سانسوں کی مالا
Posted: Thu Jul 24, 2008 6:03 pm
[center]سانسوں کی مالا[/center]
گھرتو کیا اس نے خودکوہی بھلا دیا تھا۔سڑکوں کی فٹ پاتھوں پر رات سے دن کرنا اور بیزاری کانمونہ بنے بے وجہ گلیاں چھانتے پھرنا اس کا معمول تھا۔ ۔ ۔ جاڑے کی سرد راتوں میں کسی دکان کے چھجے تلے ، کانپتے ، ہانپتے بے طرح کے سود و زیاں کے شمار میں یوں مصروف رہتا، گویا اب ا س کی تدبیریں کارگرثابت ہوں گی۔ ۔ ۔ اور وہ زندگی کے دھارے میں پھر سے شامل ہوجائے گا۔
تکیہ اصحاب باباکے وسیع دالان میں صدیوں کی سزا کاٹتے بوڑھے پیپل کے کشادہ تنے سے پشت ٹکائے گھنٹہ بھر سے بیٹھے زمین کے سینے پرکڑھائی کر تے کر تے اس کی انگلیاں اچانک رک گئیں ۔ ۔ ۔ لگاجیسے لمحوں کی سسکیاں سنتے سنتے وہ خود بھی رو دیا ہو۔ خود رو جھاڑیوں کی طرح بڑھی ہوئی اس کی ڈاڑھی اور مونچھوں کے بیچوں بیچ نسبتاًسیاہی مائل ہونٹ لرز نے لگے ۔ ۔ ۔ اور پل جھپکے کی ساعت میں اکھیوں کی برسات نے خودروجھاڑیوں کو سیراب کر دیا۔ایک ہچکی سی بندھ گئی ۔ ۔ ۔ یوں جیسے بادل گرج رہے ہوں ۔
بابا اصحاب کی گزوں کو محیط قبرکے سرہانے بنے ہوئے طاقچوں میں روشن دیے دھمال ڈالنے لگے ، پیپل کے پتوں نے ہوا سے تال ملاتے ہوئے ماحول کی نغمگی میں مزید اضافہ کر دیا تھا۔ تب کسی طرح سے فیقے کی نظراس پرآن تھمی۔وہ یک بارگی اس کی طرف لپکا ۔ بے دھیانی پاؤں کی زنجیرہوئی اور وہ ایک جھٹکے سے اوندھے منہ زمین پرآرہا۔ ۔ ۔ رانا ہوٹل سے لائے گئے آلوؤں کے سالن نے اصحاب باباکے دالان کے حسن کو چار چاند لگا دیے ۔ مٹی کی ساختہ کشکول نماپلیٹ، دردسینے میں اُتار کر تین ٹکڑوں میں بٹ گئی، صوفی کی تندوری روٹیوں پرخارش زدہ کتیابے دھڑک جھپٹ پڑی تھی۔ادھرفیقے کی کر اہیں بھی موجی سائیں کے ہچکیوں میں مدغم ہو گئیں ۔
موجی سائیں لگ بھگ تین برس پہلے اس شہر میں وارد ہوا ۔ ۔ ۔ اور اصحاب باباکا تکیہ نشیں بنا۔جس قدراصحاب باباکے مزارکاصحن وسیع ہے اس سے کہیں زیادہ باباکادل کشادہ ہے ۔جوکوئی بھی مہمان ہوا۔ ۔ ۔ آخر کو میزبانی سے شرف یاب رہا، گویامالک ٹھہر گیا۔ اصحاب باباکے حوالے سے دوطرح کی باتیں مشہور ہیں ۔کہا جاتا ہے کہ اشاعت دین کے سلسلہ میں کوئی صحابی رسولؐ یہاں آ رُکے تھے یہ انھیں کامزارہے ۔ ۔ ۔ جبکہ دوسری رائے یہ ہے کہ بابا موصوف کانام صحاب یا اصحاب تھا۔اصل حال سے کوئی واقف نہیں ۔
٭٭٭
مجیب اپنے والدین کی اکلوتی اولادہونے کی وجہ سے انتہائی حساس واقع ہوا تھا۔ اسے بچپن ہی سے دینی ودنیاوی علوم حاصل کر نے کاشوق رہا تھا ۔ صبح کا آغازنمازفجر سے کر تا، نماز کی ادائیگی کے بعدمسجد میں ہی تلاوت کلام پاک کر تا اور باقاعدگی کے ساتھ مولوی صاحب سے تفیسرپڑھتا۔کالج بھی تسلسل سے جاتا اور کوئی ایک ’’پیریڈ‘‘ بھی ’’مس‘‘ نہ کر تا۔اِدھرتفسیر قرآن مکمل کی تو اُدھرMscبھی شان دارنمبروں سے پاس کر لی۔ اس کے والدین اسے دیکھ دیکھ کر جیتے ۔ ۔ ۔ گویا ان کے سانسوں کی ڈوری مجیب کے ہاتھ ہو۔
حسب معمول شہتوت کاگھنادرخت اپنی بانہیں پھیلائے اس کامنتظرتھا۔اس کی میٹھی، مسحور کر دینے وا لی چھاؤں ہمیشہ اس کے اعصاب جکڑ لیتی ۔ یہیں ۔ ۔ ۔ اسی لذت آمیز سایے میں بیٹھ کر وہ علینہ کی راہ تکا کر تا۔ ۔ ۔ اور جب وہ کھیتوں کی پگ ڈنڈیوں پرایک ادا سے سنبھل کر چلا کر تی تو مجیب اس سارے منظر کو اپنی آنکھوں میں قید کر لیتا۔ اور پھراس خوش کن جادوئی کیفیت کا اسیرہو جاتا۔
مگر۔ ۔ ۔ آج شہتوت کی میٹھی چھاؤں بھی اس کے اضطراب میں کمی نہ کر سکی تھی۔کوئی پل تھا ، جو اسے چین لینے دیتا؟لمحے صدیوں کو محیط، وہ بے کل اور بے قرار۔ ۔ ۔ علینہ دُور سے آتی دکھائی دی تو وہ رات بھرکے سوچے ہوئے محبت آمیزلفظوں کو دُہرانے لگا۔جوں جوں وہ قریب آتی گئی ، مجیب کی حالت سنبھالے نہ سنبھلتی۔پورے وجود پرگویاکپکپی طاری ہو گئی ۔ شب بھرکے سوچے ہوئے تمام لفظ گونگے ہو گئے ۔کسی اَن دیکھی طاقت نے اسے خوف زدہ کر دیا تھا ۔ اتنا کہ کھڑا رہنا اس کے لیے مشکل ہو گیا۔اس قدرکم زورتو وہ کبھی نہیں تھا ۔ ساری قوتیں جمع کر کے اس نے علینہ کو روک ہی لیا۔
’’علینہ۔ ۔ ۔ اپناقُرب دے دو، ورنہ میں مر جاؤں گا‘‘
لرزتی زبان اور کپکپاتے ہونٹوں سے سرکنے والے الفاظ فضا میں تحلیل ہو گئے ۔زمین میں گڑی ہوئی نظریں علینہ کے سامنے کہاں اُٹھ پائی تھیں ۔ ۔ ۔ اس وقت بھی نہیں جب علینہ نے کہا تھا
’’مجیب!میں کب سے منتظر و مضطرب تھی، جانتے ہو ایک ایک پل کانٹوں پے گزرا ہے میرا‘‘
علینہ یہی کہہ پائی تھی کہ مائی شمّوکی آواز نے دونوں کو چونکا دیا۔
٭٭٭
علینہ اس کے اپنے ہی گاؤں کی تھی، مقامی اسکول میں بچوں کو پڑھاتی۔ ۔ ۔ کس سلیقے سے فرشتوں نے اسے سنوارا تھا۔ مصور ازل کی تمام تر عنایتوں اور مہربانیوں نے اسے شاہ کاربنا دیا تھا۔ گاؤں کاگاؤں ہی تو اس کامتمنی تھا۔کون تھا ایساجو اس نوبہارِ ناز کا اسیر نہیں تھا۔بولتے نقوش، کھنکتی، مسکر اتی آواز۔ ۔ ۔ مجیب سے لوگ بھی جو پاگل ہوتے ہیں ۔ ۔ ۔ تو ایسے ہی نہیں ۔
’’مجیب !کس قدرچاہتے ہومجھے ؟‘‘
علینہ نے اس سے پوچھا ۔ ۔ ۔ اور پھرمجیب نے اس کاہاتھ اپنے ہاتھ میں لیتے ہوئے کہا تھا
’’بھلایہ کیاسوال ہوا۔ ۔ ۔ خودسے کوئی کتنی محبت کر تا ہے ؟ میں تمھیں خودسے الگ تھوڑی سمجھتا ہوں ۔تیری محبت میری شریانوں میں خون کی طرح دوڑرہی ہے ۔ میری سانسوں کا اعتبار تم سے ہے ‘‘
علینہ اس کے جواب پرخوشی سے نہال ہو گئی تھی۔ ۔ ۔ وقت نے رُکناکہاں سیکھا ہے ، جو وہ مجیب اور علینہ کا انتظار کر تا۔بس سبک رفتاری سے گزرتاہی رہا۔
وہ رات مجیب پربہت بھاری تھی۔فیصلہ کرنا اس کے لئے ناممکن تھا۔ایک طرف اپنے اور علینہ کے والدین کی عزت کا سوال تھا، تو دوسری طرف سانسوں کی مالاکے بکھرنے کا خدشہ۔ علینہ اس کے لیے گھرتو کیازندگی چھوڑنے کو تیارتھی۔اس نے دردمندی سے ہی سہی فیصلہ تو سنا دیا تھا
گھرتو کیا اس نے خودکوہی بھلا دیا تھا۔سڑکوں کی فٹ پاتھوں پر رات سے دن کرنا اور بیزاری کانمونہ بنے بے وجہ گلیاں چھانتے پھرنا اس کا معمول تھا۔ ۔ ۔ جاڑے کی سرد راتوں میں کسی دکان کے چھجے تلے ، کانپتے ، ہانپتے بے طرح کے سود و زیاں کے شمار میں یوں مصروف رہتا، گویا اب ا س کی تدبیریں کارگرثابت ہوں گی۔ ۔ ۔ اور وہ زندگی کے دھارے میں پھر سے شامل ہوجائے گا۔
تکیہ اصحاب باباکے وسیع دالان میں صدیوں کی سزا کاٹتے بوڑھے پیپل کے کشادہ تنے سے پشت ٹکائے گھنٹہ بھر سے بیٹھے زمین کے سینے پرکڑھائی کر تے کر تے اس کی انگلیاں اچانک رک گئیں ۔ ۔ ۔ لگاجیسے لمحوں کی سسکیاں سنتے سنتے وہ خود بھی رو دیا ہو۔ خود رو جھاڑیوں کی طرح بڑھی ہوئی اس کی ڈاڑھی اور مونچھوں کے بیچوں بیچ نسبتاًسیاہی مائل ہونٹ لرز نے لگے ۔ ۔ ۔ اور پل جھپکے کی ساعت میں اکھیوں کی برسات نے خودروجھاڑیوں کو سیراب کر دیا۔ایک ہچکی سی بندھ گئی ۔ ۔ ۔ یوں جیسے بادل گرج رہے ہوں ۔
بابا اصحاب کی گزوں کو محیط قبرکے سرہانے بنے ہوئے طاقچوں میں روشن دیے دھمال ڈالنے لگے ، پیپل کے پتوں نے ہوا سے تال ملاتے ہوئے ماحول کی نغمگی میں مزید اضافہ کر دیا تھا۔ تب کسی طرح سے فیقے کی نظراس پرآن تھمی۔وہ یک بارگی اس کی طرف لپکا ۔ بے دھیانی پاؤں کی زنجیرہوئی اور وہ ایک جھٹکے سے اوندھے منہ زمین پرآرہا۔ ۔ ۔ رانا ہوٹل سے لائے گئے آلوؤں کے سالن نے اصحاب باباکے دالان کے حسن کو چار چاند لگا دیے ۔ مٹی کی ساختہ کشکول نماپلیٹ، دردسینے میں اُتار کر تین ٹکڑوں میں بٹ گئی، صوفی کی تندوری روٹیوں پرخارش زدہ کتیابے دھڑک جھپٹ پڑی تھی۔ادھرفیقے کی کر اہیں بھی موجی سائیں کے ہچکیوں میں مدغم ہو گئیں ۔
موجی سائیں لگ بھگ تین برس پہلے اس شہر میں وارد ہوا ۔ ۔ ۔ اور اصحاب باباکا تکیہ نشیں بنا۔جس قدراصحاب باباکے مزارکاصحن وسیع ہے اس سے کہیں زیادہ باباکادل کشادہ ہے ۔جوکوئی بھی مہمان ہوا۔ ۔ ۔ آخر کو میزبانی سے شرف یاب رہا، گویامالک ٹھہر گیا۔ اصحاب باباکے حوالے سے دوطرح کی باتیں مشہور ہیں ۔کہا جاتا ہے کہ اشاعت دین کے سلسلہ میں کوئی صحابی رسولؐ یہاں آ رُکے تھے یہ انھیں کامزارہے ۔ ۔ ۔ جبکہ دوسری رائے یہ ہے کہ بابا موصوف کانام صحاب یا اصحاب تھا۔اصل حال سے کوئی واقف نہیں ۔
٭٭٭
مجیب اپنے والدین کی اکلوتی اولادہونے کی وجہ سے انتہائی حساس واقع ہوا تھا۔ اسے بچپن ہی سے دینی ودنیاوی علوم حاصل کر نے کاشوق رہا تھا ۔ صبح کا آغازنمازفجر سے کر تا، نماز کی ادائیگی کے بعدمسجد میں ہی تلاوت کلام پاک کر تا اور باقاعدگی کے ساتھ مولوی صاحب سے تفیسرپڑھتا۔کالج بھی تسلسل سے جاتا اور کوئی ایک ’’پیریڈ‘‘ بھی ’’مس‘‘ نہ کر تا۔اِدھرتفسیر قرآن مکمل کی تو اُدھرMscبھی شان دارنمبروں سے پاس کر لی۔ اس کے والدین اسے دیکھ دیکھ کر جیتے ۔ ۔ ۔ گویا ان کے سانسوں کی ڈوری مجیب کے ہاتھ ہو۔
حسب معمول شہتوت کاگھنادرخت اپنی بانہیں پھیلائے اس کامنتظرتھا۔اس کی میٹھی، مسحور کر دینے وا لی چھاؤں ہمیشہ اس کے اعصاب جکڑ لیتی ۔ یہیں ۔ ۔ ۔ اسی لذت آمیز سایے میں بیٹھ کر وہ علینہ کی راہ تکا کر تا۔ ۔ ۔ اور جب وہ کھیتوں کی پگ ڈنڈیوں پرایک ادا سے سنبھل کر چلا کر تی تو مجیب اس سارے منظر کو اپنی آنکھوں میں قید کر لیتا۔ اور پھراس خوش کن جادوئی کیفیت کا اسیرہو جاتا۔
مگر۔ ۔ ۔ آج شہتوت کی میٹھی چھاؤں بھی اس کے اضطراب میں کمی نہ کر سکی تھی۔کوئی پل تھا ، جو اسے چین لینے دیتا؟لمحے صدیوں کو محیط، وہ بے کل اور بے قرار۔ ۔ ۔ علینہ دُور سے آتی دکھائی دی تو وہ رات بھرکے سوچے ہوئے محبت آمیزلفظوں کو دُہرانے لگا۔جوں جوں وہ قریب آتی گئی ، مجیب کی حالت سنبھالے نہ سنبھلتی۔پورے وجود پرگویاکپکپی طاری ہو گئی ۔ شب بھرکے سوچے ہوئے تمام لفظ گونگے ہو گئے ۔کسی اَن دیکھی طاقت نے اسے خوف زدہ کر دیا تھا ۔ اتنا کہ کھڑا رہنا اس کے لیے مشکل ہو گیا۔اس قدرکم زورتو وہ کبھی نہیں تھا ۔ ساری قوتیں جمع کر کے اس نے علینہ کو روک ہی لیا۔
’’علینہ۔ ۔ ۔ اپناقُرب دے دو، ورنہ میں مر جاؤں گا‘‘
لرزتی زبان اور کپکپاتے ہونٹوں سے سرکنے والے الفاظ فضا میں تحلیل ہو گئے ۔زمین میں گڑی ہوئی نظریں علینہ کے سامنے کہاں اُٹھ پائی تھیں ۔ ۔ ۔ اس وقت بھی نہیں جب علینہ نے کہا تھا
’’مجیب!میں کب سے منتظر و مضطرب تھی، جانتے ہو ایک ایک پل کانٹوں پے گزرا ہے میرا‘‘
علینہ یہی کہہ پائی تھی کہ مائی شمّوکی آواز نے دونوں کو چونکا دیا۔
٭٭٭
علینہ اس کے اپنے ہی گاؤں کی تھی، مقامی اسکول میں بچوں کو پڑھاتی۔ ۔ ۔ کس سلیقے سے فرشتوں نے اسے سنوارا تھا۔ مصور ازل کی تمام تر عنایتوں اور مہربانیوں نے اسے شاہ کاربنا دیا تھا۔ گاؤں کاگاؤں ہی تو اس کامتمنی تھا۔کون تھا ایساجو اس نوبہارِ ناز کا اسیر نہیں تھا۔بولتے نقوش، کھنکتی، مسکر اتی آواز۔ ۔ ۔ مجیب سے لوگ بھی جو پاگل ہوتے ہیں ۔ ۔ ۔ تو ایسے ہی نہیں ۔
’’مجیب !کس قدرچاہتے ہومجھے ؟‘‘
علینہ نے اس سے پوچھا ۔ ۔ ۔ اور پھرمجیب نے اس کاہاتھ اپنے ہاتھ میں لیتے ہوئے کہا تھا
’’بھلایہ کیاسوال ہوا۔ ۔ ۔ خودسے کوئی کتنی محبت کر تا ہے ؟ میں تمھیں خودسے الگ تھوڑی سمجھتا ہوں ۔تیری محبت میری شریانوں میں خون کی طرح دوڑرہی ہے ۔ میری سانسوں کا اعتبار تم سے ہے ‘‘
علینہ اس کے جواب پرخوشی سے نہال ہو گئی تھی۔ ۔ ۔ وقت نے رُکناکہاں سیکھا ہے ، جو وہ مجیب اور علینہ کا انتظار کر تا۔بس سبک رفتاری سے گزرتاہی رہا۔
وہ رات مجیب پربہت بھاری تھی۔فیصلہ کرنا اس کے لئے ناممکن تھا۔ایک طرف اپنے اور علینہ کے والدین کی عزت کا سوال تھا، تو دوسری طرف سانسوں کی مالاکے بکھرنے کا خدشہ۔ علینہ اس کے لیے گھرتو کیازندگی چھوڑنے کو تیارتھی۔اس نے دردمندی سے ہی سہی فیصلہ تو سنا دیا تھا