نمبر 1=لکھنا سیکھیے
Posted: Fri Jul 18, 2014 8:38 pm
لکھنا سیکھیے۔
نوٹ۔ جملہ حقوق محفوظ ہیں.اس آرٹیکل کو بغیر اجازتِ مصنف کسی اور جگہ( میڈیا،انٹر نیٹ، اخبار،رسائل و جرائد وغیرہ میں) شائع نہیں کیا جا سکتا ۔
اگر آپ کو لکھنے کا شوق ہے تو پھر آپ لکھ سکتے ہیں ،اور اگر یہ شوق ادھار کا ہے تو پہلے اسے اپنا شوق بنایئے پھر ہی آپ اچھا لکھنے کے قابل ہو ں گے ۔اپناشوق اور ادھار کا شوق کیا ہے؟ اگر تو آپ کے پاس کچھ ایسی معلومات /یا مسائل سے بچنے کے طریقے موجود ہیں جن سے دوسروں کو فائدہ پہنچ سکتا ہے ، معاشرے میں اصلاح پیدا ہو سکتی ہے، دلوں سے کھوٹ کا زنگ اتر سکتا ہے اور آپ کے دل سے لکھنے کی خواہش اٹھتی ہے، تو یہ ہوا آپ کا اپنا شوق. اگر آپ کسی اچھے لکھاری کی تحریر پڑھ کر اس سے متاثر ہو کر لکھنا چاہتے ہیں ، آپ اُس جیسا بننا چاہتے ہیں تو یہ شوق ادھار کا شوق ہے ۔ ایسے شوق جلد ہی کسی دوسرے شوق میں تبدیل ہو جاتے ہیں ،یوں آپکا کوئی بھی شوق پایا تکمیل تک نہیں پہنچ پاتا۔
مشہور مقولہ ہے کہ : کچھ پانے کے لیے کچھ کھونا پڑتا ہے ۔لیکن آج کی جدید دنیا میں یہ مقولہ کچھ یوں ہے کہ: کچھ پانے کے لیے بہت کچھ کھونا پڑتا ہے۔اگر آپ کچھ دے ، کچھ لے کے اصول کو مانتے ہیں تو پھر آپ اپنے شوق کی تکمیل کر سکتے ہیں ۔(آپ پریشان مت ہوں میں آپ سے کچھ نہیں مانگنے والا)
اچھا لکھنے کے لیے آپ کو اپنا وقت دینا ہو گا ۔ اگر میں آپ کو بتاوں کہ دنیا میں سب سے قیمتی چیز وقت ہے تو آپ حیران ضرور ہوں گے۔جی ہاں !سونے ، ہیرے اور جواہرات سے زیادہ قیمتی۔ جولوگ سونا ، ہیرے اور جواہرات تلاش کرتے ہیں وہ اپنا وقت ان چیزوں پر صرف کرتے ہیں تب وہ انہیں حاصل کر پاتے ہیں ۔ آپ دن بھر دوڑ دھوپ اور مشقت کرتے ہیں اور شام کو آپ اس مشقت اور محنت کا صلہ پاتے ہیں ۔ در اصل آپ نے جو وقت لگایا ہوتا ہے اس کی محنت آپ وصول کرتے ہیں۔سائنسدان اگر اپنا وقت تحقیق پر صرف نہ کرتے تو آج آپ کمپیوٹر پر بیٹھ کر دنیا نہیں گھوم سکتے تھے۔کسان اگر اپنے کھیت کو وقت نہ دے تو جڑی بوٹیوں کے سوا کیا حاصل کر پائے گا؟ آپ اگر اسکول و کالج میں اپنا وقت نہ لگاتے تو کیا آپ علم حاصل کر سکتے تھے؟یہ مضمون جو میں لکھ رہا ہوں کیا خود بخود لکھا جا رہا ہے ؟آپ اسے پڑھ رہے ہیں کیا آپ اپنا قیمتی وقت معلومات کے حصول یا اپنے شوق کی تکمیل کے لیے نہیں لگا رہے؟آپ نے یہ مقولہ تو سنا ہو گا : جو وقت کی قدر نہیں کرتے وقت ان کی قدر نہیں کرتا۔(پھر وہ یہی کہتے ہے: وقت کرتا جو وفا ، آپ ہمارے ہوتے)جن قوموں نے اپنے وقت کو صحیح استعمال کیا وہ آج بام عروج پر ہیں۔(ہم پاکستانیوں نے اپنے وقت کا استعمال اچھے طریقے سے نہیں کیا ،اس کا نتیجہ آج آپ کے سامنے ہے ۔ )
جدید ٹیکنالوجی نے ہماری زندگیوں میں انقلاب برپا کر دیا ہے۔انٹر نیٹ اور موبائل فونز نے نوجوان نسل میں دن ،رات کی تمیز ختم کر دی ہے ۔ان کا سارا وقت گپ شپ ، سیاسی حالات پر بے کار تجزیہ کاری،اور فضول کی سرگرمیوں میں ضائع ہوتا ہے ۔ خاص کر پاکستان میں تو فیس بک اور دوسری شوشل ویب سائٹ نے نوجوانوں کی نیندیں حقیقتاََ حرام کر دی ہیں ۔ادبی کتابوں سے لگاو تو دور کی بات ، وہ تو اپنے کورس کی کتابوں پر بھی توجہ نہیں دیتے ۔ اگرچہ انٹرنیٹ پر معلومات کے خزانے موجود ہیں مگر نہایت کم لوگ ان سے استفادہ کرتے ہیں ۔ ہر چند کمپیوٹر اور انٹر نیٹ نے کتاب کی اہمیت کم کر دی ہے مگر کتابیں اب بھی معلومات اور حصول علم کا مستند ذریعہ ہیں۔
لکھنے کے لیے سب سے ضروری چیز ہے مطالعہ ۔جی ہاں ! ایک دفعہ پھر یہ فقرہ دہرائے دیتا ہوں ۔ لکھنے کے لیے سب سے ضروری چیز ہے مطالعہ۔ایک گھر کی تعمیر کے لیے بنیاد ،بنیادی چیز ہے،بنیاد کے بغیر کیا آپ گھر تعمیر کرنے کا تصور کر سکتے ہیں ؟مطالعہ لکھنے کی بنیاد ہے ۔ مطالعہ کے بغیر آپ اچھے لکھاری کبھی نہیں بن سکتے ۔بلکہ اچھے کیا ،آپ لکھاری نہیں بن سکتے۔ہر فن کو سیکھنے کے لیے ہمیشہ نیچے سے اوپر جایا جاتا ہے ۔ کیا تحریر ہی ایک ایسا فن ہے کہ بغیر سیکھے آپ اس میں کامل ہو جائیں گے؟آپ کی یاددہانی کے لیے پھر بتا دوں : لکھنے کے لیے سب سے ضروری چیز ہے مطالعہ۔ مستند اہم قلم کی نگارشات کے مطالعے کے دوران آپ کو ان کی تحریر کے مختلف اجزا،عناصر،اسلوب(انداز تحریر)اور محاسن سے شناسائی ہو گی۔آپ کے ذخیرہ الفاظ میں اضافہ ہو گا ۔آپ کے پاس ذخیرہ الفاظ جتنا زیادہ ہو گا آپ کی تحریر اتنی ہی جاندار ثابت ہو گی ۔ یاد رہے ذخیرہ الفاظ کے بغیر کوئی زبان وجود میں نہیں آ سکتی۔ الفاظ کا موزوں جگہ استعمال ہی تحریر کو کامیاب بناتا ہے ۔ مطالعہ کیے بغیر آپ الفاظ کا مناسب استعمال نہیں سیکھ سکتے ۔
چند ابواب سے مل کر ایک کتاب بنتی ہے، چند مضامین سے ایک باب تشکیل پاتا ہے ،کچھ پیرا گرافوں سے ایک مضمون بنتا ہے،کئی ایک فقرے مل کر ایک پیرا گراف ترتیب دیتے ہیں ،الفاظ کے با معنی استعمال سے فقرے بنتے ہیں ۔ اگر آپ کے پاس الفاظ کی کمی ہے تو آپ کیسے ان سے فقرے تیار کریں گے،کیسے پیرا گراف بنے گا ، کیسے مضمون اور باب تشکیل پائیں گے ،کس طرح ایک کتاب تکمیل تک پہنچے گی؟؟؟
مطالعہ کیجیے!اچھی ادبی کتابوں کا مطالعہ کیجیے۔ تحریر کی خوبیوں اور خامیوں سے آگاہی حاصل کیجیے۔ذخیرہ الفاظ بڑھایئے۔ کم از کم دو سے تین گھنٹے روزانہ مطالعہ کی عادت بنایئے۔ ٹائم میں اضافہ ہی کیجیے کمی نہیں۔
مطالعہ صرف کتاب کی لائنوں پر انگلی چلانے کانام نہیں ، نہ ہی زبان سے الفاظ کی بوچھاڑ کا نام ہے ۔آپ صرف زبان ہلا اور لکیروں پر انگلی گھما کر ہزاروں کتابیں پڑھ ڈالیے آپ کو کچھ حاصل نہیں ہو گا ۔مطالعہ کرنے کا طریقہ سیکھیے ۔ ہر کام کو کرنے کا ایک طریقہ اور سلیقہ ہوتا ہے ،اگر کام کو طریقے اور سلیقے سے کیا جائے تو ہی بہترین نتائج حاصل کیے جا سکتے ہیں ۔مطالعہ کیسے کیا جائے ؟حاصل مطالعہ کیا ہے ۔؟ ذخیرہ الفاظ کو کیسے برھایا جائے ؟ اس پر آئندہ بات ہو گی۔ان شا اللہ۔
حاصل مطالعہ:(اہم نکات)
1. ادھار کے شوق کو اپنا شوق بنایئے۔
2. وقت کا بہترین استعمال کرنا سیکھیے۔وقت کو ضائع مت کیجیے۔
3. لکھنے کے لیے سب سےضروری چیز ہے مطالعہ! روزانہ پابندی سے مطالعہ کیجیے۔
4. ذخیرہ الفاظ بڑھایئے۔
5. تحریر پر انگلی چلانا، زبان سے الفاظ کو ادا کرنا مطالعہ نہیں کہلاتا۔
نوٹ۔ جملہ حقوق محفوظ ہیں.اس آرٹیکل کو بغیر اجازتِ مصنف کسی اور جگہ( میڈیا،انٹر نیٹ، اخبار،رسائل و جرائد وغیرہ میں) شائع نہیں کیا جا سکتا ۔
اگر آپ کو لکھنے کا شوق ہے تو پھر آپ لکھ سکتے ہیں ،اور اگر یہ شوق ادھار کا ہے تو پہلے اسے اپنا شوق بنایئے پھر ہی آپ اچھا لکھنے کے قابل ہو ں گے ۔اپناشوق اور ادھار کا شوق کیا ہے؟ اگر تو آپ کے پاس کچھ ایسی معلومات /یا مسائل سے بچنے کے طریقے موجود ہیں جن سے دوسروں کو فائدہ پہنچ سکتا ہے ، معاشرے میں اصلاح پیدا ہو سکتی ہے، دلوں سے کھوٹ کا زنگ اتر سکتا ہے اور آپ کے دل سے لکھنے کی خواہش اٹھتی ہے، تو یہ ہوا آپ کا اپنا شوق. اگر آپ کسی اچھے لکھاری کی تحریر پڑھ کر اس سے متاثر ہو کر لکھنا چاہتے ہیں ، آپ اُس جیسا بننا چاہتے ہیں تو یہ شوق ادھار کا شوق ہے ۔ ایسے شوق جلد ہی کسی دوسرے شوق میں تبدیل ہو جاتے ہیں ،یوں آپکا کوئی بھی شوق پایا تکمیل تک نہیں پہنچ پاتا۔
مشہور مقولہ ہے کہ : کچھ پانے کے لیے کچھ کھونا پڑتا ہے ۔لیکن آج کی جدید دنیا میں یہ مقولہ کچھ یوں ہے کہ: کچھ پانے کے لیے بہت کچھ کھونا پڑتا ہے۔اگر آپ کچھ دے ، کچھ لے کے اصول کو مانتے ہیں تو پھر آپ اپنے شوق کی تکمیل کر سکتے ہیں ۔(آپ پریشان مت ہوں میں آپ سے کچھ نہیں مانگنے والا)
اچھا لکھنے کے لیے آپ کو اپنا وقت دینا ہو گا ۔ اگر میں آپ کو بتاوں کہ دنیا میں سب سے قیمتی چیز وقت ہے تو آپ حیران ضرور ہوں گے۔جی ہاں !سونے ، ہیرے اور جواہرات سے زیادہ قیمتی۔ جولوگ سونا ، ہیرے اور جواہرات تلاش کرتے ہیں وہ اپنا وقت ان چیزوں پر صرف کرتے ہیں تب وہ انہیں حاصل کر پاتے ہیں ۔ آپ دن بھر دوڑ دھوپ اور مشقت کرتے ہیں اور شام کو آپ اس مشقت اور محنت کا صلہ پاتے ہیں ۔ در اصل آپ نے جو وقت لگایا ہوتا ہے اس کی محنت آپ وصول کرتے ہیں۔سائنسدان اگر اپنا وقت تحقیق پر صرف نہ کرتے تو آج آپ کمپیوٹر پر بیٹھ کر دنیا نہیں گھوم سکتے تھے۔کسان اگر اپنے کھیت کو وقت نہ دے تو جڑی بوٹیوں کے سوا کیا حاصل کر پائے گا؟ آپ اگر اسکول و کالج میں اپنا وقت نہ لگاتے تو کیا آپ علم حاصل کر سکتے تھے؟یہ مضمون جو میں لکھ رہا ہوں کیا خود بخود لکھا جا رہا ہے ؟آپ اسے پڑھ رہے ہیں کیا آپ اپنا قیمتی وقت معلومات کے حصول یا اپنے شوق کی تکمیل کے لیے نہیں لگا رہے؟آپ نے یہ مقولہ تو سنا ہو گا : جو وقت کی قدر نہیں کرتے وقت ان کی قدر نہیں کرتا۔(پھر وہ یہی کہتے ہے: وقت کرتا جو وفا ، آپ ہمارے ہوتے)جن قوموں نے اپنے وقت کو صحیح استعمال کیا وہ آج بام عروج پر ہیں۔(ہم پاکستانیوں نے اپنے وقت کا استعمال اچھے طریقے سے نہیں کیا ،اس کا نتیجہ آج آپ کے سامنے ہے ۔ )
جدید ٹیکنالوجی نے ہماری زندگیوں میں انقلاب برپا کر دیا ہے۔انٹر نیٹ اور موبائل فونز نے نوجوان نسل میں دن ،رات کی تمیز ختم کر دی ہے ۔ان کا سارا وقت گپ شپ ، سیاسی حالات پر بے کار تجزیہ کاری،اور فضول کی سرگرمیوں میں ضائع ہوتا ہے ۔ خاص کر پاکستان میں تو فیس بک اور دوسری شوشل ویب سائٹ نے نوجوانوں کی نیندیں حقیقتاََ حرام کر دی ہیں ۔ادبی کتابوں سے لگاو تو دور کی بات ، وہ تو اپنے کورس کی کتابوں پر بھی توجہ نہیں دیتے ۔ اگرچہ انٹرنیٹ پر معلومات کے خزانے موجود ہیں مگر نہایت کم لوگ ان سے استفادہ کرتے ہیں ۔ ہر چند کمپیوٹر اور انٹر نیٹ نے کتاب کی اہمیت کم کر دی ہے مگر کتابیں اب بھی معلومات اور حصول علم کا مستند ذریعہ ہیں۔
لکھنے کے لیے سب سے ضروری چیز ہے مطالعہ ۔جی ہاں ! ایک دفعہ پھر یہ فقرہ دہرائے دیتا ہوں ۔ لکھنے کے لیے سب سے ضروری چیز ہے مطالعہ۔ایک گھر کی تعمیر کے لیے بنیاد ،بنیادی چیز ہے،بنیاد کے بغیر کیا آپ گھر تعمیر کرنے کا تصور کر سکتے ہیں ؟مطالعہ لکھنے کی بنیاد ہے ۔ مطالعہ کے بغیر آپ اچھے لکھاری کبھی نہیں بن سکتے ۔بلکہ اچھے کیا ،آپ لکھاری نہیں بن سکتے۔ہر فن کو سیکھنے کے لیے ہمیشہ نیچے سے اوپر جایا جاتا ہے ۔ کیا تحریر ہی ایک ایسا فن ہے کہ بغیر سیکھے آپ اس میں کامل ہو جائیں گے؟آپ کی یاددہانی کے لیے پھر بتا دوں : لکھنے کے لیے سب سے ضروری چیز ہے مطالعہ۔ مستند اہم قلم کی نگارشات کے مطالعے کے دوران آپ کو ان کی تحریر کے مختلف اجزا،عناصر،اسلوب(انداز تحریر)اور محاسن سے شناسائی ہو گی۔آپ کے ذخیرہ الفاظ میں اضافہ ہو گا ۔آپ کے پاس ذخیرہ الفاظ جتنا زیادہ ہو گا آپ کی تحریر اتنی ہی جاندار ثابت ہو گی ۔ یاد رہے ذخیرہ الفاظ کے بغیر کوئی زبان وجود میں نہیں آ سکتی۔ الفاظ کا موزوں جگہ استعمال ہی تحریر کو کامیاب بناتا ہے ۔ مطالعہ کیے بغیر آپ الفاظ کا مناسب استعمال نہیں سیکھ سکتے ۔
چند ابواب سے مل کر ایک کتاب بنتی ہے، چند مضامین سے ایک باب تشکیل پاتا ہے ،کچھ پیرا گرافوں سے ایک مضمون بنتا ہے،کئی ایک فقرے مل کر ایک پیرا گراف ترتیب دیتے ہیں ،الفاظ کے با معنی استعمال سے فقرے بنتے ہیں ۔ اگر آپ کے پاس الفاظ کی کمی ہے تو آپ کیسے ان سے فقرے تیار کریں گے،کیسے پیرا گراف بنے گا ، کیسے مضمون اور باب تشکیل پائیں گے ،کس طرح ایک کتاب تکمیل تک پہنچے گی؟؟؟
مطالعہ کیجیے!اچھی ادبی کتابوں کا مطالعہ کیجیے۔ تحریر کی خوبیوں اور خامیوں سے آگاہی حاصل کیجیے۔ذخیرہ الفاظ بڑھایئے۔ کم از کم دو سے تین گھنٹے روزانہ مطالعہ کی عادت بنایئے۔ ٹائم میں اضافہ ہی کیجیے کمی نہیں۔
مطالعہ صرف کتاب کی لائنوں پر انگلی چلانے کانام نہیں ، نہ ہی زبان سے الفاظ کی بوچھاڑ کا نام ہے ۔آپ صرف زبان ہلا اور لکیروں پر انگلی گھما کر ہزاروں کتابیں پڑھ ڈالیے آپ کو کچھ حاصل نہیں ہو گا ۔مطالعہ کرنے کا طریقہ سیکھیے ۔ ہر کام کو کرنے کا ایک طریقہ اور سلیقہ ہوتا ہے ،اگر کام کو طریقے اور سلیقے سے کیا جائے تو ہی بہترین نتائج حاصل کیے جا سکتے ہیں ۔مطالعہ کیسے کیا جائے ؟حاصل مطالعہ کیا ہے ۔؟ ذخیرہ الفاظ کو کیسے برھایا جائے ؟ اس پر آئندہ بات ہو گی۔ان شا اللہ۔
حاصل مطالعہ:(اہم نکات)
1. ادھار کے شوق کو اپنا شوق بنایئے۔
2. وقت کا بہترین استعمال کرنا سیکھیے۔وقت کو ضائع مت کیجیے۔
3. لکھنے کے لیے سب سےضروری چیز ہے مطالعہ! روزانہ پابندی سے مطالعہ کیجیے۔
4. ذخیرہ الفاظ بڑھایئے۔
5. تحریر پر انگلی چلانا، زبان سے الفاظ کو ادا کرنا مطالعہ نہیں کہلاتا۔