Page 1 of 1

دورِ حاضر کے شعراء کرام کا تعارف

Posted: Fri Jul 08, 2016 3:15 am
by ایم ابراہیم حسین
تعارف ====== دورِ حاضر کے شعراء کرام
ImageImage

نام : عبدالرحمان
تعلیم : واجبی سی
شہر : کہوٹہ
تخص : واصف
شاعری سے وابستگی 1999 س
ایک ادبی تنظیم قلمکار پاکستان کا بانی اور صدر
ایک مجموعہ بجھی ہوئی شام طبع ہو چکا ہے ، دو مجموعے (اردو۔۔۔ پوٹھوہاری) زیر ترتیب ہیں
سرکاری ملازمت کرتا ہیں

پیش خدمت ہے کچھ بہترین غزلین اور اشعار

مرے حواس پہ اتری بہشت کی پریاں
کہ لاشعور میں اک خواب سرسراتا ہے

عبدالرحمان واصفؔ
۔__________________________________۔

سلام سبطِ شہِ انبیاء کے نام سلام
کیا ہے چاک جنہوں نے دجل کا دام ، سلام
بصد خلوص ، بصد عجز ، احترام ، سلام
خدا پرستوں کی شمشیرِ بے نیام ، سلام
سرائے دشت میں اتری ہوئی ہے شام ، سلام
ملایا خاک میں جس نے کسی کا نام ، سلام
سلام خون میں ڈوبے ہوئے ستارو تمہیں
لپکتی آگ میں جلتے ہوئے خیام ، سلام
سلام سبطِ نبی کے سپوتِ اصغر کو
دیا ہے جس نے شہادت کو اک مقام ، سلام
کمال ضبط سے زخموں کو جھیلنے والو
تمہارے صبر و رضا کو بہ اہتمام ، سلام
صد آفرین جگر پارہء علی و بتول
شبابِ خلدِ بریں کے شہید امام ، سلام
امامِ صدق و صفا آپ کی محبت نے
بنا دیا ہے مجھے قادر الکلام ، سلام

ع ر واصفؔ
۔
۔______________________________۔

شعری مجموعہ "بجھی ہوئی شام"

ہماری آنکھ میں جس غم کی لو رکھی ہوئی ہے
اسی کے دم سے اندھیروں میں روشنی ہوئی ہے
یہ حشر کس نے اٹھایا ہے میری بستی پر
گلی گلی مری بستی کی ماتمی ہوئی ہے
مرے شعور پہ صدیوں کا زنگ تھا شاید
اس آگہی سے مری جان پر بنی ہوئی ہے
بھٹک نہ جائیں دھندلکے میں قافلے والے
فضا غبار کے طوفاں سے سرمئی ہوئی ہے
مسل دیے ہیں یہ کس جبر نے خیال کے پھول
ہر ایک سوچ پہ کیوں برف سی جمی ہوئی ہے
جمود میں تھے عناصر زمین پر پہلے
مگر ہم آئے جہاں میں تو زندگی ہوئی ہے
وہ کس بناء پہ محبت کی بات کرتا ہے
کہ انگ انگ میں جس کے انا بھری ہوئی ہے
میں زندگی کو گلابوں کی سیج کہہ رہا ہوں
میں بدحواس نہیں ہوں نہ میں نے پی ہوئی ہے

ع ر واصفؔ
۔_____________________________۔

تلاشا خود کو بدن میں مگر ہوا ناکام
جنون تیری گلی سے سراغ لایا مرا

واصف
۔__________________________۔

ہر ایک درد کے احساس سے سوا ہے مجھے
وہ ایک تیر جو سینے میں اب لگا ہے مجھے
او میرے دل میں کئی چھید ڈالنے والے
تری زباں کی تسلی بھی آبلہ ہے مجھے
میں التفات کے لائق اگر نہیں تھا تو کیوں
بیاضِ شعر میں تم نے لکھا ہوا ہے مجھے
مرے حروف میں یوں روشنی نہیں آئی
غموں کی آگ سے صیقل کیا گیا ہے مجھے
وفا کا رنگ ہے شامل اگر محبت میں
تو ایک پل کی محبت بھی بے بہا ہے مجھے
مدھر سُروں میں سسکتا ہوا کوئی نغمہ
گئے دنوں کی کہانی سنا رہا ہے مجھے
کہ جیسے مجھ میں ہے بچپن چھپا ہوا اس کا
یوں میرا باپ محبت سے دیکھتا ہے مجھے

عبدالرحمان واصفؔ
۔
۔_______________________۔

نہایت مختصر قصہ ہمارا
جسے چاہا، نہ ہو پایا ہمارا
ہماری ذات میں لکھے ہیں نوحے
سُتا ہے اس لیے چہرہ ہمارا
تمہارے بعد تنہا رہ گئے ہیں
زمانے میں کوئی ہوتا ہمارا
ہماری آنکھ ترہے آنسوؤں سے
ہے زخمایا ہوا سینہ ہمارا
جلا کر کشتیاں نکلے ہوئے ہیں
بگاڑے گا زمانہ کیا ہمارا
اتر آئے اندھیرے جسم و جاں میں
تخیل ہو گیا اندھا ہمارا
تمہیں احباب کی محفل مبارک
بلاتا ہے ہمیں صحرا ہمارا
ہمیں لوٹا بھی دو دنیا ہماری
چُکاتے کیوں نہیں قرضہ ہمارا
اداسی رات کے شانوں سے لپٹی
بیاں کرتی رہی نوحہ ہمارا

ع ر واصفؔ
۔
۔_________________________۔

خوف میکی نینہ کوئی آل دوالے ناں
کیوں جے امتی میں آں کملی آلے ناں
اوہ آئے تے کمزوراں نی بانہہ بنڑتے
جیہڑے ٹہٹھے سے ، بانہہ پغڑی ٹھالے ناں
رنگ نسل تے قوم کدے کِریائی نینہ
فرق اُنہاں نینہ کیتا گورے کالے ناں
کر دیہاڑی راتیں صفت مدینے نی
جے کرنا ای لاج دلے نے چھالے ناں

ع ر واصفؔ
۔
۔______________________۔
پشاور کے شہیدوں کے لیے لکھے گے چند اشعار

مت پوچھ غم اس آنکھ نے کتنے اٹھائے ہیں
جب قوم نے سکول سے لاشے اٹھائے ہیں
اب کون کر سکے کسی آنگن میں روشنی
چُن چُن کے ظالموں نے ستارے اٹھائے ہیں
تم نے مرے عدو سے اٹھائے ہیں فائدے
میں نے لہو لہان شگوفے اٹھائے ہیں
ہم کس طرح بہار کے موسم کا نام لیں
ہم نے کئی گُلوں کے جنازے اٹھائے ہیں
تھا جن سے گلسِتاں کے شب و روز میں جمال
کیوں پھول وہ اجل نے زمیں سے اٹھائے ہیں
پروردگارِ ارض و سما ! غرق کر انہیں
جن وحشیوں نے دہر میں فتنے اٹھائے ہیں

ع ر و اصفؔ
۔
۔________________________۔

اک تمنائے ترک.الفت میں.
نوچ ڈالا ہے خود کو وحشت میں.
جن کے تن پر ہیں جا بجا آنکھیں.
بت بنائے ہیں وہ محبت میں.
ہم نے سالوں لہو جلایا ہے.
صرف اک لمحے کی مسافت میں.
آریاں چل رہی ہیں سینے پر.
سانس کب ہیں ہماری قسمت میں.
کیا کہا.... ھم نہ سینہ کوبی کریں.
تو بتا... کیا کریں اﺫیت میں.
تم سے مانگی تھی دھوپ مٹھی بھر
تپ رہا ہے بدن حرارت میں.
اس کا آنگن میں بیٹھنا توبہ !
چاند.... اور دھوپ کی تمازت میں !
میں کہ تھا ایک راز. سربستہ.
مجھ کو کھولا گیا ہے عجلت میں.

عبدالرحمان واصف
۔
۔___________________۔


کو بہ کو ایک خماری نے اڑایا مجھ کو.
اس نے جب نیم کشاد آنکھ سے دیکھا مجھ کو.
میں کہ رقصاں ہوں سر.دشت.تمنا کب کا.
مار ﮈالے گا یقینا یہ تماشا مجھ کو.
میری مٹی کا عجب رنگ کھلا پھر مجھ پر.
اس نے ہنستے ہوئے جب چاک پہ رکھا مجھ کو.
میں ترے در کے غلاموں کا غلام اے مولا.
کافی و شافی ہے بس اتنا حوالہ مجھ کو.
میں ہوں، لاریب سرِدشت پڑی خاک کی خاک.
تیری مدحت نے کیا آقا توانا مجھ کو.
دم سر. نوک. زباں ... دل سے بدن خالی ہے...
کاش آجائے نظر شہر. مدینہ مجھ کو.
کاٹ لیتا ہُوں مَیں غربت میں بھی فاقے اکثر
تنگ کرتا نہیں رمضان میں روزہ مجھ کو.
حلق میں دیر تلک لفظ جدائی گونجا.
اس نے جب دشتِ تمنا میں اتارا مجھ کو.
بات بے بات لڑائی کی روش اچھی نہیں.
مار ﮈالے گی تری غیرت. بے جا مجھ کو.
یہ نہیں فکر کہ دشمن نہیں سمجھا مرا رنگ.
حیف ... صد حیف کہ یاروں نے نہ سمجھا مجھ کو.
وصل کی لو جو میسر ہو تو کچھ اورجیوں
مار ﮈالے گا ترے غم کا اندھیرا مجھ کو.
سچ کو سچ جھوٹ کو اب جھوٹ نہیں لکھتا میں.
دیکھ یاروں میں نہیں ہونا ہے تنہا مجھ کو.
.
عبدالرحمان واصف


Sent from my LenovoA3300-HV using Tapatalk

Re: دورِ حاضر کے شعراء کرام کا تعارف

Posted: Fri Jul 08, 2016 11:17 am
by محمد شعیب
بہت خوب
تعارف اور شئرنگ کا شکریہ
واصف صاحب کے کلام میں درد بہت ہے. بہت ہی اچھا لکھتے ہیں.
میں التفات کے لائق اگر نہیں تھا تو کیوں
بیاضِ شعر میں تم نے لکھا ہوا ہے مجھے
مرے حروف میں یوں روشنی نہیں آئی
غموں کی آگ سے صیقل کیا گیا ہے مجھے
وفا کا رنگ ہے شامل اگر محبت میں
تو ایک پل کی محبت بھی بے بہا ہے مجھے
مدھر سُروں میں سسکتا ہوا کوئی نغمہ
گئے دنوں کی کہانی سنا رہا ہے مجھے
کہ جیسے مجھ میں ہے بچپن چھپا ہوا اس کا
یوں میرا باپ محبت سے دیکھتا ہے مجھے
:clap: :clap: :clap:

Re: دورِ حاضر کے شعراء کرام کا تعارف

Posted: Tue Jul 19, 2016 6:10 pm
by touseef752
Wah

Sent from my rtd298x_tv038 using Tapatalk