سرور کونین ﷺ کے معاہدات !

اس ہستی کی زندگی کے اہم پہلو
Post Reply
اعجازالحسینی
مدیر
مدیر
Posts: 10960
Joined: Sat Oct 17, 2009 12:17 pm
جنس:: مرد
Location: اللہ کی زمین
Contact:

سرور کونین ﷺ کے معاہدات !

Post by اعجازالحسینی »

معاہدہ کا مفہوم:
دوفریق اگر آپس میں عہد وپیمان کرتے ہیں تو اسے معاہدہ کہا جاتا ہے، ہرایک فریق اپنا فائدہ دیکھ کر دوسرے سے قول وقرار کرتا ہے۔
معاہدے کی پابندی:
جانبین پر شرعاً، اخلاقاً، قانوناً معاہدے کی پابندی لازم ہوتی ہے اور اس کی خلاف ورزی کو غداری کہا جاتا ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:

۱:۔ ”واوفوا بالعہد ان العہد کان مسئولا ،،۔ (بنی اسرائیل:۳۴)
ترجمہ:۔”اور عہد کو پوراکرو بے شک عہد کے متعلق سوال کیا جائے گا،،۔

۲:۔”یا ایہا الذین اٰمنوا اوفوا بالعقود،،۔ (المائدہ:۱)
ترجمہ:۔”اے لو گو! جو ایمان لاچکے ہو عہدوں کو پورا کرو،،۔
حضور ا نے منافق کی ایک نشانی یہ فرمائی کہ:

۱:۔ ”واذا وعد اخلف،،۔ (مشکوٰة:۷)
ترجمہ:۔”اور جب وعدہ کرے تو اس کی خلاف ورزی کرے،،۔

۲:۔ نیز فرمایا: ”لادین لمن لاعہد لہ،،۔
ترجمہ:۔”جو شخص اپنے عہد کا پابند نہیں اس کا دین سے کوئی تعلق نہیں،،۔ اور فرمایا:

۳:۔ ”من قتل نفساً معاہدا…فلا یرح رائحة الجنة وان ریحہا لتوجد من مسیرة سبعین خریفا،،۔ (ترمذی:ج:۱،ص:۲۵۹)
ترجمہ:۔” جو شخص کسی ذمی کو قتل کرے گا… وہ جنت کی خوشبو بھی نہ سونگھ سکے گا۔حالانکہ اس کی خوشبو ستر سال کی مسافت تک ہوگی،،۔

۴:۔”الامن ظلم معاہدا او انتقصہ او کلفہ فوق طاقتہ او اخذ منہ شیئا بغیر طیب نفس فانا حجیجہ یوم القیامة،،۔ (مشکوٰة:۲۵۴)
ترجمہ:…”خبردار! جس نے کسی ذمی پر ظلم کیا یا اسے نقصان پہنچایا یا اس کی طاقت سے زیادہ اسے تکلیف دی یا اس سے کوئی چیز اس کی رضامندی کے بغیر لی تو قیامت کے روز میں اس ذمی کا وکیل ہوں گا،،۔
حضورانے محرم ۷ھ میں حضرت دحیہ کلبی کے ہاتھ قیصر روم کو دعوت اسلام کا گرامی نامہ بھیجا وہ اس وقت بیت المقدس میں تھا، اس نے آپ ا کا کردار جانچنے کے لئے وہاں آئے ہوئے تاجروں کو بلایا۔ ابو سفیان جو اس وقت اسلام کے سخت ترین دشمن تھے، قیصر کے سامنے بٹھائے گئے ،قیصر نے ان سے کئی سوالات کئے، ان میں یہ سوال بھی تھا:فہل یغدر؟ پس کیا وہ وعدہ خلافی کرتا ہے؟ابو سفیان نے کہا: لا۔نہیں۔آخرمیں ان جوابات پر تبصرہ کرتے ہوئے قیصر نے کہا:

”وسألتک ہل یغدر؟فذکرت :ان لا وکذلک الرسل لاتغدر،،۔ (بخاری،ج:۱،ص:۴)
ترجمہ:۔”میں نے تم سے پوچھا تھا کہ کیا وہ وعدہ خلافی کرتا ہے تو تم نے بتایا کہ نہیں اور پیغمبروں کا یہی حال ہوتا ہے کہ وہ کبھی وعدہ خلافی نہیں کرتے،،۔

الحسن ما شہدت بہ ضراتہا
والفضل ما شہدت بہ الاعداء
ترجمہ:۔”حسن وہ ہے جس کی گواہی سوکنیں دیں اور کمال وہ ہے جس کی گواہی دشمن دیں۔
تعریف دوستوں کی نہیں معتبر ایر
اچھا ہے وہ کلام کرے جو عدو پسند
دنیا کے طالب اگر عہد توڑنے میں فائدہ دیکھتے ہیں تو فوراً اپنا عہد توڑدیتے ہیں ، لیکن انبیاء علیہم السلام ایسا سوچ بھی نہیں سکتے۔
معاہدے کے بارے میں احکام خداوندی:
۱:۔اگر کفار عہد کی پابندی کریں تو مسلمانوں پر بھی یہ پابندی لازم ہے۔فرمان باری تعالیٰ ہے:

۱:۔”الذین عاہدتم من المشرکین ثم لم ینقصوکم شیئا ولم یظاہروا علیکم احدا فاتموا الیہم عہدہم الی مدتہم ان اللّٰہ یحب المتقین،،۔ (التوبہ:۴)
ترجمہ:۔”جن مشرکین کے ساتھ تم نے عہد کیا تھا پھر انہوں نے اس میں کچھ کوتاہی نہیں کی اور نہ تمہارے خلاف کسی کی مدد کی ، تو ان سے یہ کیا ہوا عہد مدت کے مکمل ہونے تک پورا کرو ،یقینا اللہ تعالیٰ پرہیزگاروں سے محبت رکھتا ہے…،،۔

۲:۔”فما استقاموا لکم فاستقیموا لہم ان اللّٰہ یحب المتقین،،۔ (التوبہ:۷)
ترجمہ:۔” پس جب تک وہ تمہارے لئے (عہد پر) قائم رہیں تم بھی ان کے لئے (عہد پر) قائم رہو، یقینا اللہ تعالیٰ پرہیزگاروں سے محبت رکھتا ہے،،۔
۲…اگر کوئی غیر مسلم اسلام کے بارے میں معلومات حاصل کرنا چاہتا ہے یا اپنے شکوک وشبہات کا ازالہ کرنا چاہتا ہے تو اس کی حفاظت اسلامی حکومت پر لازم ہے، معلومات لینے کے بعد وہ اسلام نہ بھی لائے تب بھی مسلمانوں پر لازم ہے کہ اسے اس کے محفوظ مقام پر پہنچادیں۔جیساکہ ارشاد خداوندی ہے:

”وان احد من المشرکین استجارک فاجرہ حتی یسمع کلام الله ثم ابلغہ مأمنہ، ذلک بانہم قوم لایعلمون،،۔ (التوبہ:۶)
ترجمہ:۔”اور اگر مشرکوں میں سے کسی ایک نے بھی تم سے پناہ مانگی ہو تو تم اسے پناہ دے دو یہاں تک کہ وہ اللہ تعالیٰ کا کلام سنے پھر اسے اس کی جگہ پہنچا دو، یہ اس لئے ہے کہ یقینا وہ لوگ ایسے ہیں جو کچھ نہیں جانتے،،۔
۳․․․․․مظلوم مسلمان اسلامی حکومت سے مدد مانگیں تو ان کی مدد کی جائے لیکن اگر وہ ایسی قوم کے خلاف مدد طلب کریں جس سے مسلمانوں کا امن معاہدہ طے پاچکا ہے تو پھر ان کی مدد نہیں کی جاسکتی:

”وان استنصروکم فی الدین فعلیکم النصر الا علی قوم بینکم وبینہم میثاق والله بما تعملون بصیر،،۔ (الانفال:۷۲)
ترجمہ:۔”اور اگر وہ تم سے دین کے بارے میں مدد مانگیں تو تم پر ان کی مدد کرنا واجب ہے، سوائے اس قوم کے کہ تمہارے درمیان اور ان کے درمیان کوئی عہد وپیمان ہوا ہو اور جو کچھ تم کرتے ہو اللہ تعالیٰ اسے دیکھنے والا ہے،،۔
اس کی روشن مثال حضرت ابو جندل ہیں، جنہیں اسلام لانے کی پاداش میں سخت سزائیں دی جاتی تھیں، وہ زنجیروں میں جکڑے ہوئے تھے، معاہدہ حدیبیہ کے موقع پر وہ کسی طرح بھاگ کر آگئے، اپنے جسم پر تشدد کے نشان دکھائے،مسلمانوں سے فریاد کی کہ مجھے اس ظلم سے بچاؤ اور اپنے ساتھ مدینہ لے جاؤ، مسلمان یہ منظر دیکھ کر تڑپ اٹھے، لیکن حضور انے ابوجندل سے فرمایا :تم صبر کرو اللہ تمہیں نجات دے گا، ہمارا ان لوگوں سے امن معاہدہ ہوچکا ہے، اس لئے ہم معاہدہ توڑ کر تمہیں ساتھ نہیں لے جاسکتے۔
۴…اگر کفار صلح کرنا چاہیں اور اس سے مسلمانوں کو کوئی نقصان نہ پہنچتا ہو تو صلح کرلی جائے۔ جیساکہ ارشاد ہے:

”وان جنحوا للسلم فاجنح لہا وتوکل علی الله انہ ہو السمیع العلیم،،۔ (الانفال:۶۱)
ترجمہ:۔”اور اگر وہ صلح کے لئے جھکیں تو تم بھی ان کے لئے جھک جاؤ اور اللہ تعالیٰ پر ہی بھروسہ رکھو یقینا وہ سب کی سننے والا جاننے والا ہے،،۔
اگر مسلمان کفار کے نرغے میں آجائیں تو کفار کے اتحاد کو پارہ پارہ کرنے کے لئے کوئی بھی تدبیر کرسکتے ہیں۔غزوہٴ احزاب میں حضورا کو علم ہوا کہ خیبر کے یہودی بنی غطفان کو خیبر کی کھجوروں کا ۱/۳ دینے کا یہ وعدہ کرکے ساتھ لائے ہیں تو آپ ا نے ان کے قائدین عیینہ بن حصین فزاری اور حارث بن عوف المرّی کو بلایا اور فرمایا: تم قریش کا ساتھ چھوڑ کر بمع اپنے لاؤ لشکر کے واپس چلے جاؤ تو تمہیں مدینہ کی کھجوروں کی ایک تہائی دیا جائے گا، وہ اس پر آمادہ ہوگئے، اب آپ ا نے سعد بن معاذ رئیس اوس اور سعد بن عبادہ رئیس خزرج کو مشورہ کے لئے بلایا، ان دونوں نے عرض کی کہ حضور! کیا یہ اللہ کا حکم ہے یا آپ کی اپنی خواہش ہے یا آپ ا ہمارے بچاؤ کے لئے ایسا کرنا چاہتے ہیں؟ آپ ا نے فرمایا :نہ یہ خدا کا حکم ہے نہ میری چاہت ہے، بات یہ ہے کہ میں انہیں قریش سے الگ کرنا چاہتاہوں تاکہ ان کی طاقت کم ہوجائے، دونوں نے کہا حضور! اس کی کوئی ضرورت نہیں، یہ جو کچھ کرسکتے ہیں، کرلیں ،ہمارا اور ان کا فیصلہ تلوار سے ہوگا۔

جاری ہے
[center]ہوا کے رخ پے چلتا ہے چراغِ آرزو اب تک
دلِ برباد میں اب بھی کسی کی یاد باقی ہے
[/center]

روابط: بلاگ|ویب سائیٹ|سکرائبڈ |ٹویٹر
اعجازالحسینی
مدیر
مدیر
Posts: 10960
Joined: Sat Oct 17, 2009 12:17 pm
جنس:: مرد
Location: اللہ کی زمین
Contact:

Re: سرور کونین ﷺ کے معاہدات !

Post by اعجازالحسینی »

۵۔۔امن معاہدہ کرتے وقت یہ فکر نہ کی جائے کہ کہیں کفار ہمیں دھوکہ نہ دے رہے ہوں اگر وہ ایسا کریں گے تو اللہ تعالیٰ مسلمانوں کی مدد کرے گا اور انہیں کوئی نقصان نہ پہنچے گا:

”وان یریدوا ان یخدعوک فان حسبک الله ہو الذی ایدک بنصرہ وبالمؤمنین،،۔ (الانفال:۶۲)
ترجمہ:۔”اور اگر وہ یہ چاہیں کہ تمہیں دھوکا دیں… تو یقینا تمہارے لئے اللہ تعالیٰ کافی ہے وہ وہی ہے جس نے تمہاری تائید اپنی نصرت اور مؤمنوں کے ساتھ کی،،۔
۶…اگر کفار عہد توڑدیں تو انہیں اس کی ایسی سزا دی جائے کہ وہ نمونہ ٴ عبرت بن جائیں:

”الذین عاہدت منہم ثم ینقضون عہدہم فی کل مرة وہم لایتقون، فاما تثقفنہم فی الحرب فشرد بہم من خلفہم لعلہم یذکرون،، ۔(الانفال:۵۶،۵۷)
ترجمہ:۔”وہ لوگ جن سے تم نے معاہدہ کیا پھر وہ ہربار اپنے عہد کو توڑ دیتے ہیں اور نہیں ڈرتے ہیں پس تم اگر ان پر لڑائی میں قابو پاجاؤ تو ان کے ساتھ ہی ان لوگوں کو بھی جو ان کے پیچھے ہیں تتر بتر کر دو تاکہ وہ بھی یارکھیں،،۔
ندانست آنکہ رحمت کرد برمار
کہ ایں ستم است برفرزند آدم
ترجمہ:۔”جو شخص سانپ پر مہربانی کرتا ہے وہ نہیں جانتا کہ اس طرح وہ ان پر ظلم کررہا ہے،،۔
۷… اگر آثار وقرائن سے یہ نظر آرہا ہو کہ دشمن عہد شکنی کرے گا تب بھی اسے اندھیرے میں نہ رکھا جائے بلکہ دشمن کو صاف صاف بتا دیا جائے کہ ہم اس معاہدہ کو باقی رکھنا نہیں چاہتے جب دونوں فریق برابر کی سطح پر ہو جائیں تو پھر بیشک تیاری کرلی جائے، اس سے پہلے نہیں ، ارشاد خداوندی ہے:

”واما تخافن من قوم خیانة فانبذ الیہم علی سواء ان الله لایحب الخائنین،،۔
(الانفال:۵۸)
ترجمہ:۔”اور اگر تمہیں کسی قوم سے خیانت کا ڈر ہو تو تم بھی برابر کی حیثیت سے (ان کا عہد) ان کی طرف پھینک دو یقینا اللہ تعالیٰ خیانت کرنے والوں کو دوست نہیں رکھتا،،۔
ایک یادگار مثال:
حضرت امیر معاویہ کا رومی حکومت سے میعادی معاہدہ تھا، آپ  نے شام کی سرحد کی طرف اپنی فوجیں بڑھانی شروع کردیں، مقصد یہ تھا کہ جونہی میعاد ختم ہوگی ، رومیوں کی تیاری کرنے سے پہلے حملہ کردیا جائے گا، دیکھا کہ ایک بزرگ گھوڑے پر سوار یہ پکارتے ہوئے آ رہے ہیں: الله اکبر الله اکبر وفاء لاغدرا کہ عہد پورا کرو خیانت نہ کرو اور کہا میں نے رسول کریم ا سے سنا تھا کہ کسی قوم سے معاہدہ ہو تو مدت پوری ہونے سے پہلے کوئی گرہ نہ کھولی جائے نہ باندھی جائے ،جیسے معاہدہ ہے ویسے ہی رکھا جائے یہ بزرگ عمر وبن عنبسہ  تھے، یہ ارشاد نبوی ا سن کر امیرمعاویہ  نے اپنی فوجیں سرحد سے واپس بلالیں۔(مشکوٰة:۳۴۷)
۸… حجاز مقدس اسلام کا مرکز ہے، رب العزت کا فرمان ہے کہ یہاں صرف مسلمان ہی رہیں، چنانچہ ۹ھ میں آپ ا نے سیدنا علی  کو حج کے موقع پر سورة البراء ة کی ابتدائی آیات مجمع عام میں سنانے کے لئے بھیجا اور آپ نے وہ آیات سنائیں جن کا مفہوم یہ تھا کہ کفار ناپاک ہیں اس لئے انہیں طواف کعبہ کی اجازت نہیں۔نیز لباس اتار کر طواف کرنے سے بھی منع کردیا گیا، آپ نے وصیت بھی فرمائی کہ سر زمین عرب میں دو دین باقی نہ رہنے پائیں یہاں صرف اسلام ہو اور فرمایا:

”لاخرجن الیہود والنصاریٰ من جزیرة العرب،،۔ (مشکوٰة:۳۵۵)
ترجمہ:۔ ”یہود ونصاریٰ کو جزیرہ ٴ عرب سے نکال دوں گا،،۔
قرآن کریم میں ارشاد ہے:

”براء ة من الله ورسولہ الا الذین عاہدتم من المشرکین فسیحوا فی الارض اربعة اشہر… فان تبتم فہو خیر لکم وان تولیتم فاعلموا انکم غیر معجزی الله،،۔ (التوبہ:۱تا۳)
ترجمہ:…”(یہ) اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی طرف سے مشرکوں میں سے ان لوگوں کی طرف بیزاری (کا اعلان) ہے جس سے تم نے معاہدہ کیا تھا پس (اے مشرکوا) تم زمین میں چار مہینے چلو پھرو، پس اگر تم توبہ کرلو تو وہ تمہارے لئے بہتر ہے اور اگر تم روگردانی کروگے تو جان لو کہ تم یقینا اللہ تعالیٰ کو عاجز کرنے والے نہیں ہو،،۔
۹… اسلامی برادری میں شامل ہونے کی شرطیں ایمان اور احکام اسلام کی پابندی میں ہے:

”فان تابوا واقاموا الصلوٰة واتوا الزکوٰة فاخوانکم فی الدین،،۔(التوبہ:۱۱)
ترجمہ:۔”پس اگر انہوں نے توبہ کرلی اور نماز قائم کرلی اور زکوٰة دے دی تو وہ دین میں تمہارے بھائی ہیں،،۔
حلف الفضول:
سب سے پہلا معاہدہ جس میں حضور ا شریک ہوئے ”حلف الفضول،، تھا، آپ ا کی عمر مبارک اس وقت صرف ۲۰/سال کی تھی ،لیکن خاندانی وجاہت، فہم وفراست، صدق وامانت اور سیرت وکردار کی پاکیزگی کے سبب آپ کو اس میں شریک کیا گیا۔
یہ معاہدہ عبد اللہ بن جدعان کے گھر میں طے پایا، عبد اللہ بڑے فیاض اور عمر رسیدہ بزرگ تھے ،انہوں نے کھانے کا اہتمام کیا اور معززین کو بلایا، جنہوں نے حسب ذیل الفاظ میں معاہدہ کیا:

”وتعاہدوا علی ان لایجدوا بمکة مظلوما من اہلہا وغیرہم ممن دخلہا الا قاموا معہ وکانوا علی من ظلمہ حتی ترد علیہ مظلمتہ،،۔
ترجمہ:۔”انہوں نے آپس میں عہد کیا کہ وہ مکہ میں جس مظلوم کو بھی پائیں گے خواہ وہ مکہ کا باشندہ ہو یا پردیسی ہو وہ اس کی مدد کریں گے اور ظالم کے خلاف مل کر کوشش کریں گے یہاں تک کہ مظلوم کو اس کا حق واپس مل جائے،،۔
بلاشبہ ان لوگوں نے اپنے عہد کو خوب نبھایا اور بے شمار مظلوموں کی بڑی جرأت سے مدد کرتے رہے، حضورا اس شرکت پر بہت خوش تھے اور آپ نے فرمایا:

”لقد شہدت فی دار عبد الله بن جدعان حلفا ما احب ان لی بہ حمر النعم ولو ادعی بہ فی الاسلام لاجبت،،۔
ترجمہ:۔”میں عبد اللہ بن جدعان کے گھر ایک معاہدے میں شامل ہوا تھا، میں اس کے مقابلے میں سرخ اونٹوں کو بھی پسند نہیں کرتا اور اگر اسلام کے زمانے میں بھی مجھے ایسے کسی معاہدے میں شریک ہونے کی دعوت دی جائے تو میں اسے ضرور قبول کروں گا،،۔

جاری ہے
ماہنامہ بینات
[center]ہوا کے رخ پے چلتا ہے چراغِ آرزو اب تک
دلِ برباد میں اب بھی کسی کی یاد باقی ہے
[/center]

روابط: بلاگ|ویب سائیٹ|سکرائبڈ |ٹویٹر
اسداللہ شاہ
مشاق
مشاق
Posts: 1577
Joined: Mon Jul 06, 2009 3:04 pm
جنس:: مرد
Location: اللہ کی زمین پر
Contact:

Re: سرور کونین ﷺ کے معاہدات !

Post by اسداللہ شاہ »

جزاک اللہ فی الدارین
[center]والسلام طالب دعا آپکا بھائی
اسداللہ شاہ[/center]
اعجازالحسینی
مدیر
مدیر
Posts: 10960
Joined: Sat Oct 17, 2009 12:17 pm
جنس:: مرد
Location: اللہ کی زمین
Contact:

Re: سرور کونین ﷺ کے معاہدات !

Post by اعجازالحسینی »

شکریہ شاہ جی
[center]ہوا کے رخ پے چلتا ہے چراغِ آرزو اب تک
دلِ برباد میں اب بھی کسی کی یاد باقی ہے
[/center]

روابط: بلاگ|ویب سائیٹ|سکرائبڈ |ٹویٹر
اعجازالحسینی
مدیر
مدیر
Posts: 10960
Joined: Sat Oct 17, 2009 12:17 pm
جنس:: مرد
Location: اللہ کی زمین
Contact:

Re: سرور کونین ﷺ کے معاہدات !

Post by اعجازالحسینی »

بیعت عقبہ ثانیہ

۱۱/نبوی میں مدینہ منورہ کے ۶/آدمی حج کی غرض سے مکہ مکرمہ آئے، جوحضورا کی تبلیغ سے مسلمان ہوگئے۔ ۱۲/نبوی کو ۱۲/ آدمی حج کے لئے آئے، حضور ا سے ملے ،اسلام قبول کیا۔آپ ا نے اسلام کی تبلیغ کے لئے ان کے ساتھ حضرت عبد اللہ بن ام مکتوم اور مصعب بن عمیر کو بھیج دیا، اب وہاں گھر گھر اسلام کا نور چمک اٹھا۔سب نے باہمی مشورہ سے طے کیا کہ حضور ا کو مدینہ طیبہ لائیں، تاکہ آپ ا سے ہم زیادہ سے زیادہ فیض حاصل کرسکیں۔ چنانچہ ۱۳/ نبوی میں حضرت مصعب  ۷۳/ مردوں اور ۲/عورتوں کے ہمراہ مکہ مکرمہ آئے، حج کے بعد منیٰ کی ایک گھاٹی میں تہائی رات گذر نے پر آپ ا نے تشریف لانے کا وعدہ لیا، آپ ااپنے چچا حضرت عباس کے ہمراہ وہاں پہنچے۔
سب سے پہلے حضرت عباس نے کہا: حضرت محمد ا یہاں عزت واحترام سے رہ رہے ہیں، تمام دشمنوں کے خلاف ہم ان کے پہرے دار ہیں، اب تم انہیں اپنے پاس لیجانا چاہتے ہو ،اور یہ بھی تمہارے پاس جانے پر آمادہ ہیں، اچھی طرح سوچ لو ! کیا تم اپنے جان ومال کی قربانی دے کر آپ کی حفاظت کرسکو گے؟ اگر تمہارا جواب اثبات میں ہے تو ٹھیک ہے ،ورنہ ابھی سے انکار کردو۔
سر مد گلہ اختصار مے باید کرد
یک کار ازیں دوکارے باید
ترجمہ:…”سرمد! شکوہ شکایت کو مختصر کردینا چاہئے اور وہ اس طرح کہ ان دوکاموں میں سے ایک کام کر لینا چاہئے،،۔
یادل برضائے دوست مے باید داد
یا قطع نظر زیار مے باید کرد
ترجمہ:…”یاتو محبوب جس بات سے خوش ہے اس پر دل کو آمادہ کر لینا چاہئے اور یا پھر محبوب سے تعلق ختم کردینا چاہئے،،۔
اب لوگ حضور ا کی طرف متوجہ ہوئے اور عرض کی: یا رسول اللہ! آپ ہم سے کیا چاہتے ہیں؟ آپ ا نے فرمایا:

”تبایعونی علی السمع والطاعة فی النشاط والکسل، والنفقة فی العسر والیسر ،وعلی الامر بالمعروف والنہی عن المنکر، وان تقولوا فی اللّٰہ لاتخافوا فی اللّٰہ لومة لائم، وعلی ان تنصرونی اذا قدمت الیکم مما تمنعون منہ انفسکم وازواجکم وابناء کم ولکم الجنة،،۔
ترجمہ:…”تم میرے ہاتھ پر بیعت کرو کہ میرے احکام سنوگے اور میری فرماں برداری کروگے خوشی اور پریشانی میں ، تنگدستی اور خوشحالی میں مال خرچ کروگے، نیک کاموں کا حکم دوگے اور برے کاموں سے روکو گے اور اللہ کی رضا کے لئے حق بات کہو گے اور خدا کے احکام کی تعمیل میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہ ڈروگے اور جب میں تمہارے پاس آؤں تو تم میری ایسے حفاظت کروگے جیسے اپنی اور اپنے بیوی بچوں کی حفاظت کرتے ہو اور اس کے بدلے تمہیں جنت ملے گی،،۔
لوگ بیعت کے لئے تیار ہوئے تو حضرت عباس  نے کہا:
”ہل تدرون علام تبایعون ہذا الرجل؟انکم تبایعونہ علی حرب الاحمر والاسود من الناس ،فان کنتم ترون انکم اذا انہکت اموالکم مصیبة واشرافکم قتلا اسلمتموہ، فمن الآن فہو، واللّٰہ ان فعلتم خزی الدنیا والآخرة، وان کنتم ترون انکم وافوہ دعوتموہ الیہ علی نہکة الاموال وقتل الاشراف فخذوہ فہو واللّٰہ خیر الدنیا والآخرة،،۔
ترجمہ:…”جانتے ہو کہ تم یہ بیعت کس بات پر کررہے ہو؟ تم سب لوگوں سے جنگ کرنے پر بیعت کررہے ہو، خواہ وہ سرخ ہوں یا سیاہ، اگر تم سمجھتے ہو کہ جب تمہیں مالی نقصان ہو یا تمہارے رؤسا قتل ہوں تو تم انہیں دشمن کے حوالے کردوگے تو ابھی سے ان کا ساتھ نہ دو، کیونکہ مشکل میں ساتھ چھوڑ دو گے تو خدا کی قسم تمہیں دنیا اور آخرت کی رسوائی ملے گی اور اگر تم سمجھتے ہو کہ تم انہیں اپنے ہاں بلاکر ان سے وفا کروگے خواہ تمہیں مال خرچ کرنے پڑیں اور خواہ تمہارے معززین قتل ہوجائیں تو آپ ا کا ہاتھ پکڑ لو اور بیعت کرلو خدا کی قسم! اسی میں تمہارے لئے دنیا اور آخرت کی بہتری ہے،،۔
سب نے کہا ہم سوچ سمجھ کر ہی یہ بیعت کررہے ہیں:
آنکس کہ ترا شناخت جاں راچہ کند؟
فرزند وعیال وخانماں را چہ کند؟
ترجمہ:…”جس نے تجھے پہچان لیا ،اسے جان کی کیا پرواہ ہے، اس نے بیوی بچوں اور گھر بار کو کیا کرنا ہے،،۔
دیوانہ کنی وہر دو جہانش بخشی
دیوانہ تو ہر دو جہاں را چہ کند؟
ترجمہ:…”تو اسے اپنا شیدابنا لیتا ہے پھر اسے دونوں جہان دے دیتا ہے، تیرے شیدانے دونوں جہانوں کو کیا کرنا ہے،،۔
سب نے بیعت کی اور پیمان وفا کو خوب نبھایا، یہاں تک کہ ایک موقع پر سعد بن معاذ نے حضورا سے کہا تھا کہ: اگر آپ حکم دیں تو ہم سمندر میں کود جائیں گے اور ہمارا ایک آدمی بھی پیچھے نہیں رہے گا۔
اب آپ ا نے حضرت جبریل علیہ السلام کے اشارے سے۹/آدمی قبیلہ خزرج سے اور ۳/ قبیلہ اوس سے نقیب مقرر فرمائے اور فرمایا:

”انتم علی قومکم بما علیہم کفلاء ککفالة الحواریین لعیسی ابن مریم وانا کفیل علی قومی،،۔
ترجمہ:…”تم اپنی اپنی برادری کے لوگوں کے ذمہ دار ہو جیسے حضرت عیسی علیہ السلام کے حواری اپنی اپنی برادری کے ذمہ دار تھے اور میں اپنی برادری کا نگران ہوں،،۔
حضرت ابو الہیثم بن التیمان نے کہا :یا رسول اللہ! کہیں ایسا تو نہ ہوگا کہ جب خدا آپ کو غلبہ عطا فرمائے تو آپ ہمیں چھوڑ کر اپنی قوم کے پاس واپس آجائیں؟
از فراق تلخ مے گوئی سخن
ہرچہ خواہی کن ولیکن ایں مکن
ترجمہ:…”جدائی بہت تلخ ہے ،اس کی بات نہ کرو، جو چاہو کرو، مگر یہ نہ کرو،،۔
حضور ا مسکرائے اور فرمایا:

”انتم منی وانا منکم احارب من حاربتم واسالم من سالمتم،،۔
ترجمہ:…”نہیں، تم میرے ہو میں تمہارا ہوں، جس سے تمہاری جنگ ہوگی اس سے میری بھی جنگ ہوگی، جس سے تمہاری صلح ہوگی اس سے میری بھی صلح ہوگی،،۔
[center]ہوا کے رخ پے چلتا ہے چراغِ آرزو اب تک
دلِ برباد میں اب بھی کسی کی یاد باقی ہے
[/center]

روابط: بلاگ|ویب سائیٹ|سکرائبڈ |ٹویٹر
اعجازالحسینی
مدیر
مدیر
Posts: 10960
Joined: Sat Oct 17, 2009 12:17 pm
جنس:: مرد
Location: اللہ کی زمین
Contact:

Re: سرور کونین ﷺ کے معاہدات !

Post by اعجازالحسینی »

میثاق مدینہ

حضور ا اور صحابہ کرام ہجرت فرماکر مدینہ طیبہ تشریف لائے تو یہاں اوس اور خزرج کے قبیلے رہتے تھے، جو مسلمان ہوچکے تھے ،یہاں پر مدینہ کے قرب وجوار میں یہود کے تین قبائل بھی آباد تھے: بنی قینقاع، بنی نضیر اور بنی قریظہ۔ اس لئے ۵/ماہ بعد آپ نے مہاجرین ، انصار اور یہود کو جمع کیا اور ایک معاہدہ تحریر کرایا ،جسے میثاق مدینہ کہتے ہیں اور یہ دنیا کا پہلا تحریری دستور ہے، مقصد یہ تھا کہ اہل مدینہ باہم حسن سلوک سے رہیں اور اسلامی ریاست کی دفاعی پوزیشن مضبوط ہوجائے، اس کی اہم دفعات حسب ذیل ہیں:
۱:…مسلمان اور یہود آپس میں ایک دوسرے کے خیر خواہ اور ہمدرد رہیں گے۔
۲:… کسی شر پسند کی حمایت نہیں کریں گے۔
۳:…قتل پر شہادت قائم ہو تو قصاص لیا جائے گا، لیکن مقتول کے ورثاء اگر خون بہا معاف کردیں تو قاتل کی جان بچ جائے گی۔
۴:… یہود اور مسلمانوں میں سے کسی فریق کو اگر کسی تیسرے فریق سے جنگ کی نوبت آئے تو دوسرا فریق اس کی مدد کرے گا۔
۵:…کوئی فریق قریش مکہ اور ان کے مددگاروں کو اپنے پاس نہیں ٹھہرائے گا۔
۶:…مدینہ پر حملہ ہوا تو یہود مسلمانوں کی جان ومال سے مدد کریں گے یعنی مشترکہ دفاع کیا جائے گا۔
۷:… یہود کو مذہبی آزادی ہوگی، ان کی مذہبی رسوم کی ادائیگی میں کوئی رکاوٹ نہیں ڈالی جائے گی۔
۸:…ہر قبیلہ خود ہی اپنے قاتل کی طرف سے خون بہا ادا کرے گا، اسی طرح اپنے قیدی کو خود ہی فدیہ دے کرچھڑائے گا۔
۹:…جو یہود مسلمانوں کے تابع ہوکر رہیں گے ان کے جان ومال کی حفاظت مسلمانوں کی ذمہ داری ہوگی۔
۱۰:…کوئی فریق اپنے دشمن سے صلح کرلے تو دوسرا فریق بھی اس صلح کا پابند ہوگا۔
۱۱:…کوئی فریق حضور ا کی اجازت کے بغیر کسی سے جنگ نہ کرے گا۔
۱۲:…اگر کسی معاملے میں اختلاف ہو جائے تو اس کا فیصلہ آنحضرت افرمائیں گے۔
اس معاہدے سے مدینہ میں اسلامی ریاست قائم ہوگئی، اس کا تحریری دستور وجود میں آگیا، تمام اختیارات سرور دوعالم ا کے دست مبارک میں آگئے۔


بنی مدلج وبنی ضمرہ

قریش مکہ کے تجارتی قافلے شام کی طرف آتے جاتے تھے ،ان کے راستے میں دو قبیلے مدلج اور بنی ضمرہ آباد تھے، خطرہ تھا کہ قریش ان کو اپنا حلیف نہ بنالیں، اس لئے آپ ۶۰/ مہاجرین کے ساتھ ان کی طرف نکلے، مدینہ منورہ میں سعد بن عبادہ کو اپنا جانشین مقرر کیا، جھنڈا حضرت حمزہ کو دیا، ان کے سردار مخشی بن عمرو نے آپ ا سے صلح کرلی ،جس کی شرائط یہ تھیں:
۱:…بنی ضمرہ مسلمانوں سے جنگ نہیں کریں گے۔
۲:…مسلمانوں کے کسی دشمن کی مدد نہیں کریں گے۔
۳:…مسلمانوں کو دھوکہ نہیں دیں گے۔
۴:…بوقت ضرورت مسلمانوں کی امداد کریں گے۔
۱۵/روز بعد آپ بمع فوجی دستہ واپس مدینہ منورہ تشریف لے آئے۔


بنی قینقاع کی عہد شکنی

یہودی قبائل میں سے سب سے پہلے جس قبیلے نے میثاق مدینہ کو توڑاوہ بنی قینقاع تھے، یہ صنعت کار، تاجر اور بڑے بہادر تھے ، ہوا یوں کہ ایک مسلمان عورت ان کے علاقے میں دودھ بیچنے گئی، کام سے فارغ ہوکر وہ ایک سنار کے پاس کسی کام کے لئے گئی ،وہ وہاں بیٹھی تھی کہ چند اوباش آگئے اور وہ اس کا منہ دیکھنے کی کوشش کرنے لگے ،اسی دوران اس کی بے خبری میں سنارنے کرتہ بند اور اوڑھنی کو جوڑ دیا، وہ اٹھی توننگی ہوگئی ،اس پر سب نے قہقہہ لگایا ،عورت چلائی تو ایک مسلمان نے سنار کو قتل کردیا، یہود نے اس مسلمان کو شہید کردیا، حضور ا کو خبر پہنچی تو آپ نے وہاں جاکر انہیں تنبیہ کی، اس پر معافی مانگنے کی بجائے وہ اکڑ گئے، معاہدہ توڑ دیا اور کہا:

”لایغرنک انک لقیت قوما لاعلم لہم بالحرب ناصبت منہم فرصة ،اما واللّٰہ لئن حاربناک لتعلمن انا نحن الناس،،۔
ترجمہ:…”آپ اس غلط فہمی میں نہ رہیں کہ آپ کا ایک ایسی قوم (قریش) سے مقابلہ ہوا جنہیں فن حرب کا کوئی علم ہی نہ تھا اور آپ کو ان پر فتح حاصل ہوگئی، خدا کی قسم! اگر ہم آپ سے لڑے تو آپ کو پتہ چل جائے گا کہ ہم کیسے جنگجو ہیں،،۔ آپ انے ابو لبابہ بشیر بن عبد المنذر کو مدینہ میں اپنا قائم مقام مقرر فرمایا۔ اسلامی پرچم حضرت حمزہ کو دیا اور ان پر چڑھائی کردی، یہ اپنے قلعوں میں محصور ہوگئے۔ ۱۵/روز محاصرہ رہا ،آخر مجبور ہوکر یہ قلعوں سے اترے اور انہیں یہاں سے دیس نکالا دیا گیا، ان میں ۶۰۰/جنگجو تھے، یہاں سے یہ شام چلے گئے ،یہ آغاز ذو القعدہ ۲ھ کا واقعہ ہے۔
[center]ہوا کے رخ پے چلتا ہے چراغِ آرزو اب تک
دلِ برباد میں اب بھی کسی کی یاد باقی ہے
[/center]

روابط: بلاگ|ویب سائیٹ|سکرائبڈ |ٹویٹر
اعجازالحسینی
مدیر
مدیر
Posts: 10960
Joined: Sat Oct 17, 2009 12:17 pm
جنس:: مرد
Location: اللہ کی زمین
Contact:

Re: سرور کونین ﷺ کے معاہدات !

Post by اعجازالحسینی »

بنی نضیر کی غداری

بنی عامر قبیلے کے دو آدمی غلطی سے مارے گئے، یہ مسلمانوں کے بھی حلیف تھے اور بنی نضیر کے بھی۔ اس لئے ان دو افراد کا خون بہا مسلمانوں اور بنی نضیر دونوں پر لازم تھا، اس لئے حضور اچند صحابہ کرام کے ہمراہ نبی نضیر کے پاس تشریف لے گئے اور انہیں اپنے حصہ کی رقم ادا کرنے کی فرمائش کی، انہوں نے بظاہر بڑی خوشی سے آپ کا خیر مقدم کیااور کہا: آپ تشریف رکھیں ن ہم رقم ادا کردیں گے۔ آپ قلعہ کی دیوار کے سایہ میں بیٹھ گئے، پھر خفیہ طور پر یہود نے آپس میں گفتگو کی اور کہا: آج آپ کو ہلاک کرنے کا ایسا سنہری موقع ہے جو پھر کبھی نہیں آئے گا، ایک آدمی قلعہ کی دیوار پر چڑھ جائے اور آپ کے اوپر بھاری پتھر گرادے ۔ عمرو بن جحاش نے یہ ذمہ داری اپنے اوپر لی، ایک اور شخص سلام بن شکم نے انہیں ایسا کرنے سے منع کیا، اس نے کہا: یہ بدعہدی ہے جو صحیح نہیں ہے، پھر یہ شخص خدا کا سچا رسول ہے ،خدا تعالیٰ اسے اطلاع دے دے گا اور تمہاری سازش ناکام ہو جائے گی، انہوں نے اس کی بات کی پرواہ نہ کی، قرار داد کے مطابق عمرو بن جحاش قلعہ کی دیوار پر چڑھا لیکن جو نہی وہ پتھر گرانے لگا، وحی الٰہی نے آپ کو مطلع کردیا، آپ اچانک اٹھ کر مدینہ کی طرف چل پڑے ،یہود سمجھ گئے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو اطلاع دے کر ہمارے منصوبے کو ناکام کردیا ہے، کچھ دیر بعد صحابہ کرام آپ کو تلاش کرنے نکلے، انہیں اطلاع ملی کہ آپ مدینہ منورہ میں داخل ہوگئے ہیں،لہذا انہوں نے مدینہ میں آپ کو پالیا، آپ نے صحابہ کرامکو بتایا کہ انہوں نے میرے قتل کی سازش کی تھی، جسے خدا نے مجھے اطلاع دے کر ناکام بنادیا اور محمد بن مسلمہ کو یہ پیغام دے کر ان کے پاس بھیجا کہ شہر خالی کردو اور یہاں سے نکل جاؤ ، ادھر عبد اللہ بن ابی رئیس المنافقین نے انہیں پیغام بھیجا کہ ڈٹ جاؤ، نکلنا نہیں۔ہم تمہارے ساتھ ہیں ،لڑائی ہوئی تو ہم تمہارا ساتھ دیں گے اور اگر تمہیں نکالا گیا تو ہم بھی تمہارے ساتھ نکلیں گے، بنی نضیر کے مضبوط قلعے تھے ،اسلحہ تھا، جنگجو نوجوان تھے، منافقین کی مدد کے وعدوں نے انہیں مغرور کردیا، اس لئے انہوں نے حضور ا کو پیغام بھیج دیا کہ ہم نہیں نکلیں گے، آپ جوکچھ کر سکتے ہیں، کرلیں۔آپ انے محاصرے کا حکم دے دیا وہ قلعہ بند ہوگئے۔ یہ محاصرہ ۱۵/روز رہا۔

تدبیر خداوندی

سورة الحشر میں ہے:

”فاٰتا ہم اللّٰہ من حیث لم یحتسبوا، وقذف فی قلوبہم الرعب،،۔ (الحشر:۲)
ترجمہ:…”پس ان پر اللہ تعالیٰ (کاعذاب) اس جگہ سے آیاجہاں سے آنے کا وہ گمان نہیں کرتے تھے اور ان کے دلوں میں رعب ڈال دیا،،۔
اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں میں اسلامی فوج کا خوف ڈال دیا، اب نہ قلعے کام آئے ،نہ جنگجو نوجوان، نہ ہتھیار ،نہ منافقوں کی مدد۔ آپ ا نے حکم دیا ۱۰/دن میں اپنی گڑھیاں خالی کردو، اسلحہ کے بغیر جو کچھ لیجا سکتے ہو، لیجا ؤ۔ انہوں نے اونٹوں پر تمام سامان لادا، یہانتک کہ شہتیر، دروازے اور کھڑکیاں بھی اکھیڑ کر ساتھ لے گئے۔ اپنی ذلت ورسوائی پر پردہ ڈالنے کے لئے موسیقی کے آلات بجاتے ہوئے اور گانے گاتے ہوئے نکلے:
نکلنا خلد سے آدم کا سنتے آئے تھے لیکن
بہت بے آبرو ہوکر ترے کوچے سے ہم نکلے
اکثر خیبر جا بسے اور کچھ شام کو چلے گئے، یہ واقعہ ربیع الاول ۴ھ کا ہے۔
[center]ہوا کے رخ پے چلتا ہے چراغِ آرزو اب تک
دلِ برباد میں اب بھی کسی کی یاد باقی ہے
[/center]

روابط: بلاگ|ویب سائیٹ|سکرائبڈ |ٹویٹر
اعجازالحسینی
مدیر
مدیر
Posts: 10960
Joined: Sat Oct 17, 2009 12:17 pm
جنس:: مرد
Location: اللہ کی زمین
Contact:

Re: سرور کونین ﷺ کے معاہدات !

Post by اعجازالحسینی »

بنی قریظہ کی عہد شکنی اور ان کا انجام

حیی بن اخطب یہودی سردار انتہائی بدفطرت اور خبیث تھا ،یہ خیبر سے چندرؤسا کو ساتھ لے کر مکہ گیا، یہ سب وہاں ابوسفیان سے ملے اور کہا: آپ مدینہ پر حملہ کریں، ہم آپ کا بھر پور ساتھ دیں گے، مسلمانوں کا خاتمہ ہو جائے گا، وہ لوگ اس پیشکش سے بہت خوش ہوئے، پھر یہ بنی غطفان کے رؤسا عیینہ بن حصین فزاری اور حارث بن عوف سے ملے اور ان سے قریش کے وعدے کا ذکر کیا، نیز انہیں خیبر کی کھجوروں کا۳/۱ دینے کا وعدہ کیا، وہ بھی تیار ہوگئے، یہ سب شمع اسلام کو گل کرنا چاہتے تھے بقول سعدی:
گرنہ بیند بروز شپرہ چشم
چشمہٴ آفتاب راچہ گناہ؟
ترجمہ:…”اگر چمگاڈر کی آنکھ دن میں سورج کو نہیں دیکھ سکتی تو اس میں سورج کے چشمے کا کیا قصور ہے؟،،۔
راست خواہی ہزار چشم چناں
کوربہ نہ آفتاب سیاہ
ترجمہ:…”سچ پوچھو تو ایسی ہزار آنکھوں کا اندھا ہوجانا اس سے بہتر ہے کہ سورج تاریک ہوجائے،،۔
حضور اکو خبر ہوئی تو آپ ا نے صحابہ کرام سے مشورہ کیا ،حضرت سلمان فارسی نے کہا: ہمارے ملک ایران میں تو دشمن کے حملے کی طرف سے خندق کھود دیتے ہیں کہ جو اس میں گرے ،نکل نہ سکے اور اتنی چوڑی ہو کہ اسے عبور نہ کیا جا سکے (سیدنا حضرت موسیٰ علیہ السلام کے زمانے میں ایران کے بادشاہ منو شہر بن ایرج نے سب سے پہلے خندق کھدوائی تھی، پھر باقی ممالک میں بھی اس کا رواج ہوگیا)
آپ ا نے خط کھینچ کر ۱۰،۱۰ صحابہ کرام کو ۴۰،۴۰ ہاتھ کھدائی کا حکم دیا ،یہ خندق شمال کی طرف ساڑھے تین میل لمبی کھودی گئی ، سخت سردی کا موسم تھا، کھانے کو بہت کم تھا ،مگر جذبہٴ ایمان تھا، یہ خندق چند روز میں تیار ہوگئی۔
اب عرب کی فوجیں آگئیں،قریش کا سپہ سالار ابو سفیان تھا اور بنی غطفان کے امرائے لشکر عیینہ اور حارث تھے، کل تعداد چوبیس ہزار تھی۔
اب فتنہ انگیز حیی، بنی قریظہ کے سردار کعب بن اسد کے پاس آیا کہ تم ہمارا ساتھ دو، تاکہ اسلام کی بیخ کنی کی جائے۔ کعب نے کہا:

”ویحک یا حیی انک امرؤ مشئوم وانی قد عاہدت محمدا فلیست بناقض ما بینی وبینہ ولم ارمنہ الا وفاء وصدقا ،،۔
ترجمہ:…”حیی! تجھ پر افسوس ہے تو ایک منحوس شخص ہے، میرا محمد سے معاہدہ ہے، میں اسے ہرگز نہیں توڑوں گا، آج تک میں نے ان میں ایفائے عہد اور سچائی کے بغیر کچھ نہیں دیکھا،،۔
عمرو بن سعد قرظی نے بھی کعب سے کہا:

”اذا لم تنصر فاترکہ وعدوہ،،۔
ترجمہ:…”کعب! اگر تو محمدا کی مدد نہیں کرسکتا تو ان کے دشمن کا ساتھ نہ دے، غیر جانبدار ہو جا، وہ جانیں اور ان کے دشمن،،۔
قوت نیکی نہ داری بدمکن
بروجود خود ستم بے حد مکن
ترجمہ:…”نیکی نہیں کرسکتا تو برائی تو نہ کر، اپنے آپ پر بے حساب ظلم نہ کر،،۔
مگر شیطان صفت حیی اسے کہتا رہا کہ مسلمانوں کے استیصال کا ایسا سنہری موقع پھر نہیں آئے گا ،آخر کار کعب نے مسلمانوں سے عہد توڑ دیا اور کفار کا ساتھ دینے کا وعدہ کرلیا ، سچ ہے:
رہا ٹیڑھا مثال نیش کژ دم
کبھی کج فہم کو سیدھا نہ پایا
درختیکہ تلخ است وے را سرشت
گرش در نشانی بہ باغ بہشت
سرانجام گوہر بکار آورد
ہماں میوہٴ تلخ بار آورد
زبدگو ہراں بد نباشد عجب
نشاید سترون سیاہی شب
حضور ا نے حضرت سعد بن معاذ، حضرت سعد بن عبادہ، حضرت عبد اللہ بن رواحہ کو بنی قریظہ کی طرف بھیجا کہ آیا وہ میثاق مدینہ کے تحت ہمارا ساتھ دیں گے یا نہیں؟یہ حضرات وہاں گئے تو انہوں نے کہا:

”من رسول اللّٰہ؟ لاعہد بیننا وبین محمد نقضوا العہد ومزقوا الصحیفة التی کان فیہا العقد،،۔
ترجمہ:…” رسول اللہ کون ہے؟ ہمارے اور محمد کے درمیان کوئی عہد وپیمان نہیں ہے، انہوں نے معاہدہ توڑدیا اور وہ ورق جس میں معاہدہ لکھا ہوا تھا ،پھاڑ دیا،،۔
[center]ہوا کے رخ پے چلتا ہے چراغِ آرزو اب تک
دلِ برباد میں اب بھی کسی کی یاد باقی ہے
[/center]

روابط: بلاگ|ویب سائیٹ|سکرائبڈ |ٹویٹر
اعجازالحسینی
مدیر
مدیر
Posts: 10960
Joined: Sat Oct 17, 2009 12:17 pm
جنس:: مرد
Location: اللہ کی زمین
Contact:

Re: سرور کونین ﷺ کے معاہدات !

Post by اعجازالحسینی »

حالات کی سنگینی کو دیکھ کر حضور ا نے بنی غطفان کے سرداروں عیینہ اور حارث کو بلاکر فرمایا: اگر تم اپنے لشکروں کو لے کر واپس چلے جاؤ تو ہم تمہیں مدینہ کی کھجوروں کا ۳/۱ حصہ دیں گے ،وہ رضا مند ہوگئے ،اب آپ نے حضرت سعد بن معاذ  رئیس اوس اور حضرت سعدبن عبادہ رئیس خزرج کو بلایا اور ان سے مشورہ کیا ،ان دونوں نے عرض کی کہ حضور!یہ خدا کا حکم ہے؟ یا آپ خود چاہتے ہیں کہ ایسا کیا جائے؟ فرمایا :نہ یہ خدا کا حکم ہے نہ میری خواہش ہے، بلکہ میں نے دیکھا کہ تمام عرب ہمارے خلاف متحد ہے، اگر بنی غطفان چلے جائیں تو ہمیں صرف قریش سے مقابلہ کرنا پڑے گا، اس طرح ہمارے لئے آسانی پیدا ہو جائے گی۔ دونوں نے عرض کیا: حضور! جب یہ اور ہم کفر پر تھے، اس وقت بھی یہ ہم سے جبراً ایک کھجور نہیں لے سکتے تھے، البتہ یہ ہمارے مہمان ہوتے یا خریدتے تو یہ اور بات تھی، اب خدا کا احسان ہے کہ ہم مسلمان ہیں، اسلام نے ہمیں قوت عطا کی ہے، ہم ان کے دباؤ میں کیوں آئیں،فیصلہ تلوار سے ہوگا۔
محاصرہ جاری تھا کہ اچانک نعیم بن مسعود  حضورا کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اسلام قبول کرلیا اور غرض کیا: میرے اسلام لانے کا کسی کو علم نہیں، آپ اجازت دیں تو میں قریش اور قریظہ میں پھوٹ ڈال دوں، آپ نے اجازت دے دی، ہر دو فریق ان پر مکمل بھروسہ رکھتے تھے، وہ نبی قریظہ کے پاس گئے اور کہا: میں تمہارے بھلے کے لئے ایک بات کہنا چاہتاہوں لیکن یہ راز ہے ،اسے افشا نہیں کرنا ،انہوں نے راز پوشیدہ رکھنے کا وعدہ کیا اور کہا فرمایئے! نعیم نے کہا :مجھے یہ اندیشہ ہے اگر اس جنگ میں قریش اور تم فتحیاب ہو جاؤ تو خیر لیکن بالفرض تم ناکام رہتے ہو تو قریش اورغطفان تو اپنے اپنے گھروں کو چلے جائیں گے اور تم اکیلے رہ جاؤگے تو مسلمان تمہیں کچل دیں گے ،انہوں نے پوچھا پھر کیا کریں؟ کہا قریش سے ۷۰ معززین گرامی لے لو، وہ ان کو چھوڑ کر نہیں جاسکیں گے ،۷۰ آدمی یرغمال بنانا بہت ضروری ہے، سب نے اسے مانا اور نعیم کی خیر خواہی کا شکریہ ادا کیا۔
پھر وہ قریش کے پاس گئے اور ان سے بھی یہ راز پوشید رکھنے کا وعدہ لے کر کہا: مجھے اطلاع ملی ہے کہ بنی قریظہ تمہارا ساتھ دینے سے پشیمان ہیں اور انہوں نے محمد کو پیغام بھیجا ہے کہ اگر ہم قریش کے ۷۰ سر بر آورہ اشخاص تمہارے حوالے کردیں اور آپ ان کو قتل کرادیں تو کیا آپ ہمیں معافی دے دیں گے اور محمد نے ان سے وعدہ کرلیا ہے ،لہذا میری رائے ہے کہ اگر بنی قریظہ تم سے ۷۰ آدمی بطور ضمانت مانگیں تو انہیں ہرگز نہ دینا، قریش نے نعیم کا شکریہ ادا کیااور کہا کہ ہم ایک آدمی بھی ان کو نہ دیں گے۔اگلے روز سپہ سالار اعظم ابوسفیان نے بنی قریظہ کو پیغام بھیجا کہ وقت ضائع ہورہا ہے تو ادھر سے حملہ کرو اور ہم ادھر سے حملہ کرتے ہیں ، بنی قریظہ نے جواباً کہا :ہمیں خطرہ ہے تم ہمیں تنہا چھوڑ کر چلے جاؤگے ،اس لئے قریش اور غطفان کے ۷۰ معززین ہمارے پاس گروی رکھو تب ہم حملہ کریں گے ۔ قریش کو یاد آیا، نعیم سچ کہتا تھا، انہوں نے کہا: ہم اپنا ایک آدمی بھی گروی نہ رکھیں گے، اب قریظہ اور قریش میں پھوٹ پڑ گئی اور ابو سفیان نے اعلان کیا کہ بنی قریظہ نے ہمارا ساتھ چھوڑ دیا ہے، موسم سرماکی شدت ہے ،تیز ہوانے ہمارے خیمے اکھاڑ دیئے ہیں، چلو کوچ کرو۔ یہ بدھ کا دن تھا ،ذو القعدہ کی ۲۳/تاریخ اور سن ۵/ہجری ۔خندق کے سبب دست بدست لڑائی نہ ہوسکی، بنی قریظہ نے ساتھ چھوڑ دیا ،تیز ہوانے کفار کو پریشان اور حواس باختہ کردیا۔ ۶/ مسلمان شہید ہوئے اور ۳/کافر مارے گئے ۔قرآن کریم میں ارشاد خداوندی ہے:

”ورد اللّٰہ الذین کفروا بغیظہم لم ینالوا خیرا، وکفی اللّٰہ المؤمنین القتال وکان اللّٰہ قویا عزیزا،،۔ (الاحزاب:۲۵)
ترجمہ:…”اور اللہ تعالیٰ نے کفار کو غصے کی حالت میں ہی لوٹا دیا، وہ کوئی فائدہ حاصل نہ کرسکے اور لڑائی میں مومنوں کو اللہ تعالیٰ ہی کافی ہوا اور اللہ تعالیٰ قوت والا غلبہ والا ہے،،۔
اسی تاریخ کو حضور ا نے بنی قریظہ پر حملہ کرنے کا حکم دیا، یہ مدینہ سے ۶/میل کے فاصلے پر تھے ،وہ قلعہ بند ہو گئے، مسلمانوں نے محاصرہ کر لیا جو ۲۵/ روز رہا ،دوران محاصرہ ایک رات ان کے سردار کعب بن اسد نے انہیں جمع کیا اور کہا: میرے متعلق تمہاری کیا رائے ہے؟سب نے کہا آپ ہمارے سردار ہیں اور دانا شخص ہیں ،آپ کا فیصلہ ہمیشہ درست ہوتا ہے، کعب نے کہا میں تمہارے سامنے تین صورتیں پیش کرتا ہوں، ان میں سے کوئی ایک قبول کرلو، سب نے کہا فرمایئے! کعب نے کہا، پہلی صورت یہ ہے ہم سب خوب جانتے ہیں کہ محمد االلہ کے رسول ہیں ،ہماری کتابیں ان کی نبوت کی گواہ ہیں، اس لئے ان سے لڑنے کا کیا فائدہ! آؤ ہم سب آپ ا پر ایمان لے آئیں، اس سے ہماری جانیں، اہل وعیال اور مال محفوظ ہوجائیں گے۔ یہود نے کہا :ہم ایمان تو کسی صورت میں بھی نہیں لائیں گے (ضد کا کوئی علاج نہیں ہوا) کعب نے کہا: دوسری تجویز یہ ہے کہ اپنے اپنے بیوی بچوں کو قتل کردواور مسلح ہوکر میدان میں جاؤ، مسلمانوں سے جنگ کرو ،اگر تم کامیاب ہوگئے تو پھر بیویاں لے لینا اور ان سے اولاد یں بھی ہوجائیں گی اور اگر مارے گئے تو تمہیں فکر نہ ہوگی کہ اب ہمارے بیوی بچوں سے کیا سلوک کیا جائے گا۔ انہوں نے جواب دیا: ہم بے قصور بیوی بچوں کو قتل نہیں کرسکتے ،کعب نے کہا: تیسری صورت یہ ہے کہ آج ہفتہ کی رات ہے، مسلمان جانتے ہیں کہ ہفتہ یہود کا مقدس دن ہے، وہ اس روز حملہ نہیں کر سکتے، اس لئے وہ بے فکر ہوکر سوئے ہوئے ہیں ،تم اس تقدس کو ایک طرف رکھ دو اور مسلمانوں پر ان کی بے خبری کی حالت میں حملہ کردو، ممکن ہے اس طرح تم کامیاب ہوجاؤ ،انہوں نے کہا کعب! ہمارے آباؤ واجداد نے ہفتے کے تقدس کو پامال کیا تھا تو اللہ تعالیٰ نے انہیں سور اور بندر بنادیا تھا، اب تم ہمیں اس تقدس کو پامال کرنے کا مشورہ دے رہے ہو؟کعب نے کہا تم میں قوت فیصلہ ہی نہیں۔ ۲۵/روز تک محاصرہ جاری رہا ،آخر کار وہ قلعوں سے نیچے اتارے گئے ،قبیلہ اوس ان کا حلیف تھا، انہوں نے ان کی جان بخشی کی سفارش کی تو آپ انے فرمایا :اگر تمہارا ہی کوئی شخص فیصلہ کرے توتم راضی ہو؟ اوس نے کہا :ہمارے سردار سعد بن معاذ جو فیصلہ کریں ،ہمیں منظور ہے ۔مسجد نبوی کے قریب رفیدہ نے زخموں کی مرہم پٹی کرنے کا خیمہ لگارکھا تھا،حضرت سعد زخمی تھے اور رفیدہ کے زیر علاج تھے، حضور ا نے انہیں بلابھیجا ،وہ تکلیف کی حالت ہی میں حاضر ہوئے، آپ ا نے انہیں بنی قریظہ کا فیصلہ کرنے کا ارشاد فرمایا: انہوں نے فیصلہ سنایا کہ:جنگجو مرد قتل کئے جائیں ،عورتیں اور بچے قید کئے جائیں ،ان کے مال مسلمانوں پر تقسیم کئے جائیں۔ حضورانے فرمایا :تمہارا فیصلہ حکم خداوندی کے مطابق ہے،اورتوراةمیں آج بھی یہ فیصلہ موجود ہے:
”اور تو سب مردوں کو تلوار کی دھارے قتل کر مگر عورتیں اور بچے اور چوپائے اور اس شہر سب لوٹ کر اپنے لئے اور دشمنوں کی تمام غنیمت کو کھا جا جو خداوند تیرے خدا نے تجھے دی ہے،،۔ (کلام مقدس :۲۳ عہد عتیق )
”تو جیسا خداوند نے فرمایا انہوں نے مدیان سے لڑائی کی اور سب مردوں کو قتل کیا اور بنی اسرائیل نے مدیان کی عورتوں اور بچوں کو قید کیا اور ان کے سب مواشی اور بھیڑ بکری اور مال اسباب لوٹ لیا،، ۔ (کلام مقدس ص:۱۹۸ عہدنامہ عتیق)
حضرت سعد بن معاذ کے فیصلے بلکہ سروردو عالم ا بلکہ اللہ رب العزت کے حکم کے تحت ۶۰۰/ مرد قتل کئے گئے، عورتوں اور بچوں کو نجد اور شام لے جاکر فروخت کیا گیا اور اس رقم سے گھوڑے اور ہتھیار خریدے گئے، مال غنیمت مسلمانوں میں تقسیم کردیا گیا ،صرف ایک عورت نباتہ کو قصاص میں قتل کیا گیا، کیونکہ اس نے قلعہ سے چکی کا پاٹ گرا کر خلاد بن سوید کو شہید کیا تھا، تھوڑی دیر پہلے یہ حضرت عائشہ سے ہنسی خوشی سے باتیں کررہی تھی کہ اس کا نام پکارا گیا، یہ اٹھ کر جانے لگی تو حضرت عائشہ صدیقہ نے پوچھا کہاں؟ کہا: میں نے ایک جرم کیا تھا ،اس کی پاداش میں قتل ہونے جارہی ہوں ،ام المؤمنین اس کی موت سے بیخوفی پر حیران رہ گئیں۔ایک بہت بوڑھا، نابینا یہودی زبیر بھی قیدی تھا، اس نے حضرت ثابت بن قیس پر جنگ بعاث میں یہ احسان کیا تھا کہ انہیں قتل ہونے سے بچایا تھا، اس سے حسب ذیل گفتگو ہوئی ۔
ثابت: کیا تم نے مجھے پہچانا ہے؟
زبیر: تمہیں میں کیسے بھلا سکتا ہوں؟
ثابت: میں تمہیں تمہارے احسان کا بدلہ دینا چاہتاہوں۔
زبیر: ہاں شریف لوگ ایسا ہی کرتے ہیں۔
ثابت حضورا کے پاس گئے اور اسے آزاد فرمانے کی عرض کی تو آپ نے زبیر کو رہائی دے دی،حضرت ثابت نے جاکر بتایا کہ تم آزاد ہو، زبیر نے کہا :میرے بیوی بچے آزادنہ ہوں تو میں نے جی کر کیا لینا ہے؟ ثابت دوبارہ حضورا کے پاس گئے اور اس کی بیوی کی رہائی کا پروانہ بھی لے کر آئے، آکر اس کوبتایا تو اس نے کہا: جب ہمارے پاس مال نہ ہوگاتو ہم زندگی کیسے گزاریں گے؟ ثابت تیسری بار حضورا کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اسے مال واپس دینے کی اجازت دلائی اور اسے جاکر بتایا کہ تم، تمہارے بیوی بچے آزاد ہیں اور تمہارا مال بھی تمہیں واپس ملے گا، اب تو خوش ہو؟ اس نے پوچھا کعب بن اسد کا کیا بنا، جس کے خوبصورت چہرے کو قبیلے کی دوشیزائیں دیکھتی تھیں، کہا وہ قتل ہوگیا ہے، زبیر نے پھر پوچھا :دیہات اور شہر کے سردار حیی بن اخطب کا کیا بنا؟ کہا وہ بھی قتل ہوگیا پھرپوچھا :ہمارے قائد عزال بن شموأل کا کیا بنا؟ کہا وہ بھی قتل ہوگیا ہے،اس نے کہا کعب اور عمرو کے بیٹوں کا کیا ہوا ؟ کہا وہ بھی قتل ہوچکے ہیں، زبیر نے کہا: ثابت! میرا تم پر جو احسان ہے اس کے بدلے میں مجھے فوراً قتل کرادو ،میں دنیا میں اتنا وقت بھی نہیں رہنا چاہتا جتنے میں پانی سے بھرا ہوا ڈول خالی کیا جاتا ہے، میں اپنے دوستوں سے ملوں گا، چنانچہ اس کی گردن اڑادی گئی۔حضرت ابوبکر صدیق نے جب ا سکا یہ قول سنا کہ ”القی الاحبة،، میں دوستوں سے ملوں گا تو فرمایا ”یلقاہم واللّٰہ فی نار جہنم خالدا فیہا مخلدا،،۔(خدا کی قسم وہ انہیں ہمیشہ کے لئے دوزخ کی آگ میں ملے گا)
[center]ہوا کے رخ پے چلتا ہے چراغِ آرزو اب تک
دلِ برباد میں اب بھی کسی کی یاد باقی ہے
[/center]

روابط: بلاگ|ویب سائیٹ|سکرائبڈ |ٹویٹر
Post Reply

Return to “سیرت سرورِ کائنات”