Page 1 of 1

لمبی ہے غم کی شام مگر شام ہی تو ہے

Posted: Mon Jan 26, 2015 8:57 pm
by محمد شعیب
ہم پر تمہاری چاہ کا الزام ہی تو ہے
دشنام تو نہیں ہے، یہ اکرام ہی تو ہے

کرتے ہیں جس پہ طعن کوئی جرم تو نہیں
شوقِ فضول و الفتِ ناکام ہی تو ہے

دل مدّعی کے حرفِ ملامت سے شاد ہے
اے جانِ جاں یہ حرف ترا نام ہی تو ہے

دل نا امید تو نہیں، ناکام ہی تو ہے
لمبی ہے غم کی شام، مگر شام ہی تو ہے

دستِ فلک میں گردشِ تقدیر تو نہیں
دستِ فلک میں گردشِ ایّام ہی تو ہے

آخر تو ایک روز کرے گی نظر وفا
وہ یارِ خوش خصال سرِ بام ہی تو ہے

بھیگی ہے رات فیض غزل ابتدا کرو
وقتِ سرود، درد کا ہنگام ہی تو ہے

فیض احمد فیض

Re: لمبی ہے غم کی شام مگر شام ہی تو ہے

Posted: Mon Jan 26, 2015 11:41 pm
by چاند بابو
بہت خوب شعیب بھیا بہت ہی اچھا انتخاب ہے.

Re: لمبی ہے غم کی شام مگر شام ہی تو ہے

Posted: Tue Jan 27, 2015 1:39 am
by اضواء
بہترین انتخاب پر آپ کا شکریہ