Page 2 of 3

Re: درسِ حدیث ۔۔۔ اصلاحی سلسلہ

Posted: Mon Nov 16, 2009 7:38 pm
by چاند بابو
بہت خوب محترم اعجاز الحسینی صاحب ایک بہت اچھی حدیث شئیر کرنے کا بہت بہت شکریہ۔
اللہ تعالٰی ہم سب کو اس کی دی ہوئی نعمتوں کا شکرادا کرنے کی توفیق عطا فرمائیں۔

Re: درسِ حدیث ۔۔۔ اصلاحی سلسلہ

Posted: Tue Nov 17, 2009 7:27 am
by رضی الدین قاضی
بے شک اللہ تعالٰی نعمتوں کا شکریہ ادا کرتے رہنا چاہیئے۔

Re: درسِ حدیث ۔۔۔ اصلاحی سلسلہ

Posted: Tue Nov 17, 2009 12:41 pm
by اعجازالحسینی
شکریہ ۔

Re: درسِ حدیث ۔۔۔ اصلاحی سلسلہ

Posted: Wed Nov 18, 2009 6:06 pm
by اعجازالحسینی
[center]صبر [/center]




حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا ارشادِ پاک ہے



“ جب تم میں سے کسی کو تکلیف پہنچےتو اسے چاہئےکہ وہ کہے(انّا للہ و انّا الیہ راجعون)۔ یااللہ میں اس تکلیف پر ثواب کا طلب گار ہوں۔ مجھے اس پر اجر عطا فرمائیے اور اسکی جگہ کوئی اس سے بہتر چیز عطا فرمائیے“ (ابو داؤد)



ہر شخص کو دنیوی زندگی میں کسی نہ کسی شکل میں تکلیفوں اور غموں سے سابقہ ضرور پیش آتا ہے، اگر وہ بے صبری کا مظاہرہ کرے ، ہر وقت اپنے غموں کا دکھڑا روتا رہے ،اور اپنی تقدیر کا گلہ شکوہ کرے۔ تب بھی اسے غموں سے مکمل نجات نہیں مل سکتی۔ اس صورت میں ایک تو ہمیشہ تکلیف کی گھٹن کا شکار رہے گا ، دوسرا اس بے صبری کا بہت بڑا نقصان یہ ہو گا کہ یہ تکلیفیں جو اس کے لئے اجر و ثواب کا ذریعہ بن سکتی تھیں، انکا کو ئی اجر بھی نہیں ملے گا ۔اگر کوئی تکلیف آئے تو انسان یہ سوچے کہ اسکی وجہ سے مجھے صدمہ تو ہے لیکن مجھے اللہ کے فیصلے سے کوئی شکایت نہیں کیونکہ وہی جانتے ہیں کہ میری بہتری کس چیز میں ہے ؟ میں اللہ کی طرف رجوع کرتا ہوں کہ جو تکلیف مجھے پہنچی ہے ۔ اسے میرے حق میں بہتر بنادیں۔ میرے دل کو سکون اور تسلی عطا فرما دیں اور آئندہ مجھت ایسی تکلیفوں سے محفوظ رکھیں ۔ اسی سوچ کا نام صبر ہے۔ اسکا فائدہ یہ ہے کہ اس سے انسان کو تسلی ہوتی ہے، بے چینی میں کمی آتی ہے۔ دل کو قرار نصیب ہوتا ہے ،اور دوسری طرف جو تکلیف پہنچی ہے اس پر اللہ تعالی کی طرف سے بے حساب اجر ملتا ہے۔قرآنِ کریم میں ارشاد ہے “بلا شبہ صبر کرنے والوں کو انکا ثواب بے حساب دیا جائے گا“

Re: درسِ حدیث ۔۔۔ اصلاحی سلسلہ

Posted: Fri Nov 20, 2009 2:02 pm
by نالائق
[center]سبحان اللہ[/center]

Re: درسِ حدیث ۔۔۔ اصلاحی سلسلہ

Posted: Fri Nov 20, 2009 5:54 pm
by اعجازالحسینی
شکریہ نالائق بھیا ۔

Re: درسِ حدیث ۔۔۔ اصلاحی سلسلہ

Posted: Wed Nov 25, 2009 4:27 pm
by اعجازالحسینی
[center]بسم اللہ[/center]



حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا ارشادِ پاک ہے


“ہر وہ اہم کام جسے بسم اللہ سے شروع نہ کیا گیا ہو وہ ناقص اور ادھورا ہے “


حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی سنّت یہ ہے کہ ہر قابلِ ذکر کام سے پہلےبسم اللہ ضرور پڑھا کرتے تھے۔ ہر کام کرنے سے پہلے بسم اللہ پڑھنے کی عادت ڈالنی چاہئے۔ گھر میں داخل ہوتے وقت ، گھر سے نکلتے وقت ،سواری پر سوار ہوتے وقت، اترتے وقت، کھانا کھاتے ہوئے، پانی پیتے ہوئے،کپڑے پہنتے ہوئے ،غرض ہر ہر تبدیل شدہ حالت پر بسم اللہ شروع کرنے کی عادت ڈالنی چاہئے ۔
اپنے روز مرّہ کے کاموں کو بسم اللہ سے شروع کرنا اپنے معمولات میں شامل کر لیا جائے تو یہ ایک ایسا عمل ہے جس میں محنت اور دشواری کچھ نہیں بلکہ انسان کے نامہ اعمال میں نیکیوں کا مسلسل اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ اس عمل کی برکت سے یہ سارے کام جو بظاہر دنیاوی نظر آتے ہیں بذاتِ خود عبادت بن جاتے ہیں ۔ ایک کافر بھی دنیا کے کام انجام دیتا ہے ، اور مومن بھی ، لیکن دونوں میں زبردست فرق ہے کہ کافر غفلت کی حالت میں یہ سب کام کرتا ہے اور مومن بسم اللہ سے ہر کام کا آغاز کر کے گویا اس بات کا اعتراف کرتا ہے اللہ تعالی کی توفیق کے بغیر کسی کام کی تکمیل ممکن نہیں ۔ اس اعتراف کے نتیجے میں اس کے دنیا کے سارے کام عبادت بن جاتے ہیں ۔

Re: درسِ حدیث ۔۔۔ اصلاحی سلسلہ

Posted: Wed Nov 25, 2009 4:59 pm
by رضی الدین قاضی
جزاک اللہ

Re: درسِ حدیث ۔۔۔ اصلاحی سلسلہ

Posted: Wed Nov 25, 2009 8:10 pm
by اعجازالحسینی
شکریہ بھیا۔

Re: درسِ حدیث ۔۔۔ اصلاحی سلسلہ

Posted: Thu Nov 26, 2009 6:14 pm
by اعجازالحسینی
[center]پہلے سلام کرنا[/center]




حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا ارشادِ پاک ہے



“لوگوں میں اللہ تعالی سے قریب تر وہ شخص ہے جو لوگوں کو سلام کرنے کی ابتدا کرے “ (ابوداؤد)


سلام کا آغاز کرنا سنت ہے۔ لیکن کوئی سلام کرے تو اس کا جواب دینا واجب ہے۔ ہر شخص کو سلام کریں چاہے جانتے ہوں یا نہ جانتے ہوں لیکن اس کا مسلمان ہونا معلوم ہو یہ بھی ثواب ہے۔ ایک شخص نے حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے پوچھا کہ مسلمان کے لئے کون سے اعمال بہتر ہیں ؟ اس کے جواب میں آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے جو اعمال شمار کرائے ان میں یہ بھی تھا کہ “ لوگوں کو سلام کرنا چاہیے تم انہیں پہچانتے ہو ، یا نہ پہچانتے ہو۔ “
سلام کی سنت صرف
السلام علیکم کہنے سے ادا ہو جاتی ہے لیکن اگر اس کے ساتھ ورحمتہ اللہ وبرکاتہ بھی بڑھایا جائے تو زیادہ ثواب ہے ۔ ۔ حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ ہم حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی خدمت میں حاضر تھے کہ ایک صاحب آئے اور انہوں نے السلام علیکم “ کہ کر سلام کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے سلام کا جواب دیا اور فرمایادس “( یعنی سلام کرنے والے کو دس نیکیاں حاصل ہوئیں) پھر ایک اور صاحب آئے ۔انہوں نے کہا کہ السلام علیکم و رحمتہ اللہ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے جواب دیا اور فرمایا ۔ بیس(یعنی سلام کرنے والےکو بیس نیکیاں ملیں ) پھر ایک اور صاحب آئے ۔اورانہوں نے کہا “السلام علیکم ورحمتہ اللہ و برکاتہ“ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے جواب دے کر فرمایا “تیس “ ( یعنی انہیں تیس نیکیوں کا ثواب حاصل ہوا ) “ابوداود و ترمذی“

Re: درسِ حدیث ۔۔۔ اصلاحی سلسلہ

Posted: Thu Nov 26, 2009 9:24 pm
by چاند بابو
السلام علیکم

بہت خوب محترم اعجاز الحسینی صاحب اردونامہ پر آپ نے جو سلسلہ شروع کر رکھا ہے بہت ہی بہترین ہے اور نہ صرف آپ کے اور اہلیانِ اردونامہ کے لئے فائدہ مند ہے بلکہ جب تک اردونامہ رہے گا اس کا اثر دنیائے انٹرنیٹ پر موجود رہے گا اور رہتی دنیا تک خیر کے زمرے میں لکھا جاتا رہے گا۔

Re: درسِ حدیث ۔۔۔ اصلاحی سلسلہ

Posted: Fri Nov 27, 2009 11:08 am
by اعجازالحسینی
حوصلہ افزائی کا شکریہ چاند بھائی ۔

Re: درسِ حدیث ۔۔۔ اصلاحی سلسلہ

Posted: Thu Dec 03, 2009 4:14 pm
by اعجازالحسینی
بیمار پرسی





حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا ارشادِ پاک ہے




“جب کوئی مسلمان اپنے کسی مسلمان بھائی کی بیمار پُرسی کرنے جاتا ہے تو وہ مسلسل جنّت کے باغ میں رہتا ہے “(صحیح مسلم وترمذی)


بیمار شخص کی عیادت بڑے اجر و ثواب کا عمل ہے اور حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ہر مسلمان کے ذمّے دوسرے مسلمان کے جو حقوق بیان فرمائے ہیں ان میں بیمار پرسی بھی شامل ہے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا مستقل معمول تھا کہ اپنے ملنے جلنے والوں میں سے کسی کی بیماری کی اطلاع ملتی تو اس کی بیمار پرسی کے لئے تشریف لے جایا کرتے تھے۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ : “ جو کوئی مسلمان صبح کے وقت کسی دوسرے مسلمان کی عیادت کو جاتا ہے تو شام تک ستّر ہزار فرشتے اس کے لئے دعائے خیر کرتے رہتے ہیں اور اگر وہ شام کے وقت کسی کی عیادت کو جاتا ہے تو اگلی صبح تک ستّر ہزار فرشتے اس کے حق میں دعائے خییر کرتے رہتے ہیں ۔ اور اس کو جنّت کا ایک باغ عطا کیا جاتا ہے ۔ “ (ترمذی ۔ کتاب الجنائز )
اسی طرح حدیث میں اس بات کی بھی تاکید ہے کہ جو شخص کسی مریض کی عیادت کے لئے جائے تو وہ اس کے پاس زیادہ دیر نہ بیٹھے۔ بلکہ مختصر عیادت کرکے چلا آئے ، کیونکہ زیادہ دیر بیٹھنے سے اکثر مریض کو تکلیف ہوتی ہے۔ ہاں جس بے تکلف شخص کو خود مریض اپنی تسلّی یا دل بستگی کے لئے بٹھانا چاہے ۔ اس کے بیٹھنے میں کوئے مضائقہ نہیں ہے ۔

Re: درسِ حدیث ۔۔۔ اصلاحی سلسلہ

Posted: Fri Dec 04, 2009 3:19 pm
by رضی الدین قاضی
جزاک اللہ !


اعجاز بھائی بہت ہی خوبصورت سلسلہ شروع کیا ہے آپ نے۔ جاری رکھیئے۔

Re: درسِ حدیث ۔۔۔ اصلاحی سلسلہ

Posted: Fri Dec 04, 2009 5:08 pm
by چاند بابو
جزاک اللہ محترم اعجاز الحسینی صاحب

Re: درسِ حدیث ۔۔۔ اصلاحی سلسلہ

Posted: Sat Dec 05, 2009 6:05 pm
by اعجازالحسینی
حوصلہ افزائی کا شکریہ بھائی لوگو

Re: درسِ حدیث ۔۔۔ اصلاحی سلسلہ

Posted: Tue Dec 08, 2009 6:19 pm
by آصف
اچھا سلسلہ ہے

Re: درسِ حدیث ۔۔۔ اصلاحی سلسلہ

Posted: Wed Dec 09, 2009 9:46 am
by اعجازالحسینی
پسند کرنے کا شکریہ آصف صاحب ۔

Re: درسِ حدیث ۔۔۔ اصلاحی سلسلہ

Posted: Tue Dec 22, 2009 10:27 am
by آصف
یہ سلسلہ بند کیوں ہے ۔ حسینی صاحب اس پر توجہ دیں

Re: درسِ حدیث ۔۔۔ اصلاحی سلسلہ

Posted: Tue Dec 22, 2009 1:43 pm
by اعجازالحسینی
جناب بس کچھ مصروفیت کی وجہ سے توجہ نہیں دے سکا اب کوشش کروں گا کہ یہ سلسلہ چلتا رہے
توجہ دلانے کا بہت شکریہ جناب ۔