گستاخانِ رسول اور ان کا انجام

مذاہب کے بارے میں گفتگو کی جگہ
Post Reply
اعجازالحسینی
مدیر
مدیر
Posts: 10960
Joined: Sat Oct 17, 2009 12:17 pm
جنس:: مرد
Location: اللہ کی زمین
Contact:

گستاخانِ رسول اور ان کا انجام

Post by اعجازالحسینی »

آئیے ! دیکھتے ہیں خود نبی انے اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو ایذا پہنچانے والوں سے کیا سلوک کیا، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے توہین رسالت پر کیا رویہ اختیار کیا، تابعین اور آئمہ نے کیا ردعمل ظاہر کیا اور گستاخِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا سلوک کیا۔ فقہاء نے گستاخوں کے لیے کیا احکامات دےئے ۔ اس بارے میں ائمہ سلف کے فتاویٰ بھی پڑھیے پھر فیصلہ فرمائیے کہ ان حالات میں آج عالم اسلام کی کیا ذمہ داری ہے۔
جیسا کہ قرآن خود بیان کرتا ہے کہ ”جو نفرت ان کافروں کی زبانوں سے ظاہر ہے وہ تو تم کو معلوم ہے او ر جو بغض ان کے سینوں میں چھپا ہے وہ بہت زیادہ ہے“ ۔یہود و نصاریٰ شروع دن سے ہی شانِ اقدس ا میں نازیبا کلمات کہتے چلے آرہے ہیں ۔ کبھی یہودیہ عورتوں نے آپ ا کو گالیاں دیں۔ کبھی کافر مردوں نے گستاخانہ قصیدے کہے۔ کبھی آپ اکی ہجو میں اشعارپڑھے اور کبھی نازیباکلمات کہے۔(اُس زمانے میں شاعری کا دور دورہ تھا ، کسی کی ہجو کے لیے قصیدہ کہا جاتا تھا، آج کافروں نے توہین کا انداز بدل دیا ہے اور فلموں کارٹونوں کے ذریعے مذاق اڑایا جاتا ہے۔) تو نبی انے شان ِ نبوت میں گستاخی کرنے والے بعض مردوں اور عورتوں کو بعض مواقع پر قتل کروایا۔ کبھی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو حکم دے کر اور کبھی پورے پروگرام کے ساتھ روانہ کرکے۔ کبھی کسی صحابی نے حُبِ رسول امیں خود گستاخِ نبی کے جگر کو چیر دیا اور کبھی عزم کر لیا کہ خود زندہ رہوں گا یا گستاخِ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ۔ کبھی نذر مان لی کہ فلاں گستاخ کو ضرور قتل کروں گا ۔ جو گستاخ مسلمانوں کی تلوار سے بچے رہے، انہیں اللہ جل شانہ نے عذابوں میں مبتلا کیا ۔ رسوائیوں کا شکار رہے ۔ قبر نے اپنے اندر رکھنے کے بجائے باہر پھینک دیا کہ عبرت کا نمونہ بن جائے۔
”اگر وہ عہد کرنے کے بعد اپنی قسموں کو توڑ ڈالیں اور تمہارے دین میں طعن کریں تو ان کفر کے پیشواوئں کے ساتھ جنگ کرو۔“ (التوبہ، ۱۲)
حافظ ابنِ کثیر اس آیت کے ضمن میں واضح حکم لگاتے ہیں: ” جو آنحضرت اکی شان میں بدگوئی کرے ، کوئی طعن یا عیب لگائے ، وہ قتل کیا جائے گا“۔ (تفسیر ابنِ کثیر، ج۲، ص۳۷)

عصما بنت مروان کا قتل (۲۵رمضان سن ۲ہجری)
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ خطمہ قبیلے کی ایک عورت نے ہجو کی ۔نبی انے فرمایا کہ اس عورت سے کون نبٹے گا۔ عمیر بن عدی نے جا کر اسے قتل کر دیا تو نبی ا نے فرمایا دو بکریاں اس میں سینگوں سے نہ ٹکرائیں یعنی اس عورت کا خون رائیگان ہے اور اس میں کوئی دو آپس میں نہ ٹکرائیں۔ (الصارم المسلول۔ ۱۲۹)
بعض مورخین نے اس کی تفصیل یوں بیان کی ہے عصما بنت مروان بنی عمیر بن زید کے خاندان سے تھی ،وہ یزید بن زید بن حصن الخطیمی کی بیوی تھی، یہ رسول ا کو ایذاء اور تکلیف دیا کرتی تھی ۔ اسلام میں عیب نکالتی اور نبی اکے خلاف لوگوں کو اکساتی تھی۔ عمیر بن عدی الخطمی ، جن کی آنکھیں اس قدر کمزور تھیں کہ جہاد میں نہیں جا سکتے تھے ۔ ان کو جب اس عورت کی باتوں اور اشتعال انگیزی کا علم ہوا تو کہنے لگے کہ اے اللہ! میں تیری بارگاہ میں نذر مانتا ہوں اگر تو نے رسول ا کو بخیر و عافیت مدینہ منورہ لوٹا دیا تو میں اسے ضرور قتل کردوں گا۔ رسول ا اس وقت بدر میں تھے۔ جب آپ ا غزوہ بدر سے تشریف لائے تو عمیر بن عدی رضی اللہ عنہ آدھی رات کے وقت اس عورت کے گھر میں داخل ہوئے تو اس کے اردگرد اس کے بچے سوئے ہوئے تھے۔ ایک بچہ اس کے سینے پر تھا جسے وہ دودھ پلا رہی تھی۔ عمیررضی اللہ عنہ نے اپنے ہاتھ سے اس عورت کو ٹٹولا تو معلوم ہوا کہ یہ عورت اپنے بچے کو دودھ پلا رہی ہے۔ عمیررضی اللہ عنہ نے بچے کو اس سے الگ کر دیا پھر اپنی تلوار کو اس کے سینے پر رکھ کر اس زور سے دبایا کہ وہ تلوار اس کی پشت سے پار ہوگئی ۔پھر نماز ِ فجر رسول ا کے ساتھ ادا کی۔ جب نبی ا نماز سے فارغ ہوئے تو عمیررضی اللہ عنہ کی طرف دیکھ کر فرمایا: کیا تم نے بنت مروان کو قتل کیا ہے؟ کہنے لگے :جی ہاں! میرے ماں باپ آپ ا پر قربان ہوں ،اے اللہ کے رسول ا۔ عمیررضی اللہ عنہ کو اس بات سے ذرا ڈر سا لگا کہ کہیں میں نے رسول اللہا کی مرضی کے خلاف تو قتل نہیں کیا۔ کہنے لگے: اے اللہ کے رسول ا! کیا اس معاملے کی وجہ سے مجھ پر کوئی چیز واجب ہے؟ فرمایا کہ دو بکریاں اس میں سینگوں سے نہ ٹکرائیں ۔پس یہ کلمہ رسول اللہ ا سے پہلی مرتبہ سنا گیا۔ عمیررضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول ا نے اپنے اردگرد دیکھا تو فرمایا تم ایسے شخص کو دیکھنا پسند کرتے ہو، جس نے اللہ اور اس کے رسول ا کی غیبی مدد کی ہے، تو عمیر بن عدی کو دیکھ لو۔ حضرت عمررضی اللہ عنہ نے فرمایا:” لو یہنابیناتو ہم سے بازی لے گیا، اس نے ساری رات عبادت میں گزاری۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ﷺنے فرمایا : اسے نابینا نہ کہو،یہ بینا ہے۔ (الصارم المسلول ،ص۱۳۰)
ابو عفک یہودی کا قتل (شوال ۲ہجری)
ابن تیمیہ مورخین کے حوالے سے شاتمِ رسول ابو عفک یہودی کا قصہ بیان کرتے ہیں کہ بنی عمرو بن عوف کا ایک شیخ جسے ابو عفک کہتے تھے، وہ ۱۲۰ سال کا بوڑھا آدمی تھا۔جس وقت رسول ا مدینہ منورہ تشریف لائے تو یہ بوڑھا لوگوں کو آپ اکی عداوت پر بھڑکاتا تھا اور مسلمان نہیں ہوا تھا، جس وقت رسول اللہ ا بدر کی طرف نکلے اور غزوئہ بدر میں آپ اکو اللہ تعالیٰ نے کامیابی عطا فرمائی تو اس شخص نے حسد کرنا شروع کردیا اور بغاوت اور سرکشی پر اتر آیا ۔ رسول ا اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی مذمت میں ہجو کرتے ہوئے ایک قصیدہ کہا ۔اس قصیدے کو سن کر عاشقِ رسول ا سالم بن عمیررضی اللہ عنہ کی وہی حالت ہوئی جو ایک عاشق رسول کی ہونی چاہئے اور انھوں نے نذر مانی کہ میں ابو عفک کو قتل کروں گا یا اسے قتل کرتے ہوئے خود جان دے دوں گا۔ پس رسول اکی اجازت کی ضرورت تھی، جو مل گئی۔ سالم رضی اللہ عنہ موقع کی تلاش میں تھے، موسمِ گرما کی ایک رات ابو عفک قبیلہ بنی عمرو بن عوف کے صحن میں سویا ہوا تھا۔ سالم بن عمیررضی اللہ عنہ اس کی طرف آئے اور اس کے جگر پر تلوار رکھ دی، جس سے وہ بستر پر چیخنے لگا مگر اس مردود کا کام تمام کردیا۔ (الصارم المسلول ،ص ۱۳۸)
انس بن زنیم الدیلمی کی گستاخی
انس بن زنیم الدیلمی نے رسول اللہا کی ہجو کی۔ اس کو قبیلہ خذاعیہ کے ایک بچے نے سن لیا، اس نے انس پر حملہ کردیا۔ انس نے اپنا زخم اپنی قوم کو آکر دکھایا ۔ واقدی نے لکھا ہے کہ عمرو بن سالم خزاعی ”قبیلہ خزاعیہ“ کے چالیس سواروں کو لے کر رسول اللہ اکے پاس مدد طلب کرنے گیا ۔انھوں نے آکر اس واقعہ کا تذکرہ کیا جو انھیں پیش آیا تھا۔ جب قافلے والے فارغ ہوئے تو انھوں نے کہا: یا رسول اللہا!انس بن زنیم الدیلمی نے آپ کی ہجو کی ہے تو رسول ا نے اس کے خون کو رائیگاں قرار دیا۔ ( الصارم المسلول، ص۱۳۹)
ایک گستاخِ رسول عورت
ایک عورت رسول ا کو گالیاں دیا کرتی تھی ۔ آپ ا نے فرمایا:
”من یکفینی عدوی“
میری دشمن کی خبر کون لے گا؟ تو خالد بن ولیدرضی اللہ عنہ نے اس عورت کو قتل کردیا ۔ (الصارم المسلول،ص ۱۶۳)
مشرک گستاخ رسول اکا قتل
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں
مشرکین میں سے ایک آدمی نے رسول ا کو گالی دی تو رسول ا نے فرمایا: میرے اس دشمن کی خبر کون لے گا تو حضرت زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اورعرض کرنے لگے: یا رسول اللہ ا میں حاضر ہوں ۔ حضرت زبیررضی اللہ عنہ نے اسے قتل کردیا تو رسول ا نے اس کا سامان حضرت زبیررضی اللہ عنہ کو دے دیا۔ (الصارم المسلول،ص ۱۷۷)
[center]ہوا کے رخ پے چلتا ہے چراغِ آرزو اب تک
دلِ برباد میں اب بھی کسی کی یاد باقی ہے
[/center]

روابط: بلاگ|ویب سائیٹ|سکرائبڈ |ٹویٹر
اعجازالحسینی
مدیر
مدیر
Posts: 10960
Joined: Sat Oct 17, 2009 12:17 pm
جنس:: مرد
Location: اللہ کی زمین
Contact:

Re: گستاخانِ رسول اور ان کا انجام

Post by اعجازالحسینی »

دشمن رسول ابو رافع یہودی کا قتل
امام بخاری نے ”الجامع الصحیح“ میں درج ذیل واقعہ نقل کیا ہے۔ یہ مثال ایک بہت بڑے اسلام دشمن اور دشمنِ رسول ابو رافع یہودی کے بارے میں ہے۔وہ رسول اکرم اسے خوب دشمنی رکھتا تھا اور لوگوں کو بھی رسول اللہ ا سے دشمنی کرنے پر ابھارتا تھا۔ صحیح بخاری میں اس بارے میں جو واقعہ ہے، سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ اس کو یوں بیان فرماتے ہیں:
”رسول اللہانے ابو رافع یہودی (کے قتل) کے لیے چند انصاری صحابہ رضی اللہ عنہم کو بھیجا اور سیدنا عبداللہ بن عتیک رضی اللہ عنہ کو ان کا امیر مقرر کیا۔ ابو رافع رسول اکرم ا کو تنگ کیا کرتا تھا اور آپ ا کے دشمنوں کی مدد کیا کرتا تھا۔سرزمین حجاز میں اس کا ایک قلعہ تھا اور وہیں سکونت پذیر تھا۔جب وہ اس قلعے کے قریب پہنچے تو سورج غروب ہو چکا تھا۔ لوگ اپنے مویشی لے کر (اپنے گھروں کو) واپس ہوچکے تھے۔سیدنا عبداللہ بن عتیک رضی اللہ عنہ نے اپنے ساتھیوں سے کہا: تم لوگ یہیں ٹھہرے رہو! میں (اس قلعہ پر) جا رہا ہوں اور دربان پر کوئی تدبیر کروں گاتاکہ میں اندر جانے میں کامیاب ہوجاؤں۔ چنانچہ وہ (قلعہ کے پاس) آئے اور دروازے کے قریب پہنچ کر انھوں نے خود کو اپنے کپڑوں میں اس طرح چھپا لیا جیسے کوئی قضائے حاجت کررہا ہو۔قلعہ کے تمام آدمی اندر داخل ہوچکے تھے۔دربان نے آواز دی۔ایخدا کے بندے!اگر اندر آنا ہے تو جلدی آجا۔میں اب دروازہ بند کر دوں گا۔ (سیدنا عبداللہ بن عتیک رضی اللہ عنہ نے کہا)چنانچہ میں بھی اندر چلا گیا اور چھپ کر اس کی حرکات و سکنات دیکھنے لگا۔
جب سب لوگ اندر آگئے تو اس نے دروازہ بند کیا اور کنجیوں کا گچھا ایک کھونٹی پر لٹکا دیا ۔ سیدنا عبداللہ بن عتیک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: اب میں ان کنجیوں کی طرف بڑھا اور انہیں اٹھا لیا۔پھر میں نے قلعہ کا دروازہ کھول لیا۔ابو رافع کے پاس رات کے وقت داستانیں بیان کی جارہی تھیں۔ اور وہ اپنے خاص بالاخانہ میں تھا۔جب رات کے وقت قصہ گوئی کرنے والے (داستان گو) اس کے پاس سے اٹھ کر چلے گئے تو میں اس کے مخصوص کمرے کی طرف بڑھنے لگا۔ اس تک پہنچنے کے لئے اس دوران میں جتنے دروازے کھولتا تھا، انہیں اندر سے بند کرتا جاتا تھا۔میرا مطلب یہ تھاکہ اگر قلعے والوں کو میرے متعلق علم ہو بھی جائے تو اس وقت تک یہ لوگ میرے پاس نہ پہنچ سکیں جب تک میں اسے قتل نہ کرلوں۔ آخر میں اس کے قریب پہنچ ہی گیا۔اس وقت وہ ایک تاریک کمرے میں اپنے اہل و عیال کے ساتھ (سو رہا) تھا۔ مجھے کچھ اندازہ نہ ہو سکا کہ وہ کہاں ہے؟ اس لئے میں نے آواز دی: ابو رافع! وہ بولا کون ہے؟ اب میں نے آواز کی طرف بڑھ کر تلوار کی ایک ضرب لگائی۔اس وقت میرا دل دھک دھک کر رہا تھا ، یہی وجہ ہوئی کہ میں اس کا کام تمام نہیں کر سکا۔جب وہ چیخا تو میں کمرے سے باہر نکل آیا اور تھوڑی دیر تک باہر ہی ٹھہرا رہا۔پھر دوسری مرتبہ اندر گیا۔ میں نے پھر آواز بدل کر پوچھا: ابورافع یہ آواز کیسی تھی؟ وہ بولا تیری ماں غارت ہو۔ ابھی ابھی مجھ پر کسی نے تلوار سے حملہ کیا ہے۔(سیدنا عبداللہ بن عتیک  فرماتے ہیں:)میں نے پھر (آواز کی طرف بڑھ کر)تلوار کی ایک ضرب لگائی۔اگرچہ میں اس کو خوب لہولہان کر چکا تھا مگر وہ ابھی مرا نہیں تھا۔ اس لیے میں نے تلوار کی نوک اس کے پیٹ پر رکھ کر دبائی جو اس کی پیٹھ تک پہنچ گئی ۔ مجھے اب یقین ہو گیا کہ میں اسے قتل کر چکا ہوں۔
چنانچہ میں نے ایک ایک کرکے دروازے کھولنے شروع کردیے۔بالآخر ایک زینے پر پہنچا ۔ میں یہ سمجھا کہ میں زمین پر پہنچ چکا ہوں، (لیکن میں ابھی پہنچا ہی نہ تھا) اس لیے میں نے اس پر پاؤں رکھ دیا اور نیچے گر پڑا۔ چاندنی رات تھی۔ اس طرح گر پڑنے سے میری پنڈلی زخمی ہوگئی ۔ میں نے اس کو اپنی پگڑی سے باندھ لیا اور آخر دروازے پر بیٹھ گیا۔ میں نے یہ ارادہ کر لیا تھا کہ یہاں سے اس وقت تک نہیں جاؤں گا جب تک یہ معلوم نہ کر لوں کہ آیا میں اسے قتل کر چکا ہوں یا نہیں؟ جب مرغ نے اذان دی تو اسی وقت قلعہ کی فصیل (دیوار) پر ایک آواز دینے والے نے کھڑے ہوکر آواز دی: لوگو! میں اہل حجاز کے تاجر ابو رافع کی موت کا اعلان کرتا ہوں۔تب میں اپنے ساتھیوں کے پاس آیا اور ان سے کہا چلنے کی جلدی کرو۔ اللہ تعالیٰ نے ابو رافع کو میرے ہاتھوں قتل کرا دیا ہے۔
پھر میں نبی اکرم ا کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ ا کو ابو رافع کے قتل کی اطلاع دی ۔ رسول اللہ انے فرمایا: اپنا پاؤں آگے کرو۔ میں نے اپنا پاؤں آگے کیا تو آپ ا نے اس پر اپنا دست مبارک پھیرا ،میرا پاؤں فوراً اتنا اچھا ہوگیا جیسے کبھی اس میں مجھ کو تکلیف ہوئی ہی نہ تھی“۔
حافظ ابن حجر عسقلانی ، ابو رافع یہودی کے قتل کے بارے میں مذکورہ بالا حدیث کی شرح بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: اس حدیث سے یہ بات بھی ثابت ہوتی ہے کہ ایسے لوگوں پر اچانک چھاپہ مارکاروائی کی جا سکتی ہے۔ جس سے مسلمانوں کو انتہائی درجہ کی اذیتیں لاحق ہو رہی ہوں۔

یہودی طاغوت کعب بن اشرف کا قتل
”رسول اللہ ا نے اپنے صحابہ سے فرمایا: کعب بن اشرف کا کام کون تمام کرے گا؟ وہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ا کو بہت زیادہ ستا رہا ہے“۔ اس پر سیدنا محمد بن مسلمہ انصاری رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور عرض کیا: یا رسول صلی اللہ علیہ وسلم !کیا آپ پسند کرتے ہیں کہ میں اس کو قتل کر ڈالوں؟ آپ ا نے فرمایا: ہاں مجھے یہ پسند ہے۔ انہوں نے عرض کیا: کیا آپ مجھے اجازت مرحمت فرمائیں گے کہ بقدر ضرورت اس سے جو مناسب سمجھوں ،بات کرلوں؟ (خواہ ظاہراً وہ بری اور ناجائز ہی ہو) آپ ا نے فرمایا: اجازت ہے۔
محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ کعب بن اشرف کے پاس آئے اور اس سے کہا: یہ شخص (اشارہ رسول اکرم ا کی جانب تھا) ہم سے صدقہ مانگتا رہتا ہے اور اس نے ہمیں مشقت میں مبتلا کر رکھا ہے۔اس لیے میں تم سے قرض لینے آیا ہوں۔اس پر کعب بن اشرف کہنے لگا: ابھی آگے آگے دیکھنا ہوتا ہے کیا۔خدا کی قسم! تم بالکل اکتا جاؤ گے۔ سیدنا محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ نے کہا: چونکہ ہم نے اس کی اطاعت کر لی ہے، اس لیے جب تک یہ معاملہ کھل نہ جائے کہ ان کا انجام کیا ہوتا ہے۔ انہیں چھوڑنا بھی مناسب نہیں۔میں تم سے ایک وسق (ایک وسق ساٹھ (۶۰) صاع کے برابر ہوتا ہے جو تقریباً ایک سو تیس کلو کے برابر بنتا ہے) یا (راوی نے بیان کیا) دو وسق غلہ بطور قرض لینے آیاہوں۔(حدیث کے ایک راوی سفیان کہتے ہیں: ہم سے حدیث کے ایک راوی عمرو بن دینار نے یہ حدیث کئی مرتبہ بیان کی لیکن ایک وسق یا دو وسق غلے کا کوئی ذکر نہیں کیا۔ میں نے ان سے پوچھا۔ کیا حدیث میں ایک وسق یا دو وسق غلے کا بھی ذکر ہے؟ انھوں نے کہا! میرا بھی خیال ہے کہ حدیث میں ایک وسق یا دو وسق کا ذکر آیا ہے)۔
کعب بن اشرف نے کہا: ہاں! میرے پاس کوئی چیز گروی رکھ دو۔ محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ نے کہا: کونسی چیز تم گروی چاہتے ہو؟ کعب بن اشرف نے کہا: اپنی عورتوں کو گروی رکھ دو۔ سیدنا مسلمہ رضی اللہ عنہ نے کہا: تم عرب کے نہایت خوبصورت مرد ہو، ہم تمہارے پاس اپنی عورتیں کس طرح گروی رکھ سکتے ہیں، کل کلاں انہیں اسی بات پر گالیاں اور طعنے دیے جائیں گے کہ یہ تو وہی ہے نا کہ جسے ایک وسق یا دو وسق غلے کے بدلے گروی رکھا گیا تھا۔ یہ تو ہمارے لیے بہت بڑی ذلت ہوگی، البتہ ہم تمہارے پاس اپنے ”لائمہ“ گروی رکھ دیتے ہیں (حدیث کے ایک راوی سفیان کہتے ہیں : لائمہ سے مراد ہتھیار اور اسلحہ تھا)۔
محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ نے دوبارہ ملاقات کرنے کا وعدہ کیا۔ (کچھ دنوں کے بعد) وہ رات کے وقت کعب بن اشرف کے پاس آئے ۔ ان کے ساتھ ابو نائلہ رضی اللہ عنہ بھی تھے اور وہ کعب بن اشرف کے رضاعی بھائی تھے۔پھر اس کے قلعہ کے پاس جا کر انھوں نے آواز دی۔ وہ باہر آنے لگا تو اس کی بیوی نے کہا: اس وقت (اتنی رات گئے) باہر کہاں جا رہے ہو؟ کعب بن اشرف نے کہا: باہر محمد بن مسلمہ اورمیرے رضاعی بھائی ابو نائلہ ہیں۔
ویسے بھی ایک بہادر، معزز اور شریف آدمی کو اگر رات کے وقت نیزہ بازی کے لیے بلایا جائے تو وہ نکل پڑتا ہے۔ عمرو بن دینار نے بیان کیا کہ جب سیدنا محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ اندر گئے تو ان کے ساتھ دو آدمی اور تھے۔سفیان سے پوچھا گیا: کیا عمرو بن دینار نے ان کے نام بھی لیے تھے؟ انھوں نے بتایا کہ عمرو بن دینار نے بعض کا نام لیا تھا۔ عمرو بن دینار کے علاوہ دوسرے راوی سفیان بن عینیہ نے ابو عبسزبن جبر، حارث بن اوس اور عباد بن بشر اپنے ساتھ دو آدمی اور لائے تھے۔ اور انہیں یہ ہدایت کی تھی کہ جب کعب ہماری طرف آئے گا تو میں اس کے بال اپنے ہاتھوں میں لے لوں گا اور انہیں سونگھوں گا۔ جب تمہیں اندازہ ہو جائے گا کہ میں نے اس کا سر پوری طرح اپنے قبضے میں لے لیا ہے تو پھر تم تیار ہو جانا اور اسے قتل کر ڈالنا۔ عمرو بن دینار نے ایک دفعہ یہ بیان کیا کہ محمد بن مسلمہ  نے فرمایا پھر میں اس کا سر تمہیں بھی سنگھاؤں گا۔
بالآخر کعب بن اشرف چادر لپیٹے ہوئے باہر آیا ۔ اس کے سر سے خوشبو پھوٹ رہی تھی۔ محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ نے کہا: آج سے زیادہ عمدہ خوشبو میں نے پہلے کبھی نہیں سونگھی۔ عمرو کے سوا دوسرے راوی سفیان بن عینیہ نے بیان کیا: کعب بن اشرف اس بات پر بولا: میرے پاس عرب کی وہ عورت ہے جو ہر وقت عطر میں بسی رہتی ہے اور حسن و جمال میں بھی اس کی کوئی نظیرنہیں۔ عمرو بن دینار کہتے ہیں: محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ نے کہا: کیا تمہارے سر کو سونگھنے کی اجازت ہے؟ اس نے کہا سونگھ سکتے ہو۔ محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ نے کعب بن اشرف کا سر سونگھا اور ان کے بعد ان کے ساتھیوں نے بھی سونگھا۔ پھر دوسری دفعہ محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ نے سر کو سونگھنے کی اجازت مانگی۔ اس نے دوسری دفعہ بھی اجازت دے دی۔ پھر جب محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ نے پوری طرح اسے اپنے قبضہ میں کر لیا تو اپنے ساتھیوں کو اشارہ کیا کہ تیار ہو جاؤ۔ چنانچہ انھوں نے اسے قتل کر دیا پھر نبی اکرم ا کی خدمت اقدس میں حاضر ہو کر اس کامیاب کارروائی کی اطلاع دی۔

ام ولد باندی کا قتل
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ایک نابینا کی ام ولد باندی تھی جو نبی ا کو گالیاں دیتی تھی اور آپ کی شان میں گستاخی کرتی تھی یہ اس کو روکتا تھا مگر نہ رکتی تھی، یہ اس کو ڈانٹتا تھا مگر وہ نہ مانتی تھی۔ راوی کہتے ہیں کہ جب ایک رات پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخیاں کرنی شروع کی تو اس نابینا نے ہتھیار(خنجر) لیا اور اس کے پیٹ پر رکھا اور وزن ڈال کر دبا دیا اور مار ڈالا۔ جب صبح ہوئی تو یہ واقعہ حضور اکے یہاں ذکر کیا گیا۔ آپ ا نے لوگوں کو جمع کیا پھر فرمایا: اس آدمی کو اللہ کی قسم دیتا ہوں، جس نے کیا جو کچھ کیا، میرا اس پر حق ہے کہ وہ کھڑا ہوجائے تو نابینا کھڑا ہوگیا، لوگوں کو پھلانگتا ہوا ، اس حالت میں آگے بڑھا کہ وہ کانپ رہا تھا حتیٰ کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے بیٹھ گیا اور عرض کیا کہ یا رسول ا میں ہوں اسے مارنے والا، یہ آپ کو گالیاں دیتی تھی اور گستاخیاں کرتی تھی، میں اسے روکتا تھا وہ رکتی نہ تھی، میں دھمکاتا تھا وہ باز نہ آتی تھی اور اس سے میرے دو بچے ہیں جو موتیوں کی طرح ہیں وہ مجھ پر مہربان بھی تھی لیکن آج رات جب اس نے آپ کو گالیاں دینی اور برا بھلا کہنا شروع کیا تو میں نے خنجر لیا اس کے پیٹ پر رکھا اور زور لگا کر اسے مار ڈالا ۔ نبی پاک ا نے فرمایا : لوگو گواہ رہو !اس کا خون بے بدلا (بے سزا) ہے۔
(ابو داؤد ص۶، جمع الفوائد ص۲۸۴ بحوالہ ابو داؤد ، نسائی، کنزالعمال ج۷،ص۳۰۴)

گستاخ یہودیہ کا قتل
حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک یہودیہ عورت نبی ا کو گالیاں دیتی اور برا کہتی تھی تو ایک آدمی نے اس کا گلا گھونٹ دیا ،یہاں تک کہ وہ مر گئی تو رسول ا نے اس کے خون کو ناقابل ِ سزا قرار دے دیا۔ (ابو داؤد ص ۶۰ ، مطبع نور محمد)
اوپر والاقصہ تو مملوکہ باندی کا تھا مگر غیرت ایمانی نے کسی قسم کا خیال کیے بغیر جوش ایمانی میں جو کرنا تھا کردیاتو حضور ا نے اس کا بدلہ باطل قرار دیا۔ دوسرا قصہ غیر مملوکہ غیر مسلم کا ہے۔ دونوں واقعات سے معلوم ہوا کہ حضور کی توہین کرنے والا مباح الدم (خون جائز )بن جاتا ہے اور حق کا علمبردار سزاؤں کا غیر مستحق ہوجاتا ہے بلکہ ثواب کا حق دار ہوجاتا ہے۔اگر عورت بھی گستاخی کی مرتکب ہو تو اس کی سزا میں کمی واقع نہ ہو گی، شرعی حد کے طور پر قتل ہی کی جائے گی۔
( توہینِ رسالت اور اسکی سزا، از مولانا مفتی جمیل احمد تھانوی ، دارالافتاء جامعہ اشرفیہ لاہور)
سیدالمرسلین وخاتم الانبیا ا کا گستاخ بارگاہِ الوہیت میں کس حد تک گرا ہوا ہے، قرآن اس کی وضاحت ان آیات میں کرتا ہے:
ترجمہ: ” اور مت کہا مان ہر ایک قسم کھانے والے ذلیل کا۔عیب کرنے والا، لوگوں کو چلنے والا ساتھ چغلی کے،منع کرنے والا بھلائی سے، حد سے نکل جانے والا، گناہگار، گردن کش، جھگڑالو، نطفہ حرام۔“ (القلم، ۱۳۔۱۰)
ولید بن مغیرہ گستاخِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم تھا ۔ نبی پاک ا کو ایذا دیا کرتا تھا۔مذکورہ آیات اس کے متعلق نازل ہوئیں اور قرآن نے اس گستاخِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ۹ نشانیاں بیان کیں:
۱:․․․جھوٹا (جھوٹی قسم کھانے والا) ، ۲:․․․ کذاب اور ذلیل ، ۳:․․․چرب زبان ، ۴:․․․چغل خور، ۵:․․․بھلائی سے روکنے والا، ۶:․․․ حد سے بڑھ جانے والا، ۷:․․․ناپاک اور پلید، ۸:․․․ سخت جھگڑالو، ۹:․․․نطفہ حرام ۔ فتح مکہ کے روز کچھ مجرموں کا خون رائیگاں؟
نبی اکرم انے جب مکہ مکرمہ کو کفار و مشرکین کے ہاتھوں سے آزاد کرایا تھا، آپ نے تمام اہل مکہ کے لیے آزادی کا پروانہ جاری کردیا تھا سوائے اُن لوگوں کے جنہوں نے اس سے پہلے مسلمانوں کو بہت پریشان کر رکھا تھا خواہ وہ اپنے عمل اور کردار سے پریشان کر رہے تھے یا اپنے قول اور گفتار سے پریشان کر رہے تھے۔
[center]ہوا کے رخ پے چلتا ہے چراغِ آرزو اب تک
دلِ برباد میں اب بھی کسی کی یاد باقی ہے
[/center]

روابط: بلاگ|ویب سائیٹ|سکرائبڈ |ٹویٹر
اعجازالحسینی
مدیر
مدیر
Posts: 10960
Joined: Sat Oct 17, 2009 12:17 pm
جنس:: مرد
Location: اللہ کی زمین
Contact:

Re: گستاخانِ رسول اور ان کا انجام

Post by اعجازالحسینی »

حافظ ابن حجر عسقلانی  نے اپنی مایہ ناز تصنیف ”فتح الباری“ شرح صحیح البخاری میں ،مشہور مورخ اسلام علامہ ابن ہشام نے اپنی معروف تالیف ”سیرت النبی ا کامل“ میں اور دور حاضر کے عظیم مصنف فضیلة الشیخ صفی الرحمان مبارک پوری نے سیرت النبی ا کے موضوع پر اپنی عالمی شہرت یافتہ کتاب ”الرحیق المختوم“میں ان افراد کا تفصیل سے ذکر کیا ہے ۔ مختلف کتب تاریخ کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ فتح مکہ کے روز عام معافی کے اعلان کے باوجود جن کا خون رائیگاں قرار دیا گیا تھا وہ کُل تیرہ افراد تھے جن میں سے ۹ مرد اور ۴ عورتیں تھیں اور وہ درج ذیل تھے۔ (دوستی اور دشمنی،از ابو عمرو عبدالحکیم)
۱:․․․ عبدالعزٰی بن خطل، ۲:․․․ حارث بن نفیل (تاریخ میں اس کا نام حویرث ابنِ نقید بھی آیا ہے)، ۳:․․․ مقیس بن صبابہ کنافی، ۴:․․․ حارث بن طلاطل خزاعی، ۵:․․․ ارنب (غالباً کنیت ام سعد تھی۔یہ ابن خطل کی لونڈیوں میں سے ایک تھی)، ۶:․․․ عبداللہ بن سعد ابی سرح (رضی اللہ عنہ)،۷:․․․عکرمہ بن ابی جہل (رضی اللہ عنہ)، ۸:․․․ ہبار بن اسود (رضی اللہ عنہ)، ۹:․․․ کعب بن زبیر (رضی اللہ عنہ)، ۱۰:․․․ وحشی بن حرب (رضی اللہ عنہ)،۱۱:․․․ ہند بن عتبہ (رضی اللہ عنہا)، ۱۲:․․․قرتنا(یہ ابن خطل کی لونڈیوں میں سے ایک تھی،پہلے بھاگ نکلی بعدمیںآ کرمسلمان ہوگئی)، ۱۳:․․․ سارہ یا ام سارہ (یہ بنی مطلب میں سے کسی شخص کی لونڈی تھی، اسی کے پاس سے حاطب بن بلتعہ کا خط برامد ہوا تھا)۔
مذکورہ بالا فہرست میں سے اول الذکر پانچ تو اس اعلان کے مطابق قتل کر دیے گئے چاہے ان میں سے کوئی (ابنِ خطل)کعبہ کے پردوں کے ساتھ لٹکا ہوا تھا۔رسولِ کریم ا کے بارے میں گستاخیاں اور آپ ا کو اذیتیں ان کی طرف سے انتہا کو پہنچی ہوئی تھیں۔ گویا اپنے قول و فعل سے پریشان کرتے تھے جبکہ بقیہ آٹھ افراد کا جرم قدرے کم تھا۔ انہوں نے اپنے جرائم سے توبہ کی، معافی کے خواستگار ہوئے، اسلام قبول کیا اور اسلام میں رہتے ہوئے اچھا کردار اور رویہ پیش کیا ،لہٰذا ان کو معاف کر دیا گیا۔ (فتح الباری : ۴۰/۶۲، ۶۱۔ زاد المیعاد: ۳/۴۱۱۔ سیرت النبی کامل ابن ہشام ۶/۴۸۰۔ الرحیق المختوم: ۶۰۰)
امام ابن تیمیہ نے الصارم المسلول میں تحریر کیا ہے کہ ابن خطل اشعار کہہ کر رسول اللہ ا کی ہجو کیا کرتا تھا اور دو باندیوں کو وہ اشعار گانے کے لیے کہا کرتا تھا۔ عبد العزیٰ ابن خطل اور دونوں باندیوں کو بھی اس گستاخی پر رسول ا نے فتح مکہ کے موقع پر قتل کرنے کا حکم دیا۔ جن کے نام ارنب اور قرتنا تھے۔ ارنب قتل کی گئی ۔ قرتنا بھاگ نکلی اور بعد میں آکر مسلمان ہو گئی۔ ابن خطل جان بچانے کے لیے کعبہ کا پردہ پکڑ کر لٹکا ہوا تھا ۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے نبی کریم ا سے پوچھا کہ ابن خطل تو کعبہ کے پردے سے لٹکا ہوا ہے۔ آپ ا نے فرمایا کہ اسے پھر بھی قتل کردو۔
اسی طرح فتح مکہ کے موقع پر حویرث ابن نقید کو قتل کا حکم ارشاد فرمایا ۔ یہ ان لوگوں میں شامل تھا جو رسول اکرم ا کو ایذاء پہنچایا کرتے تھے۔ حاکم  نے بیان کیا یہ شاعر بھی تھا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اس کو قتل کیا۔
حضرت ابو برزہ سلمی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں حضرت ابو بکررضی اللہ عنہ کے پاس موجود تھا، وہ ایک شخص پر (کسی وجہ سے) غصہ ہوئے، اس نے حضرت ابو بکررضی اللہ عنہ کو بہت سخت باتیں کیں ، میں نے عرض کیا اے خلیفہِ رسول ! اگر آپ کی اجازت ہو تو میں اس کی گردن مار دوں۔ میرے اتنا کہنے سے ہی حضرت ابو بکررضی اللہ عنہ کا غصہ ختم ہوگیا، آپ اندر تشریف لے گئے ، پھر مجھے پیغام بھیج کر اندر بلایا، میں حاضر ہوا تو فرمایا: ابھی تم نے کیا جملہ بولا تھا؟ میں نے وہ جملہ دھرا دیا کہ اگر آپ اجازت دیں تو میں اس کی گردن مار دوں۔ حضرت ابو بکررضی اللہ عنہ نے پوچھا اگر میں اجازت دوں تو کیا تم یہ کر گزرتے؟ تو میں نے عرض کیا :جی ہاں۔ آپ نے فرمایا: نبی ا کے بعد اب یہ کسی دوسرے کے لیے نہیں۔ (جمع الفوائد بحوالہ ابو داؤد و نسائی ص ۴۸۵)
سیف بن عمر التمیمی نے اپنی کتاب ”الردةو الفتوح“ نے اپنے شیوخ سے روایت کیا ہے کہ ”مہاجر“ جب علاقہ یمامہ کے امیر تھے، ان کی عدالت میں دو گلوکارہ لونڈیوں کا معاملہ پیش کیا گیا۔ ان میں سے ایک رسول کریم ا کے مذمت میں اشعار گایا کرتی تھی۔ مہاجر نے اس کا ایک ہاتھ کاٹ دیا اور اگلے دونوں دانت نکال دیے۔دوسری گلوکارہ مسلمانوں کی ہجو کیا کرتی تھی، مہاجر نے اس کا بھی ایک ہاتھ کاٹ دیا اور اگلے دونوں دانت نکال دیے۔حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ نے ان کو لکھاکہ:
”تم نے رسولِ کریمصلی اللہ علیہ وسلم کی ہجو کرنے والی گلوکارہ کو جو سزا دی مجھے اس کے بارے میں معلوم ہوا ہے۔اگر مجھے پہلے پتہ چل جاتا تو میں تم کو اس کے قتل کا حکم دیتا۔اس لیے کہ انبیاء کی توہین کی وجہ سے جو سزا دی جاتی ہے ، وہ دوسرے سزاؤں سے مختلف ہوتی ہے“۔ (الصارم المسلول، ص ۲۷۰)
قاضی عیاض اس حدیث کے ذیل میں یوں رقم طراز ہیں:
” قاضی ابو محمد بن نضر فرماتے ہیں کہ تمام علماء نے اس مسئلہ میں ان کی تائید کی ہے اور کسی نے اس مسئلہ میں اختلاف نہیں کیا ۔ ائمہ حدیث نے اس حدیث سے بھی استدلال کیا ہے کہ جو شخص نبی کریم ا کے غصہ کا سبب ہے، خواہ وہ کسی وجہ سے ہو یا حضور ا کو زبانی یا عملی طور پر تکلیف پہنچائے وہ واجب القتل ہے“۔(الشفاء ج۲، ص۱۹۶ ، اردو ترجمہ ص ۳۸۷)
حضرت عمررضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں ان کو خبر ملی کہ ایک مسجد کا منافق پیشِ امام ہر نماز میں سورة عبس پڑھتا ہے۔ یہ سن کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو غصہ آیا کہ سورہ عبس تو وہ سورة ہے کہ جس میں رسول ا کو تنبیہ کی گئی تھی ، یہ امام ہر نماز میں اہتمام سے کیوں پڑھتا ہے ۔ (سورة عبس کا شان ِ نزول یہ ہے کہ حضور اکرم احریص تھے کہ مکہ کے سردار بھی ایمان لے آئیں تو ابو جہل کی رکھی گئی شرط پر کہ ہم رئیسانِ مکہ کی الگ محفل رکھو تو ہم تمہاری بات سنیں گے، ان کو دعوت ِ دین دے رہے تھے۔ اتنے میں ابن مکتوم جو نابینا صحابی تھے محفل میں آگئے۔ حضور کو ناگوار گزرا کہ کہیں اس بات پر یہ لوگ اٹھ کر نہ چلے جائیں تو اللہ تعالیٰ نے سورة عبس کی آیات نازل کیں)۔ حضرت عمررضی اللہ عنہ اس منافق پیش امام کے گھر تشریف لے گئے۔اس امام کو گھر سے باہر بلوایا اور پوچھا کہ تم ہر نماز میں سورة عبس کیوں پڑھتے ہو؟ اس امام نے کہا ”بس مجھے پسند ہے“۔ حضرت عمررضی اللہ عنہ نے اسی وقت تلوار نیام سے نکالی اور اس کا سر قلم کردیا۔
(تفسیر روح البیان، ج ۱۰،ص۳۳۱، علامہ اسماعیل حقی )
مجاہد سے مروی ہے کہ حضرت عمررضی اللہ عنہ کے پاس ایک آدمی کو لایا گیا، جو رسولِ پاک ا کو برا کہتا تھا۔ حضرت عمررضی اللہ عنہ نے بطور سزا اسے قتل کیا اور پھر فرمایا: ”جو اللہ تعالیٰ یا انبیاء میں سے کسی کو برا کہے اس قتل کردو“۔ نبی اکا فیصلہ نہ ماننا بھی گستاخی ہے اور ارتداد کا سبب ہے
دو شخص اپنا جھگڑا عدالتِ نبوی میں لائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جھوٹے کے خلاف سچے آدمی کے حق میں فیصلہ دے دیا۔ جس کے خلاف فیصلہ ہوا تھا اس نے کہا میں اس پر راضی نہیں ہوں۔ اس کے ساتھی نے کہا تم کیا چاہتے ہو؟ کہا میں ابوبکررضی اللہ عنہ سے فیصلہ کروانا چاہتا ہوں۔چنانچہ وہ دونوں حضرت ابوبکررضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔انہوں نے قصہّ بیان کیا، حضرت ابوبکررضی اللہ عنہ نے فرمایا:”تمہارا فیصلہ وہی ہے جو الله کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا ہے۔اس کے منافق ساتھی نے اسے بھی تسلیم نہ کیا اور کہا ہم عمررضی اللہ عنہ کے پاس چلتے ہیں۔چنانچہ دونوں حضرت عمررضی اللہ عنہ کے پاس حاضر ہوئے۔ جس کے حق میں فیصلہ ہوا تھا، اس نے کہا:ہم پہلے رسو ل اللہاکی خدمت میں حاضر ہوئے تھے اور پھر ابوبکررضی اللہ عنہ کے یہاں۔ دونوں نے میرے حق میں فیصلہ صادر فرمایا ہے، مگر میرا ساتھی نہیں مانتا۔حضرت عمررضی اللہ عنہ نے دوسرے شخص سے پوچھا تو اس نے بھی واقعہ اسی طرح دہرایا۔ حضرت عمررضی اللہ عنہ گھر کے اندر داخل ہوئے اور تلوار لے کر باہر آئے اور آ پ رضی اللہ عنہ نے تلوار انکارکرنے والے شخص کے سر پر دے ماری اور اسے قتل کر دیا۔ تب یہ آیتِ کریمہ” فلا و ربک“ (النساء ۶۶)نازل ہوئی۔ حضرت عمررضی اللہ عنہ نے فرمایا ”جسے نبی ا کا فیصلہ منظور نہیں ، اس کا فیصلہ عمر کی تلوار کرے گی“۔ پس معلوم ہوا کہ رسو ل صلی اللہ علیہ وسلم الله کے فیصلہ سے اختلاف کفر ہے۔
(تفسیرِروح المعانی، جلد ۵، ص ۶۷، مطبوعہ بیروت۔ الصارم المسلول ص ۸۰۔۷۹۔تفسیرِمظہری جلد ۲، ص ۱۵۴)
حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا”جس نے اسلام کے بعد کفر کیا ،قتل کیا جائے گا اور وہ مباح الدم ہو گا“ ۔ (سنن نسائی، ج۷، ص ۱۰۴)
حضرت علی ابن طالب سے رسول اللہ ا کا ارشاد روایت ہے کہ رسول ا نے فرمایا :جو کسی نبی کو برا کہے، اسے قتل کردیاجائے۔ جو صحابہ کو برا کہے اسے کوڑے لگائے جائیں۔ (الصارم المسلول ۹۲: ۲۹۹)
رسول ا کے روضے میں ستون وفود کے بارے میں روایت ہے کہ وہاں جب مختلف علاقوں سے وفد آتے تھے تو حضرت علی رضی اللہ عنہ ننگی تلوار لے کر حضورا کے پیچھے کھڑے ہوتے تھے کہ کوئی گستاخی سے بات نہ کرے۔ حضرت حصین کی روایت ہے کہ حضرت عبدالله بن عمررضی اللہ عنہما نے فرمایاکہ ” جو شخص رسو ل کریم ا کو گالی دے اسے قتل کیا جائے“۔(الصارم المسلول، ص۲۷)

نضر بن حارث اور عقبہ بن ابی معیط کا قتل

آپ ا بدر سے مدینے لوٹے تو نضر بن حارث اور عقبہ بن ابی معیط کو قتل کرنے کا حکم دیا۔ بدر کے قیدیوں میں سے کسی اور کو قتل نہیں کیا گیا۔البرزا نے ابن عباس  سے روایت کیا کہ عقبہ پکارا: اے گروہ قریش! کیا بات ہے کہ مجھے باندھ کر قتل کیا جارہا ہے۔ رسول اکرم ا نے ارشاد فرمایا: ”تمہارے کفر اور رسول اللہ ا پر افتراء پردازی کی وجہ سے“۔ (الصارم المسلول ، اردو ترجمہ ص ۲۰۱)
بدر کے تمام قیدیوں میں سے نضر بن حارث اور عقبہ بن ابی معیط کے لیے امتیازی سلوک کے بارے میں علامہ ابن تیمیہ رقم طراز ہیں ”تمام قیدیوں میں سے ان دو کے قتل کرنے کی وجہ یہ تھی کہ یہ اپنے قول و فعل سے اللہ اور اس کے رسول ا کو ایذاء دیتے تھے جو آیات نضر کے بارے میں نازل ہوئیں وہ معروف ہیں۔اسی طرح عقبہ اپنی زبان اور ہاتھوں سے جو ایذاء دیتا تھا وہ بھی معروف ہے۔اس شخص نے مکہ میں رسول کریم ا (میرے ماں باپ آپ ا پر قربان ہوں) کا گلا اپنی چادر سے پورے زور سے دبایا۔ یہ آپ ا کو قتل کرنا چاہتا تھا ۔ اسی طرح رسول کریم ا سجدہ کی حالت میں تھے تو اس نے آپ ا کی پشت مبارک پر اونٹ کا اوجھ لاکر رکھ دیاتھا۔ (الصارم المسلول ، اردو ترجمہ ص ۲۰۳)

عقبہ کے قتل پر آپ ا کا اظہار اطمینان
تو بہت برا آدمی تھا۔ بخدا، میں نے اللہ کی کتاب اور اس کے رسول ا کا انکار کرتے ہوئے کسی شخص کو نہیں دیکھا جو اس کے نبی ا کو ایذاء دیتا ہو۔ میں اللہ کی تعریف کرتا ہوں جس نے تجھے قتل کرکے میری آنکھیں ٹھنڈی کیں“ ۔ (الصارم المسلول ، اردو ترجمہ ص ۲۰۳)
سعید ابن جبیررضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے جھوٹ منسوب کیا رسول ا کی طرف۔ پس آپ ا نے حضرت علی رضی اللہ عنہمااور حضرت زبیررضی اللہ عنہما کو بھیجا فرمایا ”تم دونوں جاؤ اگرتم پاؤ اس کو تو قتل کردو“۔
عبداللہ بن حارث رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جدجد جندعی یمن آیا، اسے عشق ہوگیا ان کی ایک عورت سے، پس اس نے کہا کہ رسول ا تمہیں حکم دیتے ہیں کہ تم اپنی نوجوان عورت کو میرے حوالے کردو۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے عہد کیا ہے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اور وہ حرام کرتے ہیں زنا کو۔ پھر انہوں نے بھیجا رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف ایک شخص کو پس رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے بھیجا ،حضرت علی رضی اللہ عنہمااور حضرت زبیررضی اللہ عنہما کو اور فرمایا ان سے” جاؤ، تم اگر پاؤ اسے زندہ تو قتل کردو اور اگر تم اسے مردہ پاؤ تو اسے آگ کے ذریعے جلا ڈالو“۔ (خصائص الکبریٰ جلد ۲،ص۷۸)
علامہ ابن تیمیہ اس واقعے کو نقل کرنے کے بعد آگے لکھتے ہیں ”جب وہ (حضرت علی) وہاں پہنچے تو انہوں نے دیکھا کہ وہ سانپ کے ڈسنے سے مر چکا تھا۔چنانچہ انہوں نے اسے آگ میں جلا دیا۔تب رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا” جس نے مجھ پر دانستہ جھوٹ بولا وہ اپنا گھر دوزخ میں تلاش کرے۔“ (الصارم المسلول ص ۲۳۱اردو ترجمہ)
علامہ ابن تیمیہ اس حدیث کی صحت کے بارے میں لکھتے ہیں ”اس حدیث کی سند صحیح اور شروط العین کے مطابق ہے“۔ ہمارے نزدیک اس میں کوئی علت نہیں۔ (الصارم المسلول ص۲۳۲اردو ترجمہ)

وہ گستاخِ رسول ا ”جن “ قتل کر دیا گیا
فاکہی نے اخبارمکہ میں عامر بن ربیعہ،ابو نعیم نے ابن عباس سے دو دوسرے محدثین نے عبدالرحمن بن عوف اور دیگر صحابہ سے روایت کی ہے کہ ایک مرتبہ مکہ کے پہاڑ ابو قبیس سے بلند آواز کے ساتھ چند اشعار اسلام کی برائی میں سنے گئے۔ یہ جن کی آواز تھی۔اس میں یہ مضمون بھی تھا کہ مسلمانوں کو مار ڈالو۔ شہر سے بت پرستی مت چھوڑو۔کفار بہت خوش ہوئے اور اترا کر کہنے لگے کہ غیب سے بھی تمہارے قتل اور شہر بدر کرنے کا حکم ہوتا ہے۔مسلمانوں کو اس سے بڑا صدمہ ہوا۔ نبی ا کی خدمت میں یہ واقعہ بیان کیا گیا تو آپ ا نے فرمایا کہ تم اطمینان رکھو، یہ آواز ”مسعر“ نامی جن کی تھی، بہت جلد اللہ اس کو سزا دے گا۔ تیسرے دن حضور ا نے مسلمانوں کو خوشخبری دی کہ آج بہت بڑا جن ”مسحج“ نامی میرے پاس آکر مسلمان ہوا اور میں نے اس کا نام عبداللہ رکھا۔ اس نے مجھ سے ”مسعر“ کو قتل کرنے کی اجازت چاہی اور میں نے اجازت دے دی، آج ”مسعر“ مارا جائے گا۔ مسلمان خوش ہوکر انتظار میں تھے۔ شام کے وقت اسی پہاڑ سے چند اشعار بلند آواز کے ساتھ سننے میں آئے، جن کا مضمون یہ تھا ”ہم نے مسعر کو اس وجہ سے قتل کر دیا ہے کہ اس نے سرکشی کی ، حق کی توہین کی اور برائیوں کا راستہ بنایا اور رسول پاک ا کی شان میں بے ادبی کی، میں نے ایک چمکتی ہوئی تیز تلوار سے اس کا کام تمام کر دیا ہے“۔
(معجزات رسول ا ص ۱۴۸۔۱۴۹، سبحان الہند از مولانا احمد سعید دہلوی)
علامہ ابن تیمیہ یہ حدیث اس اضافت کے ساتھ نقل کرتے ہیں ”حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا یا رسول ا، اللہ اسے (مسحج جن کو) جزائے خیر دے۔ (الصارم المسلول ص ۲۰۸اردو ترجمہ)

بشکریہ ماہنامہ بینات
[link]http://www.banuri.edu.pk/ur/node/1240[/link]
[center]ہوا کے رخ پے چلتا ہے چراغِ آرزو اب تک
دلِ برباد میں اب بھی کسی کی یاد باقی ہے
[/center]

روابط: بلاگ|ویب سائیٹ|سکرائبڈ |ٹویٹر
اضواء
ٹیم ممبر
ٹیم ممبر
Posts: 40424
Joined: Sun Aug 15, 2010 4:26 am
جنس:: عورت
Location: {الدمام}المملكةالعربيةالسعوديه

Re: گستاخانِ رسول اور ان کا انجام

Post by اضواء »

السلام عليكم و رحمة الله و بركاته

أحسنت و وفقك الله في الدارين
[center]یہ بھی انداز ہمارے ہے تمہیں کیا معلوم
ہم تمہیں جیت کے ہارے ہے تمہیں کیا معلوم[/center]
اعجازالحسینی
مدیر
مدیر
Posts: 10960
Joined: Sat Oct 17, 2009 12:17 pm
جنس:: مرد
Location: اللہ کی زمین
Contact:

Re: گستاخانِ رسول اور ان کا انجام

Post by اعجازالحسینی »

آپکا شکریہ
[center]ہوا کے رخ پے چلتا ہے چراغِ آرزو اب تک
دلِ برباد میں اب بھی کسی کی یاد باقی ہے
[/center]

روابط: بلاگ|ویب سائیٹ|سکرائبڈ |ٹویٹر
علی عامر
معاون خاص
معاون خاص
Posts: 5391
Joined: Fri Mar 12, 2010 11:09 am
جنس:: مرد
Location: الشعيبہ - المملكةالعربيةالسعوديه
Contact:

Re: گستاخانِ رسول اور ان کا انجام

Post by علی عامر »

جزاک اللہ۔

صل اللہ علیہ و آلہ وسلم r:o:s:e
User avatar
چاند بابو
منتظم اعلٰی
منتظم اعلٰی
Posts: 22224
Joined: Mon Feb 25, 2008 3:46 pm
جنس:: مرد
Location: بوریوالا
Contact:

Re: گستاخانِ رسول اور ان کا انجام

Post by چاند بابو »

بہت خوب جزاک اللہ اعجازالحسینی صاحب۔
گستاخِ رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی سزا کم ازکم موت ہے۔
قصور ہو تو ہمارے حساب میں لکھ جائے
محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو
میں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو
افتخار
معاون خاص
معاون خاص
Posts: 11810
Joined: Sun Jul 20, 2008 8:58 pm
جنس:: مرد
Contact:

Re: گستاخانِ رسول اور ان کا انجام

Post by افتخار »

جزاک اللہ۔
بلال احمد
ناظم ویڈیو سیکشن
ناظم ویڈیو سیکشن
Posts: 11973
Joined: Sun Jun 27, 2010 7:28 pm
جنس:: مرد
Contact:

Re: گستاخانِ رسول اور ان کا انجام

Post by بلال احمد »

جزاک اللہ
بڑی بے چین رہتی ہے طبیعت اب میری محسن
مجھے اب قتل ہونا ہے، مگر قاتل نہیں ملتا
اعجازالحسینی
مدیر
مدیر
Posts: 10960
Joined: Sat Oct 17, 2009 12:17 pm
جنس:: مرد
Location: اللہ کی زمین
Contact:

Re: گستاخانِ رسول اور ان کا انجام

Post by اعجازالحسینی »

چاند بابو wrote:بہت خوب جزاک اللہ اعجازالحسینی صاحب۔
گستاخِ رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی سزا کم ازکم موت ہے۔
جی قرآن و حدیث کی روشنی میں یہی سزا ہے اس کے علاوہ اور کچھ نہیں ۔
[center]ہوا کے رخ پے چلتا ہے چراغِ آرزو اب تک
دلِ برباد میں اب بھی کسی کی یاد باقی ہے
[/center]

روابط: بلاگ|ویب سائیٹ|سکرائبڈ |ٹویٹر
نصیر
کارکن
کارکن
Posts: 8
Joined: Mon Apr 30, 2012 8:54 am
جنس:: مرد

Re: گستاخانِ رسول اور ان کا انجام

Post by نصیر »

عزیز اعجاز بھائی معذرت کے ساتھ مجھے اس بات سے اختلاف ہے اور قرآن و سنت کی روشنی میں میں آپ کے نظریہ سے مختلف سوچتا ہوں۔ ہر ایک اپنی رائے رکھنے میں آزاد ہے اور یہ فورم اسی لئے ہوتے ہیں کہ اگر کوئی اختلاف ہو تو اسے ڈسکس کیا جائے۔ دیکھیں اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں گستاخ رسول کی سزا یہ بتائی ہے کہ اللہ تعالیٰ انہیں دردناک عذاب دیں گے۔ اس میں کہیں انسانوں کا ذکر نہیں بلکہ رسول اللہ ﷺ کو تو اس آیت میں سب سے ذیادہ رحمدل بتایا گیا ہے چنانچہ ارشاد ہوتا ہے :
وَ مِنهُمُ الَّذِينَ يُؤْذُونَ النَّبىَّ وَ يَقُولُونَ هُوَ أُذُنٌ قُلْ أُذُنُ خَيرٍ لَّكمْ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَ يُؤْمِنُ لِلْمُؤْمِنِينَ وَ رَحْمَةٌ لِّلَّذِينَ ءَامَنُوا مِنكمْ وَ الَّذِينَ يُؤْذُونَ رَسولَ اللَّهِ لهَُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ ۔
قرآن مجید تو میرے آقا سرور دو عالم ﷺ کو رحمت للعالمین بتاتا ہے، فرماتا ہے کہ کیا تو اپنے آپ کو اس غم میں ہلاک کر لے گا کہ یہ لوگ ایمان نہیں لاتے، پھر میرے آقا کو سب جہانوں جن و انس، چرند و پرند، شجر و ہجر سب کے لئےرحمت فرمایا تو پھر جاہلوں کی گستاخی پر آپ کا عفو فرمانا ہی قرین قیاس نظر آتا ہے۔
رسول اللہ ﷺ کی سب سے بڑی گستاخی جو کسی مردود نے کی، وہ اتنی بڑی گستاخی تھی کہ خود قرآن کریم نے اسے مذکور کیا اور اس کا جواب دیا اور وہ عبد اللہ بن ابی بن سلول نے کی تھی یعنی
هُمُ الَّذِينَ يَقُولُونَ لَا تُنْفِقُوا عَلَى مَنْ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ حَتَّى يَنْفَضُّوا وَلِلَّهِ خَزَائِنُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَلَكِنَّ الْمُنَافِقِينَ لَا يَفْقَهُونَ * يَقُولُونَ لَئِنْ رَجَعْنَا إِلَى الْمَدِينَةِ لَيُخْرِجَنَّ الْأَعَزُّ مِنْهَا الْأَذَلَّ وَلِلَّهِ الْعِزَّةُ وَلِرَسُولِهِ وَلِلْمُؤْمِنِينَ وَلَكِنَّ الْمُنَافِقِينَ لَا يَعْلَمُونَ(سورة المنافقون)
لیکن ہم جانتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے اسے قتل نہیں کروایا بلکہ جو صحابیؓ اسے قتل کرنے آئے انہیں بھی روک دیا، اس کا جنازہ پڑھایا اور یہیں پر بس نہیں بلکہ اسے اپنے کرتے میں کفنایا۔
13 سال تک مکہ شریف میں میرے آقاﷺ کو تکلیفیں دی گئی لیکن میرے آقا نے کسی کو قتل نہ کیا اور نہ کروایا، طائف گئے تو طائف والوں نے کتنی بڑی گستاخی کی، خدا کا فرشتہ حاضر ہوا اور ان کو صفحہ ہستی سے مٹانے کی اجازت چاہی لیکن میرے آقا ﷺ نبی ٔ رحمت نے اس بات کی بھی اجازت نہیں دی۔
میرے آقا جو دشمن کی ہر گستاخی پر رب العرش سے دعائیں کرتے تھے کہ اَللّٰھُمَّ اھْدِ قَوْمِیْ فَاِنَّھُمْ لَا یَعْلَمُوْن یعنی اے اللہ میری قوم کو ہدایت دے کہ یہ جانتے نہیں۔ کیسے ہو سکتا ہے کہ وہ ان جاہلوں کو، لا علم لوگوں کو قتل کرنے لگ جائیں۔
آپ نے جو حوالہ جات دئے ہیں ان میں سے کعب بن اشرف، ابو رافع اور فتح مکہ کے وقت جن لوگوں کو قتل کیا گیا ان کا جرم صرف گستاخیٔ رسول ﷺ نہ تھا بلکہ وہ تو بغاوت اور لوگوں کو قتل کے لئے بھڑکانے اور کئی لوگوں کے قتل کا موجب بننے والے فسادی تھے۔ ورنہ اس کو قتل کیوں نہیں کیا گیا جس نے رسول پاک ﷺ کے گلے میں کپڑا ڈال کر کھینچا تھا، جس نے میرے آقا سے گستاخی سے قرض مانگا تھا، جس نے میرے آقا پر کوڑا پھینکنا اپنا وطیرہ بنا لیا تھا، جس نے میرے آقا کو جادوگر کہا تھا۔ میرے آقا ﷺ تو رحمت للعالمین تھےان کی طرف ایسی باتیں منسوب کرنی ہوں تو بہت قوی حوال جات چاہئیں مثلاً قرآن مجید، صحیحین۔ صڑف ایک کلام کی کتاب پر بنیاد رکھ کر یہ باتیں ثابت نہیں کی جا سکتیں۔
اعجازالحسینی
مدیر
مدیر
Posts: 10960
Joined: Sat Oct 17, 2009 12:17 pm
جنس:: مرد
Location: اللہ کی زمین
Contact:

Re: گستاخانِ رسول اور ان کا انجام

Post by اعجازالحسینی »

نصیر صاحب اس موضوع پر بہت سے علماء نے آج سے کئی سو سال پہلے مستند کتابیں لکھی ہیں جن میں سب سے مستند امام ابن تیمہ کی کتاب الصارم المسلول ہے ۔ عبداللہ بن ابی کے معاملے میں جو تشبیہ آپ نے دی ہے وہ صحیح نہیں ہے ۔

حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث کو آپ کہاں فٹ کریں “ جو مجھے گالی دے اسکو قتل کر دو جو میرے صحابہ کو گالی دے اسکو کوڑے مارؤ ‘ یہ ایک حدیث کا مفہوم ہے آپکا اس کے بارے میں کیا خیال ہے ؟

اس مسئلہ میں میں زیادہ لمبی بحث میں نہیں پڑنا چاہتا ۔
[center]ہوا کے رخ پے چلتا ہے چراغِ آرزو اب تک
دلِ برباد میں اب بھی کسی کی یاد باقی ہے
[/center]

روابط: بلاگ|ویب سائیٹ|سکرائبڈ |ٹویٹر
نصیر
کارکن
کارکن
Posts: 8
Joined: Mon Apr 30, 2012 8:54 am
جنس:: مرد

Re: گستاخانِ رسول اور ان کا انجام

Post by نصیر »

اعجاز بھائی! پہلی بات یہ کہ علماء نے تو کئی مسئلوں پر کئی کتابیں لکھیں ہیں، وحدت الوجود کے قائل اپنے حق میں تو مخالف اپنے حق میں، آمین بالجھر والے اپنے حق میں اور اخفاء والوں کی اپنے حق میں‌لیکن قرآن
Post Reply

Return to “مذہبی گفتگو”