اقدام امت

مذاہب کے بارے میں گفتگو کی جگہ
Post Reply
رضی الدین قاضی
معاون خاص
معاون خاص
Posts: 13369
Joined: Sat Mar 08, 2008 8:36 pm
جنس:: مرد
Location: نیو ممبئی (انڈیا)

اقدام امت

Post by رضی الدین قاضی »

السلام علیکم !
معزز اراکین اردو نامہ، دنیا بھر میں مسلمانوں کے حالات سے آپ بخوبی واقیف ہیں۔ مسلمان ہر شعبہ میں پست ہوتا جارہا ہے ۔
جیسے دینی ، تعلیمی ، ادبی ، مذہبی ، معاشی ، ثقافتی ، سماجی اور سیاسی شعبہ میں کافی بچھڑتا جا رہا ہے۔
تمام مسلمانوں کی بہتری کے لیئے آپ کیا سوچتے ہیں ؟ آپ اپنی رائے یا تجاویز اس دھاگے میں پوسٹ کر سکتے ہیں۔
رضی الدین قاضی
معاون خاص
معاون خاص
Posts: 13369
Joined: Sat Mar 08, 2008 8:36 pm
جنس:: مرد
Location: نیو ممبئی (انڈیا)

Post by رضی الدین قاضی »

میرے خیال سے ٹی وی کے غیر ضروری پروگرامس نے مسلمانوں
کے روح کو تارتار کیا ہے۔ کیونکہ آج جو نوجوان ہیں یہ اپنے والدین کی آواز سے بہتر ٹی وی کی آواز کو پہچانتے ہیں۔
User avatar
چاند بابو
منتظم اعلٰی
منتظم اعلٰی
Posts: 22224
Joined: Mon Feb 25, 2008 3:46 pm
جنس:: مرد
Location: بوریوالا
Contact:

Post by چاند بابو »

آپ درست فرماتے ہیں۔ شائد ٹیلیوژن اور موبائل فون نے جتنا ہمارے معاشرے کو نقصان دیا شائد کسی اور فتنے نے نہ دیا ہو گا۔
قصور ہو تو ہمارے حساب میں لکھ جائے
محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو
میں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو
رضی الدین قاضی
معاون خاص
معاون خاص
Posts: 13369
Joined: Sat Mar 08, 2008 8:36 pm
جنس:: مرد
Location: نیو ممبئی (انڈیا)

Post by رضی الدین قاضی »

ہمارے معاشرے کے خرابی کی ایک اور وجہ ہے ۔ والدین اپنے بچوں کو کھیلنے کے لیئے پستول جیسے کھیلونے لا کر دیتے ہیں، جو بچوں ذہن میں گھر کر جاتا ہے۔ وہی بچے بڑے ہو کر فلموں
میں مار ڈھار دیکھ کر اصلی ہتھیار پکڑ لیتے ہیں۔
User avatar
چاند بابو
منتظم اعلٰی
منتظم اعلٰی
Posts: 22224
Joined: Mon Feb 25, 2008 3:46 pm
جنس:: مرد
Location: بوریوالا
Contact:

Post by چاند بابو »

بالکل درست فرمایا آپ نے۔ ابھی رات ہی میں محترم عنائت اللہ صاحب کی لکھی ہوئی تحریر پڑھ رہا تھا جو لوگ دردِ دل اور مسلمانوں کے بارے میں اپنے دل میں کچھ کر گزرنے کی امنگ رکھتے ہیں ان کے لئے عنائت اللہ کا نام نیا نہیں ہے۔ پاکستان آرمی سے ریٹائیرمنٹ لی اور باقی کی ساری زندگی مسلمانوں کے ضمیر جھنجھوڑنے میں لگے رہے۔ حکایت ڈائجسٹ کے مدیرِ اعلی رہے کچھ سال پہلے رحلت فرماگئے اللہ ان کو جنت الفردوس میں جگہ عنائت فرمائیں۔ ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے اس دور کو بڑے قریب سے دیکھا جب پاکستان کے مسلمان بچوں کی ذہن کند کئے جا رہے تھے۔ 1967 کا ذکر کیا اور بتایا کہ سارے ملک میں ایک آنہ لائیبریریں کھل گئیں جہاں پر جنس، سسپنس اور جرائم سے بھرپور کہانیں بچوں کو دی جاتیں اور ان کے اذہان کو مردہ کرنے کا محرک فراہم کیا جاتا۔ بچے یہ کہانیاں پڑھ کر اپنے آپ کو ان کا ہیرو سمجھنے لگے اور یوں ان جرائم کا جن میں نابالغوں کی تعداد زیادہ تھی آغاز ہو گیا۔ میں عنائت اللہ صاحب کی اس بات سے بالکل متفق ہوں اور سمجھتا ہوں کہ ان سسپنس اور جرائم سے بھرپور کہانیوں نے نوجوان نسل کےاذہان بگاڑنے میں بہت رول ادا کیا۔
قصور ہو تو ہمارے حساب میں لکھ جائے
محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو
میں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو
رضی الدین قاضی
معاون خاص
معاون خاص
Posts: 13369
Joined: Sat Mar 08, 2008 8:36 pm
جنس:: مرد
Location: نیو ممبئی (انڈیا)

Post by رضی الدین قاضی »

مرحوم عنایت اللہ صاحب نے بالکل صحیح کہا تھا ۔ ان کی کہی ہوئی باتوں سے تمام امت کو سبق لینا چاہیئے۔ اللہ ہم سب کو نیک توفیق عطا کرے۔ آمین !
رضی الدین قاضی
معاون خاص
معاون خاص
Posts: 13369
Joined: Sat Mar 08, 2008 8:36 pm
جنس:: مرد
Location: نیو ممبئی (انڈیا)

مسلمان اور امریکہ و اسرائیل

Post by رضی الدین قاضی »

آپ یقین کریں یا نہ کریں لیکن یہ حقیقت ہے کہ آج مسلمانوں میں ایسے لوگ بھی ہیں جو کھلم کھلا غاصب اور ظالم صہیونی اسٹیٹ اسرائیل کی ’خدمت ‘کر رہے ہیں اور اس کے عوض معقول سے زیادہ معاوضہ بھی پا رہے ہیں ۔ان میں علمائے سو بھی ہیں اور عقل و خرد سے بیگانہ دانشور بھی سیاسی لیڈر بھی ہیںاور صحافی بھی۔صاف ظاہر ہے کہ یہ لوگ مسلمانوں کی اس کھیپ سے تعلق رکھتے ہیں جو ’آخرت ‘ پر ایمان نہیں رکھتے ۔بے شک وہ بظاہر مسلمان ہی ہیں لیکن انہیں یقین ہے کہ بس یہ دنیا ہی ’سب کچھ‘ ہے اور اس کے بعد’ کچھ نہیں ہے ۔‘یہی معاملہ ہر ظلم جرم اور نفس کا اسراف کرنے والے کا بھی ہے۔اپنے ظلم پر جری وہی ہوتا ہے جسے کسی ’پکڑ ‘کسی گرفت اور کسی احتساب کا خوف نہیں ہوتا۔ایک دوسرا پہلو یہ ہے کہ ایسے لوگ سمجھتے ہیں کہ جو آج ہے وہی ہمیشہ رہے گا۔حالانکہ وہ نہیںدیکھتے کہ کل جو صاحب طاقت و اقتدار تھا وہ آج نہیں ہے۔اس حقیقت کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ جو آج صاحب قوت و اختیار ہے وہ کل نہیں رہے گا۔1857ءکے بعد سر سید احمد خاں سے یہی غلطی ہوئی تھی۔انہوں نے مسلمانوں کو انگریزی تعلیم و تہذیب کے سامنے پوری طرح سرنڈر ہوجانے کا مشورہ اسی لئے دیا تھا ۔تاویلوں سے حقائق نہیں بدل جایا کرتے ۔آج برصغیر کے مسلمانوں پر ثابت ہے کہ سرسید کے مقابلے میں اکبر اور اقبال کہیں زیادہ صحیح تھے۔لیکن اب پچھتاوے کا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت!مہاراشٹر میں شیو سینا کی پہلی کامیابی پر بلا تاخیر بالا صاحب ٹھاکرے کے دربار میں حاضر ہونے والوں اور گذشتہ پارلیمانی الیکشن میں ”واجپئی حمایت کمیٹی “بنانے والوں کا مسئلہ بھی وہی تھا کہ ان کی نظریں صرف ’حال‘ پر تھیں۔وہ مستقبل کے ادراک سے قاصر تھے۔ٹھیک یہی معاملہ ان مسلمانوں کا بھی ہے جو آج امریکہ اوراسرائیل کی چوکھٹ پر سجدے کر رہے ہیں یہ مومن کی سب سے بڑی صفت ’ایمان بالغیب ‘اور احتساب آخرت کے احساس سے تو محروم ہیں ہی ان کے قلوب تاریخ سے سبق لینے اور عبرت حاصل کرنے کی دولت سے بھی خالی ہیں۔دوسری چیز یہ کہ یہ لوگ دنیا کے بعض بد یہی حقائق سے بھی پوری طرح بے خبر ہیں۔صرف ایک کروڑ یہودی پوری دنیا کی ساٹھ فی صد دولت پر قابض ہیں جب کہ دنیا کے باقی چھ ارب انسان صرف چالیس فی صد دولت پر تصرف رکھتے ہیں اور تمام بین الاقوامی مالیاتی اور میڈیا کے نوے فی صد ادارے بھی یہودیوں کی ملکیت ہیں۔ ان اعداد و شمارسے تو بہت سے لوگ واقف ہوں گے لیکن کتنے لوگ ہیں جو یہ بھی جانتے ہیں کہ یہودی قوم ہزاروں سال سے اس بات پر سختی سے کار بند ہے کہ ہر یہودی اپنی اصل آمدنی کا پانچواں حصہ یعنی بیس فی صد لازمی طورپر انسانی فلاحی کاموں پر خرچ کرتا ہے ؟یہودی اگر اپنی نافرمانیوں اور اللہ سے بغاو ت کرنے کے باوجود اگر آج پوری دنیا پر عملاً حکمرانی کر رہے ہیں تو اس کا ایک بڑا سبب یہی ہے ۔دوسری بات یہ کہ اس دنیا کو اللہ تبارک و تعالیٰ نے عالم اسباب بنایا ہے۔سب جانتے ہیں کہ اللہ کی طرف سے راندہ ¿ درگاہ ہوجانے کے باوجود انہیں انسانوں کے ایک بہت بڑے گروہ کی حمایت حاصل ہے جس کا سرخیل امریکہ ہے۔لیکن کیا یہ لوگ نہیں دیکھتے کہ امریکہ بہت تیزی سے اپنی قدر ومنزلت ہی نہیں سپر پاور کا اسٹیٹس STATUSبھی کھوتا جا رہا ہے۔اور اس کا احساس خود امریکی دانشوروں کو بھی ہونے لگا ہے۔دو ہفتے قبل امریکی میگزین نیوز ویک میں اس کے ایڈیٹر فرید زکریا تک نے لکھ دیا کہ ”بیسویں صدی امریکہ کو عروج پر لائی لیکن اب اکیسویں صدی میں اس عظیم طاقت کا زوال شروع ہو چکا ہے۔“نیوز ویک کے مطابق اکیاسی (81)فی صد امریکی یہ سمجھ گئے ہیں کہ دہشت گردی کے تعلق سے امریکہ جو کچھ بھی کہتا رہا ہے سب جھوٹ ہے۔کبھی امریکہ کا امیر ترین آدمی ڈونالڈ ٹرمپ کہاکرتا تھا کہ ’اگر آپ کو دنیا کی سب سے بڑی چیزیں دیکھنی ہیں تو امریکہ آیئے‘لیکن آج امریکہ میں کچھ بھی بڑا نہیں رہا۔کہتے ہیں کہ امریکہ کا آج سب سے بڑا ورثہ علم ہے لیکن امریکہ کے 55فیصد پی ایچ ڈی کرنے والے ڈاکٹر سائنٹسٹ اور ماہرین اقتصادیات سب کے سب غیر ملکی ہیں!نیوز ویک کی اس تفصیلی رپورٹ کے مطابق امریکی معیشت کی حیثیت آج ایک ڈوبتے ہوئے جہاز کی سی ہے۔ ہر امریکی بچہ اپنے سرپر سات لاکھ ڈالر کے قرض کا بوجھ لے کر پیدا ہوتا ہے ۔امریکہ کی داخلی سلامتی پر9/11کے بعد سے اب تک ہر سال کھربوں ڈالر خرچ کر ڈالنے کے باوجود امریکہ کے لئے خطرات کم نہیں ہو سکے۔ چین کے صرف بیس میزائل امریکہ کو نشانہ بنانے کے لئے کافی ہیں۔مطلب یہ ہے کہ امریکہ بہت جلد شاید اگلے بیس پچیس یا زیادہ سے زیادہ پچاس برسوں میں ہی زمین بوس ہونے والا ہے اور وہی دن غاصب مملکت اسرائیل کا بھی آخری دن ہوگا انشاءاللہ ۔بلکہ کون جانے اس سے پہلے ہی اسرائیل اپنے انجام کو پہنچ جائے ۔اس وقت یہ غلامان اسرائیل و امریکہ مسلمان کہا جائیں گے ؟پانچ سوسال پہلے اسپین کے مسلمانوں کے سامنے تین راستے تھے :
عیسائی ہوجاو
اسپین چھوڑ دو
موت کو گلے لگا لو ۔
آج بھی دنیا کے تمام مسلمانوں کے سامنے صرف تین ہی راستے ہیں :
یاتو سیکولر اور لبرل بن کر یعنی دین کو چھوڑ کر پوری طرح مغربی معاشرے میں جذب ہو جاو
یا سماجی معاشی اور سیاسی طور پر اچھوت دلت بن کر دوسرے اور تیسرے درجے کے شہری بن کر رہنے کے لئے تیار ہوجاو
یا پھر موت کو گلے لگا لو۔
اسرائیل اور امریکہ کے خادم مسلمانوں سے ہمیں صرف اتنا ہی کہنا ہے کہ دنیا کی زندگی تو محض چند روزہ ہے۔دنیا میں عزت نفس بیچ کے دین و ایمان کا سودا کر کے چار دن کا عیش حاصل بھی کر لیا تو مرنے کے بعد کیا ہوگا ؟پہلے قبر میں اور پھر آخرت میں ہم اپنے خالق و مالک و پالن ہار کوکیا جواب دیں گے؟
:?:
خاورچودھری
مدیر
مدیر
Posts: 202
Joined: Sun Mar 09, 2008 10:05 am

Post by خاورچودھری »

بہت خوب
پپو
ٹیم ممبر
ٹیم ممبر
Posts: 17803
Joined: Tue Mar 11, 2008 8:54 pm

Post by پپو »

ہماری ایک عادت ہے ہم اصل وجوہات تک جانے سے کتراتے اور الزام ہمشہ ٹیکنالوجی کو دیتے ہیں اور یہ نہیں دیکھتے کہ اسی ٹیکنالوجی سے ہم نے کتنے فوائد حاصل کیے ہیں گن تو گن سوچنا یہ ہے کہ یہ کس کے ہاتھ میں ہونی چاہیے چوکیدار کے ہاتھ میں چور کے ہاتھ میں یہ دینا اب ایک گاؤں کی صورت اختیار کر چکی ہے آپ اس سے اسطرح نہیں نپٹ سکتے کہ یہ نا ہوتا تو اچھا تھا
اگر آپ نے اس سے نپٹنا ہے تو اپنی نسل کو تیراکی سکھا دیں تاکہ وہ اس تالاب میں ڈوب نہ جائے یعنی اپنی اقدار کو مضبوط بنا لیں
رضی الدین قاضی
معاون خاص
معاون خاص
Posts: 13369
Joined: Sat Mar 08, 2008 8:36 pm
جنس:: مرد
Location: نیو ممبئی (انڈیا)

Post by رضی الدین قاضی »

پپو wrote:ہماری ایک عادت ہے ہم اصل وجوہات تک جانے سے کتراتے اور الزام ہمشہ ٹیکنالوجی کو دیتے ہیں اور یہ نہیں دیکھتے کہ اسی ٹیکنالوجی سے ہم نے کتنے فوائد حاصل کیے ہیں گن تو گن سوچنا یہ ہے کہ یہ کس کے ہاتھ میں ہونی چاہیے چوکیدار کے ہاتھ میں چور کے ہاتھ میں یہ دینا اب ایک گاؤں کی صورت اختیار کر چکی ہے آپ اس سے اسطرح نہیں نپٹ سکتے کہ یہ نا ہوتا تو اچھا تھا
اگر آپ نے اس سے نپٹنا ہے تو اپنی نسل کو تیراکی سکھا دیں تاکہ وہ اس تالاب میں ڈوب نہ جائے یعنی اپنی اقدار کو مضبوط بنا لیں
بہت ہی شاندار خیالات ہیں آپ کے ، پپو بھائی۔
پپو
ٹیم ممبر
ٹیم ممبر
Posts: 17803
Joined: Tue Mar 11, 2008 8:54 pm

Post by پپو »

بہت شکریہ بھائی جان
User avatar
چاند بابو
منتظم اعلٰی
منتظم اعلٰی
Posts: 22224
Joined: Mon Feb 25, 2008 3:46 pm
جنس:: مرد
Location: بوریوالا
Contact:

Post by چاند بابو »

شکریہ پپو بھائی جان۔
میں تو آپ کے ان خیالات کا پہلے سے معترف ہوں اچھی بات کہی۔
قصور ہو تو ہمارے حساب میں لکھ جائے
محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو
میں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو
Post Reply

Return to “مذہبی گفتگو”