یوم اقبال ؒ …تعمیر و استحکام پاکستان کے فکری اور عملی تقاضے

اپنے ملک کے بارے میں آپ یہاں کچھ بھی شئیر کر سکتے ہیں
Post Reply
اعجازالحسینی
مدیر
مدیر
Posts: 10960
Joined: Sat Oct 17, 2009 12:17 pm
جنس:: مرد
Location: اللہ کی زمین
Contact:

یوم اقبال ؒ …تعمیر و استحکام پاکستان کے فکری اور عملی تقاضے

Post by اعجازالحسینی »

اسلامیان ِ پاکستان و عالم آج شاعر ِ ملت‘ مفکر ِ اسلام اور مصورِ پاکستان علامہ ڈاکٹر محمد اقبالؒ کا 134واں یومِ ولادت تزک و احتشام اور عقیدت و احترام کیساتھ منا رہے ہیں‘ اس سلسلہ میں آج سرکاری اور نجی سطح پر مختلف تقاریب کا انعقاد ہو گا جبکہ اخبارات یوم ِ اقبال پر خصوصی ایڈیشن شائع کر رہے ہیں اور سرکاری و نجی الیکٹرانک میڈیا پر فکر ِ اقبالؒ پر خصوصی پروگرام نشر اور ٹیلی کاسٹ کئے جائینگے۔
اقبالؒ ہی اسلامیان ِ برصغیر کے وہ واحد اور بے بدل قائد ہیں‘ جنہوں نے انگریز اور ہندو کی سیاسی اور اقتصادی غلامی میں جکڑے ہوئے مسلمانان ِ ہند کی کسمپرسی اور کم مائیگی کا احساس کرتے ہوئے ان کیلئے ایک الگ خطۂ ارضی کی ضرورت محسوس کی اور صرف اسی پر ہی اکتفاء نہ کیا‘ بلکہ اپنے خطبۂ الٰہ آباد میں مسلمانوں کی الگ مملکت کا پورا نقشہ پیش کر دیا اور پھر ایک دردمند مسلم لیگی قائد کی حیثیت سے قائداعظم محمد علی جناح ؒ کو جو انگریز اور ہندو کی غلامی میں جکڑے مسلمانوں کی حالت ِ زار سے مایوس ہو کر مستقل طور پر لندن کوچ کر گئے تھے‘ خط لکھ کر واپس آنے اور اسلامیانِ ہند اور مسلم لیگ کی قیادت کرنے کیلئے قائل کیا‘ چنانچہ قائداعظمؒ نے ہندوستان واپس آکر حضرت علامہ کی معیت اور گائیڈ لائن میں مسلمانانِ برصغیر کو انگریز کی سیاسی غلامی کے ساتھ ساتھ متعصب ہندو بنیاء کی اقتصادی غلامی سے بھی نجات دلانے کی جدوجہد کا آغاز کیا‘ تاہم حضرت علامہ کی عمر عزیز نے وفا نہ کی اور وہ مسلم لیگ کے پلیٹ فارم پر برصغیر کے مسلمانوں کی آزاد اور خودمختار مملکت کیلئے 23؍ مارچ 1940ء کو منظور ہونے والی قرارداد لاہور کی صورت میں اسلامیانِ ہند کی واضح منزل نظر آنے سے دو سال پہلے ہی اپنے خالق حقیقی سے جا ملے‘ جن کے بعد قائداعظمؒ نے خطبہ ٔ الٰہ آباد میں انکے پیش کئے گئے تصور پاکستان کو قرارداد لاہور کی منظوری کے بعد سات سال کے مختصر عرصے میں اپنی پرامن جمہوری جدوجہد کے ذریعہ اور اسلامیانِ ہند کی معاونت اور انکے ووٹ سے حقیقت کے قالب میں ڈھال دیا۔
اقبالؒ متحدہ ہندوستان کے وہ فکری رہنماء تھے‘ جنہوں نے مسلمانوں کے دورِ زوال میں جنم لیا مگر انحطاط و پستی کی نوحہ گری کرنے کے بجائے نسلی‘ لسانی‘ فرقہ ورانہ اور علاقائی گروہوں میں بٹی پست حوصلہ اور منتشر الخیال قوم کو خودی‘ خودشناسی‘ وحدتِ فکر و عمل اور انقلاب و اجتہاد کا درس دیا‘ انہوں نے اس مقصد کیلئے شاعری اور نثر دونوں اصنافِ سخن کا سہارا لیا اور جدید و قدیم علمی سرچشموں سے فیض یاب ہونے کے باعث ہر نسل‘ ہر مکتبۂ فکر اور ہر سماجی طبقے کو یکساں متاثر کیا‘ انہوں نے زوال آشنا اسلامیانِ برصغیر کو یہ فکری پیغام پہنچایا کہ اگر وہ ایک پلیٹ فارم پر ایک قیادت کے جھنڈے کے نیچے اکٹھے نہ ہوئے اور آگے نہ بڑھے اور فرقوں‘ گروہوں اور طبقوں میں بٹے رہے تو اپنے الگ وجود‘ تشخص اور شناخت سے محروم ہو جائینگے۔ اقبالؒ نے اسلامیانِ برصغیر کو عظمت رفتہ کے حصول کی راہ سجھائی اور پھر ان میں دو قومی نظریہ کی بنیاد پر الگ وطن کی لگن پیدا کی جبکہ انہوں نے اس منزل کے حصول کیلئے محمدعلی جناح کی شکل میں ایک عظیم قائد کی اسلامیانِ برصغیر کو قیادت بھی فراہم کی۔ اقبالؒ نے اپنے تاریخی خطبۂ الٰہ آباد میں مسلمانوں کیلئے ایک جدید دور کی ایسی اسلامی جمہوری فلاحی ریاست کا خاکہ فراہم کیا‘ جو مسلمانوں کے روٹی روزگار اور قومی و ملّی تشخص کی ضامن ہو۔ قائداعظمؒ نے اقبالؒ کے اسی فکری تصور کو نشانِ منزل بنایا اور برصغیر کے مسلمانوں کو انگریز ہی نہیں‘ بدمعاش ہندو کی غلامی سے بھی نجات دلا کر ان کیلئے الگ مملکت کے حصول کا کارنامہ سرانجام دیدیا‘ اس لئے اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ برصغیر کے مسلمانوں کو اقبالؒ اور قائداعظمؒ کی قیادت میسر نہ ہوتی تو ان کیلئے ایک الگ مملکت کی کبھی سوچ پیدا ہوتی‘ نہ اسکا حصول ممکن ہوتا۔ قائداعظمؒ خود بھی علامہ اقبالؒ کی قائدانہ صلاحیتوں کے قائل تھے‘ جنہوں نے انکے انتقال پر تعزیتی بیان میں اعتراف کیا کہ ان کیلئے اقبالؒ ایک رہنماء بھی تھے‘ دوست بھی اور فلسفی بھی تھے‘ جو کسی ایک لمحہ کیلئے بھی متزلزل نہ ہوئے اور چٹان کی طرح ڈٹے رہے۔
بانیانِ پاکستان اقبالؒ و قائدؒ نے تو اپنی بے لوث‘ بے پایاں اور اتحادِ ملّی کے جذبے سے معمور جدوجہد کے نتیجہ میں اسلامیانِ برصغیر کیلئے ایک الگ ارضِ وطن کا خواب حقیقت بنا دیا مگر بدقسمتی سے انکی جانشینی کے دعویدار مسلم لیگی قائدین سے نہ آزاد و خودمختار ملک اور مملکت کو سنبھالا جا سکا‘ نہ ان سے اتحاد و ملت کی کوئی تدبیر بن پائی۔ جس مسلم لیگ اور اسکے قائدین کو ملک خداداد کی ترقی و استحکام کی ضمانت بننا چاہیے تھا‘ انکی عاقبت نااندیشیوں سے مسلمانوں کی اقتصادی حالت بہتر ہو پائی‘ نہ اسلام کی نشاۃ الثانیہ کے حوالے سے وہ مقاصد پورے ہو پائے جن کی تکمیل کیلئے مسلمانوں کے الگ خطہ کی ضرورت محسوس کی گئی تھی جبکہ مسلم لیگ کی صفوں میں موجود مفاد پرست طبقات اور انگریز و ہندو کے ایجنٹوں کے باہمی گٹھ جوڑ کے نتیجہ میں طالع آزما جرنیلوں کو منتخب جمہوری حکومتوں پر شب خون مارنے اور جرنیلی آمریت مسلط کرنے کا موقع ملا‘ جن کی بے تدبیریوں کے نتیجہ میں ملک دولخت ہوا اور باقیماندہ پاکستان کو عملاً اسی سامراج کی غلامی میں دے دیا گیا‘ جس سے خلاصی حاصل کرنے کیلئے الگ وطن کے حصول کی ضرورت محسوس ہوئی تھی۔
قائداعظمؒ کے انتقال کے بعد اگر مسلم لیگی قائدین فہم و تدبر سے کام لیتے‘ پارٹی کے جھنڈے تلے یکسو اور متحد رہتے اور بانیانِ پاکستان قائدؒ و اقبالؒ کے وضع کردہ اصولوں کو حرزجاں بنائے رکھتے تو اسلامیانِ پاکستان کیلئے اپنی خوشی‘ خوشحالی اور جدید اسلامی جمہوری فلاحی ریاست کے تصور والی طمانیت کا سفر کبھی کھوٹا نہ ہوتا۔ بدقسمتی سے طالع آزما جرنیلوں نے جمہوریت کا تصور پختہ ہونے دیا‘ نہ اسلام کی نشاۃ الثانیہ کو پنپنے دیا‘ اگر ہمارے سیاستدانوں کو عقل آئی ہوتی تو وہ جنرل ایوب کی مہم جوئی کے بعد ہی خود کو سنبھال لیتے اور باہمی اتحاد و یکجہتی کا مظاہرہ کرکے آئندہ کیلئے طالع آزمائی کے تمام راستے اور سوراخ بند کر دیتے مگر انکی مفاد پرستیوں نے نہ صرف چار فوجی آمریتوں کو جنم دیا‘ بلکہ عوام کی جانب سے دھتکارے گئے آخری فوجی آمر مشرف کو ملک سے باہر بیٹھ کر سلطانی ٔ جمہور کو للکارے مارنے اور یہ ہرزہ سرائی کرنے کی بھی ہمت اور جرأت پیدا کردی ہے کہ پاکستان مذہب کی بنیاد پر قائم نہیں ہوا تھا۔
بدقسمتی سے مسلم لیگی قیادتوں نے حصوں بخروں میں منقسم ہو کر ملک و قوم کی قیادت سے بھی خود کو محروم کیا اور دو قومی نظریے پر یقین نہ رکھنے والے عناصر کو بھی پنپنے اور کھل کھیلنے کا موقع فراہم کیا۔ چنانچہ آج کی سلطانی ٔ جمہور میں مسلم لیگی قائدین کی کوتاہ اندیشیوں کی بنیاد پر ہی ان عناصر کو اپنے مشن اور مقاصد کی تکمیل کا موقع مل رہا ہے جو ملک و ملت کے ساتھ مخلص ہیں‘ نہ اسکی نظریاتی اساس کے ساتھ وابستہ ہیں‘ اس لئے تمام لادین‘ اخلاق باختہ اور نام نہاد روشن خیال عناصر کو اپنی ہذیانی کیفیتوں کے کھلم کھلا اظہار کا موقع مل رہا ہے۔ آج یوم اقبالؒ کے موقع پر بالخصوص مسلم لیگی قائدین کو یہ ضرور سوچنا چاہیے کہ بانیانِ پاکستان قائدؒ و اقبالؒ اس ملک و ملت کو کیا بنانا چاہتے تھے اور انکے بعد کی ملک کی قیادتوں نے انکے اصولوں اور تصورات کو روندتے ہوئے وطن عزیز اور عوام کا کیا حشر کردیا ہے‘ آج نہ قومی یکجہتی کہیں نظر آتی ہے‘ نہ عوام کا روٹی روزگار کا مسئلہ حل ہو پایا ہے‘ بلکہ انہیں استحصالی نظام کے شکنجے میں جکڑ کر عملاً زندہ درگور کیا جا رہا ہے۔ ذرا سوچیئے! آج قائدؒ و اقبالؒ زندہ ہوتے تو ملک اور عوام کی حالتِ زار دیکھ کر کس کیفیت سے گزر رہے ہوتے‘ خدارا! بانیانِ پاکستان قائدؒ و اقبالؒ کے پاکستان کو وہی پاکستان بنا دیجئے جس کا تصور انکے ذہنوں میں موجود تھا اور اس مقصد کی تکمیل کا عزمِ نو کیجئے جس کی خاطر برصغیر کے مسلمانوں کیلئے الگ مملکت حاصل کی گئی تھی اور سب سے پہلے اس مقصد کے حصول کیلئے اقبالؒ و قائدؒ کی مسلم لیگ بنا کر اسے ایک اور متحدہ مسلم لیگ بنائیے‘ جو دھڑوں پر مشتمل نہ ہو اور ٹو پارٹی سسٹم میں اپنا فعال کردار کامیابی و کامرانی کیساتھ ادا کر سکے۔

بشکریہ نوائے وقت
[center]ہوا کے رخ پے چلتا ہے چراغِ آرزو اب تک
دلِ برباد میں اب بھی کسی کی یاد باقی ہے
[/center]

روابط: بلاگ|ویب سائیٹ|سکرائبڈ |ٹویٹر
Post Reply

Return to “پاک وطن”