بابا کا آخری جھوٹ ۔۔۔۔۔۔ ڈاکٹر محمد اعظم رضا تبسم

اگر آپ کالم لکھنا چاہتے ہیں یا لکھتے ہیں تو اپنی نوکِ قلم کے شہکار یہاں شئیر کریں
Post Reply
User avatar
چاند بابو
منتظم اعلٰی
منتظم اعلٰی
Posts: 22224
Joined: Mon Feb 25, 2008 3:46 pm
جنس:: مرد
Location: بوریوالا
Contact:

بابا کا آخری جھوٹ ۔۔۔۔۔۔ ڈاکٹر محمد اعظم رضا تبسم

Post by چاند بابو »

ڈاکٹر محمد اعظم رضا تبسم کی عورت کی زندگی پر تلخ حقائق سے بھرپور مگر زندگی جینے کا سلیقہ بتاتی تحریر۔

[align=center]Image[/align]

ایک رات مجھے دو بجے کے قریب ایک کال آئی ۔انکل آپ ڈاکٹر تبسم ہیں ۔جی بیٹا ۔ انکل ایک بات پوچھنی ہے جی جی پوچھیں بیٹا۔انکل میرے پاپا مجھ سے ذرا پیار نہیں کرتے ۔وہ ماما کو بھی بہت مارتے ہیں کہتے ہیں اور گالیاں بھی دیتے ہیں ۔ یہ آواز کچھ زیادہ نہیں سات سال کی یا آٹھ سال کی بچی کی تھی ۔میرا دل کانپ اٹھا۔ کیوں بیٹا کیا وجہ ہےمیں نے فوری سوال کیا تو وہ رونے لگی اور کہنے لگی انکل بابا کو بھائی چاہیے تھا اور میں پیدا ہو گئی ۔ بابا نے ماما کو ایک دفعہ بالوں سے پکڑ کر بھی مارا تھا ۔ ادھر اس بچی کی روتے روتے ہچکی بندھ گئی اور کال بھی کٹ گئی ۔یہ بات سن کر میرے جسم پہ کپکپی طاری ہوگئی ۔ رات بھر نیند نہ آئی اور دوبارہ کال اس خوف سے نا ملائی کہ جس ظالم کے ظلم کی داستان رات گئے اسی کی معصوم بیٹی چھپ کر سنا رہی ہے وہ کال جانے پرناجانے مزید کتنا طوفان بدتمیزی برپا کرے گا ۔ مجھے آج بھی یاد ہے کہ جب میری بہنوں کی رخصتی ہو رہی تھی تو میں نے اماں ابا دونوں کو پھوٹ پھوٹ روتے دیکھا اور یہ کہتے بھی سنا بیٹا آج تم اپنے گھر جا رہی ہو آج سے وہی تمھارا گھر ہو گا ۔ پھر ایک دو اور شادیوں میں مجھے شرکت کا موقع ملا تو میں نے رخصتی کے ان لمحات کو بہت قریب سے دیکھا اور سنا کہ بیٹا اپننے گھر کی عزت بنانا اسے مزید خوبصورت بابرکت بنانا۔مگر جب ایسی کالز اور فون موصول ہوتے ہیں ۔واقعات دیکھتا ہوں تو دل چیخ چیخ کر کہنے لگتا ہے وہ جملہ جملہ نہیں بلکہ ہر بیٹی کے لیے اس کے بابا کا اآخری جھوٹ ہے ۔ مجھے یہ جملہ لکھتے ہوئے ذرا شرم اور جھجک نہیں ۔ کیونکہ ہم اس معاشرہ سے ہیں جس میں دولہن کی عزت چار دن کی ہوتی ہے ۔ جب مرد کی ہوس کا بھوت اتر جاتا ہے وہ عورت پر ظلم و ستم کی ایک داستان رقم کر دیتا ہے ۔ کچھ تو عورت ہی عورت کو برداشت نہیں کرتی ۔ کچھ شوہر کا خاندان اور ان کی ریا کاری پر مشتمل رسوم عزت دینے کے آڑے آ جاتی ہیں ۔ کچھ گھروں میں عورتیں سارے گھر کی نوکرانی سمجھی جاتی ہیں ۔اور یہ جملے سننے کو ملتے ہیں ۔ لو دیکھو بڑی نواب زادی آئی گھر کے کام تمھارا باپ کرے گا ۔ تمھیں بیٹھ کر کھانے کے لیے نہیں لائے ہم ۔ جس دن سے منحوس نے گھر میں قدم رکھا ہے پتہ نہیں ہمارے نصیبوں نے ہم سے منہ موڑ لیا ہے .کیا یہ وہ گھر تھا جس کا بابا نے کہا تھا کیا یہ میرا گھر ہے یہ تو مجھے اپنا کیا تسلیم کریں گے انسان تک ماننے کو.تیار نہیں ۔ میں ڈاکٹر محمد اعظم رضا تبسم یہ تحریر کوئی خوشی سے نہیں لکھ رہا ۔اس موضوع پر لکھتے ہوئے میں اور میرا دل دونوں رو رہے ہیں۔ پتہ ہے کیوں ؟ کیوں کہ ہم نے اسلام کوصرف اورصرف دوسروں پر نافذ کرنے کے لیے بچا رکھا ہے اور اسلام بھی خود ساختہ ۔ بھائی بہن اورماں باپ کی عزت کا حکم دیا گیا ہے خدمت کا نہیں ۔ خدمت آپ پر لازم ہے آپ کی بیوی پر نہیں ۔ یہ اسلامی قانون بھی ہے اور اسلامی فقہ بھی ۔ ہماری بیٹی جس گھر میں جائے وہ گھر اچھا ہو دوسروں کی بیٹی ہمارے گھر میں آئے تو نوکرانی بن کر رہے ۔ ارے بہنوں کا اپنا مقام ہے ۔ان سے ضرور پیار کریں مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ آپ اپنی بیوی کے حقوق کاٹ کر سارے خاندان کو راضی کرنے لگیں ۔ شوہروں کے نام یہ جملہ کہ ماں اور بیوی کو ایک ترازو میں نہیں تولتے ۔ اگر شام پہنچے آپ کی بیوی آپ کو کھانا دے رہی ہے آپ کو اگلے دن کے صاف کپڑے مل رہے ہیں تمھاری اولاد کا سکول تعلیم کھانا پینا دیکھ رہی ہے تو یہ کافی ہے وہ انسان ہے اس قدر کاموں کے بدلے میں کیا لے رہی ہے محبت کے دو بول مگر جب شام گھر پہنچنے پر ماں جی اور بہنوں کے الفاظ پر اندھا یقین کرو گے توگھر کا ماحول خراب تر نہیں خراب ترین ہو جائے گا۔ خدا رہ عورت کو اتنا پیار دو کہ وہ اس گھر کو اپنا گھر سمجھے ۔ اسے یہ نا محسوس ہو کہ میری بابا نے وقت رخصتی مجھ سے آخری جھوٹ بولا تھا ۔
ڈاکٹر محمد اعظم رضا تبسم کی والدین سے بھی گزارش ہے کہ بیٹی کی شادی کسی انسان سے کریں دولت کاروبار گھر گاڑی بنگلہ سے نہیں ۔شادی سے پہلے مکمل تحقیق کریں ۔دولت سے اچھی زندگی نہیں گزرتی عقل سمجھ اور شرافت سے گزرتی ہے اور شادیاں روز روز نہیں ہوا کرتی لہذا کسی لالچ میں آنے کی بجائے اپنی برابری اور تعلیم کو ترجیح دیں ۔ڈاکٹر محمد اعظم رضا تبسم کے اس مضمون کو جو عورتیں پڑھ رہی ہیں ان سے بھی درخواست ہے عورت کو عزت دو اگر آپ ہی ایک دوسرے کو عزت نہیں دو گی تو مرد کیسے آپ کی عزت کرے گا ۔ ایک خاتون نے اپنے بیٹے کو کہا کہ اپنی بیوی کا جھوٹا نا کھایا کرو نہیں تو کمزور ہو جاو گے ۔ کیونکہ عورت منحوس ہے جب مجھ تک یہ بات پہنچی تو میں نے اس عورت سے کہا آپ اپنی ساس سے کہیں پھر تو آپ بھی عورت ہیں اس گھر میں آپ بڑی منحوس اور میں چھوٹی منحوس۔
میں نے اپنی کتاب حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالی عنھا میں لکھا ہے کہ میاں بیوی میں اس قدر اعتماد ہونا چاہیے ۔اس کی مثال نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی سے ملتی ہے کہ جب وحی نازل ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سیدھا اپنی زوجہ کے پاس آئے اور سارا ماجرا سب سے پہلے انہیں بتایا ۔حالانکہ آپ کی پرورش کرنے والے چچا اس وقت زندہ تھے اور کتنا پیار کرتے تھے مگر نہیں پہلے اپنی زوجہ سے مشورہ کیا ۔ پھر محبت اور اعتماد کا یہ عالم دو طرفہ تھا بیوی نے تسلی بھی دی اور کمبل اوڑھا کر لیٹایا بھی اور پھر اپنے چچا ورقہ بن نوفل سے رابطہ بھی کیا کہ یہ معاملہ ہے ورقہ بھی اس وقت کا جید عالم تھا ۔ اور اس راز کو بھی راز رکھا ۔ ہمارے گھروں میں مسائل یہاں سے ہی جنم لیتے ہیں جب ہم بیڈ روم کی بات سارے خاندان کو بتاتے ہیں ۔ راز کو راز نہیں رکھتے ۔ کوئی مسئلہ در پیش ہو بیوی سے سب سے آخر میں مشورہ کرتے ہیں پہلے پورے خاندان کے سامنے اس مسلئے کا پرچار کرتے ہیں ۔ جب مسئلہ خوب بڑھ جاتا ہے تو گھر آکر برتن توڑنا بیوی کے سالن میں نمک کم ہونے پر کئی طرح کے جملے بولنا اور مارنا لیکن جب غبار اترتا ہے تو پتہ چلتا ہے کہ ہم غلطی پر ہیں ۔ ارے خدا کہ بندوں چھ کلمے نکاح کے وقت یاد کرنے کے بعد نکاح کا عربی خطبہ بھی سمجھ لیا کرو ۔ بلکہ اپنی اولاد کے نکاح سے پہلے انہیں اس خطبہ کا عربی ترجمہ سناو سمجھاو کہ جس میں کہا جاتا ہے اے اللہ ان دونوں میں ایسی محبت پیدا فرما جیسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور اماں خدیجہ رضی اللہ عنھا کے درمیان تھی ۔ ان دونوں کے درمیان ایسی محبت پیدا فرما جیسے اماں عائشہ رضی اللہ عنھا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان تھی ایسی محبت پیدا فرما جیسے مولا علی رضی اللہ عنہ اور حضرت فاطمہ الزہر رضی اللہ تعالی عنھا کے درمیان تھی ۔ ان کی زندگیاں ضرور پڑھو ۔ اماں عائشہ محبت کا ایک راز بتاتی ہیں ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور میں جب ایک برتن سے پانی پیتے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس جگہ لب لگا کر پانی پیتے جہاںمیں نے ہونٹ لگائے ہوتے ۔ اور یہی عمل میں کرتی ۔ اللہ اللہ ۔ سبحان اللہ ۔ اللہ کے بندوں اسلام نے ہر ہر معاملہ میں رہنمائی کی ہے ۔ میرا کالم دی بیسٹ بنو میرے یار بھی پڑھنا ۔ خوبصورت زندگی جیو ۔ اپنی بیوی سے بچہ مانگنے کی بجائے خدا سے مانگو ۔ اپنے عمل سے محبت کرو ۔ اپنی بیوی پر اعتماد کرو ۔ اسے اپنے عمل سے بتاو کہ تم اس پر اعتماد کرتے ہو ۔ایک دفعہ جب اس نے یہ محبت محسوس کر لی تو ساری عمر وہ تمھاری غلام بن جائے گی جو اپنا سب کچھ تمھارے لیے چھوڑ آئی وہ تم سے زیادہ کس سے محبت کرے گی ۔ اسے نوکر مت سمجھو نوکرانی مت سمجھو وگرنہ پیدا ہونے والی بیٹی ،ساتھ رہنے والی بہن بھی کسی کے گھر جائے گی اس وقت احساس ہو گا جب ظلم کی یہ داستان دہرائی جائے گی ۔ جس مذہب کا خطبہ نکاح اتنی عظیم محبت کی مثالوں پر مشتمل ہو اس مذہب کا خدا کتنا عظیم ہو گا ۔جب محبت بھرے تعلق کا ہر فرد مصلی پر اس خدا سے بیتا مانگے گا تو وہ بیٹا بھی ضرور دے گا ۔ پتہ ہے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک نسبت یہ ہے کہ آپ کے گھر بیٹی ہو ۔ اس نسبت پر فخر کرنا ۔ ان ماں باپ کو میرا سیلوٹ ، سلام جن کو اللہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ نسبت عطا کی ۔ قیامت کے دن وہ اپنے کریم آقا صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایسے ہونگے جیسے ہاتھ کی دو درمیانی انگلیاں ۔
بشکریہ: ڈاکٹر محمد اعظم رضا تبسم
قصور ہو تو ہمارے حساب میں لکھ جائے
محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو
میں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو
Post Reply

Return to “اردو کالم”