الاؤ

اردو زبان میں لکھے جانے والے شہکار ناول، آن لائن پڑھئے اور ڈاونلوڈ کیجئے
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

الاؤ

Post by سیدتفسیراحمد »

الاؤ
گجرات فسادات پس منظرمیں ایک رومانی داستان

ایم مبین
Last edited by سیدتفسیراحمد on Mon Nov 03, 2008 2:29 am, edited 1 time in total.
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

- پہلا باب -

صبح جادو بکھیرتی ہوئی نمودار ہوتی ہے ۔

ہر فرد کے لیے اس میں ایک الگ طرح کا جادو ہوتا ہے اور وہ اس میں اپنے مقصد کا جادو تلاش کرتا ہے

محنت کشوں ،مزدوروں ،نوکر پیشہ ،طلبہ، تاجر ہر طبقہ کے لیے صبح میں ایک اپنا منفرد جادو نہاں ہوتا ہے۔

لیکن صبح کبھی بھی جمی کے لیے جادو سی محسوس نہیں ہوتی تھی۔

وہ تو رات کا راجہ تھا ۔اس کا دل چاہتا تھا اکثر اس کی زادگی میں صرف زندگی بھر کی رات ہی رہے تو بھی یہ اس کے لیے خوشی کی بات ہے ۔وہ اسی میں خوش رہے گا اور جشن منائی گا۔ وہ اس رات کی صبح کا کبھی انتظار نہیں کرے گا۔اسے کبھی صبح کا انتظار نہیں ہوتا تھا۔ صبح کی آمد اس پر ایک بیزاری سے کیفیت طاری کرتی تھی۔ اور اسے محسوس ہوتا تھا صبح نہیں آتی ہے ایک عفریت آتا ہے۔ اس کی خواہشوں ،ارمانوں، احساسات، چستی ،پھرتی ،شگفتگی کا خون چوسنے کے لیے ۔

دن کے نکلنے پر اسے وہی ساری کام کرنا پڑیں گے جو اسے پسند نہیں ہے۔ اس کے آزادی سلب ہوجائے گی وہ غلام بن جائے گا اور ایک غلام کی طرح رات کے آنے تک وہ کام کرتا رہے گا جو اس کے ذمہ ہے۔

دن اس کے لیے غلامی کا پیغام لے کر آتا ہے تو رات اس کی آزادی کا سندیش۔
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

-2-

باربار وہ اس دن کو کوستا تھا جب اس نے اپنے چاچا کے کہنے پر پنجاب چھوڑنے اور اس چھوٹے سے گاؤں میں چاچا کا کاروبار سنبھالنے کی حامی بھری تھی۔

اس کے حامی سن کر تو اس کے چاچا کرتار سنگھ کے چہرے پر خوشی کی لہر دوڑگئی تھی۔ اس نے اپنے چاچا کے چہرے پر جو اطمینان کی لہر دیکھی تھی وہ لہر اس نے اپنے باپ اقبال سنگھ کے چہرے پر اس دن دیکھی تھی جس دن اس کی بڑی بہن کا بیاہ ہواتھا۔ ایک فرمان کی ادائیگی کے بعد دل کو قلبی سکون ملتا ہے اور چہرے پر جو اطمینان کے تاثرات ابھرتے وہی تاثرات کرتار سنگھ کے چہرے پر تھے۔

’’پُترا۔ ۔ ۔ آج تونے میری سب سے بڑی مشکل آسان کردی ۔ ۔ ۔ ورنا میں تو مایوس ہوکر اپنا سارا کاروبار گھر بار فروحت کرکے پنجاب کا رخ کرنے والا تھا۔ لیکن اب جب تونے وہ کاروبار سنبھالنے کی حامی بھرلی ہے میں ساری فکروں سے آزاد ہوگیا ہوں۔ بیس سال سے میں نے جو کاروبار جما رکھا ہے وہ آگے چلتا رہے گا اور کس کے کام آئے گا۔ کسی کے کیوں میرے اپنے خون کے ہی کام آئے گا ۔اس کاروبار کی بدولت میں ے یہاں پنجاب میں اتنی زمین جائداد بنالی ہے کہ مجھے اب زندگی بھر کوئی اور کام کرنا نہیں پڑے گا ۔لیکن آج میں اپنا وہ کاروبار تمہارے حوالے کرتے ہوئے یہ کہنا چاہتا ہوں جس طرح محنت سے میں نے سال تک کاروبار اتنا دھن کمایا ہے اور اس قابل ہوگیا کہ مجھے اب کسی کے سہارے کی ضرورت نہیں ہے تو بھی محنت سے اپنے کاروبار کو پھیلا اور اس سے اتنا پیسہ کماکر تو بھی ایک دن آئے گا وہ سار اکاروبار کسی اور کے حوالے کرکے اپنے وطن اپنے گاؤں آنے کے قابل ہوجائے ۔‘‘اس کے اس فیصلے سے سب سے زیادہ خوشی اقبال سنگھ کو ہوئی تھی۔ وہ جاکر کرتار سنگھ سے لپٹ گیا تھا۔

کرتارے ۔ ۔ ۔ آج تونے اپنے بڑے بھائی ہونے کا حق ادا کردیا ۔میری سب سے بڑی فکر دور کردی ۔جسمندر کو دھندے سے لگادیا کام سے لگادیا۔ میں رات دن اس کی فکر میں رہتا تھا یہ لڑکا کام دھندا کرے گا بھی یا پھر زندگی بھر آوارگیاں کرتارہے گا۔ کئی سالوں سے اسے سمجھارہاتھا تو پڑھتا لکھتا تو نہیں ہے۔ پڑھنے لکھنے کے نام پر کیوں اپنا وقت اور میرے پیسے برباد کررہا ہے۔ یہ پڑھنا لکھنا چھوڑ کر کوئی کام دھندہ کر۔ مگر یہ مانتا ہی نہیں تھا۔ اسے پڑھنے لکھنے کے نام پر آوارگیاں کرنی جو ملتی تھی ۔مگر تونے اسے کام دھندا کرنے پر راضی کرکے میری سب سے بڑی فکر دور کردی ۔گھر سے دور رہے گا تو آوارگیاں بھی دور ہوجائی گی اور دھندے میں بھی دل لگے گا۔

باپ اور چاچا اس کی حامی پر جشن منارہے تھے۔ لیکن وہ خود ایک تذبذب میں تھا۔

اس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کس سحر کے تحت اس نے اپنا گھر ،گاؤں ،وطن چھوڑکر اکیلے کام کرنے کے لیے ہزاروں میل دور جانا قبول کرلیا تھا ۔اس کے دوستوں نے سنا تو اس کے اس فیصلے پر حیرت میں پڑگئے۔ اور وہ بھی پنجاب سے ہزاروں میل دور گجرات ۔ ۔ ۔ اپنے چاچا کا کاروبار سنبھالنے کے لیے ۔
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

-3-


’’ہاں۔ ۔ ۔ صحیح سنا ہے ۔اس نے جواب دیا تھا۔ ‘‘
’’اوے۔ ۔ ۔ تو وہاں ہمارے بنا رہ سکے گا ؟‘‘
’’اب زندگی تم لوگوں کے ساتھ آوارگیاں کرتے تو نہیں گذرسکتی ہے۔سوچتا ہوں واہ گرو نے ایک موقع دیا کچھ کرنے کا اور کچھ کردیکھانے کا اسے کیوں گنوادوں۔ان آوارگیوں کے سہارے تو زندگی گذرنے سے رہی۔ روزروز پاپاجی کی باتیں سننی پڑتی ہیں ماں کی جھڑکیاں سہنی پڑتی ہیں۔ بڑی بہنیں جب بھی آتی ہیں لکچر بگھارتی ہیں۔ بھائی بات بات پر غصہ ہوکر گالیاں دینے لگتا ہے۔ بس اب یہ سب برداشت نہیں ہوتا۔ سوچتا ہو اس ماحول سے کچھ دنوں کے لیے دور چلا جاؤں ۔اگر واہ گرو نے اس دھندے میں رزق لکھا ہے اور گجرات کا دانہ ہانی میری تقدیر میں ہے تو مجھے جانا ہی پڑے گا ۔ اور جس دن وہاں کا دانہ ہانی اٹھ جائے گا میں اوپس گاؤں آجاؤں گا۔‘‘

اس کی اس بات سے سب خاموش ہوگئے تھے۔

’’اوے جسمندر ۔ ۔ ۔ ہم تیرے دوست ہیں دشمن نہیں ۔تیری ترقی سے ہم خوش ہوں گے ۔ ہماپنے مفاد کے لیے تیری زندگی برباد نہیں ہونے دیں گے ۔آج تجھے کچھ کرنے کا موقع ملا ہے تو جا۔ کچھ کردکھا ۔ہماری دعائیں یرے ساتھ ہے۔ دوستی تعلقات اپنی کچھ دنوں تک تیری یاد ستائی تیری کمی محسوس ہوگی پھرہم بھی زندگی کی الجھنوں میں گھِر کر تجھے بھول کر اپنے اپنے کام دھندوں میں لگ جائیں گے۔ ‘‘

’’جمی ۔ ۔ ۔ وہاں جاکر ہمیں بھول نہ جانا ۔‘‘

’’ارے تو میں ہمیشہ کے لیے گاؤں چھوڑ کر تھوڑی جارہاہوں ۔سال چھ مہینے مے بیساکھی پر آتارہوں گا۔‘‘

دوستوں اور گاؤں کو چھوڑنا اسے بھی اچھا نہیں لگ رہا تھا ۔لیکن اس نے گاؤں ،گھر چھوڑنے کا ارادہ کرلیا تھا۔ پھر وہ گاؤں چھوڑنے والا پہلا فرد نہیں تھا۔ ہر گھر خاندان کے کئی کئی افراد گاؤں سے باہر تھے۔ کوئی ٹرک چلاتا تھا جس کی وجہ سے مہینوں گھر ،گاؤں سے دور رہتا تھا ۔کوئی فوج میں تھا صرف چھٹیوں میں گھر آپاتاتھا ۔کچھ غیر ممالک میں جاکر بس گئے تھے جس کی وجہ سے وہ صرف پانچ دس سالوں میں ہی گاؤں آپاتے تھے۔ نوکری کے سلسلے میں جو لوگ ملک کے مختلف حصوں میں گئے تھے انھوں نے انہی حصوں کو اپنا وطن بنالیا تھا اور گاؤں اور گاؤں کو بھول گئے تھے صرف شادی بیاہ، موت مٹی کے موقع پر گاؤں آتے تھے۔

اس کے چاچا کی طرح جن لوگوں نے دوسرے شہروں اور ریاستوں میں دھندہ شروع کرلیا تھا وہ لوگ بھی گاؤں کے مہمان کی طرح آتے تھے ۔کل سے اس کا شمار بھی ان لوگوں میں ہوگا۔ویسے بھی گاؤں میں اس کے لیے کوئی دلچسپی نہیں رہ گئی تھی۔ پڑھائی کے نام پر وہ پانچ سالوں سے ایف وائے آرٹ کا طالب علم تھا ۔ اس کے پتا اور گھر والوں کو پورا یقین تھا رہ کبھی گریجویشن پورا نہیں کرپائے گا ۔اس کا کالج گاؤں سے دس کلومیٹر دور تھا ۔روزانہ سویرے وہ کالج جاتا ۔کبھی دوپہر تک گاؤں واپس آجاتا تو کبھی شام کو اوپس آتا۔ کبھی دل آیا تو جاتا ہی نہیں ۔دوستوں کے ساتھ آوارہ گردی کرتا ۔ایک دوست جگیرے کی ہوٹل تھی۔ تمام دوست
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

-4-


اس ہوٹل میں بیٹھا کرتے تھے۔ جگیرے کے چھوٹے موٹے کاموں میں ہاتھ بٹاتے تھے ۔یا پھر پورا دن وہاں بیٹھ کر گپیں ہانکتے رہتے یا شرارتیں کرتے رہتے تھے۔ آئے دن ان کی شرارتوں کی شکایتیں ان کے گھر کو پہونچتی رہتی تھی۔ شرارتیں معصوم ہوتی تو لوگ نظر انداز بھی کردیتے لیکن اب وہ بچے نہیں رہے تھے بڑے ہوگئے تھے جس کی وجہ سے ان شرارتوں کا انداز بھی بدل گیا تھا ۔وہ گاؤں کی لڑکیوں کو چھیڑتے رہتے تھے ۔کبھی معاملہ نوک چھونک تک ہوتا تو کبھی چھیڑ چھاڑ تک ۔ ۔ ۔ کبھی معاملہ دل کا ہوتا۔ ۔ ۔ تو کبھی عزت کا ۔تمام دوستوں کا کسی نہ کسی سے دل لگا تھا۔ لیکن صرف اس کا دل کسی پر نہیں آیا تھا ۔اس سے دل لگانے والی کئی تھیں۔ لیکن س کی نظر میں ان کے اس جذبے کی کوئی اہمیت نہیں تھی۔

دوستوں کے دلوں کا معاملہ دلوں سے بڑھ کر جسموں تک پہونچ گیا تھا ۔اور وہاں سے آگے بڑھ کر شادی کے بندھن تک ۔کچھ معاملے درمیان میں ادھورے رہ گئے تھے ۔لڑکیوں کی کہیں اور شادیاں ہوگئی تھی۔ اور پنجاب کی روایتی رومانی داستانوں میں کچھ اور داستانوں کا افسانہ ہوگیا تھا۔

اب وہ ٹوٹے ہوئے دل ان کی یاد میں آہیں بھرتے اور شراب سے اپنا غم غلط کرتے تھے ۔ اس طرح غم غلط کرتے کرتے انھوں نے باقی دوستوں کو بھی شراب کا عادی بنادیا تھا۔ ان میں ایک وہ بھی تھا ۔

وہ شراب کا عادی تو نہیں ہوا تھا۔لیکن راب پینے لگ گیا تھا۔ اور اکثر دوستوں کا ساتھ دینے کے لے ان کے ساتھ شراب پیتا تھا۔ ظاہر سی بات ہے اس کا شراب پینا گھر والوں کے لے تشویش کی بات تو ہوئی ۔اس لیے وہ سنجیدگی سے سوچنے لگے تھے کہ اس سے قبل کہ جسمندر سنگھ شراب کا عادی بن کر اپنی زندگی تباہ کرلے۔ اس لیے یہ لت چھڑانے کا کوئی طریقہ سوچنا چاہیے۔

آسان راستہ یہ تھا کہ اس کی پڑھائی چھڑاکر اسے کسی کام سے لگادیا جائے ۔لیکن اسے کس کام پر لگایا جائے ۔کسی کی سمجھ میں نہیں آتا تھا۔ کالج پڑھتا لڑکا کھیتوں میں سو کام نہیں کرسکتا ۔ ورنہ کھیتوں میں تو ہمیشہ آدمیوں کی کمی رہتی تھی۔

اچانک اس کی چاچی کا انتقال ہوگیا ۔اور اس کے چاچا کرتار سنگھ گاؤں آگیا۔ کرتار سنگھ بیس سال قبل کاروبار کے سلسلے میں گاؤں سے گیا تھا۔ اس نے گجرات کے ایک چھوٹے سے گاؤں نوٹیا میں موٹر سائیکل ،کار ٹریکٹر کے پرزوں کی دوکان ڈالی تھی۔

اس گاؤں اور آس پاس کے دیہاتوں میں اس نوعیت کی کوئی دوکان نہیں تھی ۔ اس لیے اس کی دوکان و کاروبار چل نکلا اور اس نے بیس سالوں میں بہت پیسہ کمایا۔

وہ سال میں ایک آدھ ماہ کے لیے گاؤں آتا تھا تو دوکان نوکروں کے بھروسے چھوڑ آتا تھا۔اس کا کاروبار پھلتا پھولتا گیا۔ آس پاس اور کئی دکانیں کھل گئی۔ لیکن کرتار سنگھ کے کاوبار پرکوئی اثر نہیں پڑا کیونکہ اس نے ہول سیل میں ان دکانوں کو کل پرزے سپلائی کرنا شروع کردئیے تھے۔ جس کی وجہ سے اس کے زمین اور جائیداد میں اضافہ ہوتا گیا اس کے بچے اچھے اسکولوں میں پڑھتے کالج میں پہنچ گئے۔ بٹیاں شادی کے لائق ہوگئیں اور انھیں اچھے گھروں سے رشتے آنے لگے۔
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

-5-


اچانک طویل بیماری کے بعد کرتار سنگھ کی گھروالی اور اس کی چاچی کا انتقال ہوگیا جس کی وجہ سے کرتار سنگھ ٹوٹ گیا۔ ابھی تک گاؤں میں گھر کو اس کی چاچی نے سنبھال رکھا تھا۔ لیکن چاچی کے انتقال کے بعد گھر سنبھالنے والا کوئی نہیں رہا تو کرتار سنگھ کو فکر دامن گیر ہونے لگی۔

گھر میں جوان لڑکیاں اور لڑکے تھے ۔ان پر نظر رکھنے والا گھر میں کوئی بڑا آدمی بے حد ضروری تھا۔ یوں تو اس کا باپ اقبال سنگھ اپنے بچوں کے طرح بھائی کے بچوں کا خیال رکھتا تھا۔ اس کے ہوتے ہوئے کرتار سنگھ کو اس سلسلے میں کسی طرح فکر کرنے کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔لیکن کرتار سنگھ باپ تھا اس کا دل نہیں مانا۔اس نے طے کرلیا تھا کہ اب وہ واپس گجرات نہیں جائے گا ۔اپنا سارا کاروبار کسی کو دے دے گا یا فروخت کردے گا اور گاؤں میں رہ کر اپنے بچوں کی دیکھ بھال کرے گا۔ لڑکیوں کی شادیاں کرے گا اور لڑکوں کو نوکری یا کام دھندوں سے لگائے گا۔

کاروبار فروخت کرنے سے پہلے اس کے ذہن میں اس کا خیال آیا ۔اس کے لڑکے ابھی کاروبار سنبھالنے کے لائق نہیں ہے ۔ اگر وہ کاروبار فروخت کردیتا ہے اس کاروبار سے اس کا رشتہ ہی ٹوٹ جائے گا۔ اگر اپنی دوکان کسی کو دے دیتا ہے تو پانچ دس سال بعد اس کے لڑکے کاروبار سنبھالنے کے قابل ہوجائیں گے تو وہ اپنا کاروبار دوکان اس سے واپس لے کر اپنے لڑکوں کے حوالے کرسکتا ہے۔

اس خیال کے آتے ہی اس کی نظر اس پر پڑی۔اور اس نے اس کے سامنے اپنی ساری صورتِ حال رکھ دی ۔جمی بیٹے۔ ۔ ۔ ’’میں چاہتا ہوں تم میری وہ دوکان سنبھالو۔ مجھے تم اس کا ایک پیسہ بھی مت دو۔ لیکن پاچن دس سال بعد جب میرے بچے اس قابل ہوجائیں کہ وہ دوکان سنبھال سکیں تو تم مجھے وہ دوکان واپس دے دو۔‘‘

اس نے بنا سوچے سمجھے حامی بھر لی ۔اسے لگا اس کے ہاتھ ایک مو قع لگا ہے اسے گنوانا نہیں چاہیے۔ایک مہینے بعد اس کے چاچا کرتار سنگھ اسے لے کر نوٹیا آیا۔اس نے دوکان کے نوکروں اور گاؤں والوں سے اس کا تعارف کرایا۔ ’’یہ میرا بھتیجہ جسمندر سنگھ ہے۔سب اسے جمی کہتے ہیں۔ آج کے بعد یہی میری دوکان اور کاروبار دیکھے گا۔ ‘‘

ایک آٹھ دس سال کا لڑکا راجو اور ایک 24، 25 سال کا آدمی رگھو۔رگھو پرانا نوکر تھا ۔لیکن اب اس کا دل اس کام میں نہیں لگتا تھا۔ وہ یہ نوکری چھوڑ کر اپنا خود کا کوئی ذاتی کاروبار شروع کرنے کا سوچ رہا تھا ۔10 سال کا راجو نیا نیا تھا۔ وہ صرف سامان دے سکتا تھا اور گاہک سے اس سامان کی بتائی قیمت وصول کرسکتا تھا۔ دوسرے لفظوں میں دوکان کی ساری ذمہ داری اس پر تھی ۔کرتار سنگھ نے اسے مشورہ دیا تھا فلی ل وہ صرف دوکان پر توجہ دے ہول سیل پر دھیان نہ دے۔ دھیرے دھیرے جب وہ دوکان اچھی طرح سنبھالنے لگے تو اس کے بعد ہول سیل پر توجہ دینا۔
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

-6-


اس کا چاچا نوٹیا میں آٹھ دنوں تک اس کے ساتھ رہا۔ اور دوکان داری کے سارے گُر بتا گیا۔مال کہاں سے خریداجائے کسی قیمت پر فروخت کیا جائے کون مستقل گراہک ہے۔
اس کی دوکان کا نام ’’گرونانک آٹو پارٹ‘‘تھا۔ دوکان کے اطراف ایک دو مکینک نے اپنی دوکانیں کھول رکھی تھی۔ ایک بڑے سے بکس میں وہ روزانہ اپنا سامان لے کر آتے اور اس سے اپنا کام کرتے تھے۔ وہ لوگ اس کے لیے اس لیے مفید تھے کیونکہ وہ سامان اس کی دوکان سے ہی خریدتے تھے۔ اکثر کسی کو اپنی سواری کا کوئی پارٹ ہوتا تھا تو وہ اس کی دوکان سے پارٹ خرید کر ان کے پاس پہنچ جاتا وہ لوگ اس پارٹ کو تبدیل کردیتے تھے۔

اس کی دوکان میں ڈیوٹی سویرے آٹھ بجے سے رات کے آٹھ بجے تک تھی۔ دوپہر میں وہ ایک آدھ گھنٹے کے لیے کھانا کھانے کے لیے کسی ہوٹل دھابے پر جاتا یا اپنے کمرے میں جاکر خود ہی اپنے ہاتھوں سے کھانا بناتا۔ اس وقت بھی دوکان بند نہیں ہوتی تھی ۔نوکر دوکان دیکھتے تھے۔ نوکر بھی کھانا کھانے کے لیے ایک دیڑھ گھنٹے کے لیے اپنے گھر جاتے تھے اس وقت وہ دوکان دیکھتا تھا۔ دوکان دومنزلہ تھی۔ نیچے دوکان اوپر رہائش کے لیے دو کمرے جہاں اس کا چاچا رہتا تھا۔ دوکان کے پیچھے بھی ایک کمرہ تھا جسے گودام کے طور پر استعمال کیا جاتا تھا۔ اس میں زائد مال رکھا جاتا تھا۔ یا پھر بیکار مال۔

دن بھر تو دوکانداری میں گذر جاتی تھی ۔مگر اس کے رات کاٹنی مشکل ہوجاتی تھی۔ شروع شروع میں اس کے لیے رات کاٹنا بہت مشکل محسوس ہوتا تھا۔ کیونکہ اس کا نہ توکوئی دوست تھا نہ ہی کوئی شناسا جس کے ساتھ وہ باتیں کریں۔

دوکان بند کرکے وہ کھاناکھاتا اور پھر اپنے کمرے میں قید ہوکر بستر پر لیٹ کر سونے کی کوشش کرتا ۔نیند بھلا اتنی جلدی اور اتنی آسانی سے کہاں آتی ۔گاؤں میں اسے دودو تین تین بجے تک جاگنے کی عادت تھی۔ اس لیے ایک دوبجے سے قبل اسے نیند نہیں آتی تھی۔ اس بے خوابی سے کبھی وہ اتنا پریشان ہوجاتا کہ اس کا دل چاہتا وہ یہ کام دھندہ دوکانداری چھوڑ کر واپس گاؤں بھاگ جائے۔ گاؤں میں وہ دیر سے سوتا تھا تو دیر سے جاگتا تھا۔ جب کالج جانا نہیں ہوتا تھا یا چھٹیوں میں وہ 12 بجے سے پہلے بستر نہیں چھوڑتا تھا۔ لیکن یہاں پر وہ رات میں دوبجے سو یا سو تین بجے رات میں دوکان کھولنے کے لیے سویرے سات بجے جاگنا پڑتا تھا۔ اس لیے اسے صبح کی آمد پسند نہیں تھی۔

صبح آتی تو اس کی آنکھوں میں نیند بھری ہوتی تھی۔ جسم بوجھل سا ہوتا تھا۔ جسم کا ایک ایک حصہ رات کی بے خوابی کی وجہ سے ٹوٹتا محسوس ہوتا تھا۔ دل تو چا رہا ہوتا تھا کہ وہ اور چار پانچ گھنٹے سوئے لیکن دوکان کھولنے کے لیے جاگنا ضروری تھا۔ ذراسی تاخیر ہوجاتی تو رگھو اور راجو آکر گھر دستک دیتے۔ اس لیے بادل ناخواستہ اسے جاگنا پڑتا۔

رات میں یار دوستوں کی صحبتوں ،محفلوں کی باتیں یاد آتی ۔جب گاؤں اور دوستوں کی یادیں زیادہ ہی مغموم کردیتیں تو وہ شراب پی لیتا تھا۔ شراب پینے سے اسے سکون مل جاتا تھا اور نیند بھی آجاتی تھی۔لیکن اکیلے اسے شراب پینے میں مزہ نہیں آتا تھا۔ یار دوستوں کے ساتھ مل بیٹھ کر ہنسی مذاق کرتے ہوئے شراب پینے کا مزہ ہی کچھ اور ہوتا ہے۔ کئی بار اس نے کوشش کی کہ رگھو اس کا ساتھ دے لیکن رگھو اس کا ساتھ نہیں دیتا تھا۔
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

-7-


’’جمی سیٹھ ۔ ۔ ۔ تم تنخواہ اتنی کم دیتے ہو کہ اس میں میرے گھر والوں کا پیٹ مشکل سے بھر پاتا ہے۔ شراب کی لت لگا کر کیا میں انھیں بھوکا ماروں؟ مانا آج تم مجھے مفت کی پلا رہے ہو ۔ ۔ ۔ لیکن عادت لگ جانے کے بعد تو مجھے اپنے پیسوں کی پینی پڑے گی تب کیا ہوگا؟تمہارے چاچا بھی مجھ سے یہی اصرار کرتے تھے۔ تب بھی میں نے اس لت کو گلے نہیں لگایا تو آج کیوں لگاؤں؟‘‘ راجو چھوٹا لڑکا تھا ۔اسے شراب کی پیش کش نہیں کرسکتا تھا۔ ایک مکینک سے اس کی پہچان ہو گئی تھی۔ وہ شراب کا عادی تھا اس کے لیے شراب بھی لاکر دیتا تھا۔ اور اس کے ساتھ شراب تھی پیتا تھا۔ لیکن اس کے ساتھ اپنے تعلقات صرف شراب لاکر دینے اور کبھی کبھی ساتھ شراب پینے کی حد تک ہی محدود رکھاتھا۔ اس معیار کا آدمی نہیں تھا کہ اس کے حلقہ احباب میں شامل کیا جائے۔اس کے حلقہ احباب میں کئی لوگ شامل ہوگئے تھے۔

اس کا چاچا جاتے ہوئے اسے کچھ ایسی باتیں بھی بتا گیا تھا جن سے وہ محتاط رہنے لگا تھا۔ اس کے چاچا نے کہا تھا ’’۔ ۔ ۔ جمی ۔ ۔ ۔ ان گجراتی لوگوں سے ہوشیار رہنا ۔میں بیس سال سے اس گاؤں میں ہوں ۔ان کے درمیان دھندہ کررہا ہوں لیکن مجھے پتہ ہے وہ لوگ مجھے پسند نہیں کرتے ہیں ۔مجبوری کی طور پر مجھے جھیل رہے ہیں یا انھیں محسوس ہوتا ہے کہ وہ میرا کچھ نہیں بگاڑ سکتے ۔ان کے لیے پیسہ اور دھندہ ہی سب کچھ ہے ۔پیسہ اور دھندے کے لیے یہ کچھ بھی کرسکتے ہیں ۔کسی بھی حد تک گِر سکتے ہیں ۔پہلے جب اس گاؤں میں میری واحد دوکان اسپیر پارٹ کی دوکان تھی اس لیے یہ مجھے برداشت کرلیتے تھے۔ لیکن اب جبکہ کئی اسپیر پارٹ کی دوکانیں ہیں اور وہ گجراتیوں کی ہیں ۔وہ مجھ سے جلتے ہیں۔ اس میں وہ تمام دوکان دار چاہتے ہیں میں یہ دوکان بند کرکے چلا جاؤں ۔آتے دن ذات اور برادری کے نام پر میرے گاہک توڑنے کی کوشش کرتے ہیں۔اس میں وہ کچھ کچھ حد تک کامیاب بھی ہوتے ہیں۔ لیکن اتنے نہیں کہ مجھے دھندہ بند کرنا پڑے ۔ وہ تم پر کوئی بھی جھوٹا الزام لگاکر حملہ کرسکتے ہیں ۔اس لیے اس بارے میں محتاط رہنا ۔‘‘تب سے وہ بہت محتاط رہتا ہے۔

اس نے محسوس کیا تھا ۔ لوگوں کی آنکھوں میں اس کے لیے اچھے جذبات نہیں ہوتے ہیں۔ وہ اسے ناپسند یدہ نظروں سے ہی دیکھتے ہیں۔ اس کی وجہ کیا ہو سکتی ہے اس سلسلے میں اسی نے اپنے ایک مسلمان دوست جاوید سے سوال کیا تھا۔ ۔ ۔ ’’یہ لوگ تمہیں پسند نہیں کرتے تم اس بات کا ماتم کررہے ہو ۔‘‘

’’ارے ابھی تمہیں اس گاؤں میں آئے دن کتنے ہوئے ہیں؟ مشکل سے ایک ماہ !تب بھی تمہیں ناپسند کرتے ہیں۔ ہم لوگ تو صدیوں سے اس گاؤں میں رہ رہے ہیں ۔اس کے باوجود وہ ہم لوگوں کو پسند نہیں کرتے ہیں ۔اور چاہتے ہیں کہ ہم یہاں پرکوئی کام دھندہ نہ کریں۔ یہ گاؤں چھوڑ کر چلے جائیں۔ آئے دن کوئی نہ کوئی نیا فتنہ اٹھاتے رہتے ہیں اور آجکل تو کچھ زیادہ ہی۔ ۔ ۔ ‘‘

جاوید کی بات سن کر وہ بہت کچھ سوچنے پر مجبور ہوگیا ۔ جاوید کی پیدائش اسی گاؤں میں ہوئی تھی ۔وہ یہاں پلا بڑھا تھا ۔اس گاؤں میں اس نے تعلیم مکمل کی تھی پر اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے ممبئی میں اس نے اپنے ایک رشتہ دار کے پاس ممبئی گیا تھا۔
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

8-


ممبئی میں اس نے کمپیوٹر کی اعلیٰ تعلیم حاصل کی ۔اس کی قابلیت کے بنیاد پر اسے ممبئی میں اچھے جاب کے آفرآئے لیکن اس نے وہاں نوکری کرنا مناسب نہیں سمجھا ۔اس کا ایک ہی مقصد تھا ۔ میں نے جو تعلیم حاصل کی ہے ۔ میں اپنے علم ،تعلیم ،روشنی سے اپنے گاؤں والوں کو فیض یاب کروں گا۔ اور وہ گاؤں واپس آگیا۔ اس نے کمپیوٹر کی ایک چھوٹی سی دوکان کھولی اوروہاں پر گاؤں کے بچوں کو کمپیوٹر کی تعلیم دینے لگا۔ اس وقت گاؤں میں کوئی بھی کمپیوٹر سے آشنا نہیں تھا۔ کمپیوٹر کا زمانہ تھا کمپیوٹر کی تعلیم کی اہمیت کا احساس ہر کسی کو تھا ۔اس لیے ہر کوئی اس تعلیم کی طوف مائل ہونے لگا ۔اور جاوید کے پاس کمپیوٹر کی تعلیم حاصل کرنے والے طلباء کی تعداد میں دن بہ دن اضافہ ہونے لگا ۔

سویرے آٹھ بجے سے رات کے 12 بجے تک بچے جاوید کے پاس کمپیوٹر سیکھنے کے لے آتے ۔ ایک سال میں ہی جاوید کی چھوٹی سی کمپیوٹر سکھانے کی کلاس ایک بڑے سے کمپیوٹر انسٹی ٹیوٹ میں تبدیل ہوگئی ۔گاؤں کے وسط میں ایک شاندار نجی عمارت میں جاوید کا شروع کردہ اقصیٰ کمپیوٹر اس علاقے کا سب سے بڑا کمپیوٹر اسنٹی ٹیوٹ بن گیا۔جہاں بچوں کو کمپیوٹر کی جدید تعلیم دی جاتی تھی۔ کمپیوٹر فروخت اور درست کیے جاتے تھے۔ اورسائبر کیفے تھا۔ جو گاؤں کے واحد سائبر کیفے تھا جس میں ہمیشہ بھیڑ لگی رہتی تھی۔

جاوید کے جذبے کی کسی نے بھی قدر نہیں کی بلکہ اسے بھی تجارتی نقطہ نظر سے دیکھ کر اس میں تجارتی رقائبوں کا عنصر تلاش کیا گیا۔ منافع بخش دھندہو ہے صرف یہ سوچ کر ایک دو اور کمپیوٹر کی تعلیم دینے والی کلاسس شروع ہوگئی ۔یہ اور بات تھی کہ انھیں وہ کامیابی نہیں مل سکی ۔ لیکن اس طرح جاوید اور اقصیٰ کمپیوٹر کے تجارتی رقیب تو پیدا ہوگئے تھے۔

جاوید کی باتوں نے اسے بہت کچھ سوچنے پر مجبور کردیا تھا۔اسے لگا کہ اسے بھی ان تمام باتوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اگر ایسا ہوا تو اس کے لیے یہ راہ اتنی آسان نہیں ہے جتنی وہ سوچ رہا ہے۔

اس کے لیے شروع شروع میں کئی مسائل تھے۔ سب سے بڑا مسئلہ زبان کا تھا۔ اسے پنجابی آتی تھی ۔ہندی بول لیتا تھا۔ لیکن وہاں کے لوگ گجراتی کے علاوہ کچھ بولتے اور سمجھتے ہی نہیں تھے۔ اس کا چاچا اتنے عرصے تک وہاں رہنے کی وجہ سے گجراتی سیکھ گیا تھا اس لیے اس کا کام چل جاتا تھا۔ لیکن اسے رگھو یا راجو کا سہارا لینا پڑتا تھا۔ ویسے اسے پورا اعتماد تھا کہ وہ کچھ عرصے میں کام چلاؤ گجراتی سیکھ جائے گا۔ لیکن زبان کی اجنبیت کا احساس اسے کچھ کہنے لگا۔ اسے لگا اس زبان کی اجنبیت کی وجہ سے وہ وہاں اچھے دوست نہیں بناپائے گا۔کیونکہ وہ روانی سے جذبات احساسات کا اظہار نہیں کرسکے گا۔ نہ سامنے والے کے جذبات احساسات کو سمجھ سکے گا۔ دوست وہی بن سکتا ہے جس کے سامنے روانی سے اپنے احساسات کا اظہار ممکن ہے۔ یا جس کے جس احساسات کو سمجھا جاسکا۔
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

-9-


اس وجہ سے اتنے دنوں میں صرف جاوید ہی اس کا دوست بن سکا ۔لیکن جاوید کے پاس انتا وقت نہیں تھا کہ ؤہ اس کے پاس آکر بیٹھے ۔اسے رات میں وقت ملتا تو وہ جاوید کے سائبر پہونچ جاتاتھا۔ لیکن وہاں بھی جاوید سے فرصت سے بات چیت نہیں ہو پاتی تھی۔ جاوید کمپیوٹرس کے پیچھے حیران ہوتا ۔اور وہ تماشائی بنا جاوید کو کمپیوٹروں سے الجھا دیکھاتا ۔

جاوید نے ایک دوبار اس سے کہا بھی تھا ’’۔ ۔ ۔

کمپیوٹر سیکھ جاؤ ،ایک بار انٹرنیٹ کی لت لگ گئی تو تم بھی میرے رنگ میں رنگ جاؤ گے ۔‘‘لیکن باوجود باربار کوشش کہ وہ ماؤس ہاتھوں میں پکڑنا سیکھ نہیں سکا تو اسکرین پر ابھرنے والی انگریزی تحریروں کو کیا پڑھتا اور سمجھتا ۔ویسے بھی انگریزی اس کی کمزوری تھی۔

جاوید اس لیے اس کا دوست بنا کہ ان کے درمیان زبان کی اجنبیت نہیں تھی۔ وہ روانی سے جاوید کے ساتھ گفتگو کرسکتا تھا۔ اور جاوید اس کی پنجابی بھی سمجھ لیتا تھا ۔ اور اس کا ساتھ دینے کے لیے ،یا مذاق اڑانے کے لیے پنجابی لہجے میں گفتگو بھی کرتا تھا۔ وہ جاوید کی اس لیے قدر کرتا تھا کہ جاویداتنا مصروف رہتا تھا لیکن اس کے لیے وقت ضرور نکالتا تھا ۔جاوید سے اس کی پہچان اس کی اپنی دوکان پر ہوتی تھی۔ جاوید اپنی موٹر سائیکل کیلیے کوئی پرزہ خریدنے اس کی دوکان پر آیا تھا تو رگھو نے اسے بتایا کہ یہ پرانا گاہک ہے تو اس نے اس سے خود کو متعارف کرایا۔

’’چلو اچھا ہوا سردارجی ۔ ۔ ۔ آپ آگئے ۔ ۔ ۔ پورے گاؤں میں ایک نوجوان سردار تو ہے۔ ورنا گاؤں والے آپ کے بوڑھے چاچا کو دیکھ دیکھ کر سردار جی لوگوں کے بارے میں غلط نظریات قائم کرنے لگے تھے۔ ‘‘

اس کے بعد جاوید جب بھی اس کے دوکان کے سامنے سے گذرتا اسے ہاتھ دکھاتا گذرتا تھا۔ اگر فرصت میں رہتا ہوتا تو رک کر خیر خیریت پوچھ لیتا ۔جاوید اس کے دل پر ایک گہرا نقش چھوڑ گیا تھا۔ اسے ایسا محسوس ہوتا تھا جیسے اس کے گاؤں میں کوئی یار جاوید کی شکل میں اس کے پاس آگیا ہے ۔ اس کا ماننا تھا واہ گرو ہر کام آسان کرتا ہے ۔سویرے جلدی اٹھنا اس کے لیے سب سے مشکل کام تھا۔ لیکن اس کام میں بھی آسانی پیدا ہوگئی تھی جب سے اس نے مدھو کو دیکھا۔

مدھو گاؤں کی لڑکی تھی ۔شہر کالج پڑھتی تھی روزانہ سویرے چھ ،سات بجے کی بس سے شہر جاتی تھی۔ کالج سے کبھی ایک بجے واپس آتی تو کبھی 4 بجے تو کبھی شام کو ۔شہر جانے والی بس کا اسٹاپ اس کی دوکان کے سامنے تھا ۔ اکثر سویرے بس کے انتظار میں مدھو اس کی دوکان کے سامنے کھڑی ہوتی تھی۔ واپسی میں بھی اس کی دوکان کے سامنے ہی آکر رکتی تھی اور بس سے اتر کر مدھو غیر ارادی طور پر ایک نظر اس کی دوکان کی طرف ڈالتی ،آگے بڑھ جاتی ۔

مدھو نے اس کے ذہن اور اس کی زندگی میں ہلچل مچادی تھی ۔ اب تک اس نے ہزاروں لاکھوں خوبصورت سے خوبصورت لڑکیاں دیکھی تھیں کئی تو اس پر مرتی تھیں ۔پنجاب کے دیہاتوں کا بے باک حسن تو قصے کہانیوں میں آج بھی زندہ ہے۔ لیکن اب تک کوئی بھی ایسا چہرہ نہیں ملا جو اس کے دل و دماغ میں ہلچل مچادے۔ لیکن مدھو پرنظر پڑتے ہی اس کے دل و دماغ ہی نہیں زندگی میں بھی ہلچل مچ گئی۔
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

-10-


اس نے کالج سے آتے ہوئے مدھو کو کئی بار دیکھا تو پتہ لگایا کہ یہ کالج کب جاتی ہے تو اسے پتہ چلا جب وہ سویا ہوا ہوتا ہے تب وہ کالج جاتی ہے۔ سویرے چھ سات بجے۔ اور بس کے انتظارمیں بہت دیر تک ٹھیک اس کی دوکان کے سامنے بنے بس اسٹاپ پر کھڑی رہتی ہے۔ یہ سن کر اس کی بیتابی بڑھ گئی۔ کالج سے واپس آتی مدھو صرف چند منٹوں تک اس کی آنکھوں کے سامنے ہوتی تھی تو اس پر ایک نشہ طاری ہوجاتا تھا جو گھنٹوں نہیں اترتا تھا۔ سویرے تو وہ مدھو کو گھنٹوں دیکھ سکتا ہے ۔یہ سوچ کر اس نے طے کر لیا اب وہ اپنی عادت کے خلاف سویرے جلد جاگ جایا کرے گا۔

صبح جو ایک جادوبکھیرتی نمودار ہوتی ہے۔ ہر فرد کے لیے اس میں ایک الگ طرح کا جادو ہوتا ہے۔ اور وہ اس میں اپن مقصد کا جادو تلاش کرتا ہے۔ لیکن صبح کبھی بھی جمی کے لیے جادو جگاتی محسوس نہیں ہوتی تھی۔ اب وہی صبح اس کے لیے ایک جادو بکھیرتی نمودار ہوتی ہے۔ اس صبح میں اس کے لیے ایک الگ طرح کا جادو ،نشہ ،کشش ہوتی ہے۔

مدھو کے دیدار کی کشش ۔ ۔ ۔
مدھو کے دیدار کا نشہ ۔ ۔ ۔
مدھو کے دیدار کا جادو۔ ۔ ۔
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

- 11 -


اس دن سویرے جلدی آنکھ کھل گئی۔چھ بجے کے قریب۔ چھ بجے وہ برش کرنے کے لیے اپنے مکان کی گیلری میں آکر کھڑا ہوگیا اسے مدھو کا انتظار تھا۔ برش کرنے کے بعد اس نے منہ ہاتھ دھوئے ساڑھے چھ بج گئے تھے لیکن مدھو نہیں آئی تو اسے بے چینی محسوس ہونے لگی۔ اب تک تو مدھو کو آجانا چاہیے تھا۔ ساڑھے چھ بجے تک وہ بس اسٹاپ پر آجاتی ہے۔ اس نے چائے بھی نہیں پی ۔ گیلری میں کھڑا مدھو کا انتظار کرتا رہا ۔اسے ڈر تھا اگر وہ اندر چائے بنانے میں لگ گیا تو مدھو بھی آجائے گی اور اس کی بس اور اس سے پہلے کہ وہ مدھو کی ایک جھلک دیکھے مدھو بس میں سوار ہوکر کالج چل دے گی۔ اس لیے ان سے چائے ،ناشتہ کا خیال دل سے نکال دیا تھا۔ گیلری میں کھڑا مدھو کا انتظار کرتا رہا۔
جس بس سے مدھو کالج جاتی تھی وہ آئی چلی گئی۔ لیکن مدھو نہیں آئی ۔ اس کا دل ڈوبنے لگا۔ اس کا مطلب ہے آج مدھو کالج نہیں جائے گی ۔کیوں کالج نہیں جائے گی؟ وہ تو کبھی کالج جانے کا ناغہ نہیں کرتی ہے ؟آ ج کالج نہیں جائے گی تو ضرور اس کی کوئی وجہ ہوگی ۔وہ وجہ کیا ہوسکتی ہے؟

سوچ کر بھی اس وجہ کو وہ تلاش نہیں کرپارہا تھا۔

بیمار ہے؟گھر میں مہمان آئے ہیں؟یا کالج پڑھائی سے اس کا دل اکتا گیا ہے؟۔ جیسے کئی سوالات اس کے ذہن میں چکرارہے تھے۔ ساڑھے سات بجے کے قریب مایوس ہوکر وہ اندر آگیا ۔اب مدھو کے آنے کی کوئی امید نہیں تھی۔ وہ چائے بنانے لگا ۔اسے پتہ نہیں تھا دس پندرہ منٹ میں رگھو اور راجو آجائیں گے تو نہ اسے چائے پینے ملے گی اور نہ ہلکہ سا ناشتہ کرنے۔ دوکانداری میں لگنے کے بعد ناشتہ اور کھانے ک فرصت کہاں مل پاتی ہے۔ ناشتہ سے وہ فارغ ہی نہیں ہوا تھا کہ رگھو نے آواز دی ۔اس نے دوکان کی چابیاں اسے دے کر دوکان کھولنے کے لیے کہا۔ اس کے بعد نہا دھو کر آدھے گھنٹے بعد نیچے اترا تو دوکانداری شروع ہوگئی تھی۔ رگھو اور راجو گاہکوں سے نپٹ رہے تھے۔

’’ست شری اکال سردارجی ۔‘‘اچانک شناسا آواز سن کر وہ چونک پڑا۔

’’ارے جاوید بھائی آپ ‘‘ وہ حیرت سے جاوید کو دیکھنے لگ
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

- 12 -

کیا بات ہے آج آپ انسٹی ٹیوٹ نہیں گئے؟
’’انسٹی ٹیوٹ کی چھٹی ہے جمی ۔‘‘

’’چھٹی ؟ کس خوشی میں ۔ ۔ ۔ ‘‘

’’ارے آج عید میلادالنبی ہے۔ حضرت محمد کی پیدائش ۔آج کے دن سارے گاؤں کے مسلمان اپنا کاروبار بند رکھتے ہیں۔ اور دھوم دھام سے جشن عید میلاالنبی مناتے ہیں۔ مجلس منعقد ہوتی ہیں، جلوس نکالا جاتا ہے۔ پیر بابا کے مزار کے پاس کھانا بنایا جاتا ہے۔ جس کے لیے سارے گاؤں کو عام دعوت ہوتی ہے۔ اس دعوت میں نہ صرف اس گاؤں کے بلکہ آس پاس کے گاؤں کے مسلمان اور غیر مسلم بھی شریک ہوتے ہیں۔ حضرت محمد کی سیرت پر روشنی ڈالنے والے جلوس کا انعقاد ہوتا ہے۔سارا گاؤں روشنیوں سے سجایا جاتا ہے۔ تمہاری اس گاؤں میں پہلی جشن عید میلاالنبی ہے نا اس لیے تمہیں اس کا علم نہیں ہے ۔انسٹی ٹیوٹ تو بند ہے۔ سوچا گاڑی کی سروس کرلوں اور تمہیں جشن کا نظارہ دکھاؤں۔‘‘

’’اچھا آج عید میلاالنبی ہے۔ اس کے بارے میں میں نے صرف سن رکھا ہے۔ پنجاب کے گاؤں میں تو اس کا پتہ ہی نہیں چلتا ۔ اب پنجاب کے دیہاتوں میں مسلمان کہاں ہیں۔ میں نے اپنے بزرگوں سے سن رکھا ہے تقسیم سے قبل جب مسلمان خاطر خواہ تعداد میں پنجاب کے دیہاتوں میں آباد تھے۔ اس وقت اس دن سارے پنجاب کے دیہاتوں میں جشن کا سماں ہوتا تھا۔ ‘‘ اس نے کہا۔ساتھ ہی ساتھ اس کے ذہن میں گھنٹیاں بھی بجنے لگی۔ آج عید میلادالبنی کی کالج میں چھٹی ہوگی اس وجہ سے مدھو کالج نہیں گئی اور وہ سویرے سے اس کی راہ دیکھتا رہا۔

’’جاوید بھائی چائے منگواؤں ؟‘‘اس نے جاوید سے پوچھا۔

’’سردارجی ۔ ۔ ۔ چائے چھوڑیے ۔ ۔ ۔ میرے ساتھ چلیے آج میں آپ کو اپنے گھر لے جا کر ناشتہ کراتا ہوں عید میلاالبنی کے سلسلے میں گھروں میں نیاز کی جاتی ہے۔ میرے گھر کئی طرح کے پکوان بنے ہیں۔ ‘‘جاوید نے جواب دیا۔

’’چلیے ۔ ۔ ۔ گاڑی کو چھوڑ دیجیے ۔جب تک ہم واپس آئیں گے گاڑی بن کرتیار ہوجائے گی۔‘‘ اس نے کہا۔اور دونوں گاؤں کی طرف چل دیے۔

سچ مچ سارے گاؤں میں جشن کا سماں تھا ۔گاؤں کے درمیانی چوراہے سے مسلمانوں کا محلہ بہت دور تھا ۔لیکن چوراہے پر جو مسلمانوں کی دوکانیں تھیں وہ بند تھیں ۔لیکن سجی ہوئی تھیں ان پر روشنیاں تھی جو دن میں بھی جل رہی تھی۔ ہرے جھنڈے لگے تھے۔جن پر اردو اور گجراتی میں جشن عید میلادالبنی لکھا تھا۔ سبز رنگ کے پھلوارے پورے چوک میں لگے تھے۔

اب جگہ جگہ سے لاؤڈ اسپیکر کی آوازیں بھی سنائی دینے لگی تھیں۔ لاؤڈ اسپیکروں پر خوش الیان آوازوں میں نعت رسول پاک پڑھی جارہی تھیں۔ جگہ جگہ پیراؤ لگے تھے۔ جہاں پر آنا ہگیروں میں شربت تقسیم کیا جارہا تھا ۔گول بڑے جوش و خروش سے قطاروں میں کھڑے ہوکر شربت پی رہے تھے۔
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

- 13 -

ٹھوڑی دیر بعد ایک بڑا جلوس دکھائی دیا ۔ یہ عید میلادالنبی کا جلوس تھا۔ اس جلوس میں گاؤں کے تمام چھوٹے بڑے مسلمان مرد شریک تھے۔ بچے اپنے ہاتھوں میں چھوٹی چھوٹی ہری جھنڈیاں تھامے ہوئے تھے ۔ کچھ لوگو نے ہاتھوں میں بڑے بڑے جشن عید میلاالنبی کے جھنڈے اور بینر اٹھارکھے تھے۔ ایک دو جگہ جلوس کے ساتھ میلاد پڑھی جارہی تھی۔

جلوس کی اگلی صف کے بچے جوش اور خوشی میں نعرے لگارہے تھے۔
’’نعرۂ تکبیر ‘‘
’’اللہ اکبر‘‘
’’نبی کا دامن ‘‘
’’نہیں چھوڑیں گے‘‘
’’غوث کا دامن ‘‘
’’نہیں چھوڑیں گے‘‘

بچوں اور لوگوں نے ہاتھوں میں خوشبودار چھوٹی بڑی اگر بتیاں پکڑ رکھی تھیں جس کی وجہ سے سارا ماحول مہکا ہوا تھا۔ لوگ اپنے مکانوں کی کھڑکیوں ، دروازوں ،گیلری میں کھڑے ہوکر اس جلوس کو دیکھ رہے تھے۔

دو پہر تک یہ جلوس سارے گاؤں میں گھومتا رہے گا۔ دوپہر میں یہ جلوس پیر بابا کی درگاہ پر پہنچے گا جہاں پر کھانا پکا ہوگا اور سارے گاؤں والے وہاں دوپہر کا کھانا کھاتے کے لیے جائیں گے۔ جاوید بتانے لگا۔وہ لوگ بھی جلوس میں شریک ہوگئے تھے۔

’’کیا اس کھانے میں سارا گاؤں شریک ہوتا ہے؟‘‘

’’ہمارے بچے نہیں سارا گاؤں شریک ہوتا تھا ۔لیکن گذشتہ چند سالوں سے اب وہ بات نہیں رہی ۔اب صرف چند لوگ ہی شریک ہوپاتے ہیں۔ ‘‘جاوید نے جواب دیا۔

جلوس مسلم محلے سے گذرنے لگا تو وہ محلے کی بہ رائش دیکھ کر دنگ رہ گیا ۔اس نے اس طرح کی سجاوٹ پنجاب میں صرف چندمخصوص موقعو ں پر دیکھی تھی۔

گاؤں میں پچاس ساٹھ مسلم گھر ہوں گے۔ وہ تمام ایک محلے میں ہی تھے۔ مسلمانوں کی آبادی پانچ چھ سے کے قریب ہوگی۔ لیکن گاؤں پر مسلمانوں کا دبدبہ تھا۔ اس طور پر تھا کہ گاؤں کے تمام اہم کاروبار میں مسلمان شریک تھے۔ جاوید کے انسٹی ٹیوٹ کو ہی لیا جائے تو وہ گاؤں کی ریڑھ کی ہڈی کا مقام رکھتا تھا۔ جہاں سے علم ،ہنر کی روشنی پھوٹتی تھی۔ مسلمانوں کے کھیت بھی تھے۔ تیل کی گھانیاں بھی تھیں۔ چھوٹے موٹے کاروبار بھی تھے۔ غریب مسلمان بھی تھے۔ جو کھیتوں میں مزدوری کرتے تھے یا پھر دوکانوں ،کاروباروں میں کام کرتے تھے۔
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

- 14 -

کچھ گھر میں بہت زیادہ آسودگی تھی توکچھ گھروں میں انتہا غریبی ۔ایک مسجد بھی جس میں پانچ وقت کی نماز پڑھی جاتی تھی۔ اس میں ایک مدرسہ تھا جس میں بچوں کو دین کی تعلیم دی جاتی تھی۔ ایک اسکول تھا جہاں بچے تعلیم حاصل کرتے تھے۔ لیکن اس اسکول میں صرف پرائمری درجے کی ہی تعلیم دی جاتی تھی۔ ہائی اسکول کی تعلیم اس اسکول سے فارغ ہوکر بچے گاؤں کے ہائی اسکول میں ہی حاصل کرتے تھے۔ تعلیم کے معاملے میں گاؤں میں اتنی روشن خیالی نہیں تھی ۔

جاوید جیسے نوجوان تھے جو تعلیم کے میدان میں کافی دور تک گئے تھے۔ ورنہ بچے ابتدائی یا ہائی اسکول کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد ماں باپ کے کاروبار یا دھندوں میں لگ کر پیسہ کمانے لگتے تھے۔ پیسہ ایک اہم شہ تھی۔ہر کسی کو پیسے ،دھن دولت کے معیار پر ہی تو لا جاتا تھا۔

جاوید نے اسے اپنے گھر لے جاکر اسے ناشتہ کرایا ۔ناشتہ میں میٹھا اور طرح طرح کی مٹھائیاں تھیں۔ وہ جاوید کے گھر والوں سے ملا ۔جاوید کے گھر والے اس سے مل کر بہت خوش ہوئے۔ان کے خلوص اور اپنائیت کو دیکھ کر اسے محسوس ہوا وہ گجرات کے ایک گاؤں نوٹیا میں نہیں ہے۔ پنجاب کے اپنے گاؤں میں ہی ہے۔

ناشتہ کرکے وہ دوبارہ جلوس میں شریک ہوگئے۔ جلوس گاؤں کی گلیوں سے گذرہا تھا۔ ایک جگہ وہ ٹھٹک کر رہ گیا ۔ایک سہ منزلہ عمارت کی گیلری میں مدھو کھڑی جلوس کو دیکھ رہی تھی۔ مدھو کو دیکھ اس کا دل دھڑک اٹھا۔ تو یہ مدھو کا گھر ہے۔ مکان پر گجراتی میں کچھ لکھا تھا وہ پڑھ نہیں سکا ۔ٹکٹکی باندھے مدھو کو دیکھتا رہا۔ جلوس قریب آیا تو اس نے مدھو کے ہونٹوں پر ایک مسکراہٹ دیکھی۔ اس مسکراہٹ سے اس کے دل کی دھڑکنیں تیز ہوگئی۔ اسے لگا مدھو اسے دکھ کر مسکرارہی ہے۔ دوسرے ہی لمحے ہی میں وہ چونک پڑا۔ جاوید بھی مدھو کو دیکھ کر مسکرارہا تھا۔ جاوید نے مسکراکر مدھو کو ہاتھ بتایا تو جواب میں مدھو نے بھی ہاتھ ہلا کر جاوید کو جواب دیا۔ وہ ہکا بکا دونوں کو دیکھتا رہا۔ کچھ اس کی کچھ سمجھ میں نہیں آیا۔ پر ایک خیال بجلی کی طرح اس کے ذہن میں کوندا اور اس کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا سا چھانے لگا۔

’’کون ہے وہ ‘‘ اس نے اپنے ہونٹوں کو ترکرکے حلق سے تھوک کو نگلا اور جاوید سے پوچھا۔

’’مدھو اس کا نام ہے۔‘‘ جاوید بولا۔’’10 ویں تک ہم ساتھ ساتھ پڑھے ہیں۔ میرے سائبر میں باقاعدگی سے آتی ہے۔ کالج پڑھنے کے لیے شہر جاتی ہے۔‘‘

’’اور ۔ ۔ ۔ ‘‘

’’اور کیا ؟ ‘‘جاوید اس کامنہ دیکھنے لگا ۔’’سردارجی یہ چہرے کا رنگ کیوں بدل گیا ہے۔ کیا دل کا معاملہ ہے؟‘‘
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

- 15 -

’’دل۔ ۔ ۔ ہاں۔ ۔ ۔ نہیں نہیں ۔ ۔ ۔ ‘‘ وہ بوکھلا گیا۔

’’ تو پنجاب کا دل گجرات پر آگیا۔ ‘‘ جاوید اسے چھیڑنے لگا ۔’’دراصل مدھو چیز ہی ایسی ہے۔ آپ کا دل آگیا ہے تو کوئی بری بات نہیں ہے۔ ۔ ۔ لگے ۔ ۔ ۔ رہے۔منزل خود بہ خود آسان ہوجائے گی۔‘‘جلوس آگے بڑھتا گیا۔

وہ باربار مڑکر مدھوکو اس وقت تک دیکھتا رہا جب تک وہ آنکھوں سے اوجھل نہ ہوگئی ۔اسے اس بات کی خوشی تھی جلوس میں شریک ہونے کے بہانے اس نے مدھو کا گھر دیکھ لیا ہے۔ جاوید مدھو کو جانتا ہے یہ اور بھی اچھی بات تھی۔ اب تو جاوید سے مدھو کے بارے میں ساری معلومات مل سکتی ہے۔ اور پھر اس نے تاڑ بھی لیا ہے۔کہ اس کا اور مدھو کا دل کا معاملہ ہے۔ اب معاملہ آگے بڑھے تو جاوید اس میں ساتھ دے سکتا ہے۔

جلوس پیر بابا کی درگاہ پر پہنچ گیا ندی کے کنارے ایک بڑے سے میدان میں بنی ایک درگاہ تھی۔ درگاہ کے چاروں طرف آم اور برگد کے بڑے بڑے درخت تھے اور آس پاس کھیتوں کے سلسلے ۔ درگاہ کے قریب ایک بڑا سا کنواں تھا۔ اور درگاہ سے لگ کر ایک چھوٹا سا مکان بھی تھا۔ درختوں کے سایے میں جگہ جگہ دیگیں چھڑی ہوئی تھی جن میں کھانا پک رہا تھا۔ کچھ دیگوں میں کھانا تیار ہوگیا تھا۔ جلوس میں شریک لوگ میدان میں بیٹھ گئے۔

لاؤڈ اسپیکر سے باربار اعلان ہورہا تھا کہ لوگ جلد از جلد قطار میں بیٹھ جائیں کھانا شروع ہورہا ہے۔ وہ اور جاوید ایک پیڑ کے نیچے بیٹھ گئے۔ کھانے کی تقسیم شروع ہوگئی ۔جرمن کی رکابیوں میں کھانا ان کے سامنے آیا۔ کھانا میٹھا چاول تھا۔ چاول اور گڑ سے بنایا ہوا میٹھا چاول ۔ جاوید وہاں بیٹھنے سے قبل قریب لگی دوکانوں سے آم کا اچار ۔پاپڑ اور پکوڑے لے آیا تھا۔ ایک نظر میں اسے یہ کھانا بڑا عجیب لگا اس نے آج تک اس قسم کا کھانا نہیں کھایا تھا۔

’’کھائیے سردار جی ۔ ۔ ۔ یہ کھانا سال میں صرف ایک بار پکتا ہے۔‘‘جاوید نے اسے ٹوکا تو اس نے کھانا شروع کیا۔ ایک دو نوالے حلق سے نیچے اترنے کے بعد اسے محسوس ہوا کھانا تو بڑا لذیذ ہے۔ اسے پکوڑوں ،چنے کی چٹنی اور آم کا اچار کے ساتھ کھایا جائے تو اس کی لذت دوبالا ہوجاتی ہے۔پلیٹ میں کا کھانا ختم ہونے سے قبل کھانا تقسیم کرنے والے پلیٹ میں کھانے کا ڈھیر لگا دیتے تھے۔ ڈھیر دیکھ کر اسے محسوس ہوتا تھا کہ بہت کھانا ہے ختم نہیں ہوگا ۔لیکن دیکھتے ہی دیکھتے وہ پیٹ میں پہنچ جاتا تھا۔ اس نے بھوک سے زیادہ کھالیا تھا۔

کھانا کھاکر اس نے درگاہ کے کنویں سے پانی پیا۔ لوگ کھانا کھانے کے لیے خوق در جوق آرہے تھے۔ تھوڑی دیر کے بعد عورتیں بھی کھانا کھانے کے لیے آنے لگیں ۔ عورتوں کا دوسری جگہ انتظام کیاگیاتھا۔
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

- 16 -

’’یہ کھانے کا سلسلہ شام چار بجے تک چلتا رہے گا۔‘‘ جاوید کہنے لگا۔’’اس میں آس پاس کے گاؤں سے بھی لوگ شریک ہوں گے۔ ‘‘کھانا کھا کر وہ ندی کنارے چلتے چلتے واپس آگئے ۔ندی میں برائے نام پانی تھا۔

واپس دوکان پر آکر اس نے رگھو اور راجو کو بھی کھانے کی چھٹی دے دی۔وہ لوگ بھی کھانا کھانے کے لیے پیر بابا کی درگاہ پر جانے والے تھے۔ ان کے جانے کے بعد وہ دوکان میں اکیلا رہ گیا۔ لیکن دوکان میں کوئی کام بھی نہیں تھا۔اس کے دل میں آیا دوکان بند کرکے سوجائے ۔کوئی گاہک تو آنے سے رہا۔ عید میلاد النبی کی وجہ سے شاید گاہکوں نے سمجھ لیاتھا اس کی بھی دوکان بند رہے گی یا پھر انھیں اس کی دوکان کے سامان کی ضرورت محسوس نہیں ہورہی تھی۔

وہ کرسی پر بیٹھ کر اونگھنے لگا ۔اور پھر کاؤنٹر پر سر رکھ سوگیا۔ ایک دوبار چونک کراس کی آنکھ کھلی ۔اسے لگا جیسے کوئی آیا ہے۔ لیکن اس نے جب دیکھا سامنے سڑک پر دوردور تک سناٹا ہے تو وہ پھر دوبارہ کاؤنٹر پر سر رکھ کر سوگیا۔
راجو اور رگھو دو گھنٹے کے بعد آئے۔ ان کے آنے تک اس نے ایک اچھی خاصی جھپکی لے لی تھی۔ شام پانچ بجے کے قریب خبر آئی کہ چوراہے پر کچھ گڑبڑ ہوئی ہے۔ تفصیلات معلوم کرنے پر پتہ چلا کہ سویرے سے ہی چوراہے پر کچھ لوگوں نے بورڈ لگائے تھے کے پیر بابا کی درگاہ پر جشن عید میلا النبی کے سلسلے میں ہونے والے کھانے میں ہندو شریک نہ ہوں
۔یہ دھرم کے خلاف ہے۔

ملچھ لوگوں کا کھاناکھانا اپنا دھرم بھرشٹ کرنا ہے۔ اس کے باوجود لوگ کھانا کھانے کے لیے جانے لگے تو انھوں نے انھیں جانے سے روکنے کی کوشش کی۔ کسی کے ساتھ معاملہ تکرار سے بڑھ کر جھگڑے تک پہنچ گیا تو کچھ لوگ دباؤ میں آکر سہم کر ان کی بات مان کر واپس اپنے گھروں کو لوٹ گئے۔

ایک بارتکرار اتنی بڑی کے معاملہ ہاتھاپائی تک پہنچ گیا۔ اس کے بعد روکنے والوں نے چوراہے پر لگی جھنڈیاں نکال کر آگ میں جلانی شروع کردی ۔سجاوٹ اور آرائش کو نقصان پہنچانے لگے۔ مسلمانوں کی بند دکانوں پر پتھراؤ کرنے لگے۔

جب مسلمانوں کو معلوم ہوا تو وہ بھی ایک جگہ جمع ہوگئے۔اس پر وہ لوگ ان مسلمانوں پر پتھراؤ کرنے لگے۔جواب میں مسلمان بھی پتھراؤ کرنے لگے ۔جس سے معاملہ اور بڑھ گیا۔ پتھراؤ میں دونوں جانب کچھ اور لوگ شامل ہوگئے ۔اس سے قبل کے معاملہ سنگین صورتِ حال اختیار کرے ، گاؤں کے کچھ بڑے لوگوں نے دونوں گروہوں کو سمجھا کر معاملہ رفع دفع کردیا۔ اور دونوں کو اپنے اپنے گھروں کو بھیج دیا۔زندگی پھر سے معمول پر آگئی۔

معاملہ معمولی تھا مگر ایک عجیب سی بے چینی اس کے اندر سماگئی تھی۔ دوکان سے گاہک غائب ہوگئے تھے۔ اس لیے دوکان کھلی رکھ کر کوئی فائدہ نہیں تھا۔ اس نے چھ بجے دوکان بند کردی اور رگھو اور راجو سے کہا کہ ’’وہ گھر چلے جائے ۔‘‘
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

- 16 -

’’یہ کھانے کا سلسلہ شام چار بجے تک چلتا رہے گا۔‘‘ جاوید کہنے لگا۔’’اس میں آس پاس کے گاؤں سے بھی لوگ شریک ہوں گے۔ ‘‘کھانا کھا کر وہ ندی کنارے چلتے چلتے واپس آگئے ۔ندی میں برائے نام پانی تھا۔

واپس دوکان پر آکر اس نے رگھو اور راجو کو بھی کھانے کی چھٹی دے دی۔وہ لوگ بھی کھانا کھانے کے لیے پیر بابا کی درگاہ پر جانے والے تھے۔ ان کے جانے کے بعد وہ دوکان میں اکیلا رہ گیا۔ لیکن دوکان میں کوئی کام بھی نہیں تھا۔اس کے دل میں آیا دوکان بند کرکے سوجائے ۔کوئی گاہک تو آنے سے رہا۔ عید میلاد النبی کی وجہ سے شاید گاہکوں نے سمجھ لیاتھا اس کی بھی دوکان بند رہے گی یا پھر انھیں اس کی دوکان کے سامان کی ضرورت محسوس نہیں ہورہی تھی۔

وہ کرسی پر بیٹھ کر اونگھنے لگا ۔اور پھر کاؤنٹر پر سر رکھ سوگیا۔ ایک دوبار چونک کراس کی آنکھ کھلی ۔اسے لگا جیسے کوئی آیا ہے۔ لیکن اس نے جب دیکھا سامنے سڑک پر دوردور تک سناٹا ہے تو وہ پھر دوبارہ کاؤنٹر پر سر رکھ کر سوگیا۔
راجو اور رگھو دو گھنٹے کے بعد آئے۔ ان کے آنے تک اس نے ایک اچھی خاصی جھپکی لے لی تھی۔ شام پانچ بجے کے قریب خبر آئی کہ چوراہے پر کچھ گڑبڑ ہوئی ہے۔ تفصیلات معلوم کرنے پر پتہ چلا کہ سویرے سے ہی چوراہے پر کچھ لوگوں نے بورڈ لگائے تھے کے پیر بابا کی درگاہ پر جشن عید میلا النبی کے سلسلے میں ہونے والے کھانے میں ہندو شریک نہ ہوں
۔یہ دھرم کے خلاف ہے۔

ملچھ لوگوں کا کھاناکھانا اپنا دھرم بھرشٹ کرنا ہے۔ اس کے باوجود لوگ کھانا کھانے کے لیے جانے لگے تو انھوں نے انھیں جانے سے روکنے کی کوشش کی۔ کسی کے ساتھ معاملہ تکرار سے بڑھ کر جھگڑے تک پہنچ گیا تو کچھ لوگ دباؤ میں آکر سہم کر ان کی بات مان کر واپس اپنے گھروں کو لوٹ گئے۔

ایک بارتکرار اتنی بڑی کے معاملہ ہاتھاپائی تک پہنچ گیا۔ اس کے بعد روکنے والوں نے چوراہے پر لگی جھنڈیاں نکال کر آگ میں جلانی شروع کردی ۔سجاوٹ اور آرائش کو نقصان پہنچانے لگے۔ مسلمانوں کی بند دکانوں پر پتھراؤ کرنے لگے۔

جب مسلمانوں کو معلوم ہوا تو وہ بھی ایک جگہ جمع ہوگئے۔اس پر وہ لوگ ان مسلمانوں پر پتھراؤ کرنے لگے۔جواب میں مسلمان بھی پتھراؤ کرنے لگے ۔جس سے معاملہ اور بڑھ گیا۔ پتھراؤ میں دونوں جانب کچھ اور لوگ شامل ہوگئے ۔اس سے قبل کے معاملہ سنگین صورتِ حال اختیار کرے ، گاؤں کے کچھ بڑے لوگوں نے دونوں گروہوں کو سمجھا کر معاملہ رفع دفع کردیا۔ اور دونوں کو اپنے اپنے گھروں کو بھیج دیا۔زندگی پھر سے معمول پر آگئی۔

معاملہ معمولی تھا مگر ایک عجیب سی بے چینی اس کے اندر سماگئی تھی۔ دوکان سے گاہک غائب ہوگئے تھے۔ اس لیے دوکان کھلی رکھ کر کوئی فائدہ نہیں تھا۔ اس نے چھ بجے دوکان بند کردی اور رگھو اور راجو سے کہا کہ ’’وہ گھر چلے جائے ۔‘‘
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

- 17 -

حالات کا جائزہ لینے کے لیے وہ چوک تک گیا۔ سارا ہنگامہ چوک میں ہی ہوا تھا۔ سڑکوں سے بھیڑ غائب ہوگئی تھی۔ اکادکا لوگ دکھائی دے رہے تھے۔ گھروں کے دروازے بھی بند تھے۔ چوک کے پاس پولس کی ایک گاڑی کھڑی نظر آئی ۔ زیادہ تر دوکانیں بند تھیں۔ ایک دو جگہ جلی چیزوں کا ڈھیر دکھائی دے رہا تھا تو ایک دوجگہ پتھروں اور ٹوٹی ہوئی بوتلوں کی کانچ پڑی تھیں۔ دونوں جانب سے پتھر اور کانچ کی بوتلوں کاتبادلہ ہوا تھا اس لیے دونوں جانب دونوں چیزوں کا ڈھیر تھا۔

سویرے اسنے چوک کی سجاوٹ دیکھی تھی ۔ وہ اب تبدیل ہوگئی تھی۔ چوک میں ایک دو گجراتی میں لکھے بورڈ اب بھی آویزان تھے۔ وہ گجراتی پڑھ تو نہیں پارہا تھا لیکن ان بورڈوں پر لگے بھگوا جھنڈے اور ان پر لکھی بھگوا تحریریں ان بورڈ پر کیالکھا ہے اس بات کی غمازی کررہے تھیں۔ لوگ دو چار چار کے گروہ میں کھڑے ہوکر ایک دوسرے سے باتیں کررہے تھے۔وہ کیا باتیں کررہے تھے اس کے تو کچھ بھی پلے نہیں پڑ رہا تھا۔ اس نے ایک دو آدمی سے جاننے کی کوشش بھی کی کہ معاملہ کیا ہے؟اس پر تو انھوں نے اسے گھور کر دیکھا پھر بولے۔ ۔ ۔ ’’ارے جو معاملہ تھا ختم ہوگیا سردارجی۔ اب یہاں بیکار رک کر کوئی فائدہ نہیں۔اپنے اپنے گھروں کو جاؤ اسی میں بھلائی ہے۔ یہاں کھڑے رہیں گے تو دوبات ہوگی اور معاملہ اور بڑھ جائے گا۔ ‘‘

’’پاگل لوگ ہیں ۔ارے پاگلوں کے کیا منہ لگا جائے ۔‘‘

’’آج تک ایسا نہیں ہوا ۔ اب ایسا ہونا بھی نہیں چاہیے۔ ‘‘

’’ارے یہ تو شروعات ہے ۔آگے آگے دیکھے ہوتا ہے کیا۔‘‘

اسے لگا اس کا وہاں رکنا عقلمندی کی بات نہیں ہے۔ پولس اسے مشتبہ نظروں سے دیکھ رہی ہے۔ وہ وہاں سے واپس دوکان پر چلا آیا۔ اور اوپر اپنے کمرے میں جاکر رات کا کھانا بنانے لگا۔ دوپہر کا کھانا اب تک پیٹ میں تھا۔ اس لیے رات کے کھانے کی گنجائش تو نہیں تھی۔ پھر بھی اس نے تھوڑا سا کھانا کھالینا کا سوچ لیا۔ رات کھانا کھاکر سانے کے لیے لیٹا تو نیند آنکھوں سے غائب تھی۔ بھلا رات دس بجے اسے نیند آسکتی تھی۔بے چینی سی کروٹیں بدلتا دن بھر کے واقعات کے بارے میں سوچنے لگا۔

سویرے جو کچھ ہوا ۔اس نے دیکھا ،محسوس کیا وہ ایک خوشگوار تجربہ تھا ۔لیکن شام کو جو کچھ ہوا اس نے اپنی آنکھوں سے دیکھا اس کے لیے ایک ناخوشگوار تجربہ تھا۔ معاملہ کچھ بھی نہیں تھا۔ اورمعاملہ کافی بڑھ گیا ۔معاملہ اس سے زیادہ بھی بڑھ سکتا تھا ۔اگر بڑھ جاتا تو ۔ یہ سوچ کر اس کے ماتھے پر ٹھنڈے پسینے کی بوندیں ابھر آئیں ۔وہ اس کے آگے سوچ نہیں سکتا تھا۔ اسے لگ رہا تھا اگر معاملہ بڑھ جاتا تو اور اسکی دوکان بھی محفوظ نہیں رہے۔ وہ ایک ناوابستہ آدمی تھا۔ دونوں گروہوں سے اس کا کچھ لینا دینا نہیں تھا۔ لیکن اس کی دوکان لوگوں کی نظر میں تھی۔ اس کی دوکان اس کاروبار دھندہ کئی لوگوں میں کھٹکتا ہے۔ شرپسند اس واقعہ پا اس طرح کے کسی واقعہ کی آڑ میں اسے اور اس کی دوکان کو بھی نشانہ بناسکتے ہیں۔
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

- 18 -

’’ارے ڈر آپ کو کس بات کا سردارجی۔ ‘‘ جاوید ہنسا۔ڈر تو ہم لوگوں کو ہونا چاہیے۔

’’میرا کاروبار لوگوں کی نظروں میں کھٹکتا ہے۔‘‘ اس نے کہا۔

’’ہاں ہے کاروبار ہی تو سارے فساد کی جڑ ہے۔ مفاد پرست اپنے مفاد کے لیے دھرم ، مذہب کی آڑ لیتے ہیں۔اور چھوٹی چھوٹی باتوں پر ہنگامہ کھڑا کر کے معاملہ کو بگاڑنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔اب یہ صرف عید میلاد النبی کی بات ہی نہیں ہے۔ نوراتری میں بھی مسلمانوں کو نوراتری کے اتسو میں شامل ہونے سے روکا جاتا ہے۔ بہت سے مسلمان اس لیے اب اس طرح کے اتسومیں شریک نہیں ہوتے ہیں۔ کہاں ذرا سی بات پر معاملہ بگاڑا جائے ۔ورنہ کچھ سالوں قبل تک تو ایسی کوئی بھی بات نہیں تھی۔ نوراتری میں گربھا کھیلنے والا کون مسلمان ہے کون ہندو پہچان میں نہیں آتا تھا۔عید میلاد النبی کے کھانے میں نہ شریک ہونے کی تو پہلے بات کرنے کا کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ ویسے آپ کو ڈرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ آپ سے وہ لوگ ڈریں گے ۔صرف ایک بار اپنی کرپان کھول کر گاؤں والوں کو بتادیجیے ۔کوئی آپ کی دوکان کی طرف آنکھ اٹھانے کی جرات بھی نہیں کرے گا۔ ‘‘

’’اب کرپان سے کون ڈرتا ہے۔جاوید بھائی ۔اب بندوق کا زمانہ ہے۔ پستول کے سامنے میری کرپان کی کیا بساط ۔‘‘وہ بولا۔

ایک دو باتیں کرکے جاویدچلا گیا۔ اس سے کہہ گیا کہ’’وہ اطمینان سے سوجائے۔‘‘لیکن نیند اسے کہاں آرہی تھی۔ نیند تو آنکھوں سے دور تھی۔ گیلری میں کھڑا وہ سناٹے میں ڈوبی گاؤں کی عمارتیں،سڑکوں اور گلیوں کو دیکھتا رہا۔ کبھی سر اٹھا کر آسمان کو دیکھنے لگتا۔ پھر اچانک ذہن میں مدھو کا خیال آیا۔ آج عید میلاد النبی کی چھٹی کی وجہ سے وہ کالج نہیں گئی تھی۔ اب جب گاؤں میں یہ معاملہ ہوگیا ہے کیا اس کے گھر والے اسے کالج جانے دیں گے۔ ۔ ۔ ؟ اس کا جواب وہ تلاش نہیں کرپارہا تھا۔ اس کے گھر والوں نے اگر کل مدھو کو کالج جانے نہیں دیا تو کا وہ مدھو کے دیدارسے محروم رہے گا۔

اس بات کو سوچ کر اس افسردگی چھاگئی اسے لگا اس لق ودق صحرا میں صرف مدھو ہی ایک ایسا نخلستان جس کے سہارے وہ آگے بڑھنے کی سوچ سکتا ہے۔جس کے تصور سے وہ اس ریگستان کا سفر طے کرسکتا ہے۔ لیکن کتنی عجیب بات ہے معاملہ صرف دیدار تک اٹکا ہوا ۔ اسے مدھو کے دیدار سے ہی ایک ایسا روحانی سکون ملتا ہے جس کو وہ بیان نہیں کرسکتا ۔ساری عمر اس کے سامنے مدھو کا چہرہ رہے اور وہ ساری عمر مدھو کے چہرے کو تاکتا رہے۔ پتہ نہیں اس کے لیے مدھو کے دل میں کس طرح کے جذبات ہے۔اس نے ابھی تک اپنی کسی حرکت سے مدھو پراپنی محبت کا اظہار بھی تو نہیں کیاہے۔ اور یہ ضروری نہیں ہے کہ اگر وہ مدھو پر اپنے پیار کا اظہار کردے تو مدھو اس کے پیار کو قبول ہی کرے ۔یہ ضروری نہیں کہ اس کے بعد وہ مدھو سے پیار کرنا چھوڑ دے۔ کیونکہ پیار یک طرفہ بھی توہوسکتا ہے۔ممکن نہیں کہ دو طرفہ بھی ہو۔

دنیا میں ایسے ہزاروں لاکھوں لوگ ہیں جو اپنے محبوب سے یک طرفہ پیار کرتے ہیں۔ اپنے پیار کا اظہار بھی اس پر کرنہیں پاتے۔ ہر کسی کو اس کے دل کی مراد مل جائے یہ ممکن نہیں ہر کسی کو اس کی چاہت اس کا پیار مل جائے یہ ممکن نہیں ہے۔ اس کے گاؤں میں کئی لڑکیاں اس سے پیار کرتی تھیں۔لیکن وہ ان سے پیار نہیں کرتا تھا۔ کئی لڑکیوں نے اس سے اپنے پیار کا اظہار کیاتھا اور کہا تھا ’’اگر وہ انھیں نہیں ملا تو وہ اپنی جان دے دے گی۔ ‘‘ ان کے پیار کے اظہار کے باوجود اس کا دل نہیں پگھلا تھا۔ اس کا دل میں ان کے لیے پیار کا جذبہ نہیں جاگا تھا۔ نہ اس دل میں ان کے لیے پیار کا جذبہ جاگا تھا نہ انھوں نے اس کے لیے اپنی جان دی تھیں۔ ان کی شادی ہوگئیں تو چپ چاپ اپنے شوہروں کے پاس چلی گئیں۔

اس طرح کی ہزاروں باتیں گیلری میں کھڑا بہت دیر تک سوچتا رہا۔ جب اس کے قدم بوجھل ہونے لگے اور آنکھوں میں نیند سمانے لگی تو چپ چاپ اندر آیا اور بستر پر لیٹ کر بے خبر
Post Reply

Return to “اردو ناول”