الاؤ

اردو زبان میں لکھے جانے والے شہکار ناول، آن لائن پڑھئے اور ڈاونلوڈ کیجئے
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

- 34 -

دوسرے دن سیف الدین کی گرفتاری کی خبریں نمایاں انداز میں تھیں خبریں کچھ اس انداز سے شائع ہوئی تھیں کہ جو پڑھتا تھا دنگ رہ جاتا تھا ۔
’’نوٹیا گاؤں سے پاکستانی ایجنٹ گرفتار۔ ۔ ۔ پاکستان کے خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کے سب سے خطرناک ایجنٹ سیف الدین کو پولیس نے اس کے 10 ساتھیوںکے ساتھ گرفتار کیا ۔ ۔ ۔ بی جے پی اور بجرنگ دل کے صدر پر قاتلانہ حملہ کرنے والے پاکستانی ایجنٹ کی گرفتاری ۔ ۔ ۔ گرفتار شدہ پاکستانی ایجنٹ کئی سالوں سے پاکستان کی خفیہ ایجنسی کے لیے کام کررہا ہے۔ اور ملک دشمن سرگرمیوں میں ملوث ہے۔ اس نے ممبئی کے طرز پر گجرات کے مختلف شہروں میں بم دھماکے کرنے کی منصوبہ بنارکھا تھا۔ اس کے علاوہ ملک کی فوجی نوعیت کی تنصیبات کو نشانہ بنانے کا پلان بنایاتھا ۔ممکن ہے تلاش میں اس کے ہوٹل سے خطرناک ہتھیار اور گولہ بارود برآمد ہو۔ ۔ ۔ سیف الدین نے نوٹیا گاؤں کو ملک دشمن سرگرمیوں کا اڈا بنارکھا تھا ۔اسکے اور بھی ساتھی اس وقت گاؤں میں موجود ہے۔ اگر ان کی گرفتاری جلد عمل میں نہیں آئی تو یہ ملک کے لیے خطرہ ثابت ہوسکتی ہے۔ ممکن ہے۔ نوٹیا کے گھروں کی تلاشی کی جائے تو انگھروں سے مہلک ہتھیار برآمد ہو۔ سیف الدین اور اس کے ساتھیوں پر پوٹا لگا کر اس پر کھلی عدالت میں مقدمہ چلایا جائے۔ ‘‘
’’اس کے ہاتھوں زخمی ہونے والے گاؤں کے ہر دلعزیز لیڈر بی جے پی کے رہنما اور بجرنگ دل کے صدر مہندر بھائی پٹیل کی حالت بد ستور ،تشویشناک ہے۔ ڈاکٹروں نے اب بھی انھیں خطرے سے باہر قرار نہیں دیا ہے۔ ‘‘
اسے تو گجراتی پڑھنی نہیں آتی تھی لیکن لوگ آکر اسے اخبارات کی خبریں سناتے تھے او ر اس کی دوکان پرکھڑے ہوکر تبصرہ کرتے تھے۔ جہاں تک وہ سیف الدین کو جانتا تھا وہ ایک سیدھا سادھا ا نسان تھا ۔اس کا پالیٹکس ،غنڈہ گردی یا ملک دشمن سرگرمیوں سے دور کا بھی واستہ نہیں تھا۔ لیکن تمام اہم گجراتی اخبارات نے اس کے خلاف ایک سے الزامات لگا کر اسے ملک کا سب سے بڑا دشمن اور غنڈہ قرار دے دیا تھا۔ اور جس مہندر کی حالت تشویشناک بتائی گئی تھی وہ دندناتا گاؤں میں گھوم رہا تھا ۔اصلیت تو وہ اورنوٹیا گاؤں کے لوگ جانتے تھے۔ جولوگ اخبارات میں یہ خبریں پڑھیں گے وہ تو سچ سمجھیں گے اور سیف الدین کو پاکستانی ایجنٹ ،ملک دشمن ،بہت بڑا غنڈہ ہی سمجھیں گے۔ جو نوٹیا گاؤں میں ملک دشمن سرگرمیاں چلا رہا تھا۔ باتوں میں کتنی سچائی ہے وہ جانتا تھا ۔ ۔ ۔ ہر کوئی جانتا تھا۔ لیکن کون اس کے خلاف آواز اٹھا کر سچائی بیان کرسکتا تھا ۔
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

- 35 -

اسے پنجاب میں دہشت گردی کازمانہ یاد آیا۔اسی طرح کی خبریں اس وقت بھی اخبارات کی زینت بنا کرتی تھی۔ پولیس نے ذاتی دشمنی سے کسی معصوم کو گولی مار دی بھی تو اس معصوم کو بہت بڑا دہشت گرد قرار دیا جاتا تھا۔ اور اخبارات میں ایک بے گناہ کیپولیس کے ہاتھوں موت کی خبر کے بجائے ایک دہشت گرد کے انکاؤنٹر کی خبریں آتی تھیں۔ دو پڑوسی اگر لڑتے تو اس میں ایک کو دہشت گرد قرار دے کر اسے اخباروں کی سرخیوں کی زینت بنادیا جاتا تھا۔گاؤں میں ایک معمولی واقعہ ہوتا تو اسے دہشت گردی کی عینک سے دیکھ کر اسے ملک کا سب سے بڑا واقعہ بنا دیا جاتا تھا۔
اسے لگا دہشت گردی کی ذہنیت ہر جگہ کام کررہی ہے۔ جو کچھ پنجاب میں ہوا تھا۔ اب گجرات میں ہورہا ہے۔ کھلاڑی رہی ہے ۔ ۔ ۔ میدان بدل گئے ہیں۔ ۔ ۔ کھیل وہی ہے ۔ ۔ ۔ کھیل کے ٹارگیٹ بدل گئے ہیں۔
سویرے مدھو کالج جاتے ہوئے اس سے مل کر گئی تھی۔ ایک دوبار اس کا فون آیا تھا۔ اس نہ کہہ دیا تھا کہ گاؤں میں ہے کوئی واقعہ ہوا ہے ۔ سب اپنے اپنے کاموں میں لگے ہیں۔ 10 بجے پولیس کی بہت بڑی گاؤں پہنچی ۔اوراس نے پورے مسلم محلے کو گھیر لیا اور ہر گھر کی تالشی لینے لگی ۔ اسے پتہ چلا کہ جاوید کے انسٹی ٹیوٹ کی بھی تلاشی کی جارہی ہے تو وہ وہاں پہنچ گیا۔
’’آپ شوق سے پورے انسٹی ٹیوٹ کی تلاشی لیجیے انسپکٹر صاحب ‘‘۔جاوید ایک انسپکٹر سے کہہ رہا تھا ’’یہ تعلیم کا گھر ہے یہاں بچوں کو تعلیم دی جاتی ہے۔ ماؤس پکڑنا سیکھایا جاتا ہے ،بندوق یا پستول پکڑنا نہیں۔ ‘‘
’’ہم سمجھتے ہیں مسٹر جاوید لیکن ہم مجبور ہیں ۔اخبارات نے اس واقعہ کو اتنا اچھالا ہے اور ایسی ایسی خبریں چھاپ دی ہیں کہ ہم پراوپر سے دباؤ آیا ہے کہ ہم بتا نہیں سکتے۔ ہمیں یہ سب کرنا پڑے گا ۔انسپکٹر نے جواب دیا۔ ‘‘
دو تین گھنٹے میں خانہ تلاشی ختم ہوگئی ۔پولیس کو گھروں سے چھری ،چاقو ، لکڑیاں لاٹھیاں جو کچھ ملا ضبط کر کے لے گئے۔ اور ساتھ میں 12 ،10 لوگوں کو بھی گرفتار کرکے لے گئی ۔
’’جاوید بھائی یہ کیا ہورہا ہے۔ ‘‘ اس نے پوچھا ۔
’’وہی جو ساری دنیا میں ہورہا ہے ۔دہشت گردی کے نام پردہشت گردی ۔جھوٹے پرچار کے سہارے دہشت گردی پھیلائی جارہی ہے۔ اور معصوم لوگوں کو نشانہ بنایا جارہا ہے۔‘‘ جاوید مایوسی بھرے لہجے میں بولا۔’’انسانوں کے ضمیر مردہ ہوگئے ہیں۔ سچائی ،ایماندرای ،اخلاص یہ کسی کو فرقہ پرستی کے الاؤ میں جلا کر خاک کردیا گیا ہے۔ اور اس الاؤ سے جو شعلے بھڑک رہے ہیں جو آگ دہک رہی ہے وہ ماحول میں فرقہ پرستی ،نفرت ،حسد ،بغض ،کینہ کی گرمی پھیلا رہی ہے۔ ‘‘
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

- 36 -

’’جاوید بھائی جو الاؤ جلایا گیا ہے اگر اس کی آگ پر قابو نہیں پایا گیا تو یہ آگ نہ صرف ہمارے گاؤں کو بلکہ آس پاس کے سارے علاقے کو جلا کر خاک کردیں گے ۔‘‘
’’ نہ ہم نے وہ الاؤ بھڑ کا یا ہے اور نہ ہم میں اسے بجھانے کی طاقت ہے ۔اسے بھڑکایاہے قرفہ پرست قوموں نے ،قرفہ پرست سیاست دانوں نے اور وہ اس آگ میں معصوموں ، بے گناہوں کو جھونک کراپنے مفاد کی روٹیاں سیکیں گے۔ ‘‘جاوید مایوسی سے بولا ۔
جاوید کے پاس سے وہ ہو چلا آیا ۔ اور دوکان پر بیٹھ کرمدھو کے فون کا انتظار کرنے لگا۔ مدھو آئے تو اس نے آنکھوں سے گھر چلنے کے لیے کہا۔ وہ اپنے کمرے میں آیا ۔مدھو اس سے گاؤں کی حالت پوچھنے لگی۔اس نے ساری تفصیلات بتائی ۔
’’ ہاں میں نے بھی اخبارات کی خبریں پڑھی ہیں۔ اور میں خود حیران ہوں کہ اس معاملے کو کس طرح رنگ دیا گیا ہے۔ وہ کمینہ مہندر اتنا ذلیل ہوگا میں نے سوچا بھی نہیں تھا ۔ وہ اپنے انا کے لیے ہزاروں بے گناہوں کو اذیت دینا اپنی چاہتا ہے سمجھتا ہے۔ ‘‘مدھو دانت پیس کر بولی ۔
ایک دو باتیں کرکے وہ چلی گئی۔ یہ کہہ کر اگر گاؤں میں ایسی ویسی بات ہوئی تو اسے خبر کرے گی۔ اس کے جانے کے بعد جب وہ دوکان پر آیا تو رگھو نے اسے ٹوکا ۔ ’’کیوں سیٹھ جی معاملہ پٹ گیا؟ ‘‘
’’کیسا معاملہ ؟‘‘
’’دل کا معاملہ ۔ ۔ ۔ لگے رہو ۔ ۔ ۔ پردیس میں دل بہلانے کے لیے کوئی ذریعہ بھی تو چاہیے آپ بھی آخر اپنے چاچا کے بھتیجے ہیں۔ آپ کے چاچا بھی آپ کی طرح رنگیلے تھے۔‘‘
’’رنگیلے ؟‘‘وہ رگھو کو گھور نے لگا۔
’’ارے بھائی آدمی گھر بار ،بیوی بچوں سے ہزاروں میل دور مہینوں تک رہتا ہے۔ تو زندہ رہنے کے لیے رنگیلا بن کر رہے گا یا سنیاسی بن کر ۔ ۔ ۔ آکے چاچا نے بھی کئی عورتوں سے دل کا معاملہ جمارکھا تھا ۔‘‘
’’کئی عورتوں سے ؟‘‘ وہ حیرت سے رگھو کو دیکھنے لگا۔
’’اں ان کا معاملہ کئی عورتوں سے تھا۔ وہ ان عورتوں سے اپنی ضرورت پوری کرتا تھا ۔اور وہ عورتیں اس سے اپنی جسمانی ہوس ۔‘‘
یہ باتیں سن کر وہ سوچ میں پڑ گیا۔ آج اسے اپنے چاچا کا ایک نیا روپ معلوم پڑا تھا۔ لیکن اسے اپنے چاچا سے کوئی شکایت نہیں تھی۔ بیچارا سالوں تک چاچی سے دور رہتا تھا ۔ دل بہلانے کے لیے اپنی ضرورت پوری کرنے کے لیے معاملوں میں الجھے گا نہیں تو اور کیا کرے گا ۔لیکن اس کا معاملہ تھوڑا مختلف تھا۔ اس کے اور مدھو کے تعلقات کو چاچا کا سا معاملہ نہیں کہا جاسکتاتھا۔وہ مدھو کو اپنے دل کی گہرائی سے چاہتا تھا۔ مدھو بھی اسے اپنے دل کی گہرائی سے چاہتی تھی۔ اس کے ذہن میں جنسی تعلقات کے خیال بھی نہیں آیا تھا۔ ابھی تک تواس نے مدھو کو چھوا بھی نہیں تھا۔ نہ مدھو کسی غلط نیت سے اس کے قریب آئی تھی۔ ایک دیوانگی تھی۔ دونوں کا دل چاہتا تھا۔ بس وہ ایک دوسرے سے باتیں کرتے رہے۔ ایک دوسرے کے پاس بیٹھے ،ایک دوسرے کو دیکھتے رہے۔ وہ زندگی بھر کے لیے ایک دوسرے کے ہوجانا چاہتے تھے۔ لیکن دونوں کا معاملہ بڑا تیڑھا تھا۔ اسے پتہ تھا اگر ان کے تعلقات کا علم مدھو کے گھر والوں کو ہوا تو آگ لگ جائے گی۔ اگر مہندرکو معلوم ہوا تو اس کے ٹکڑے ٹکڑے کرنے کے درپے ہوجائے گا۔
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

- 37 -

وہ مدھو کو چاہتا تھا ۔مدھو کو اپنی ملکیت سمجھتا تھا۔ اور اس کی ملکیت پر کوئی حق جتائے۔ اسے لگ رہا تھا۔ ایک دوسرے کو پانے کے لیے انھیں کئی ایسے قدم اٹھانے پڑیں گے جو ان کے لیے کانٹوں بھرا راستہ ثابت ہوسکتے ہیں۔ انگاروں سے بھری راہوں پر چلنا ہوگا۔ وہ تو ان سب باتوں کے لیے تیارتھا۔ لیکن کیا مدھو ان تکلیفوں کو سہہ پائے گی۔ اس نے اس سلسلے میں مدھو سے بات نہیں کی تھی۔ اس کا ایک دل کہتا اسے مدھو سے اس سلسلے میں صاف صاف بات کرلینی چاہیے۔ تو دوسرا دل کہتا اسے اس سلسلے میں مدھو سے بات کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ۔سچے عاشق ،پیار کرنے والے زمانہ کا سامنا کرتے ہوئے ہر قسم کا امتحان دینے تیار رہتے ہیں۔ اسے پوار یقین تھا ۔مدھو اس کی طرح ہر امتحان میں پوری اترے گی۔
دوسرے دن جب مدھو کالج جانے لگی تو وہ بھی اس کے ساتھ بس میں بیٹھ کر شہر آیا۔ آج وہ مدھو سے دل کھول کر ساری باتیں کرلینا چاہتا تھا۔ اس کے ارادوں کو سمجھ کر اس کے جذبات ، احساسات کی قدر کرتے ہوئے مدھو نے اس دن کالج جانے کا ارادہ ترک کردیا ۔
’’کیا بات ہے۔آج اس طرح میرے ساتھ شہرکیوں چلے آئے ؟‘‘ مدھو نے پوچھا ۔
’’مدھو کئی ایسی باتیں ہیں جنھیں سوچ سوچ کر میں ساری رات نہیں سو سکا۔ ‘‘
’’ایسی کون سی باتیں تھے جنھوں نے ہمارے سیاں کی نیند حرام کردی ۔ ‘‘مدھو نے اسے چھیڑا ۔
’’مذاق مت اڑاؤ ۔ ۔ ۔ میں سنجیدہ ہوں ۔ ۔ ۔ سو فیصد سنجیدہ تم بھی سنجیدہ ہوجاؤ۔یہ ہماری زندگی کا سوال ہے۔ ‘‘
اسے سنجیدہ دیکھ کر مدھو بھی سنجیدہ ہوگئی ۔’’تم مجھ سے پیار کرتی ہو؟ ‘‘اس نے پوچھا۔
’’یہ بھی کوئی پوچھنے والی بات ہے۔ ‘‘
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

-38 -

’’میں بھی تم سے پیار کرتا ہوں تمہارے علاوہ میرے لیے دنیا کی کسی بھی غیر عورت کا تصور بھی حرام ہے۔‘‘
’’میں بھی صرف تمہیں اورتمہیں چاہتی ہوں ۔اب تو میں کسی غیر آدمی کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتی۔ ‘‘
’’زندگی بھر میری بن کر رہوگی ؟‘‘
’’میں تو چاہتی ہوں کے موت کے بعد بھی تمہارے ساتھ رہوں ۔ساتھوں جنم تک تمہارے ساتھ رہوں ۔‘‘
’’مجھ سے شادی کروگی؟‘‘
’’یہ بھی کوئی پوچھنے والی بات ۔‘‘
’’کیا تمہار ے گھر برادری والے ہماری شادی کے لیے تیار ہوجائیں گے۔ ‘‘
’’یہ ذرا تیڑھا مسئلہ ہے۔ ‘‘مدھو سنجیدہ ہوگئی۔’’میرے گھر والے اس شادی کے لیے کبھی تیار نہیں ہوں گے۔ اور برادری والوں کو اگر ہمارے تعلقات کا پتہ چلا تو وہ ایسی آگ لگائیں گے کہ اس میں ہمارا خاندان کا سب کچھ جل کر خاک ہوجائے گا۔ ‘‘
’’میرے گھر والوں کو ہماری شادی پر کوئی اعتراض نہیں ہوگا ۔وہ خوشی خوشی ہر اس لڑکی کو اپنی بہو قبول کریں میں جسے پسند کروں ۔ اگر میں کہوں تو وہ تمہارے گھر بارات بھی لے کر جاسکتے ہیں۔ ‘‘ وہ بولا ۔
’’جمی ۔ ۔ ۔ یہی تو مسئلہ ہے ۔ میرے گھر تمہاری بارات نہیں آسکتی ہماری شادی منڈپ میں نہیں ہوسکتی۔ ‘‘
’’اگرمنڈپ میں ہوسکتی تو کس طرح ہوگی ۔‘‘
’’ہم دونوں بالغ ہیں۔ اپنی مرضی کے مختار ہیں۔ ہم اپنی پسند کے مطابق شادی کرسکتے ہیں۔ ہم کورٹ میں شادی کریں گے۔ گھر والے ،برادری والے نہیں مانیں تو کہیں بھاگ جائیں گے۔ اور وہاں پر شادی کرکے اپنا نیا جیون شروع کریں گے۔ ‘‘
’’تم کس حد تک اپنی اس بات پر قائم رہوگی مدھو ؟۔ ‘‘
’’جمی ۔ ۔ ۔ میرا امتحان مت لو ۔اگر تم چاہو تو اس وقت اپناگھر ،وطن چھوڑ کر تمہار ے ساتھ جہاں تم کہو چل سکتی ہوں ۔ ‘‘مدھو نے اعتماد سے کہا۔
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

- 39 -

مدھو کی بات سن کر وہ سوچ میں پڑ گیا ۔کافی دیر چپ رہا پھر بولا ۔’’مدھو ۔ ۔ ۔ تم اپنے گھر والوں کو ہماری شادی کے لیے راضی نہیں کرسکتی ۔میں نہیں چاہتا کہ کوئی تضاد بڑھے ۔‘‘
’’جمی۔ ۔ ۔ میرے گھر والے ہماری شادی کے لیے مشکل سے راضی ہوں گے۔ اگر میری محبت میں میری خوشی کے لیے وہ راضی ہوبھی گئے تو ہماری برادری والے راضی نہیں ہوں گے۔گاؤں والے راضی نہیں ہوں گے۔ اور وہ کمینہ ۔ ۔ ۔ مہندر اگر انھیں ہمارے تعلقات کی بھنک بھی لگ گئی تووہ ایسی آگ لگائے گا کہ میں بتا نہیں سکتی۔ ہماری شادی اس گاؤں میں ،منڈپ میں ہونی مشکل ہے۔ اگر تم مجھ سے شادی کرنا چاہتے ہو تومجھے اس گاؤں سے دور لے چلو۔ ہم کورٹ میں شادی کرلیں گے۔ ۔ ۔ کسی مندر میں شادی کرلیں گے۔ ۔ ۔ کسی گردوارے میں شادی کرلیں گے۔ ۔ ۔ یا مجھے تمہارے گاؤں لے کر چلو۔ ۔ ۔ وہاں اپنے کسی دوست ،اپنے کسی رشتہ دار کے گھر مجھے رکھ دینا اور وہاں اپنی بارات لے کر آجانا ۔ ‘‘کہتے ہوئے مدھو کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔
اس نے اپنے ہاتھوں سے اس کے آنسو پونچھے ۔’’مدھو تم جیسا چاہوگی میں ویسا ہی کروں گا ۔لیکن میں چاہتا ہوں کہ ہماری وجہ سے کوئی فتنہ ،فساد نہ پیدا ہوجائے۔ ہمارے پیار کی وجہ سے تمہارے گھر والوں کو نیچے دیکھنا نہ پڑے ۔ان کی بدنامی کی بنیاد پر ہم اپنے پیار کا محل تعمیر کرسکتے ۔ بس اسی لیے میں چاہتا ہوں کہ کوئی ۔ ۔ ۔ کوئی ایسا راستہ نکل جائے جس سے بخوبی انجام کو پہنچ جائے ۔ ‘‘وہ خلاء میں گھورتا بولا ۔
بہت بحث ،سوچ ،غور و خوص کے بعد بھی کوئی مناسب راستہ نکل نہیں سکا جو دونوں اور ہر کسی کے لیے قابل قبول ہو۔ اسے لگ رہا تھا جس وقت اس کے دل میں مدھو کے لیے محبت کونپل پھوٹی بھی اس وقت اس کی زندگی میں انگاروں کی فصل کی بویائی شروع ہوگئی تھی ۔ اب وہ فصل تیار ہورہی ہے۔ اب انھیں اس فصل کے انگارے ہی کاٹنے ہے ۔پھر وہ اپنے ذہن کو یکسوں کرنے کے لیے گاؤں کے حالات پر باتیں کرنے لگے۔ مدھو اسے ایسی باتیں بتانے لگیں جو اسے معلوم نہیں تھیں۔ اس کا کہنا تھا جھوٹ کا اتنا زور دار پروپیگنڈا کیا گیا ہے کہ ہر کوئی مسلمانوں سے نفرت کرنے لگا ہے۔ مسلمانوں کو اپنا دشمن سمجھنے لگا ہے۔ اور اسے محسوس ہورہا ہے مسلمان اس کی جان کے دشمن ہے وہ کبھی بھی اس کی جان لے سکتی ہے۔ اس لیے بہتری اس میں ہے کہ وہ اپنی جان کی دفاع کے لیے خود آگے بڑھ کر مسلمانوں کی جان لے لے۔ یا ان کے سروں پر جو مسلمانوں کے خطرے کی تلوار لٹک رہی ہے۔ اس سے نجات پانا ہے تو سارے مسلمانوں کو اس گاؤں بدر کر دیا جائے۔ مہندر بھائی جیسا نیتا ان کے دَل اور پارٹیاں ہی ان کی سچی رہنما ہے اور وہی ان کو اس مصیبت سے بچاسکتے ہیں ۔اس لیے ضرروت اس بات کی ہے کہ سب متحد ہوجائیں او ران کاساتھ دیں۔ ورنہ اس گاؤں میں بھی وہی کچھ ہوسکتا ہے جو آٹھ دس سال قبل ممبئی میں ہوچکا ہے۔ ۔ ۔ بم پھٹیں گے اور سارا گاؤں تباہ ہو جائے گا ۔مسلمانوں نے اس کو برباد کرنے کی تیاری کرلی ہے۔
یہ باتیں اور بھی ذہنی تناؤ میں مبتلا کرنے والی تھی۔ بہتر یہی تھا کہ ان باتوں کو چھوڑ کر اپنے بارے میں سوچا جائے۔ اپنے پیار کے بارے میں سوچا جائے گا ۔شام تک وہ ادھر اُدھر بھٹکتے رہے اور پھر گاؤں کی بس میں بیٹھ کر واپس گاؤں کی طرف چل دیے۔پورے راستے دونوں خاموش رہے ۔ بس میں دونوں کا کوئی شناسا نہیں تھا اس لیے دونوں ایک ہی سیٹ پر بیٹھے رہے۔ مدھو اس کی کاندھے پر سر رکھے پتہ نہیں کیا سوچتی رہی ۔بس اسٹاپ آیا تو وہ دونوں بس سے نیچے اترے ۔ پہلے مدھو اتری نیچے اترتے ہی اس کی چہرے کارنگ بدل گیا اور وہ ڈر کر پیچھے ہٹ گئی۔ سامنے مہندر کھڑا تھا۔ پھر شاید اسے اپنی غلطی کا احساس ہوا۔ اسے مہندر سے اس طرح ڈر کر اسے اپنے کمزور اور غلطی کااحساس نہیں کرانا چاہیے۔ اس لیے اس نے بے نیازی سے ایک نظر اس پر ڈالی اور آگے بڑھ گئی۔ اس کے پیچھے جمی اترا ۔مہندر پر نظر پڑتے ہی وہ بھی ٹھٹھک گیا ۔ اس نے خواب میں بھی نہیں سوچا تھا کہ اپنے سامنے وہ مہندر کو پائے گا۔
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

- 40 -

’’کیا بات ہے سردارجی ۔ ۔ ۔ کہاں سے آرہے ہو ‘‘مہندر اسے چھبتی ہوئی نظروں سے دیکھتا بولا ۔’’سویرے جاتے ہو ،شام کو واپس آتے ہو ۔مدھو کے ساتھ جاتے ہو ۔ ۔ ۔ مدھو کے ساتھ واپس آتے ہو۔‘‘
مہندر کی یہ بات سن کر اس کا دل کانپ اٹھا۔ ’’ایسی بات نہیں ہے۔‘‘وہ تھوک نگل کر بولا۔
’’اگر ایسی بات نہیں ہے تو ٹھیک ہے۔ مجھے پتہ چلا کے تم مدھو میں کچھ زیادہ ہی دلچسپی لے رہے ہو۔ ۔ ۔ اگر یہ سچ ہے تو یہ اچھی بات نہیں ہے۔ مدھو میری ہے۔ اور صرف میری رہے گی۔ اگر کوئی اس کی طرف آنکھ بھی اٹھائے تومیں اس کی آنکھ نکال دوں گا۔ اس کو کوئی چھونے کی کوشش کرے تو ،تو اس کے ہاتھ کاٹ دوں گا۔ اور اس حد سے آگے بڑھنے کی کوش کرے تو اسے اپنی نفرت اور غصے کے الاؤ میں جلا کر خاک کردوں گا۔ ۔ ۔ سمجھے۔دھندہ کرنے آتے ہو ۔دھندہ کرو اور دو پیسے کماؤ ۔عشق کرنے کی کوشش کروگے تو دھندے سے بھی جاؤ گے اور جان سے بھی ۔ ‘‘
’’جی۔ ۔ ۔ ‘‘پتہ نہیں کہاں سے بزدلی اس کی رگ رگ میں سما گئی تھی۔ وہ اس سے زیادہ کچھ کہہ نہ سکا ۔اتنا کہہ کر مہندر تیزی سے مڑا اور گاؤں کی طرف جانے والی سڑک پر آگے بڑھ گیا۔ وہ اپنی دوکان میں آکر سرپکڑ کر بیٹھ گیا۔ ’’تو مہندرکو پتہ چل گیا۔ یا مہندر نے دیکھ لیا جان لیا کہ اس کا اور مدھو کا کیا رشتہ ہے۔ ‘‘اس کو مہندرکیا آنکھوں میں نفرت کے شعلے بھڑکتے نظر آئے۔ جو ایسا محسوس ہورہا تھا ایک الاؤ کی شکل اختیار کررہے ہیں۔ اور کچھ بد نما چہرے اسے اورمدھو کو پکڑ کر اس الاؤ میں دکھیل رہے ہیں۔دونوں ان کی گرفت سے آزاد ہونے کے لیے کسمسا رہے ہیں ۔ مگر انھیں اپنے پر جلتے الاؤ کی لپٹیں محسوس ہورہی ہیں۔
User avatar
چاند بابو
منتظم اعلٰی
منتظم اعلٰی
Posts: 22224
Joined: Mon Feb 25, 2008 3:46 pm
جنس:: مرد
Location: بوریوالا
Contact:

Post by چاند بابو »

بہت خوب تفسیر بھیا آپ کا کام بہت بہترین جا رہا ہے۔ بہت بہت شکریہ۔
قصور ہو تو ہمارے حساب میں لکھ جائے
محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو
میں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

- 41 -
دوسرے دن وہ مدھو کا بے چینی سے انتظار کررہا تھا۔ لیکن وہ کافی تاخیر سے آئی۔ وہ چاہتاتھا مدھو کچھ پہلے آئے تاکہ وہ اس سے پوچھ سکے کے کل کوئی گڑبڑ تو نہیں ہوئی۔ لیکن دور سے ہی مدھو نے اشارہ کردیا کہ وہ گیلری میں کھڑا نہ رہے اندر چلا جائے ۔باقی باتیں وہ فون پربتادے گی۔ مدھوکے اس اشارے سے اس نے اندازہ لگایا کچھ تو بھی گڑبڑ ہے یا گڑبڑ ہونی ہے اس لیے وہ فوراً اندر چلا گیا۔ لیکن اس کا دل نہ مانا ۔ وہ کھڑکی کی دراز سے چھپ کر مدھو کو دیکھنے لگا ۔ مدھو بس اسٹاپ آکر کھڑی ہوگئی ۔وہ بہت گھبرائی ہوئی تھی۔ باربار چونک کر چاروں طرف دیکھنے لگتی ۔ جیسے اسے کسی کا ڈر ہو۔ اس نے اندازہ لگایاشاید مدھو کی نگرانی کی جارہی ہے اسی لیے وہ اتنی گھبرائی ہوئی ہے۔اتنے میں بس آگئی اوروہ بس میں جا بیٹھی اور بس چلی گئی۔

جلدی سے تیار ہوکر وہ دوکان میں آیا۔ اسے مدھوکے فون کاانتظار تھا۔ اسے پورا یقین تھا مدھو اسے فون کرے گی اور ساری باتیں بتائے گی۔ اسے مدھوکے فون کازیادہ دیر انتظار نہیں کرنا پڑا۔ شاید مدھو نے شہر پہنچتے ہی اسے فون لگایا تھا۔

’’جمی ۔ ۔ ۔ بہت گڑبڑ ہوگئی ہے۔وہ حرامی مہندر نے ایسی آگ لگائی ہے کہ میں بتا نہیں سکتی ۔اس نے نہ صرف میرے گھر والوں بلکہ محلے اور برادری کے چند بڑے لوگوں کے سامنے مجھ پر یہ الزام لگایا ہے کہ میرے تم سے ناجائز تعلقات ہیں۔ ‘‘

یہ سن کر اس غصے سے اس کے کان کی رگیں پھول گئیں۔ ’’میں نے سب کے سامنے ان باتوں سے انکار کیاہے ۔وہ ثبوت پیش نہیں کر سکا اس لیے سب کے سامنے اسے ذلت اٹھانی پڑی ۔ اس لیے وہ تلملایا ہوا ہے اس نے چیلنج کیا ہے کہ وہ ہم دونوں کو رنگے ہاتھوں پکڑ کر گھسیٹ تاہوا لاکر سب کے سامنے کھڑا کردیگا۔برادری والوں نے کہا ہے کہ اس بات کا فیصلہ وہ اس وقت کریں گے ۔لیکن میرے ماں باپ بہت دکھی ہیں۔ وہ باربار مجھ سے کہہ ہیں بیٹی تم ایسا کوئی کام مت کرو جس سے برادری میں ہماری پگڑی اچھلے۔ ‘‘کہہ کر مدھو خاموش ہوگئی ۔

’’پھر کیا کیا جائے؟‘‘کافی دیر کی خاموشی کے بعد اس نے پوچھا۔
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

- 42 -

’’سوچتی ہوں دو چار دن ہم ایک دوسرے سے دور ہی رہیں تو بہتر ہے۔ فون پر باتیں کرلیا کریں گے۔ ‘‘

’’ٹھیک ہے ‘‘وہ بولا ۔’’اگر تم یہ منا سب سمجھتی ہو تو یہ بھی کرلیں گے۔ ‘‘اس نے کہا دوسری طرف سے مدھو نے فون رکھ دیا۔

وہ رسیور رکھ کرسوچنے لگا ۔ایک دن معاملہ یہاں تک پہنچنا ہی تھا۔ اگر مہندر درمیان میں نہیں آتا تو شاید اس معاملے کو یہاں تک برسوں لگ جاتے ۔لیکن مہندر کی وجہ سے یہ معاملہ بگڑ گیا۔ اب کیا کیا جائے اس کی سمجھ میں نہیں آرہاتھا۔ وہ کوئی ایک فیصلہ نہیں کرپارہاتھا ۔اس وقت حالت ایسے تھے نہ تو وہ مدھو کو چھوڑ کر سکتا تھ اور نہ اپنا سکتا تھا۔ مدھو اس کی روح کی گہرائیوں میں اس حد تک بس گئی تھی کہ وہ مدھو کے بغیر ایک لمحہ بھی نہیں رہ سکتا تھا۔ مدھو کی بھی یہ حالت ہے۔ دونوں کے سامنے ایک ہی راستہ۔ وہ گاؤں چھوڑ دیں۔ کہیں بہت دور چلے جائیں جہاں وہ آرام سے رہ سکے ۔ ان کے درمیان کوئی دیوار نہ ہو۔ لیکن اس کا دل اس کے لیے تیار نہیں تھا۔

نئی جگہ جانے کے بعد روزگار کا سب سے بڑا مسئلہ اس کے سامنے ہوگا۔ وہ ایسی حالت میں مشکلات سے اپنا پیٹ بھر سکتا ہے تو بھلا مدھو کا پیٹ کس طرح پاک سکتا ہے۔ اس قسم کا اہم فیصلہ جذبات میں نہیں کرنا چاہیے بہت سوچ سمجھ کر کرنا چاہیے ۔تاکہ آگے کوئی تکلیف نہ ہو۔ دیر تک وہ ان ہی خیالوں میں الجھا رہا۔ جب دل گھبرا گیا تو اس رگھو سے کہا ۔’’میں ابھی چوک سے آیا۔‘‘اور ٹہلتا ہوا جاوید کے سائبر کیفے کی طرف چل دیا۔

’’آئیے سردارجی ۔کیا بات ہے ؟ آپ اس وقت یہاں ؟ کچھ بجھے بجھے سے دکھائی دے رہے ہیں؟کی گل ہوئے؟‘‘

’’اور کی گل ہوگی ۔ ۔ ۔ وہ لمبی سانس لے کر بولا ’’وہی دل دامعاملہ ‘‘
’’دل دا معاملہ ۔ ۔ ۔ کی کے ساتھ ؟ ‘‘ اس نے پوچھا۔
’’وہ۔ ۔ ۔ مدھو کے ساتھ۔‘‘
’’اوے ۔ ۔ ۔ تو تم نے مدھو کے ساتھ دل دا معاملہ فٹ کیا ! اتنی جلدی اور اب تک میں نو بتایا بھی نہیں ۔ ‘‘
’’اور اب بتا رہا ہوں نا ۔‘‘
’’معالہ کی ہے؟‘‘
’’مہندر بھائی پٹیل ۔‘‘
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

- 43 -

اس نے ایک لفظ کہا جسے سن کر جاوید کے چہرے کے تاثرات بھی بدل گئے۔

’’میں یہ کہوں گاجمی ۔ ۔ ۔ تم نے غلظ جگہ دل لگایا ہے۔ ‘‘جاوید کے چہرے پر سنجیدگی کے تاثرات تھے ’’تم نے نوٹیا کسی اور لڑکی سے دل لگایا ہوتا تو اس معاملے میں میں تمہاری پوری پوری مدد کرتا ۔لیکن مدھو کے معاملہ ایسا ہے ۔ایک اژدھے کے چنگل سے مدھو کو چھڑانا ہے۔ تجھے پتہ ہے ۔ ۔ ۔ مہندر بھائی مدھو پرمرتا ہے۔ او رمدھو اسے گھاس نہیں ڈالتی ہے۔ لیکن اس کے باوجود وہ مدھو کو اپنی ملکیت سمجھتا ہے۔اور اس کے ملکیت کی طرف آنکھ اٹھانے کا مطلب ہوا۔ ۔ ۔ ۔ ۔
۔ ‘‘جاوید رک گیا۔
وہ بہت د یرتک اس معاملے پر باتیں کر تے رہے۔ اس نے اپنی اور مدھو کے تعلقات کی ساری باتیں جاوید کو بتادیں۔ سب سننے کے بعد جاوید ’’اگر تم دونوں کو اس گاؤں میں نہیں رہنا ہے تو اس گاؤں سے بھاگ جاؤ۔ساری دنیا سامنے ہے جو دو محبت کرنے والے دلو ںکو پناہ دینے کے لیے تیار ہے۔ لیکن اگر تم دونوں کو اس گاؤں میں رہنا ہے تو پھر ایک دوسرے کو بھول جاؤ۔ ۔ ۔ ‘‘

’’ہمیں تو اس گاؤں میں رہنا ہے۔ اور ایک دوسرے کو بھول نہ بھی نہیں ہے۔‘‘

’’مصلحت کے تحت سمجھوتہ کرکے بھی تو انسان جی سکتا ہے۔ اس وقت جو حالات ہے اس کی بنیاد پر تم دونوں ایک سمجھوتہ کرلو۔ ہم دونوں ایک دوسرے کو بھولیں گے نہیں ۔ ۔ ۔ ایک دوسرے کو پہلے کی طرح چاہتے رہیں گے لیکن ایک دوسرے سے دور رہیں گے۔ ۔ ۔ ایک دوسرے سے ملیں گے نہیں ۔ ۔ ۔ ایک دوسرے کی طرف دیکھیں گے بھی نہیں۔ ‘‘

’’مجھے مہندر کا ڈر نہیں ہے ۔ اپنے ہاتھوں سے ایک جھٹکے میں میں اس کی گردن توڑسکتا ہوں۔ لیکن مجھے ڈر مدھو ،اس کے خاندان ،اس کی برادری کا ہے۔ میں مہندر سے نہیں ڈرتا۔ ‘‘

’’طاقت کی بنیاد پر کوئی بھی مہندر سے نہیں ڈرتا ہے۔ لیکن اس کے شیطانی منصوبوں سے خوف کھاتے ہیں۔ وہ جو سامنے لڑکا بیٹھا ہے نہ وہ بھی مہندرکی جان لے سکتا ہے۔ مار مار کر اسے ادھ مرا کرسکتا ہے۔ لیکن سیف الدین بھائی کا دیکھا اس نے کیا حال کیا۔ ‘‘

بہت دیر تک و اس معاملے میں باتیں کرتے رہے۔ پھر وہ یہ کہہ کر اٹھ گیا۔ ’’دیکھتے ہیں حالات کا اونٹ کیا کروٹ لیتا ہے۔ اس وقت حالات کے مطابق سوچیں گے کیاکرنا ہے۔ ‘‘ مہندر کس لیے دوکان پر آیا تھا؟ اور اسے کیوں پوچھ رہا تھا؟و ہ دونوں ایک دوسرے کے رقیب تھے۔ مہندر اس سے اپنی راہ سے ہٹ جانے کے بارے میں کہنے آیا ہوگا۔ اچھا ہوا اس اور مہندر سے سامنا نہیں ہوا۔ ورنہ مہندر اگر اس سے کوئی الٹی سیدھی بات کرتا تو اسے خود پر قابو رکھنا مشکل ہوجاتا ۔

دن بھر ان ہی خیالات میں گذر گیا۔ مدھو کا لج سے آئی اور بنا اس کی طرف دیکھے گھر چلی گئی۔ گھر جاکر اس نے اسے فون کیا تو اس نے مدھو کو بتادیا مہندر آیا تھا اس سے ملنے مگر وہ ملا نہیں۔
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

- 44 -

مدھو نے اسے مشورہ دیا کہ ’’جیتنا ممکن ہوسکے مہندر سے کترانے کی کوشش کرو۔وہ کوئی شیر ببر نہیں ہے جو اسے کھاجا ئے گا۔ لیکن حالات اور مصلحت کا تقاضہ یہ ہے کہ نظر انداز کرے۔ جلد کوئی نہ کوئی راستہ نکل آئے گا۔‘‘

رات میں مندر پھر آدھمکا ۔’’اور سردارجی کیسے ہو؟ اخبارات پڑھتے ہو یا نہیں ؟ دیکھا میری طاقت کا ندازہ ؟ سیف الدین کو تباہ و برباد کردیا ۔زندگی بھر وہ اب جیل کی سلاخوں سے باہر نکل نہیں پائے گا ۔اس پر اتنے الزامات لگا دیے گئے ہیں کہ وہ خود کو بیگناہ ثابت کرتے کرتے اس کی عمر ختم ہوجائے گی ۔وہ مجھ سے ٹکرارہا تھا۔ ۔ ۔ مہندر بھائی سے ۔مہندر بھائی کی طاقت کا اسے اندازہ نہیں تھا ۔بی جے پی ،وشوہندو پریشد ،آر ایس ایس ، بجرنگ دل یہ سب مہندر کی طاقت ہے۔ ان سے ٹکر لینے سے مرکزی حکومت بھی گھبراتی ہے۔ تو بھلا ایک معمولی مسلمان کی اوقات کیا ؟ ‘‘

وہ رک کر اس کی آنکھوں میں دیکھنے لگا۔
سیف الدین کے تو بہت سارے حمایتی تھے گاؤں کے چار پانچ سو مسلمان اس کے ساتھ تھے ۔کئی کانگریسی مسلم لیڈر اس کے ساتھ تھے پھر بھی کیا وہ جیل جانے بچ سکا ؟ نہیں بچ سکا۔ اور تم تو اس گاؤں میں اکیلے ہو؟ تمہاری مدد کرنے تو پنجاب سے بھی کوئی نہیں آنے والا ؟ پھرکس بنیاد پر تم مہندر بھائی سے ٹکر لینے چلے ہو؟

’’تم کہنا کیا چاہتے ہو۔ ۔ ۔ ؟‘‘ اسے جوش آگیا۔
’’ایک ہی بات ۔ ۔ ۔ مدھو کا خیال اپنے دل سے نکال دو ۔ مدھوصرف مہندر کی ہے اور کسی کی ہو نہیں سکتی۔ کوئی اس کے بارے میں سوچنے کی جرات بھی نہیں کرسکتا ۔ ۔ ۔ نوجوان ہو اکیلے ہو ۔ ۔ ۔ جوانی میں کسی نہ کسی سہارے کی ضرورت پڑتی ہے ۔مجھے بھی اس بات کا احساس ہے۔لیکن اس سہارے کو مدھو اور اس کی جوانی میں کیوں ڈھونڈھتے ہو؟ اگر تمہیں اور کوئی چاہیے تو گاؤں کی جس لڑکی طرف اشارہ کردوگے اسے لا کر تمہارے قدموں میں ڈال دوں گا۔ مجھے پتہ ہے تمہارے چاچا نے اس گاؤں میں بہت مزہ کیا ہے ۔مز ہ کرنے پر مجھے کوئی اعتراض نہیں ہے۔ تم سارے گاؤں کی لڑکیوں کے ساتھ ،عورتوں کے ساتھ مزے کرو ۔ مجھے کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔ لیکن مدھو کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی مت دیکھنا کیونکہ مدھو صرف میری ہے۔ یہ میری وارننگ ہے اگر تم اور مدھو مجھے ساتھ ساتھ دکھائی دےئے تو مجھ سے بُرا کوئی نہیں ہوگا۔ ‘‘کہتا وہ چلا گیا۔

اس رات وہ رات بھر نہیں سو سکا۔ اس کا دل چاہ رہا تھا وہ اپنے دونوں ہاتھوں سے مہندر کا لگا گھونٹ کر ہمیشہ کے لیے اس کا قصہ ہی ختم کردے۔ لیکن اسے اس طرح مدھو نہیں ملنے لگے۔ اسے جیل ہوجائے گی ۔اور جب وہ جیل سے باہر آئے گا تو مدھو اس کا انتظار کرتے کرتے جب پرائی ہوجائے گی ۔کسی اور کی ہوجائے گی۔

اسے مدھو پر غصہ آرہا تھا ۔ وہ اس کی زندگی میں کیوں آئی وہ اپنی زندگی میں بہت خوش تھا پیار کی کونپل اس کے دل میں نہیں پھوٹی تھی۔ لیکن اپنے پیار کی چنگاریوں سے مدھو نے اس کے وجود کو الاؤ میں تبدیل کردیا۔ اور اب وہ اسی الاؤ کی آگ میں دہک رہاہے۔ اس آگ کی تپش سے مدھو بھی اچھوتی نہیں ہے۔ اس کی زندگی بھی اس کی تپش میں جہنم بن رہی ہے۔ مدھو کی محبت پیار کا الاؤ ایک ایسا الاؤ جیسے وہ چاہ کر بھی بجھا نہیں سکتا ۔اور اب اس الاؤ کو روشن رکھنے کے لیے اسے اپنی جان کی بازی لگانی ہے۔
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

- 45 -

مدھو کے تیور دیکھ کر کر اسے بھی ایک نیا حوصلے ملا ۔ مدھو ایک لڑکی ہوکر اتنا سب کچھ کر سکتی ہے ۔ ساری دنیا سے ٹکرانے کو تیار ہے ۔کسی سے نہیں ڈرتی ۔ سب کے سامنے اپنے پیار کا اعلان کر نے کو تیار ہے۔ تو وہ تو لڑکا ہے۔ اسے دنیا سے ڈرنے کی کیا ضرورت ہے۔ مدھو اگر اس کا ساتھ دے ، اسے کے ساتھ رہے تو وہ ساری دنیا سے ٹکر لے سکتا ۔

’’ٹھیک ہے مدھو۔ ۔ ۔ اب ہمیں کسی سے نہیں ڈرنیں گے ۔ساری دنیا کے سامنے اپنی محبت کا اعلان کردیں گے۔ دیکھیں زمانہ کیا کرتا ۔ ‘‘

’’مجھے تم سے یہی امید تھی ۔ ۔ ۔ جمی ۔ ‘‘کہہ کر مدھو اس آکر لپٹ گئی۔ اور اس کی چوڑی چھاتی میں سر رکھ کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔ اس نے مدھو کو بھینچ گیا۔ اور اس پشت اور بالوں میں ہاتھ پھیرنے لگا ۔

’’ٹھیک ہے مدھو ۔ ۔ ۔ اگر تم چاہتی ہو تو ایک دو دن میں ہی ہم شادی کرلیں گے۔ شادی کرکے اس گاؤں میں رہیں گے۔اور دنیا کو بتائیں گے کہ پیارکرنے والے کتنے خوش و خرم رہتے ہیں۔پیار کرنے والے کو دنیا سے ڈرنا نہیں چاہیے۔پیار کرنے والے اگر اپنے ارادوں میں اٹل رہیں تو دنیا کی یہ دیوار ٹوٹ سکتی ہے۔ انھیں دنیا کی کوئی طاقت ایک دوسرے سے جدا نہیں کرسکتی ۔ دنیا کی کوئی طاقت انھیں ملنے سے روک نہیں سکتی ۔ ‘‘
پتہ نہیں کتنی دیر تک وہ ایک دوسرے سے لپٹے ،ایک دوسرے سے باتیں کرتے رہے۔ باہر بس کا ہارن سنائی دیا تو وہ چونکے۔ مدھو کی بس آگئی تھی۔

’’میں جاتی ہوں دوپہر میں پھر آؤں گی۔ ‘‘کہتی مدھو ،اس کے منہ کو چوم کر تیزی سے سیڑھوں سے نیچے اتر کر بس میں جابیٹھی ۔بس والا شاید اس کا انتظار کررہا تھا۔ اس کے بس میں بیٹھتے ہی بس چل دی۔جاتے ہوئے مدھو اسے ہاتھ دکھایا۔ اس نے بھی ہتھ ہلا کر فلائنگ کس مدھو کی طرف اچھالا۔

دیر تک وہ جاتی بس کو دیکھتا رہا۔ جب تک وہ اس کی آنکھوں سے اوجھل نہیں ہوگئی۔ بس جب اس کی آنکھوں سے اوجھل ہوگئی تو وہ اندر آیا۔ اس کے انگ انگ میں مسرت ،خوشی ،انتشار کی لہریں دوڑرہی تھی۔ اسے ساری دنیا فاحیتی محسوس ہورہی تھی ۔اسے ساری دنیا رنگین ،سجی ہوئی محسوس ہورہی تھی۔

ایک ایک لمحہ ایک صدی سا محسوس ہورہا تھا۔ مسرت، نشے میں ڈوبا ہوا لمحہ جس میں وہ ڈوبتاجارہا تھا۔ کہاں رات میں اس نے اپنے دل پر جبر کر کے فیصلہ کرلیا تھا ۔اب وہ مدھو کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھے گا۔ ساری دنیا کو یہ بتانے کی کوشش کرے گا کہ جیسے وہ مدھو کو جانتا ہی نہیں ۔اس کی زندگی میں مدھو نام کی کوئی لڑکی نہیں ہے۔ وہ کسی مدھو نام کی لڑکی کو نہیں جانتا ہے۔

اپنے دل پر جبر کرکے اس نے یہ فیصلہ کرلیا تھا اور اپنے آپ کو اس کے لیے تیار بھی کرلیا تھا کہ وہ کس طرح حالات کا مقابلہ کرے گا۔ اپنے دل پر قابو رکھ کر مدھو کو کچھ دنوں کے لیے بھولنے کی کوشش کرے گا۔ اور اس کی پہلی کوشش کی طور پر وہ دیر تک گہری نیند بھی سویا تھا۔ لیکن اچانک صبح اس کے لیے ایک نئی نوید مسرت بھرا پیغام لے آئی ۔ اب جب مدھو نے کہہ دیا ہے کہ وہ کسی سے نہیں ڈرتی وہ اس سے ملنا نہیں چھوڑے گی۔ تو پھر اسے ڈرنے کی کیا بات ۔ ۔ ۔ وہ اس سے کہہ گئی ہے کہ دوپہر میں جلدی آئے گی۔ ۔ ۔ ۔ وہ اس کے آنے کا انتظار کرنے لگا۔ اس نے طے کیا کہ آج وہ دوپہر کا کھانے اپنے گھر میں مدھو کے ساتھ کھائے گا اور مدھو کے لیے اپنے ہاتھوں سے کھانا بنائے گا۔اس کے لیے ذرا جلدی دوکان سے آجائے گا ۔
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

- 46 -

وہ پھر تیار ہونے لگا۔تیار ہوکر دوکان میں آیا اور دوکانداری میں لگ گیا۔ لیکن ذہن مدھو میں اٹکا رہا۔ مدھو آج جلدی آنے والی ہے۔او ر اس کے گھر آنے والی ہے۔ آج وہ ساتھ میں دوپہر کا کھانا کھائیں گے۔ اور وہ اپنے ہاتھوں سے مدھو کے لیے دوپہر کا کھانا بنائے گا۔ دس بجے تک وہ اپنی خیالوں میں الجھا رہا۔ اچانک اس کے خیالوں کا سلسلہ ٹوٹ گیا۔ سامنے مہندر بھائی کھڑا تھا۔

’’سویرے مدھو تمہارے پاس آئی تھی؟ ‘‘ وہ اسے قہر آلود نظروں سے دیکھ رہا تھا۔
’’آئی تھی اور آتی رہے گی۔‘‘وہ اس کی آنکھوں میں دیکھتے بولا۔’’مدھو کویہاں آنے سے کوئی نہیں روک سکتا ۔نہ مجھے دنیا کی کوئی طاقت مدھو کو ملنے سے روک سکتی ہے۔ ‘‘
’’میرے منا کرنے کے باوجود تم مدھو سے ملے۔‘‘
’’ملوں گا ۔ ۔ ۔ کیا کرلو گے۔‘‘وہ مہندر سے الجھنے کے لیے پوری طرح تیار ہوگیا۔

مہندر اسے قہر آلود نظروں سے دیکھتا رہا۔ پھر اس کے تیور دیکھ کر اس کی آنکھوں میں بے بسی کے تاثرات ابھرے ۔
’’مہندر سے دشمنی بہت مہنگی پڑے گی۔ ‘‘کہتا وہ تیزی سے پلٹااور تیز تیز قدموں سے آگے بڑھ گیا۔

’’دیکھتا ہوں دشمنی کسے مہنگی پڑتی ہے۔ ‘‘اس نے ہونٹ چبا کر کہا اور اس گراہک کی طرف متوجہ ہوا جو دونوں کو حیرت سے دیکھ رہا تھا۔
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

- 47 -


کبھی کبھی صبح کی پہلی کرن اپنے ساتھ منحوس واقعات کی منادی لے کر آتی ہیں۔ اس دن وہ جلدی جاگا لیکن اسے ماحول کچھ بوجھل بوجھل سا لگ رہا تھا۔ اسے چاوں طرف وحشت سی چھاتی محسوس ہورہی تھی۔ معمول کے مطابق مدھو آئی۔ اس سے کچھ دیر اس نے باتیں کیں ۔اور بس میں بیٹھ کر چلی گئی ۔ لیکن اسے مدھو کے ملنے سے کوئی مسرت نہیں ہوئی۔ ایک عجیب سی اداسی میں اس نے خود کو لپٹا ہوا محسوس کیا۔ ذہن پر ایک بوجھ سا تھا۔ بوجھ تو دودنوں سے اس کے ذہن پر تھا۔ اس نے دو ٹوک مہندر سے کہہ دیا تھا وہ مدھو سے پیار کرتا ہے اور کرتا رہے گا۔ وہ اسے دھمکی دے کر گیا تھا اس سے پہلے مدھو مہندر کو دوٹوک کہہ چکی تھی ۔

دو دنوں تک مہندر نے کچھ نہیں کیاتھا۔ دل میں ایک دہشت سی لگی تھی۔ ہر لمحہ ڈر لگا رہتا تھا کہ مہندر کوئی انتقا کاروائی کرے گا۔ لیکن مہندر کی طرف سے کوئی کاروائی نہیں ہوئی تھی۔ لیکن اس بات پروہ خوش فہمی میں مبتلا نہیں ہوسکتے تھے کہ مہندر نے شکست تسلیم کرلی ہے ۔اب وہ ان کے راستے میں نہیں آئے گا۔

خدشہ تو دونوں کو لگا ہوا تھا کہ مہندر اتنی جلدی اپنی شکست تسلیم نہیں کرے گا۔ ان پر کوئی وار کرنے کے لیے اپنی ساری طاقت کو یکجا کر رہا ہوگا۔ نہ تو مہندر اس کے بعد اس کے پاس آیا تھا نہ اس نے مدھو کو دھمکانے کی کوشش کی تھی۔ اس کے خاموشی نے انھیں ایک عجیب سے الجھن میں مبتلا کر دیا تھا ۔ یہ خاموشی کسی طوفان کا پیش خیمہ محسوس ہورہی تھی۔ ایسے میں صبح تو اُداس ،وحشت ناک محسوس کرکے وہ ڈرگیا۔ اس کا دل باربار کہنے لگا آج تو کوئی بہت ہی عجیب بات ہونے والی ہے۔ اس کے لیے کوئی عجیب وحشت ناک اور کوئی بات کیا ہوسکتی تھی۔ یہی کہ مہندر انتقامی کاروائی کے تحت ان پر حملہ کرے گا۔یہ حملہ کس روپ میں ہوسکتا ہے انھیں اس بات کا اندازہ نہیں تھا اور نہ وہ اس سلسلے میں کوئی اندازہ لگا پارہے تھے۔

وہ دوکان میں بیٹھا اس کے بارے میں سوچ رہا تھا کہ فون کی گھنٹی بجی۔’’جمی ٹی وی پر نیوز دیکھی ۔‘‘ دوسری طرف جاوید تھا۔

’’میرے گھر یا دوکان میں ٹی وی نہیں ہے۔ ‘‘ اس نے جواب دیا۔
’’اوہو ‘‘جاوید کی تشویش آمیز آواز سنائی دی ۔’’دہشت بھری خبر ہے۔‘‘
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

- 48 -

’’کیسی بری خبر ‘‘ جاوید کی بات سن کر اس کابھی دل دھڑک اٹھا ۔
’’کار سیوک ایودھیا سے واپس آرہے 80 کے قریب کارسیوکوں کو زندہ جلا دیا گیا ہے۔ جس ٹرین سابرمتی ایکسپریس سے وہ واپس آرہے تھے۔ ان کے ڈبہ پر گودھرا کے قریب حملہ کرکے ان کے ڈبوں میں آگ لگادی گئی۔ جس کی وجہ سے وہ ڈبہ میں ہی جل کر مرگئے۔ ‘‘
’’اوہو‘‘یہ سن کر اس کا بھی دل دھڑک اٹھا ۔
’’یہ واقعہ گجرات میں ہوا ہے۔ گجرات جہاں فرقہ پرستی عروج پر ہے۔ گودھرا یہاں سے قریب ہے۔ ٹرین احمدآباد آنے والی تھی۔ اب شام کو وہ لاشوں کو لے کر احمد آباد پہنچے گی۔ ٹی وی چینل کھلے الفاظ میں کہہ رہے ہیں کہ ٹرین پر حملہ کرنے والے اور ہمارے سیوکوں کو زندہ جلانے والے مسلمان تھے۔ ‘‘
’’یہ تو بہت بری بات ہے جاوید بھائی۔‘‘
’’اتنی بری کہ اس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا ۔ٹی وی چینل پر باربار جلی ہوئی ٹرین کا ڈبہ بتایا جارہا ہے۔ جلی ہوئی لاشیں دکھائی جارہی ہیں۔ لیڈروں کے بھڑکانے والے بیانات آرہے ہیں۔ اس کا اثر صرف گجرات بلکہ سارے ہندوستان پر پڑے گا ۔ آج یا کل کیا ہوگا خدا ہی خیر کرے ‘‘جاوید نے کہا۔
’’آپ کیا کریں گے؟‘‘
’’کیا کروں کچھ سمجھ میں نہیں آرہا ہے۔ میں بعد میں فون کرتا ہوں ۔‘‘کہہ کر جاوید نے فون رکھ دیا۔
تھوڑی دیر میں جنگل کی آگ کی طرح یہ خبر سارے گاؤں میں پھیل گئی تھی کہ گودھرا میں کارسیوکوں کو مسلمانوں نے زندہ جلادیا۔ رام بھکتوں پردلانہ حملہ کرکے انھیں زندہ جلادیا گیا۔ مرنے والوں میں بچے بھی تھے اور عورتیں بھی۔ پر کوئی اس بات کی مزمت کررہا تھا۔تو یہ کچھ لوگ اس خبر کو سن کر غصے میں اول فول بک رہے تھے۔
’’کارسیوکوں پر حملہ کرنے والے فرار ہیں‘‘
’’کارسیوکوں کا قاتلوں کو بخشانہ جائے‘‘
’’خون کا بدلہ ۔ ۔ ۔ خون‘‘
’’کارسیوک امر ہے‘‘
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

- 49 -

’’بدلہ لیا جائے‘‘
’’گودھرا کا بدلہ لیا جائے ‘‘
’’پورے گاؤں کو گودھرا بنا دیا جائے‘‘
’’ان کے گھروں اور محلوں کو سابرمتی ایک پریس کی بوگیاں بنادی جائے‘‘
’’جئے شری رام ‘‘
’’جئے بجرنگ بلی‘‘
’’قبرستان پہنچادو‘‘
’’پاکستان پہنچادو‘‘
’’زندہ جلادو۔ ۔ ۔ چھوڑو نہیں۔ ۔ ۔ ‘‘
’’خون کا بدلہ ۔ ۔ ۔ خون۔ ۔ ۔ آگ کا بدلہ ۔ ۔ ۔ آگ ‘‘
ہر کسی کے منہ بس یہی باتیں تھیں۔ دل کو دہلادینے والے۔ ۔ ۔ نفرت بھرے نعرے گاؤں کی فضا میں گونج رہے تھے۔ نوجوان لڑکے ہاتھوں میں ننگی تلواریں لیے ،ترشول لیے، ماتھے پر بھگواپٹیاں باندھے اشتعال انگیز نعرے لگاتے پھر رہے تھے۔
’’تمہارے قاتلوں کو نہیں چھوڑیں گے ‘‘
’’ایک بدلے میں دس کو ختم کریں گے‘‘
’’قبرستان بنادیں گے‘‘
’’جلا کر راکھ کردیں گے‘‘
دیکھتے ہی دیکھتے سارے گاؤں کا کاروبار بند ہوگیا ۔لوگ سڑکوں پر آٹھ آٹھ دس دس کے مجموعہ میں جمع ہوکر ایک دوسرے سے باتیں کررہے تھے۔ سب کے چہرے غصے سے تنے ہوئے تھے۔ ان کی آنکھوں میں نفرت کی آگ بھڑک رہی تھی۔ جو لوگ شانت تھے ۔لیڈر قسم کے لوگ اپنی زہریلی اشتعال انگیز تقریروں سے ان کی خون کو بھی کھولا رہے تھے۔

لوگ ٹی وی سے چپکے تھے۔ ٹی وی پر پل پل نئے انداز کی خبریں دی جارہی تھیں۔ ہر بار ایک نئی خبر نئے انداز میں آکر اشتعال پھیلاتی ۔ بار بار ٹرین کے جلے ہوئے ڈبوں کو کھایا جارہا تھا۔ جلی ہوئی لاشوں کو دکھایا جارہا تھا ۔ اس واردات میں جو لوگ مارے گئے ان کے رشتہ داروں سے انٹر ویو لیا جارہا تھاانٹر ویو دینے والے انٹر ویو میں اشتعال انگیز باتیں کرتے ۔ ۔ ۔ بدلہ لینے کی باتیں کرتیں۔ ۔ ۔ خون کا بدلہ خون کی باتیں ۔ ۔ ۔ تباہ کرنے والوں کو تباہ کرنے کی باتیں۔ ۔ ۔ لیڈر ان باتوں کو قلابے آسمانوں سے جوڑتے۔ اسے دہشت گردی کاواقعہ کہا جاتا ۔ ۔ ۔ تو کبھی فرقہ پرستی کے زہر کی دین۔ ۔ ۔ کبھی نفرت کی آگ کے الاؤ کا انجام ۔ ۔ ۔ آر ایس ایس ،بجرنگ دل، وشوہندو پریشد، بی جے پی ساری تنظیمیں ایک ہوگئی تھیں۔ سب ایک آواز میں بات کررہے تھے۔ یہ بس دیکھ کر اس کا کلیجہ منہ کو آرہا تھا۔ وہ بہت پہلے دوکان بند کرچکا تھا۔ اور دواکن بند کرکے گاؤں کی سیر کو نکلا تھا۔ گاؤں میں جو مناظر وہ اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا تھا ۔اسے محسوس کررہا تھا ۔دور سے ایک بگولہ تیزی سے گاؤں کی طرف بڑھ رہا ہے۔ اب اس بات کا انتظار ہے کب وہ گاؤں کو اپنی لپیٹ میں لے گا اور کس طرح گاؤں کو نیست و نابود کرے گا۔ گاؤں میں میٹنگیں جارہی تھیں۔ جلوس نکل رہے تھے۔ جلوس کے شرکا نفرت انگیز ،اشتعار انگیز فرقہ پرستی کے زہر میں نعرے لگارہے تھے۔ اپنے ہاتھوں میں پکڑی تلواریں اور ترشول کو چمکا رہے تھے۔

یہ جلوس میں مہندر پیش پیش تھا ۔وہ ننگی تلوار ہاتھوں میں لیے اسے لہراتا نفرت انگیز نعرے لگاتا لوگو کو بھڑکارہا تھا۔اس پر نظر پڑنتے ہی وہ کچھ زیادہ ہی غضبناک ہوجاتا ۔اور اپنے ہاتھوں میں پکڑی ترشول ، یاتلوار کو کچھ زیادہ ہب تیزی سے لہرانے لگتا۔ جیسے اس سے کہہ رہا ہو ۔وقت آنے پر تم اس تلوار ، ترشول کا سب سے پہلا شکار ہوتے۔

اس سے یہ مناظر زیادہ دیر دیکھے نہیں گئے۔وہ واپس گھر آیا ۔اور پلنگ پر لیٹ گیا۔ اور سونے کی کوشش کرنے لگا۔ لیکن دن میں بھلا نیند آسکتی تھی۔ جب سارے گاؤں کو ایک پر ہول سناٹے نے اپنی لپیٹ میں لے رکھا اور وہ رہ رہ کر نفرت انگیز ،اشتعال انگیز ،فرقہ پرستی کے زہر میں بجھے نعرے اس سناٹے کے سینے کو چیر رہے ہو۔

ہر نعرے چیخ ،شور کے ساتھ اس کے دل کی دھڑکنیں تیز ہوجاتی تھیں۔ نفرت کی آگ کا الاؤ جل چکا تھا۔ یہ آگ اب کس کو جلائے گی؟ کیا کیا غضب ڈھائے گی؟ بس ایک ہی سوال ذہن میں تھا۔
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

- 50 -


رات بڑی بھیانک تھی۔ سارے گاؤں کو ایک پرہول سناٹے نیاپنی لپیٹ میں لے رکھاتھا۔ لیکن ایسا محسوس ہورہاتھا گاؤں کے ہر گھر سےایک شور اٹھ رہا ہے ۔ سارے گاؤں پر وحشت طاری تھی۔ ایسا محسوس ہورہاتھا کہ ماحول میں بہت کچھ کھول رہا ہے۔ ایک لاوے کی طرح۔ ۔ ۔ ایک آتش فشاں کی طرح۔ ۔ ۔ پتہ نہیں کب یہ پھٹ پڑے اور پھٹ کر باہر آجائے او راپنے ساتھ، اپنے راستے میں آنے والی ہر شئے کو جلا کر راکھ کردے۔ اس کی تپش ہر کوئی محسوس کررہا تھا۔

اسے نیند نہیں آرہی تھی ۔ آج دن بھر ٹی وی پرجو مناظردکھائے گئے تھے اسے لگا ذہنوں میں زہرانڈیلا جارہا ہے۔الاؤ کی لکڑیوں میں تیل ڈالاجارہاہے۔ اور اب الاؤ پوری طرح تیار ہے۔بس اسے آگ بتانے کی دیر ہے۔ اور ایسی آگ بھڑے گی شاید بھی بجھ سکے ۔اسے ایسا محسوس ہورہا تھا۔ یہ گاؤں کیا ۔ ۔ ۔ پورا گجرات۔ ۔ ۔ پورا بھارت ۔ ۔ ۔ اس آگ سے نہیں بچ سکتا۔ وہ اپنے آپ کو بھی اس ماحول میں محفوظ ہے ۔ وہ ایک غیر وابستہ شخص ہے۔ دونوں فرقوں سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ اس لیے دونوں فرقوں کے لیے بے ضرر ہے ۔کوئی اس کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھے گا۔ اس کا کوئی دشمن نہیں ہے۔ لیکن ایک دشمن ہے۔ مہندر بھائی پٹیل ۔اوریہ ایسا دشمن ہے جو کچھ بھی کرسکتا ہے۔ اسے سو آدمیوں سے جتنا خطرہ نہیں ہوسکتا تھا ۔مہندر سے اسے خطرہ محسوس ہورہا تھا۔ و حالات کا فائدہ اٹھاکر اس سے اپنی دشمنی کا حساب چکا سکتا ہے۔ اس لیے اسے اپنی حفاظت کا انتظام کرنا چاہیے۔ اگر مہندر اس پر حملہ کرے تو اسے پورا یقین تھا وہ پانچ مہندروں سے اکیلا مقابلہ کرسکتا ہے۔ لیکن اسے ڈر تھا ۔ ۔ ۔ مہندر اکیلا اس پر حملہ نہیں کرے گا۔ و اپنے گرگوں کے ساتھ اس پر حملہ کرے گا۔ ایسی صورت میں خود کو بچانا اس کے لیے مشکل ہوجائے گا۔ مہندر جن جن تنظیموں سے وابستہ تھا وہ تمام تنظیمیں ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوگئی تھی اور انھوں نے اس قتل عام کے خلاف ’’بھارت بند‘‘ کا نعرہ لگایا تھا۔ بی جے پی،آ رایس ایس، وشوہندو پریشد، بجرنگ دل، شیوسینا سبھی اس بند میں شامل تھیں۔ اور یہ طے تھا بند کامیاب ہونے والا ہے۔

آج بھی دن بھر سارا کاروبار بند ہی رہا۔ کل تو مکمل طور پر بند رہے گا۔ اس بند کی سیاست سے کیا حاصل ہونے والا ہے۔ اس کی کچھ سمجھ میں نہیں آرہا تھا۔اس نے اپنے بچپن میں پنجاب میں اس طرح کا بند کئی بار دیکھے تھے۔ جب بھی کوئی آدمی دہشت گردوں کے ہاتھوں مارا جاتا اس کے خلاف اسی طرح کا بند پکارے جاتے تھے۔ بند ناکام بھی ہوتے تھے اورکامیاب بھی ۔لیکن ان سے حاصل کچھ نہیں ہوپاتا تھا نہ مرنے والوں کو نہ مارنے والوں کو۔ اس لیے اسے بند کے نام سے نفرت تھی۔ بہت دنوں کے بعد وہ اسی طرح کا بند کل دیکھنے والا تھا۔ وہ جو ایک غیر وابستہ شخص تھا اس بند سے اتنا خوفزدہ تھا۔ جولوگ اس واقعہ سے وابستہ تھے ان کا کیا حال ہوگا؟اس خیال کے آتے ہی اس نے سوچا گاؤں کے حالات کا جائزہ لیا جائے۔ رات کے ساڑھے دس بجے رہے تھے۔ اکیلے اس طرح گاؤ ں میں نکلنے سے اسے پہلی بار خوف محسوس ہورہا تھا۔ لیکن ہمت کرکے وہ نکل پڑا۔
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

- 51 -

گاؤں پر سناٹا چھایا ہوا تھا۔ لیکن جگہ جگہ دس دس بیس بیس کو ٹولیوں میں گول بیٹھے تھے۔ صلاح و مشورہ کررہے تھے۔ ایک دوسرے سے سرگوشیاں کررہے تھے۔ اسے دیکھ کر وہ چونک پڑے ۔ مشکوک نظروں سے اسے دیکھنے لگتے پھر جب انھیں محسوس ہوتا یہ ان کے لیے بے ضرر آدمی ہے تو پھراپنے اپنے کاموں میں مشغول ہوجاتے ۔منصوبوں اور سرگوشیوں میں ۔

وہ جاوید سے مل کر اس کی حالت جاننا چاہتا تھا۔ مسلم محلوں کی صورت حال دیکھنا چاہتا تھا۔ پندہ، بیس ہزار کی آبادی میں مسلم آبادی مشکل سے پانچ سو کے لگ بھگ ہوتی تقریباً پچاس، ساٹھ گھر وہ بھی گاؤں ایک کونے میں۔ ظاہر سی بات ہے کہ وہ خوف و دہشت سے سمٹے ہوتے ہوہوگے۔محلہ کے نکڑ پر لوگوں کا ایک ہجوم پہرہ دے رہا تھا۔ اسے آتا دیکھ سب چونک پڑے اور انھوں نے اسے گھیر لیا۔

’’ارے جمی ۔ ۔ ۔ تم اتنی رات گئے یہاں کیسے آئے؟‘‘ جاوید اسے دیکھ کر بھیڑ کو چیرتا ہوا اس کے پاس آیا۔

’’آپ کی ،اورآپ کے محلے کی صورت حال کا جائزہ لینے آیا ہوں ۔ ۔ ۔ جاوید بھائی ‘‘اس نے کہا۔

’’ابھی توسب ٹھیک ہے۔ لیکن جو حالات ہے اس سے ایسا محسوس ہوتا ہے کل کچھ بھی ٹھیک نہیں ہوگا۔ ‘‘جاوید مایوسی سے بولا۔

’’کیا مطلب؟‘‘وہ بولا ’’آپ کے کہنے کا مطلب کیا ہے؟‘‘
’’کل کیاہوسکتا ہے کچھ اندازہ نہیں لگایا جاسکتا‘‘
’’اگر خطرہ ہے تو آپ لوگ اس گاؤں کو چھوڑدیں‘‘

’’گاؤں چھوڑ کر کہا جائیں ۔چاورں طر خطرہ منڈلارہا ہے۔ میں نے آس پاس کے تمام شہروں کی رپورٹیں جمع کرلی ہے۔ ہر جگہ سے ایک ہی جواب ملتا ہے رہاں بھی وہی ماحول ہے۔ خطرہ ان پر بھی منڈلارہا ہے تو بھلا وہ ہمیں پناہ کیا دیں گے۔ ہم لوگ سینکڑوں سالوں سے اس گاؤں میں آباد ہیں۔ آج تک اس گاؤں کی یہ روایت رہی ہے کہ سارا ہندوستان سلگتا رہا لیکن یہاںکچھ نہیں ہوا۔ خدا کرے یہ روایت قائم رہے ۔ہم اپنی طور پراپنی حفاظت کے لیے ہمارے پاس لکڑیاں بھی نہیں ہے ۔ کچھ دن قبل تلاشی کے نام پر وہ بھی پولیس ضبط کرکے لے جاچکی ہے۔ ‘‘ جاوید بولا ۔
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

- 51 -

گاؤں پر سناٹا چھایا ہوا تھا۔ لیکن جگہ جگہ دس دس بیس بیس کو ٹولیوں میں گول بیٹھے تھے۔ صلاح و مشورہ کررہے تھے۔ ایک دوسرے سے سرگوشیاں کررہے تھے۔ اسے دیکھ کر وہ چونک پڑے ۔ مشکوک نظروں سے اسے دیکھنے لگتے پھر جب انھیں محسوس ہوتا یہ ان کے لیے بے ضرر آدمی ہے تو پھراپنے اپنے کاموں میں مشغول ہوجاتے ۔منصوبوں اور سرگوشیوں میں ۔

وہ جاوید سے مل کر اس کی حالت جاننا چاہتا تھا۔ مسلم محلوں کی صورت حال دیکھنا چاہتا تھا۔ پندہ، بیس ہزار کی آبادی میں مسلم آبادی مشکل سے پانچ سو کے لگ بھگ ہوتی تقریباً پچاس، ساٹھ گھر وہ بھی گاؤں ایک کونے میں۔ ظاہر سی بات ہے کہ وہ خوف و دہشت سے سمٹے ہوتے ہوہوگے۔محلہ کے نکڑ پر لوگوں کا ایک ہجوم پہرہ دے رہا تھا۔ اسے آتا دیکھ سب چونک پڑے اور انھوں نے اسے گھیر لیا۔

’’ارے جمی ۔ ۔ ۔ تم اتنی رات گئے یہاں کیسے آئے؟‘‘ جاوید اسے دیکھ کر بھیڑ کو چیرتا ہوا اس کے پاس آیا۔

’’آپ کی ،اورآپ کے محلے کی صورت حال کا جائزہ لینے آیا ہوں ۔ ۔ ۔ جاوید بھائی ‘‘اس نے کہا۔

’’ابھی توسب ٹھیک ہے۔ لیکن جو حالات ہے اس سے ایسا محسوس ہوتا ہے کل کچھ بھی ٹھیک نہیں ہوگا۔ ‘‘جاوید مایوسی سے بولا۔

’’کیا مطلب؟‘‘وہ بولا ’’آپ کے کہنے کا مطلب کیا ہے؟‘‘
’’کل کیاہوسکتا ہے کچھ اندازہ نہیں لگایا جاسکتا‘‘
’’اگر خطرہ ہے تو آپ لوگ اس گاؤں کو چھوڑدیں‘‘

’’گاؤں چھوڑ کر کہا جائیں ۔چاورں طر خطرہ منڈلارہا ہے۔ میں نے آس پاس کے تمام شہروں کی رپورٹیں جمع کرلی ہے۔ ہر جگہ سے ایک ہی جواب ملتا ہے رہاں بھی وہی ماحول ہے۔ خطرہ ان پر بھی منڈلارہا ہے تو بھلا وہ ہمیں پناہ کیا دیں گے۔ ہم لوگ سینکڑوں سالوں سے اس گاؤں میں آباد ہیں۔ آج تک اس گاؤں کی یہ روایت رہی ہے کہ سارا ہندوستان سلگتا رہا لیکن یہاںکچھ نہیں ہوا۔ خدا کرے یہ روایت قائم رہے ۔ہم اپنی طور پراپنی حفاظت کے لیے ہمارے پاس لکڑیاں بھی نہیں ہے ۔ کچھ دن قبل تلاشی کے نام پر وہ بھی پولیس ضبط کرکے لے جاچکی ہے۔ ‘‘ جاوید بولا ۔
Post Reply

Return to “اردو ناول”