی جاتی ہیں :

اسم نکرہ:
وہ اسم جو کسی عام شے یا جگہ کو ظاہر کرے، اس سے مذکورہ شخص، شے یا جگہ پوری طرح مذکورنہیں ہو پاتا۔ مثلاً: مرد، شہر، گلستان، شارع، روز، فرس۔ ان اسماءمیں مرد کے بارے میں نہیں معلوم کہ اس کا نام کیا ہے، یہی معاملہ شہر اور شارع کا ہے اور یہ بھی مذکور نہیں کہ آیا فرس سے مراد کوئی خاص گھوڑا ہے یا گھوڑا بطور قِسم مذکور ہے، و علیٰ ھٰذاالقیاس۔

اسم معرفہ:
جیسا کہ نام سے ظاہر ہے یہ کسی خاص شخص، جگہ، شے کو ظاہر کرتا ہے۔ مثلاً: محمد بن قاسم، احمد، سلطان، گلستانِ فاطمہ، دُلدُل، لاہور، تہران، وغیرہ میں اشیاءو انفس کے نام ان کی تخصیص کر دیتے ہیں۔

اسم ضمیر:
بسا اوقات گفتگو اور جملوں میں ہم اشخاص کے ناموں کی بجائے ایسے مختصر کلمات استعمال کرتے ہیں جو، ان ناموں کی طرف مکمل حوالہ بناتے ہیں۔ یہ اسم ضمیر کہلاتے ہیں۔ مثلاً: میں، وہ، آپ، تجھے (من، اُو، شما، تُرا) وغیرہ۔ ضمیر کی دو صورتیں ہیں: منفصل اور متصل۔ منفصل وہ ہے جہاں اسم ضمیر ایک مکمل اور آزاد لفظ کی صورت میں ہو جس کی مثالیں اوپر آ چکی ہیں۔ متصل ضمیر مرکب اضافی اور گردان میں آتے ہیں۔ مثلاً: کتابم (میری کتاب) میں م، قلمت (تیرا قلم) میں ت۔ گفتم (میں نے کہا) میں م، شنیدی (تو نے سنا) میں ی، گرفتمش (میں نے اسے پکڑا) میں م اور ش۔ تفصیل بعد میں آئے گی۔
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

اسم اشارہ:
کسی اسم یا کیفیت کی طرف اشارہ کرنے والے کلمات، یہ دو ہیں: اشارہ قریب (یہ: ایں۔ جمع: ایناں، اینہا) ، اور اشارہ بعید (وہ: آں۔ جمع: آناں، آنہا)۔

اسمِ استفہام:
وہ اسم ہے جس میں سوال پایا جاتا ہو۔ مثلاً: کہ (کون)، کجا (کہاں)، کدام (کب)، کرا (کس شخص کو)، چرا (کس شے کو، کیوں)، چہ (کیا)۔

اسمِ موصول:
اسمِ استفہام جہاں سوالیہ کی بجائے موصولی معنے دے گا اسمِ موصول کہلائے گا۔ مثلاً: کہ، ہرکہ (جو شخص)، چہ، ہر چہ (جو شے)،وغیرہ

اسمِ فاعل:
وہ اسم ہے جو کسی مصدر سے مشتق ہو اور اس میں فاعل (کام کرنے والا) کے معنے پائے جائیں۔ مثلاً: کنندہ (کرنے والا)، جویندہ (ڈھونڈنے والا)، یابندہ (پانے والا)، وغیرہ

اسمِ مفعول:
یہ بھی مصدر سے مشتق ہوتا ہے اور اس میں مفعول (جس پر کام واقع ہو) کے معنے پائے جاتے ہیں۔ مثلاً: کشیدہ (کھنچا ہوا)، کوفتہ (کوٹا ہوا)، دیدہ (دیکھا ہوا)، وغیرہ

اسمِ تصغیر:
کسی اسم کے معنوں میں چھوٹائی، کمتری وغیرہ کا مفہوم داخل کرنے سے اسم تصغیر حاصل ہوتا ہے۔ مثلاً: صندوق سے صندوقچہ، طفل سے طفلک، مشک سے مشکیزہ، وغیرہ
اسمِ مکبّر: کسی اسم کے معنوں میں بڑائی کا مفہوم داخل کرنے سے حاصل ہوتا ہے۔ مثلاً: زور سے شہ زور، کمان سے دیو کمان، و غیرہ۔

اسم ظرف:
یہ دو ہوتے ہیں،

ظرفِ زمان،
جس میں وقت کا معنیٰ پایا جائے جیسے: صبح، امروز، امشب، ماہ، دیروز، وغیرہ۔ ظرف مکان میں جگہ کا معنیٰ پایا جاتا ہے مثلاً: عیدگاہ، جاءنماز، دانش کدہ، قحبہ خانہ، وغیرہ۔

اسم حال:
یہ بھی مصدر سے لیا جاتا ہے اور اس میں کسی اسم کی حالت یا کیفیت کا معنیٰ پایا جاتا ہے۔ مثلاً دَوِیدن سے دَواں (دوڑتا ہوا)، رفتن سے رواں (چلتا ہوا)، کردن سے کُناں (کرتا ہوا)، شائستن سے شایاں (جچتا ہوا)، گریستن سے گِریاں (روتا ہوا)، خندیدن سے خنداں (ہنستا ہوا)، وغیرہ۔ واضح رہے کہ اسمِ فاعل اور اسم حال میں بہت تھوڑا فرق ہے اور یہ دونوں ایک دوسرے کی جگہ بھی لے لیا کرتے ہیں، لہٰذا یہاں التباس سے بچنا ضروری ہے۔

اسمِ کیفیت اور اسمِ صِفَت:
کسی کیفیت، خوبی، خامی، وصف کے نام کو اسم کیفیت کہا جاتا ہے۔ نیکی، بدی، خوشی، غم، تکبر، غرور، مسکنت، جہالت، وغیرہ۔ واضح رہے کہ اسمِ کیفیت کسی وصف کا نام ہے جبکہ اسمِ صفت کسی اسم پر کوئی وصف لاگو ہونے سے مشروط ہے گویا اسم صفت ایسا اسم ہے جو کسی دوسرے اسم کا کوئی وصف بیان کرے۔ اس کی صورت نیک، بد، خوش، مغموم، متکبر، مسکین، جاہل وغیرہ ہو گی۔
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

باب (2)

مصدر

وہ کلمہ ہے جس میں کام کے معانی پائے جاتے ہیں (یہ فعل سے مختلف ہوتا ہے اور عربی میں اسمِ مصدر کہلاتا ہے۔ اس میں زمانے کا تصور نہیں ہوتا)۔ مصدر سے فعل مستقبل اور فعل مضارع حاصل کرنے کے لئے ایک کلمہ اخذ کیا جاتا ہے جسے مضارع کہتے ہیں۔ (فارسی میں مضارع مقررہ کلمات ہیں اور ان میں اہل زبان کا تتبع کیا جاتا ہے ، تاہم اس کی ایک پکی شناخت یہ ہے کہ اس کا آخری حرف ہمیشہ د ہوتا ہے اور ماقبل پر زبر آتا ہے)۔ مثلاً: مصدر کردن (کرنا) سے مضارع کُنَد ہے، گفتن (کہنا) سے گویَد، آمدن (آنا) سے آیَد، رفتن (جانا) سے رَوَد، شناختن (پہچاننا) سے شناسد،و علیٰ ھٰذاالقیاس (گویَد، آیَد کو گوئد، آئد بھی لکھا جاتا ہے اور بالعموم درست سمجھا جاتا ہے)۔

اسم فاعل بنانے کے لئے علامتِ مضارع د کو ہٹا دیتے ہیں یا اس کی جگہ ندہ ماقبل پر زیر لگا دیتے ہیں۔ مثلاً: کردن سے کُن یا کنندہ (کرنے والا)، گفتن سے گوے (ے غیر ناطق)، گویِندہ یا گوئندہ (کہنے والا)، رفتن سے رَو (جانے والا، چلنے والا) ، شناختن سے شناس (پہچانے والا) وغیرہ اسم فاعل بنتے ہیں۔

اسمِ مفعول بنانے کے لئے مصدر کی علامت ن ہٹا کر اس کی جگہ ہ لگاتے ہیں۔ مثلاً: شنیدن سے شنیدہ (سنا ہوا)، خوردن سے خوردہ (کھایا ہوا)، شناختن سے شناختہ (پہچانا ہوا) وغیرہ

اسمِ تصغیر بنانے کے لئے اسم کے بعد کوئی علامتِ تصغیر: ک، زہ، چہ وغیرہ لگا دیتے ہیں۔ مثالیں اوپر آ چکی ہیں۔ یاد رہے کہ کہاں کون سی علامتِ تصغیر لگے گی، یہ اہلِ زبان پر ہے، ہمیں ان کا تتبع کرنا ہے۔

اسی نہج پر اسم مکبر بنانے کے لئے اسم سے پہلے علامت تکبیر :دیو، خر،شہ، شاہ وغیرہ لگاتے ہیں۔ یہاں بھی ہمیں اہلِ زبان کے ساتھ چلنا ہے۔
Last edited by سیدتفسیراحمد on Sun Nov 09, 2008 12:07 pm, edited 1 time in total.
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

اسمِ صفت کے تین درجے ہوتے ہیں:
جن کے نام عربی نہج پر
تفضیلِ نفسی،
تفضیلِ بعض
اور تفضیلِ کل ہیں۔

پہلا درجہ موصوف کے اپنے حوالے سے ہوتا ہے۔ مثلاً شہرِبزرگ (بڑا شہر) کا تقابل کسی سے نہیں۔ دوسرا درجہ تقابل کا ہے (مثلاً بزرگ تر)، یہ تب استعمال ہو گا جب گفتہ یا ناگفتہ طور پر موصوف کا تقابل کسی دوسرے سے کیا جائے۔ تیسرا درجہ (بزرگ ترین) ایسی صورت میں آئے گا جب اس کا تقابل باقی تمام سے ہو۔

ترکیب (مرکب ناقص):
کلمات کا وہ مجموعہ جس کا معنیٰ تو بنتا ہو مگر وہ مکمل جملہ نہ ہو، مرکب ناقص کہلاتا ہے، اسے ترکیب بھی کہتے ہیں ۔

فارسی میں چار طرح کی تراکیب عام مستعمل ہیں۔
ترکیب اضافی،
ترکیب توصیفی،
ترکیب عطفی
اور ترکیب عددی۔

ترکیب اضافی:
اس میں ایک اسم کا دوسرے اسم سے تعلق رکھنا ظاہر ہوتا ہے۔ علی کی کتاب (کتابِ علی)، لاہور کی سڑک (شارعِ لاہور) وغیرہ۔ نوٹ کریں کہ اردو کے بر عکس فارسی میں مضاف پہلے اور مضاف الیہ بعد میں آتا ہے۔ علامتِ اضافت (زیر) مضاف پر وارد ہوتی ہے۔ اگر مضاف الیہ کوئی اسم ضمیر ہو تو اس کی دو صورتیں ہوتی ہیں: پہلی ضمیر منفصل کے ساتھ جیسے، یارانِ من (میرے دوست)، شہرِ ما (ہمارا شہر)، سوئے تو (تیری طرف)۔ ان صورتوں میں علامتِ اضافت قائم رہتی ہے اور مضاف الیہ (اسمِ ضمیر) کی اصل(منفصل) صورت بھی۔ ضمیر منفصل کی صورتیں یہ ہیں: اُو (وہ: واحد)، اِیشاں (وہ: جمع)، تو (تُو)، شما (تم، آپ)، من (میں)، ما(ہم)۔ اسم ضمیر کے ساتھ ترکیبِ اضافی کی دوسری صورت میں ضمیر متصل ہوتا ہے۔ کتابش (اس کی کتاب)، دوستانم (میرے دوست)۔ ایسے میں حرف ضمیر کے ماقبل پر زبر ہو گا۔ متصل ضمیریں یہ ہیں: ش (اس کا، اس کی، اس کے)، شاں (ان کا، ان کی، ان کے)، ت (تیرا، تیرے، تیری)، تاں (تمہارا، تمہارے، تمہاری، آپ کا، آپ کے، آپ کی)، م (میرا، میری، میرے)، ماں (ہمارا، ہماری ہمارے)۔
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

ترکیب توصیفی:
یہ صفت اور موصوف کے ملنے سے بنتی ہے۔ اچھا کام (کارِ خیر)، نیک لوگ (مردانِ نکو)، بڑا شہر (شہرِ بزرگ) وغیرہ۔ یہاں بھی اردو کے برعکس فارسی میں صفت بعد میں اور موصوف پہلے آتا ہے۔ علامتِ توصیف (زیر) موصوف پر وارد ہوتی ہے۔

ترکیب عطفی:
دو یا زائد اسماءکو باہم ملانے کا نام ہے۔ اس مقصد کے لئے حرف عطف (و بمعنی اور) سے کام لیا جاتا ہے۔ مثلاً باد و باراں، بال و پر، شمس و قمر وغیرہ

ترکیب عددی:
اس میں اردو کی طرح عدد پہلے اور معدود بعد میں آتا ہے۔ مثلاً: ہفت رنگ، چہل اشعار، دو آتشہ وغیرہ۔

جملہ (مرکب تام):
الفاظ کا ایسا مجموعہ جس میں کم از کم ایک پوری بات یا ایک مکمل مفہوم پایا جائے اسے جملہ یا مرکب تام کہا جاتا ہے۔ جملہ کے متعدد اجزائے ترکیبی ہیں جن میں اسم، فعل اور حرف کی اہمیت بنیادی ہے۔ اسم کا بیان پہلے ہو چکا، فعل پر بحث کرنے سے پہلے مناسب ہو گا کہ ہم حرف سے شناسائی حاصل کر لیں۔ احتیاط رہے کہ حرف کے تصور کو حرفِ تہجی سے خلط ملط نہ کیا جائے۔ حروف تہجی مختلف آوازوں اور اعراب کی نمائندگی کرنے والی وہ اشکال ہےں جن کو ملا کر ہم الفاظ بناتے ہیں۔ ہم یہاں جس حرف کی بات کر رہے ہیں وہ در اصل ایسا لفظ ہے جو اسماءاور افعال کے مابین کسی نہ کسی تعلق کو ظاہر کرتا ہے۔

حرفِ عطف (و بمعنی اور):
یہ دو یا زیادہ اسماء، افعال وغیرہ کو کسی ایک مفہوم، حالت، فعل وغیرہ کے حوالے سے جمع کرتا ہے۔

حرفِ شرط (گر، اگر، ار): یہ کسی شرط کا ذکر کرتے ہیں۔

حرفِ وصل (لیکن، ولے، لہٰذا، تاہم، بہ ایں ہمہ، پس): یہ بالعموم دو جملوں کو آپس میں ملاتے ہیں اور ان کے مفاہیم کے درمیان اثباتی، نافیہ یا کسی دیگر تعلق کو ظاہر کرتے ہیں۔

حرفِ ندا (اے، یا):
یہ کسی کو مخاطب کرنے کے لئے استعمال ہوتے ہیں۔

حرفِ وجہ و حاصل (کہ، چونکہ، تا، تا کہ، تا آنکہ، پس):
یہ کسی کام، حالت، نتیجہ وغیرہ کی وجہ یا حاصل کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔

حرفِ جار (ب، بہ، در، از، تا، بر، زیر، بالا، تحت، برائے، ورائے، برون، بیرون، درون، پس وغیرہ):
یہ عام طور پر اسماءیا کیفیات کا ایک دوسرے سے تعلق ظاہر کرتے ہیں۔

حرفِ نافیہ (نہ، نخیر، ولے):
یہ نفی کا معنیٰ پیدا کرتے ہیں۔

حرفِ اثبات (بلے، نَعَم):
یہ اثبات کا معنیٰ پیدا کرتے ہیں۔

فارسی میں ایسے مرکب حروف کی مثالیں بہت عام ہیں جو مختلف حروف کو ملا کر بنا لئے جاتے ہیں ۔بسا اوقات یہ حروف اپنے متعلقہ اسماءو افعال کے ساتھ ملا دئے جاتے ہیں اور زبان میں حسن و اختصار پیدا کرتے ہیں۔ ذیل میں ایسے چند کثیر الاستعمال مرکبات کی وضاحت کی جا رہی ہے۔ اسی قیاس پر مزید مرکبات بنائے جاتے ہیں۔
کزو (تلفظ: کَ زُو): کہ (کہ)+ از (سے) + اُو (وہ) : کہ اُس سے، کہ اس کی طرف سے۔

کاں: کہ + آں (وہ) : کہ وہ۔ کیں: کہ + ایں (یہ): کہ یہ۔ ورنہ: و (اور) + ار(اگر) + نہ (نہیں) : اور اگر نہیں، اگر ایسا نہ ہوا تو۔ وغیرہ ، وغیرہ۔
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

باب ( 3 )

معنی کے اعتبار سے جملہ دو طرح کا ہوتا ہے
جملہ اسمیہ
اور جملہ فعلیہ۔

جملہ اسمیہ
وہ ہے جس کی بنیاد اسم پر ہو اور اس میں ایک یا زائد اسماءکے بارے میں کوئی خبر دی گئی ہو ۔مثلاً: ایں کتاب از من است (یہ کتاب میری ہے)، آن صندلی خوب نیست (وہ کرسی اچھی نہیں ہے)، پدرِ نوشیرواں صاحبِ فراش بود (نوشیروان کا باپ بیمار تھا) و غیرہ۔ اس میں جس اسم کے بارے میں کوئی خبر دی گئی ہو اسے مبتدا اور باقی جملے کو خبر کہا جاتا ہے۔
جملہ فعلیہ وہ ہے جس کی بنیاد فعل پر ہو اور اس کا مفہوم زمانے (ماضی، حال، مستقبل، امر، نہی) کے حوالے سے ہو۔ مثلاً: حمید نامہ می نویسد (حمید خط لکھتا ہے یا لکھ رہا ہے)۔ استاذِ من مرا پند می کرد (میرا استاذ مجھے نصیحت کرتا تھا یا کیا کرتا تھا)، تو برائے من چہ آوردہ ای (تو میرے لئے کیا لایا ہے؟)۔ واضح رہے کہ اس جملے میں فاعل ’تو‘ نہ لگا یا جائے تو بھی مفہوم واضح ہے، لہٰذا جہاں فاعل (ضمیر کی صورت میں) لگائے بغیر بات واضح ہو جائے وہاں فاعل نہ لگانا بہتر ہے۔

مناسب یہی ہے کہ یہاں مصدر کا تصور واضح تر کر لیا جائے۔ اردو میں مصدر (آنا، جانا، لکھنا، کھانا، پڑھنا، سونا وغیرہ)، انگریزی میں infinitive verb اور عربی اور فارسی میں اسمِ مصدر وہ اسم ہے جس سے تمام افعال نکلتے ہےں۔ فارسی مصدر کی بڑی شناخت یہ ہے کہ اس کے آخری حروف ہمیشہ تَن یا دَن ہوتے ہیں اردو میں اس کا معنیٰ فعل تام کی صورت میں ہوتا ہے۔ مثلاً: گفتن (کہنا)، شنیدن (سننا)، رفتن (جانا)، شناختن (پہچاننا)، نوشیدن (پینا)، دمیدن (پھونکنا) وغیرہ۔ مصدر سے مضارع اخذ کرنے کا بیان پہلے ہو چکا۔ مضارع در اصل اہل زبان کے مقرر کردہ وہ کلمات ہیں جن کا ہمیں تتبع کرنا ہو گا۔ اس کا کوئی لگا بندھا کلیہ نہیں ہے۔
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

گردان کا تصور:
جس طرح عربی میں صَرف کا تصور ہے اسی طرح اردو اور فارسی میں گردان کا تصور ہے جو جملہ فعلیہ کو سمجھنے میں مددگار ہوتا ہے۔ اس کا بنیادی وصف فعل کی صورت کا فاعل کے لحاظ سے منصرف ہونا ہے۔

فاعل کے اعتبار سے گردان کے چھ صیغے ہوتے ہیں، ان کی مستقل ترتیب یہ ہے:

واحد غائب (وہ: او)، جمع غائب (وہ: ایشاں)،
واحد حاضر (تُو: تو)، جمع حاضر (تم، آپ: شما)،
واحد متکلم (میں: من)
اور جمع متکلم (ہم: ما)۔

یہاں دو باتیں خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں:
فارسی میں فعل اور فاعل کے حوالے سے مذکر مؤنث کا تصور نہیں ہے، اردو میں ترجمہ کرتے وقت ہم معنوی لحاظ سے مذکر یا مؤنث اخذ کرتے ہیں۔ اوپر قوسین میں لکھے گئے اسمائے ضمیرمنفصل صرف تفہیم کے لئے ہیں، گردان میں یہ نہیں لکھے جاتے بلکہ وہاں ضمیر متصل (فاعل بصورتِ ضمیر متصل) گردان کے صیغوں کے اندر ہی پنہاں ہوتے ہیں۔

جس طرح اردو میں فعل ناقص اور انگریزی میں helping verb ہوتا ہے، اسی طرح فارسی میں بھی فعل ناقص ہوتا ہے جو دوسرے افعال کے ساتھ مل کر اس کے معانی اور زمانے میں تبدیلی پیدا کرتا ہے بعض فعل ناقص جب اکیلے استعمال ہوں تو اپنی جگہ مکمل یا مختلف معانی دیتے ہیں، ان کا تفصیلی مطالعہ فی الحال مؤخر کر کے یہاں کچھ فعل ناقص (اردو میں قریب ترین ممکنہ معانی کے ساتھ) درج کئے جاتے ہیں (واضح رہے کہ فعل ناقص کا معنیٰ موقع محل کے مطابق تغیر پذیر ہوتا ہے):
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

است، ہست (ہے)، بود (تھا)، بَوَد (ہووے)، شد (ہوا)، شَوَد (ہووے)، باشد (ہووے)، باید (چاہئے)۔
ان کی گردانیں درج کی جا رہی ہیں۔ مختصر طور پر یہ سمجھ لیں کہ مصدر کی علامت ن ہٹا دیں تو فعل ماضی مطلق کا صیغہ واحد حاضر حاصل ہوتا ہے۔اس پر کچھ مقررہ حروف کا اضافہ کر کے صیغے بنائے جاتے ہیں۔ تفصیل فعل ماضی مطلق کے تحت آئے گی۔

است در اصل مصدر ہستن سے ماخوذ ہے ۔ اس میں ماضی کا تصور نہیں ہوتا:

ہست (وہ ہے)، ہستند (وہ ہیں)، ہستی (تو ہے)، ہستید (تم ہو)، ہستم (میں ہوں)، ہستیم (ہم ہیں

است کی گردان بھی اسی نہج پر ہوتی ہے مگر یہ اکیلا نہیں آتا بلکہ کسی فعل کا حصہ بن کر آتا ہے۔ اتصال و اختصار کا عمل ہو کر صیغے یوں بنتے ہیں:

است ، اند ، ای، اید، ام، ایم۔
بودن (ہونا، ہو جانا، واقع ہونا) سے ماضی مطلق کی گردان: بو ُد، بودند، بودی، بودید، بودم، بودیم۔ اس کا مضارع بَو َد (تلفظ: بَ وَد) ہے یعنی ہووے، ہو جائے۔

عام طور پر بو َد کی گردان نہیں کی جاتی۔

شدن (ہونا، ہو جانا) سے ماضی مطلق کی گردان:
شد، شدند، شدی، شدید، شدم، شدیم۔ اس کا مضارع شَوَد (تلفظ: شَ وَد) ہے یعنی ہووے، ہو جائے اور گردان: شَوَد، شَوَند، شَوِی، شَوِید، شَوَم، شَوِیم۔

باشیدن (ہونا، رہنا) سے ماضی مطلق کی گردان:
باشید، باشیدند، باشیدی، باشیدید، باشیدم، باشیدیم۔ اس کا مضارع باشد ہے یعنی ہووے، ہو جائے اور گردان: باشد، باشند، باشی، باشید، باشم، باشیم۔

بائستن (ہونا، چاہنا) سے ماضی مطلق کی گردان:
بائست، بائستند، بائستی، بائستید، بائستم، بائستیم۔ اس کا مضارع باید (تلفظ: با یَد) ہے یعنی چاہئے۔ عام طور پر اس کی گردان نہیں کی جاتی۔

خواستن (چاہنا) سے ماضی مطلق کی گردان:
خواست، خواستند، خواستی، خواستید، خواستم، خواستیم۔ اس کا مضارع خواہد (تلفظ: خا ہَد) واوِمعدولہ کے ساتھ ہے یعنی ہو گا اور گردان: خواہد، خواہند، خواہی، خواہید، خواہم، خواہیم (تلفظ: خاہد، خاہَند، الخ)۔

آپ نے دیکھا کہ ان تمام مصادر کے معانی میں ’ہونا، ہو جانا‘ واضح ہے۔ یاد رہے کہ ان کا استعمال متعلقہ قواعد کے مطابق اپنے اپنے مقام پر ہوتا ہے، لہٰذا ضروری ہے کہ انہیں خلط ملط نہ کیا جائے۔
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

باب (4)

بنیادی طور پر زمانے تین ہیں: ماضی، حال اور مستقبل۔ عربی میں فعل مضارع حال اور مستقبل دونوں کے معنی دیتا ہے جب کہ فارسی میں یہ ان دونوں کے بین بین کا زمانہ ہے، دو دونوں پر محیط بھی ہو سکتا ہے۔ اردو میں رسمی طور پر اسے یوں بیان کرتے ہیں: وہ لکھے، میں پڑھوں، تو جائے، ہم آئیں، وہ سوئیں وغیرہ۔ فعل امر زمانے سے آزاد ہوتا ہے، اس میں کسی کام کا حکم، درخواست یا التجا پائی جاتی ہے۔ فعل امر کی نفی یعنی نہ کرنے کے حکم، درخواست وغیرہ کو فعل نہی کہتے ہیں۔ فارسی میں فعل ماضی کی چھ صورتیں ہیں جبکہ باقی کی ایک ایک۔ اس لئے مناسب ہو گا کہ ہم فعل ماضی کا بیان مؤخر کر کے باقی پر پہلے بات کر لیں۔

فعل مضارع ، فعل حال، فعل امر اور فعل نہی کی گردان ’مضارع‘ پر استوار ہوتی ہے۔فعل مضارع کی چند مثالیں دیکھئے:

مصدر آوردن (لانا) کا مضارع آرد ہے۔ اس کی گردان یوں ہو گی:

پہلا صیغہ (واحد غائب):
آرد (وہ لائے) تلفظ: آ رَد بظاہر مضارع ہی پہلا صیغہ بنا (کوئی تبدیلی نہیں ہوئی)۔ در حقیقت علامتِ مضارع د غائب ہو گئی اور اس کی جگہ پہلے صیغے کی د نے لے لی۔

دوسرا صیغہ (جمع غائب):
آرند (وہ لائیں) تلفظ: آ رَن د۔ علامتِ مضارع د غائب ہو گئی اور اس کی جگہ ند نے لے لی۔

تیسرا صیغہ (واحد حاضر): آری (تو لائے) علامتِ مضارع د غائب ہو گئی اور اس کی جگہ ی نے لے لی۔

چوتھا صیغہ (جمع حاضر): آرِید (تم لاؤ) علامتِ مضارع بدستور غائب رہی، اور اس کی جگہ ید نے لے لی۔

پانچواں صیغہ (واحد متکلم): آ رَم (میں لاؤں) علامتِ مضارع بدستور غائب رہی اور اس کی جگہ م نے لے لی۔
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

چھٹا صیغہ (جمع متکلم): آ ریم (ہم لائیں) علامتِ مضارع بدستور غائب رہی اور اس کی جگہ یم نے لے لی۔

آپ نے نوٹ کیا کہ فعل مضارع کی گردان کرنے کے لئے سب سے پہلے علامتِ مضارع د ہٹا دی جاتی ہے اور اس کی جگہ پہلے سے چھٹے صیغے تک (بالترتیب) د، ند، ی، ید، م، یم لگا دیا جاتا ہے۔

مصدر کشیدن (کھینچنا) سے مضارع کَشَد ہے اور فعل مضارع کی گردان:
کَشَد(وہ کھینچے)، کَشَند (وہ کھینچیں)، کَشی (تو کھینچے)، کَشید (تم کھینچو)، کَشَم (میں کھینچوں)، کشیم (ہم کھینچیں)۔

مصدر نشستن (بیٹھنا) سے مضارع نشِینَد ہے اور فعل مضارع کی گردان: نشینَد (وہ بیٹھے)، نشینند (وہ بیٹھیں)، نشینی (تو بیٹھے)، نشینید (تم بیٹھو)، نشینم (میں بیٹھوں)، نشینیم (ہم بیٹھیں)۔

فعل حال: فعل مضارع کے متعلقہ صیغے سے پہلے مے (اس کا تلفظ ’مے‘ اور ’می‘ دونوں طرح رائج ہے) داخل کرنے سے فعل حال حاصل ہوتا ہے۔ مثلاً: مے کشد (وہ کھینچتا ہے)، مے نشینید (تم بیٹھتے ہو)، مے بینم (میں دیکھتا ہوں: دیدن دیکھنا، مضارع بینَد)، مے کُنیم (ہم کرتے ہیں: کردن کرنا، مضارع کُنَد)، مے آیم (میں آتا ہوں)، مے ترسَند (وہ ڈرتے ہیں)، مے خورید (تم کھاتے ہو)۔ یاد رہے کہ : میں آتا ہوں، میں آ رہا ہوں، میں آیا کرتا ہوں سب کا فارسی ترجمہ ’مے آیم‘ ہے۔ بعض اوقات مے کی جگہ ہمے لگایا جاتا ہے جس سے فعل میں تواتر کا معنی شامل ہو جاتا ہے۔ مثلاً: ہمے ترسند (وہ ڈر رہے ہیں یا وہ ڈرا کرتے ہیں)، ہمے رَوَم (میں جا رہا ہوں، میں جایا کرتا ہوں)، و علیٰ ہٰذاالقیاس۔

فعل امر اور فعل نہی:

فعل امر کے صرف دو صیغے ہوتے ہیں:

واحد حاضر
اور جمع حاضر ۔

علامتِ مضارع د ہٹا دینے سے فعل امر صیغہ واحد حاضر، اور پھر اس پر ید داخل کرنے سے فعل امر صیغہ جمع حاضر حاصل ہوتا ہے۔
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

کَش (کھینچ)، کشید( کھینچو)، کُن (کر)، کنید (کرو)، نشین (بیٹھ جا)، نشینید (بیٹھ جاؤ)، نوِیس (لکھ)، نویسید (لکھو)، خواں (پڑھ)، خوانید (پڑھو)۔

یہاں آپ نے نوٹ کیا کہ فعل امر کا صیغہ واحد حاضر بالکل اسم فاعل کی طرح ہے یعنی کش (کھینچنے والا):

محنت کش، دُود کش۔ کن (کرنے والا): کار کن، تباہ کن۔ نشین (بیٹھنے والا): گوشہ نشین، مسند نشین۔ نویس (لکھنے والا): خوش نویس، وثیقہ نویس۔ خوان (پڑھنے والا): نوحہ خوان، نغمہ خواں، وغیرہ ۔

ادھر فعل مضارع اور فعل امر کے صیغہ جمع حاضر میں کوئی فرق نہیں۔ ایسے میں معانی کا کیا ہو گا؟ کرتے یہ ہیں کہ جہاں التباس کا اندیشہ ہو، وہاں فعل امر سے پہلے بَ لگا دیتے ہیں، اور معانی فعل امر کے ہی لیتے ہیں:

بکش، بکشید، بکن، بکنید، بنویس، بنویسید، بخواں، بخوانید، وغیرہ۔ فعل نہی بنانے کے لئے فعل امر سے پہلے مَ داخل کرتے ہیں: مَکُن (نہ کر، مت کر)، مَکُنید (نہ کرو، مت کرو)، مَکَش (نہ کھینچ، مت کھینچ)، مَکَشید (نہ کھینچو، مت کھینچو) وغیرہ۔ کبھی کبھی اس م کی بجائے ن بھی داخل ہوتا ہے، جس کی وضاحت افعالِ نافیہ کی ذیل میں آئے گی۔

فعل مستقبل بنانے کے لئے فعل ماضی مطلق سے پہلے خواہد کا متعلقہ صیغہ داخل کرتے ہیں۔ رفتن سے فعل ماضی مطلق رفت (وہ گیا) اور فعل مستقبل خواہد رفت (وہ جائے گا)، آمدن سے فعل مستقبل خواہد آمد (وہ آئے گا)، گفتن سے خواہد گفت (وہ کہے گا)، وغیرہ۔ ان کی گردانیں :

رفتن سے خواہد رفت، خواہند رفت، خواہی رفت، خواہید رفت، خواہم رفت، خواہیم رفت۔

آمدن سے خواہد آمد، خواہند آمد، خواہی آمد، خواہید آمد، خواہم آمد، خواہیم آمد۔

گفتن سے خواہد گفت، خواہند گفت،خواہی گفت، خواہید گفت، خواہم گفت، خواہیم گفت۔
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

فعل ماضی مطلق: گزرے ہوئے زمانے میں ہونے والا کام ، جس میں کوئی مزید تخصیص (قریب، بعید، استمرار) وغیرہ نہ ہو۔ مصدر کا ن ہٹا دیں تو فعل ماضی مطلق کا پہلا صیغہ حاصل ہوتا ہے۔ آمدن سے آمد (وہ آیا)، رفتن سے رفت (وہ گیا)، خوردن سے خورد (اس نے کھایا)، نوشتن سے نوشت (اس نے لکھا)۔
ساختن (بنانا)سے فعل ماضی مطلق معروف کی گردان : ساختن کا ن ہٹانے سے ساخت حاصل ہوا (اس نے بنایا)۔ یہ گردان کا پہلا صیغہ ہے۔

پہلا صیغہ(واحد غائب): ساخت (اس نے بنایا): کوئی تبدیلی نہیں ہوئی۔ (تلفظ : ساخ ت؛ دوسرا صیغہ(جمع غائب): ساختند (انہوں نے بنایا): پہلے صیغے پر ند کا اضافہ ہوا۔ تلفظ: ساخ تَن د؛

تیسرا صیغہ (واحد حاضر):
ساختی (تو نے بنایا): پہلے صیغے پر ی کا اضافہ ہوا؛

چوتھا صیغہ (جمع حاضر):
ساختید (تم نے بنایا): پہلے صیغے پرید کا اضافہ ہوا؛ پانچواں صیغہ (واحد متکلم): ساختم (میں نے بنایا): پہلے صیغے پر م کا اضافہ ہوا۔ تلفظ: ساخ تَم؛ چھٹا صیغہ (جمع متکلم): ساختیم (ہم نے بنایا): پہلے صیغے پر یم کا اضافہ ہوا۔

اسی طرح رفتن (جانا) کا ن ہٹانے سے رفت (وہ گیا)۔ پہلا صیغہ(واحد غائب): رفت (وہ گیا): کوئی تبدیلی نہیں ہوئی۔ تلفظ: رَف ت؛ دوسرا صیغہ(جمع غائب): رفتند (وہ گئے): پہلے صیغے پر ند کا اضافہ ہوا۔ تلفظ: رف تَن د؛ تیسرا صیغہ (واحد حاضر): رفتی (تو گیا): پہلے صیغے پر ی کا اضافہ ہوا۔ تلفظ: رف تی؛ چوتھا صیغہ (جمع حاضر): رفتید (تم گئے): پہلے صیغے پرید کا اضافہ ہوا؛ پانچواں صیغہ (واحد متکلم): رفتم (میں گیا): پہلے صیغے پر م کا اضافہ ہوا۔ تلفظ: رف تَم؛ چھٹا صیغہ (جمع متکلم): رفتیم (ہم گئے): پہلے صیغے پر یم کا اضافہ ہوا۔
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

فعل ماضی مطلق میں صیغہ سازی کا خلاصہ یہ ہے: 1 () ، 2 (ند)، 3 (ی)، 4(ید)، 5 (م)، 6 (یم)۔ مصدر کی علامت ن ہٹا کر اس پر قوسین کے اندر دئے گئے حروف داخل کریں۔ خالی قوسین کا مطلب ہے کچھ بھی نہیں۔

رنجیدن (ناخوش ہونا، فکرمند ہونا) سے فعل ماضی مطلق معروف کی گردان: رنجید (وہ ناخوش ہوا) رنجیدند (وہ ناخوش ہوئے)، رنجیدی (تو ناخوش ہوا)، رنجیدید (تم ناخوش ہوئے)، رنجیدم (میں ناخوش ہوا)، رنجیدیم (ہم ناخوش ہوئے) ۔

رَبُودَن (اچکنا) سے : رَبُود (اس نے اچک لیا)، ربودند، ربودی، ربودید، ربودم، ربودیم۔

فعل ماضی قریب: وہ ماضی ہے جس میں قریب کے معنے پائے جائیں مثلاً: وہ آیا ہے یا آ گیا ہے، میں نے خط لکھ لیا ہے، حمید جا چکا ہے، وغیرہ۔ مصدر کی علامت ن ہٹا کر اس کی جگہ ہ لگاتے ہیں۔ پھر اس پر فعل ناقص است داخل کرکے اس کی گردان مکمل کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر: نَوِش تن (لکھنا) کی علامتِ مصدر ن ہٹا کر ہ لگایا تو نَوِش تہ حاصل ہوا (اس کو اسم مفعول سے خلط ملط نہ کریں)۔ اس پر است داخل کر کے گردان مکمل کی تو: نوشتہ است (اس نے لکھا ہے)، نوشتہ اند (انہوں نے لکھا ہے)، نوشتہ ای (تو نے لکھا ہے)، نوشتہ اید (تم نے لکھا ہے)، نوشتہ ام (میں نے لکھا ہے)، نوشتہ ایم (ہم نے لکھا ہے)۔

آمدن (آنا) سے فعل ماضی قریب کی گردان: آمدہ است (وہ آیا ہے)، آمدہ اند (وہ آئے ہیں)، آمدہ ای (تو آیا ہے)، آمدہ اید (تم آئے ہو)، آمدہ ام (میں آیا ہوں)، آمدہ ایم (ہم آئے ہیں)۔ اسی نہج پر خوردن (کھانا) سے ماضی قریب کی گردان: خوردہ است (اس نے کھایا ہے)، خوردہ اند، خوردہ ای، خوردہ اید، خوردہ ام، خوردہ ایم بنتی ہے۔

فعل ماضی بعید:
وہ ماضی ہے جس میں بعید کے معنی پائے جاتے ہوں مثلاً: اس نے دیکھا تھا، وہ جا چکا تھا، ٹیم ہار گئی تھی، وغیرہ۔ فعل ماضی قریب میں است کی بجائے بُود لگا کر اس کی گردان مکمل کر لیتے ہیں۔ مثال کے طور پر: آمدہ بودم (میں آیا تھا)، رفتہ بودید (تم جا چکے تھے)، کُشتہ بودند (انہوں نے مارا تھا)۔

فعل ماضی شکیہ:
وہ ماضی ہے جس میں شک کا معنیٰ پایا جائے مثلاً: وہ آیا ہو گا، تم نے سنا ہو گا، آپ نے دیکھا ہو گا، وغیرہ۔ فعل ماضی قریب میں است کی بجائے باشد لگا کر اس کی گردان مکمل کر لیتے ہیں۔ مثلاً: آمدہ باشد (وہ آیا ہو گا)، شنیدہ باشی (تو نے سنا ہو گا)، دیدہ باشید (تم نے دیکھا ہو گا)، وغیرہ۔
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

فعل ماضی استمراری:
وہ ماضی جس میں استمرار اور جاری رہنے کے معنے پائے جائیں، مثلاً: میں جاتا تھا، وہ آ رہا تھا، ہم سو رہے تھے، حمید سن رہا تھا، آپ جانتے تھے، تو پوچھا کرتا تھا، وغیرہ۔ فعل ماضی مطلق سے پہلے مے لگاکر گردان مکمل کرتے ہیں۔ مثلاً: مے رفتم (میں جاتا تھا)، مے آمد (وہ آ رہا تھا)، مے خوابیدیم (ہم سوتے تھے)، مے گفتید (تم کہا کرتے تھے)، وغیرہ۔ واضح رہے کہ مثال کے طور پر ہم سنا کرتے تھے، ہم سن رہے تھے، ہم سنتے تھے ان تینوں صورتوں کا فارسی ترجمہ ایک ہی ہو گا یعنی مے شنیدیم۔ فعل حال کی طرح یہاں بھی فعل میں تواتر کا مفہوم دینے کے لئے مے کو ہمے سے بدل دیتے ہیں ، مثلاً: ہمے رفتم (میں جارہا تھا، میں جایا کرتا تھا)، و علیٰ ہٰذا القیاس۔

ماضی شرطی یا ماضی تمنائی:
ماضی کی وہ صورت ہے جو شرط، تمنا وغیرہ کے ساتھ خاص ہے۔ اس کی گردان معمول سے کسی قدر ہٹ جاتی ہے۔ در اصل تین صیغے (1۔واحد غائب، 2۔جمع غائب اور5۔ واحد متکلم) اس کے اپنے ہیں جن میں فعل ماضی مطلق پر ے داخل کرتے ہیں۔ باقی تین صیغے (3۔واحد حاضر، 4۔جمع حاضر اور 6۔جمع متکلم) ماضی استمراری سے لے لئے جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر:

کردن (کرنا) سے ماضی شرطی یا تمنائی کی گردان: کردے (وہ کرتا)، کردندے (وہ کرتے)، مے کردی (تو کرتا)، مے کردید (تم کرتے)، کردمے (میں کرتا)، مے کردیم (ہم کرتے)۔ گفتن (کہنا) سے ماضی شرطی یا تمنائی کی گردان: گفتے (وہ کہتا)، گفتندے (وہ کہتے)، مے گفتی (تو کہتا)، مے گفتید (تم کہتے)، گفتمے (میں کہتا)، مے گفتیم (ہم کہتے)۔ اور جُستن (ڈھونڈنا سے) : جُستے، جُستندے، مے جُستی، مے جُستید، جُستمے، مے جُستیم۔
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

باب ( 5 )

ہم جملہ فعلیہ اور افعال کی جملہ صورتوں سے تعارف حاصل کر چکے ہیں۔ تاہم ابھی تک ہم نے سوالیہ اور نافیہ جملوں کی مشق نہیں کی اور نہ ہی فعل مجہول پر بحث کی ہے۔ آگے چلنے سے پہلے مناسب ہو گا کہ مفعول کے حوالے سے فعل کی دونوں صورتوں یعنی فعل لازم اور فعل متعدی کا مطالعہ کر لیا جائے۔ فعل لازم وہ ہے جو اپنے معانی کی تکمیل کے لئے کسی مفعول کا تقاضا نہ کرے، مثلاً: چلنا، پھرنا، بولنا، سوچنا، سونا، جاگنا، مرنا وغیرہ۔

فعل متعدی اپنے معانی کی تکمیل کے لئے مفعول کا تقاضا کرتا ہے، مثلاً: چلانا، بلانا، جگانا، کھانا، پکڑنا، پیٹنا، سمجھانا، پکانا وغیرہ۔ یاد رہے کہ بے شمار افعال ایسے ہیں جو موقع محل کے مطابق لازم یا متعدی ہوتے ہیں، ایسے افعال کو فعل لازم و متعدی کہا جاتا ہے۔

دیگر، ایسے افعال بھی ہوتے ہیں جو بیک وقت ایک سے زیادہ مفعول کا تقاضا کرتے ہیں، مثلاً: اٹھوانا، لکھوانا، پکوانا، کھلانا، پلانا وغیرہ۔ انہیں متعدی المتعدی کہا جاتا ہے۔ ان مصادر کا فارسی ترجمہ کسی بھی اچھی قاموس، لغت یادرسی کتاب میں دیکھا جا سکتا ہے۔

فاعل اور مفعول کے حوالے سے فعل کی دو صورتیں ہیں۔
فعل معروف فاعل کے حوالے سے ہوتا ہے۔ اوپر ہم افعال پر جتنی بحث کر آئے، سب میں فعل معروف استعمال کیا ہے۔

فعل مجہول فاعل کی بجائے مفعول کے حوالے سے ہوتا ہے۔ جیسے، وہ مارا گیا، خط لکھا جا چکا، چائے پی جاتی ہے، سڑک بنائی جائے گی، چور پکڑا جاتا، تصویر بنا لی گئی ہوتی، وغیرہ۔ یاد رہے کہ فعل مجہول صرف فعل متعدی یا متعدی المتعدی کی صورت میں درست ہو سکتا ہے، فعل لازم سے فعل مجہول نہیں بن سکتا ۔ وجہ ظاہر ہے: فعل لازم اپنے معانی کے اعتبار سے مفعول کا متقاضی نہیں ہوتا اور فعل مجہول ہوتا ہی مفعول کے حوالے سے ہے۔ مثال کے طور پر ’آمدہ شد‘، ’رفتہ شد‘ اور ایسے مجہول افعال جو فعل لازم سے بنائے گئے ہوں، غلط اوربے معنی سمجھے جائیں گے۔
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

فعل مجہول بنانے کا ایک طریقہ تو یہ ہے کہ فعل (زمانے) کی ہر صورت کو الگ الگ دیکھا جائے، جو یقینا ایک طویل اور تھکا دینے والا عمل ہے۔

دوسرا براہِ راست طریقہ ہے جسے ہم نے انگریزی میں passive voice بنانے کے طریقے سے اخذ کیا ہے۔ فعل ماضی قریب بنانے کے قاعدے میں ذکر ہوا کہ مصدر کا ن ہٹا کر اس پر ہ داخل کرنے سے جو حاصل ہوتا ہے وہ اسم مفعول بھی ہوتا ہے۔ یہ اسم مفعول انگریزی میں verb کی تیسری حالت سے منطبق ہوتا ہے۔ اور وہ لوگ passive voice بنانے کے لئے verb کی زمانی حالت کی جگہ، اسی تیسری فارم کے ساتھ be کی زمانی حالت (is, are, am, was, were, been, shall be, will be, has been, had been) وغیرہ لاتے ہیں۔ ہم بھی یہی قاعدہ لگائیں گے۔انگریزی کا be فارسی کے شدن (ہونا) کا ہم معنی ہے اور shall, will فارسی کے خواہد کے ہم معنی ہیں۔ ہم اس خاصیت سے فائدہ اٹھائیں گے اور معاملے کو آسان رکھنے کے لئے جہاں ضروری ہوا، صرف ایک مصدر کردن (کرنا،do) پر مشق کریں گے۔ جملہ مصادر کا قیاس اسی پر ہوتا ہے۔

فعل مجہول بنانے کا براہ راست طریقہ:
آپ کے سامنے فعل معروف کا جو بھی جملہ ہے (زمانے، سوال، نفی، وغیرہ سے قطع نظر)، اس میں بنیادی فعل کا تعین کریں ۔ آپ نے افعال نکالے مثال کے طور پر: کردہ است، مے کرد، مے کنم، کردہ بودی، کردمے، خواہیم کرد، کردہ باشند، کردہ اند۔ (ان کے معانی یہ ہیں: اس نے کیا ہے، وہ کرتا تھا، میں کرتا ہوں، تو نے کیا تھا، میں کرتا، ہم کریں گے، انہوں نے کیا ہوگا، انہوں نے کیا ہے)۔ ان کی جگہ مصدر شدن کی وہی صورت رکھ دیں: شدہ است، مے شد، مے شود، شدہ بودی، شدمے، خواہیم شد، شدہ باشد، شدہ اند۔ اب ان سے پہلے اسم مفعول (کردہ) لگا دیں: کردہ شدہ است، کردہ مے شد،کردہ مے شود،کردہ شدہ بودی، کردہ شدمے،کردہ خواہیم شد،کردہ شدہ باشد، کردہ شدہ اند ۔ ان کے معانی یہ ہیں: وہ کیا گیا ہے، وہ کیا جاتا تھا، وہ کیا جاتا ہے، تو کیا گیا تھا، میں کیا جاتا، ہم کئے جائیں گے، وہ کئے گئے ہوں گے، وہ کئے گئے ہیں۔ اسی قیاس پر ہم کسی بھی مصدر سے حاصل شدہ کسی بھی زمانے اور کسی بھی ضمیر کے فعل معروف سے فعل مجہول بنا سکتے ہیں۔
Post Reply

Return to “درسگاہ اردونامہ”