داستان خواجہ بخارا کی

اردو زبان میں لکھے جانے والے شہکار ناول، آن لائن پڑھئے اور ڈاونلوڈ کیجئے
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

سورج خواجہ نصرالدین کا پرانا اور وفادار دوست تھا۔ اب وہ بلند ھو رھا تھا۔ ھر صبح خواجہ نصرالدین اس کو دیکھتے اور ایسا محسوس کرتے جیسے انھوں نے سورج کو سال بھر بعد دیکھا ھے۔ سورج بلند ھو رھا تھا، مہربان اور فیاض دیوتا جو سبکو یکساں فیض پہنچاتا ھے اور ساری دنیا بھی اس کے خیرمقدم کے لئے صبح کی کرنوں میں چمکتا دمکتا اپنا شعلہ ور حسن پیش کردیتی ھے۔ پھولے پھولے بادل، میناروں کے پالش کئے ھوئے ٹائل، بھیگی ھوئی پتیاں ، پانی اور گھاس، حتی کہ سنگ خارا کی سپاٹ چٹان، قدرت کی دھتکاری ھوئی سوتیلی بیٹی بھی سورج کے خیر مقدم میں ایک انوکھا روپ دھار لیتی، اس کی ٹوٹی پھوٹی سطحیں اس طرح چمکنے دمکنے لگتیں جیسے ان پر ھیرے کا برادہ پھیلا دیا گیا ھو۔

خواجہ نصرالدین اپنے دوست کے دمکتے ھوئے چہرے سے کیسے بے اعتنائی برت سکتے تھے۔ سورج کی چمکدار کرنوں میں ایک درخت کی پتیاں رقص کر رھی تھیں ۔ خواجہ نصرالدین بھی اس کے ساتھ جھوم گئے جیسے وہ بھی سرسبز پتیوں میں ملبوس ھوں ۔ قریب کے مینار پر کبوتر غٹر غوں کرکے اپنے پر جھاڑ رھے تھے۔ تتلیوں کا ایک جوڑا کھڑکی کے سامنے لہرایا اور خواجہ کا دل چاھا کاشکہ وہ بھی ان کے اس نازک کھیل میں شریک ھو جاتے۔

خواجہ نصرالدین کی آنکھیں خوشی سے چمک اٹھیں ۔ چیچک رو جاسوس کا خیال کرکے ان کے دل میں یہ خواھش پیدا ھوئی کاشکہ یہ صبح اس جاسوس کی نئی زندگی کی صاف ستھری اور معقول صبح ھو۔ لیکن اس کے ساتھ ھی انھوں نے یہ بھی محسوس کیا کہ برائیاں اس جاسوس کی روح تک میں پیوست ھو چکی ھیں اور وہ پوری طرح صحت یاب ھوتے ھی پھر اپنی پرانی حرکتوں پر اتر آئے گا۔

بعد کے حالات نے ثابت کیا کہ خواجہ نصرالدین نے اپنی پیش گوئی میں غلطی نہیں کی تھی۔ وہ انسانوں کو اتنی اچھی طرح سمجھتے تھے کہ ان کے لئے غلطی کرنا مشکل تھا حالانکہ ان کو اپنی غلطی پر خوشی ھوتی اور وہ اس جاسوس کے روحانی نوجیون پر خوش ھوتے۔ بہرحال، سڑی ھوئی چیز پھر تازہ اور بارور نہیں ھوسکتی۔ بدبو خوشبو نہیں بن سکتی۔ خواجہ نصرالدین نے افسوس کے ساتھ آہ بھری۔

ان کا محبوب خواب یہ تھا کہ ایسی دنیا ھوتی جہاں انسان بھائیوں کی طرف رہ سکتے، نہ تو ان میں حرص و حسد ھوتا اور نہ چوری چکاری اور غصہ، بلکہ وہ ضرورت کے وقت ایک دوسرے کی مدد کرتے اور ھر ایک کی خوشی کو سب کی خوشی سمجھ کر اس سے لطف اندوز ھوتے۔ پھر بھی ایسی خوشگوار دنیا کا تصور کرتے ھوئے وہ اس تلخ حقیقت کو بھی سمجھتے تھے کہ انسان اس طرح رھتے ھیں جو ان کے لئے زیبا نہیں ھے، ایک دوسرے پر ظلم کرتے ھیں ، غلام بناتے ھیں اور اپنی روحوں کو ھر طرح کی برائیوں سے داغدار کرتے ھیں ۔ بنی نوع انسان کو صاف ستھرے اور ایماندارانہ وجود کے قوانین کو سمجھنے میں کتنی مدت لگے گی؟

خواجہ نصرالدین کو اس بات میں کوئی شک نہ تھا کہ انسان کسی نہ کسی دن ان قوانین کو سمجھے گا۔ ان کو اس بات پر قطعی یقین تھا کہ اس دنیا میں برے آدمیوں سے زیادہ بھلے آدمی ھیں ۔ جعفر سود خور اور چیچک رو جاسوس اور ان کی گلی سڑی روحیں کریہہ استثنا ھیں ۔ ان کو قطعی یقین تھا کہ فطرت نے انسا ن کو صرف بھلائیوں سے سنوارا ھے اور تمام برائیاں اس کوڑے کرکٹ کی طرح ھیں جو اس کی روح پر زندگی کے غلط اور غیر منصفانہ نظام نے باھر سے تھوپ دی ھیں ۔ ان کو قطعی یقین تھا کہ وہ وقت ضرور آئے گا جب انسان اپنی زندگی کو پھر سے بنانا اور صاف کرنا شروع کردینگے تو وہ اپنی شریفانہ محنت کے ذریعہ اپنی روح کی تمام گندگیوں کو دھو ڈالیں گے۔

خواجہ نصرالدین کے خیالات کا یہ رحجان ان کے بارے میں بہت سے قصوں سے ثابت ھوتا ھے جن پر ان کے روحانی جذبات کا ٹھپہ ہے۔ ان میں یہ کتاب بھی شامل ھے۔ حالانکہ ان کی یاد کو داغدادر بنانے کی بہتیری کوششیں کی گئیں ، محض کمینے رشک و حسد کیوجہ سے لیکن وہ کامیاب نہیں ھوئیں کیونکہ جھوٹ سچ پر کبھی غالب نہیں آسکتا۔ خواجہ نصرالدین کی یاد ھمیشہ اس ھیرے کی طرح درخشاں اور خالص رھے گی جو سب باتوں کے باوجود اپنی چمک دمک برقرار رکھتا ھے۔ آج تک جو مسافر ترکی میں آک شہر کے سادے سے مقبرے کے سامنے رکتے ھیں اب بھی بخارا کے اس زندہ دل جہاں گرد، خواجہ نصرالدین کا نام کلمہ خیر سے ھی لیتے ھیں ۔ ایک شاعر کے الفاظ میں وہ کہتے ھیں :

"انھوں نے اپنا دل دھرتی کو دے دیا حالانکہ وہ دنیا بھر میں ھوا کی طرح چکر لگاتے رھے، اس ھوا کی طرح جو ان کی موت کے بعد ان کے دل کی گلاب جیسی مہک ساری دنیا میں پھیلا آئی۔ دنیا کے ھمہ گیر حسن کو ھی دیکھنا زندگی کا حسن ھے۔ وھی زندگی حسین ھے جو ختم ھونے کے بعد اپنی روح کے خالص جذبات چھوڑ جاتی ھے۔"

یہ سچ ھے کہ کچھ لوگ یہ کہتے ھیں کہ آک شہر کے مقبرے میں کوئی دفن نہیں ھے اور خواجہ نصرالدین نے اس کو اسی مقصد کے تحت بنوایا تھا کہ ان کی موت کی خبر پھیل جائے اور پھر وہ جہاں گردی کے لئے روانہ ھو گئے تھے۔ یہ سچ ھے یا نہیں ؟ ھمیں بیکار قیاس آرائیوں میں وقت نہ گنوانا چاھئے۔ ھم بس یہی کہہ سکتے ھیں کہ خواجہ نصرالدین سے ھر طرح کی باتوں کی توقع ھو سکتی ھے۔
اختتام باب 31
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

باب 32

Post by سیدتفسیراحمد »

(۳۲)

صبح کا وقت جلد ھی گذر گیا اور پھر گرم اور امس بھری دوپہر آئی۔ اب فرار کے لئے سب کچھ تیار تھا۔ خواجہ نصرالدین اوپر اپنے قیدی کے پاس گئے۔

"آپ کی قید کی مدت ختم ھونے والی ھے، دانائے روزگار مولانا حسین۔ آج رات کو میں محل چھوڑ دونگا۔ میں آپ کا دروازہ ایک شرط پر کھلا چھوڑ سکتا ھوں ۔ آپ دو دن تک یہ جگہ نہیں چھوڑیں گے۔ اگر آپ جلدی نکلے تو مجھے محل میں پائیں گے اور پھر میں اس بات پر مجبور ھونگا کہ آپ پر بھاگنے کا الزام لگا کر جلاد کے حوالے کردوں ۔ بغداد کےدانا، مولانا حسین، خدا حافظ۔ آپ میرے متعلق بہت براخیال نہ کریں ۔ میں آپ کو یہ فریضہ سپرد کرتا ھوں کہ آپ امیر کو سچی بات بتائیں اور اس کو میرا نام بتائیں ۔ میرا نام خواجہ نصرالدین ھے۔"

"کیا؟" بڈھے نے حیرت سے پیچھے ھٹتے ھوئے کہا۔ وہ نام کو سنکر ھی ھکا بکا رہ گیا ۔

دروازے کے بند ھونے کی چرچراھٹ ھوئی۔ زینوں پر خواجہ نصرالدین کے قدموں کی آواز غائب ھوگئی۔ بڈھا احتیاط کے ساتھ دروازے تک گیا اور اس کو آزمایا۔ وہ مقفل نہیں تھا۔ اس نے باھر جھانک کر دیکھا، کوئی دکھائی نہ دیا۔ اس نے جلدی سے دروازہ بند کرکے زنجیر لگا لی۔

"نہیں " وہ بڑبڑایا "میں پورے ھفتے یہیں پڑے رھنے کو ترجیح دونگا بمقابلہ اس کے کہ پھر خواجہ نصرالدین سے پالا پڑے۔"

رات کو جب فیروزی آسمان پر پہلے ستارے جھلملائے، خواجہ نصرالدین ایک مٹی کی صراحی لیکر ان پہرے داروں کے پاس گئے جو امیر کے حرم کے پھاٹک پر متعین تھے۔ پہرے داروں نے ان کو آتے نہیں دیکھا اور اپنی بات چیت جاری رکھی:

"وہ دیکھو، ایک اور ستارہ ٹوٹا" کچے انڈے کھانے والے موٹے اور کاھل پہرے دار نے کہا "اگر تمھارے کہنے کے مطابق وہ زمین پر گرتے ھیں تو لوگ ان کو پاتے کیوں نہیں ؟"

"شاید وہ سمندر میں گرتے ھیں " دوسرے پہرے دار نے کہا۔

"ارے، بہادر سپاھیو" خواجہ نصرالدین بیچ میں بولے "خواجہ سراؤں کے داروغہ کو تو بلانا۔ میں بیمار داشتہ کے لئے دوا لایا ھوں ۔"

خواجہ سراؤں کا داروغہ آیا اور ادب سے دونوں ھاتھ بڑھا کر چھوٹی سی صراحی سنبھالی جس میں چونے کے پانی کے سوا کچھ بھی نہ تھا، دوا کے استعمال کی ھدایات سنیں اور چلا گیا۔
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

"دانائے روزگار مولانا حسین" موٹے پہرےدار نے چاپلوسی کرتے ھوئے کہا "آپ تو دنیا کی ھر بات جانتے ھیں ۔ آپ کا علم و فضل تو بے پناہ ھے۔ ھمیں بتائیے کہ آسمان سے ٹوٹ کر ستارے کہاں گرتے ھیں اور لوگ ان کو کیوں نہیں پاتے؟"

خواجہ نصرالدین بھلا مذاق سے باز آسکتے تھے۔

"تم نہیں جانتے؟" انھوں نے انتہائی سنجیدگی سے کہا۔ "جب ستارے گرتے ھیں تو وہ چھوٹے چھوٹے چاندی کے سکوں میں ٹوٹ جاتے ھیں جو فقیر چن لیتے ھیں ۔ بہت سے آدمی تو اس طرح امیر بن گئے۔"

پہرےداروں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا۔ ان کے چہرے پر سخت حیرت کے آثار تھے۔

خواجہ نصرالدین ان کی حماقت پر ھنستے ھوئے اپنے راستے پر چلے گئے۔ ان کو یہ گمان بھی نہ تھا کہ یہ مذاق اتنا کارآمد ثابت ھوگا۔

وہ آدھی رات تک اپنے برج میں رھے۔ آخرکار شہر اور محل میں سناٹا چھا گیا۔ اب وقت گنوانا نہیں تھا۔ گرمیوں کی راتیں بڑی صبا رفتار ھوتی ھیں ۔ خواجہ نصرالدین نیچے اترے اور چپکے سے امیر کے حرم کی طرف روانہ ھوئے۔

"پہرے دار اب تو سوتے ھوں گے" انھوں نے سوچا۔

لیکن جب وہ قریب پہنچے تو ان کو بڑی ناامیدی ھوئی کیونکہ پہرے دار چپکے چپکے باتیں کر رھے تھے۔

"اگر ایک ھی ستارہ یہاں گرجاتا" موٹا کاھل پہرے دار کہہ رھا تھا "تو ھم چاندی بٹور کر یکدم امیر بن جاتے۔"

"مجھے یقین نہیں ھے کہ ستارے چاندی کے سکوں میں ٹوٹ جاتے ھیں " اس کا ساتھی بولا۔

"لیکن بغداد کے دانا نے ایسا ھی بتایا ھے" پہلے نے جواب دیا۔ "واقعی وہ بہت بڑے عالم و فاضل ھیں اور غلطی نہیں کرسکتے ھیں ۔"

"لعنت ھو ان پر!" خواجہ نصرالدین نے اندھیرے میں چھپتے ھوئے اپنے آپ سے کہا۔ " میں نے ان کو ستاروں کے بارے میں بتایا ھی کیوں ؟ اب وہ صبح تک اس پر بحث کریں گے۔ کیا بھاگنا ملتوی کرنا پڑے گا؟"

بخارا کے اوپر ھزاروں ستاروں کی صاف اور پرسکون روشنی تھی۔ اچانک ایک چھوٹا سا ستارہ ٹوٹا اور آسمان کے پار انتہائی تیز رفتاری سے ترچھا گرنے لگا۔ ایک اور ستارہ اس کے بعد روانہ ھوا اور اپنے پیچھے ایک جلتی ھوئی لکیر چھوڑتا گیا۔ یہ موسم گرما کا وسطی دور تھا جس میں ستارے کافی ٹوٹتے ھیں ۔
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

"اگر وہ واقعی ٹوٹ کر چاندی کے سکے بن جاتے۔۔۔" دوسرے پہرے دار نے اپنی بات شروع کی۔

اچانک خواجہ نصرالدین نے ذھن میں ایک خیال چمکا۔ انھوں نے جلدی سے اپنی تھیلی نکالی جو چاندی کے سکوں سے بھری ھوئی تھی۔ ستاروں کے گرنے میں ایک لمبا وقفہ ھوگیا۔ آخر کار ایک ٹوٹا۔ خواجہ نصرالدین نے ایک سکہ پہرے داروں کے قدموں کے پاس پھینکا۔ پتھر کے فرش پر سکے کی جھنکار ھوئی، پہلے تو پہرے دار پتھرا سے گئے۔ پھر وہ ایک دوسرے کو گھورتے ھوئے اٹھ کھڑے ھوئے۔

"تم نے یہ سنا؟" پہلے پہرے دار نے کانپتی ھوئی آواز میں کہا۔

"ہاں میں نے سنا" دوسرے نے ھکلاتے ھوئے کہا۔

خواجہ نصرالدین نے ایک اور سکہ پھینکا جوچاندنی رات میں چمک اٹھا۔ کاھل پہرے دار ھلکی سی چیخ مار کر اس پر ٹوٹ پڑا۔

"تم ۔۔۔ کو مل۔۔۔ گیا؟" دوسرے پہرے دار نے مشکل سے کہا۔ اس کے ھونٹ کانپ رھے تھے۔ اس نے اٹھتے ھوئے سکہ دکھایا۔

اچانک کئی اور ستارے ایک ساتھ ٹوٹے اور خواجہ نصرالدین نے مٹھی بھر بھر کر سکے پھینکنا شروع کردئے۔ پرسکون رات سکوں کی لطیف کھن کھناھٹ سے گونج سی گئی۔ پہرے دار بالکل بدحواس ھوگئے۔ انھوں نے اپنے نیزے تو الگ پھینکے اور جھک کر سکے تلاش کرنے لگے۔

"یہ رھا!" ایک کی بھاری گھٹی گھٹی ھوائی آواز آئی۔ "یہ رھا!"

دوسرا خاموشی سے رینگ رھا تھا۔ پھر وہ کثرت سے سکے پھیلے ھوئے دیکھ کر گھگیا گیا۔

خواجہ نصرالدین نے ایک اور مٹھی سکے پھینکے اور بلا روک ٹوک پھاٹک کے اندر داخل ھوگئے۔

باقی کام آسان تھا۔ نرم، گداز ایرانی قالینوں پر ان کے قدموں کی آواز نہیں ھو رھی تھی۔ وہ تمام موڑوں اور پیچیدہ راستوں سے واقف تھے۔ خواجہ سرا سو رھے تھے۔۔۔

گل جان نے ان کا خیر مقدم ایک محبت بھرے بوسے سے کیا اور کانپتی ھوئی ان سے لپٹ گئی۔

"جلدی کرو" انھوں نے سرگوشی میں کہا۔
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

کوئی ان کو روکنے والا نہ تھا۔ ایک خواجہ سرا نے کروٹ لی اور نیند میں بڑبڑایا۔ خواجہ نصرالدین اس پر جھک گئے لیکن اس کی زندگی ابھی باقی تھی۔ اس نے اپنے ھونٹ چاٹے اور پھر خراٹے بھرنے لگا۔ رنگین شیشوں سے ھلکی چاندنی چھن چھن کر آرھی تھی۔

پھاٹک پر خواجہ نصرالدین رکے اور انھوں نے چاروں طرف سے نظر دوڑائی۔ صحن میں پہرے دار اپنے چاروں ھاتھوں پیروں پر ٹکے ھوئے گردنیں اوپر اٹھا اٹھا کر آسمان کو تک رھے تھے کہ کوئی اور ستارہ ٹوٹے۔ خواجہ نصرالدین نے ایک مٹھی بھر اور سکے پھینکے جو کچھ درختوں کے دوسری طرف جاکر گرے۔ پہرے دار اپنے بوٹ کھٹ کھٹ کرتے ھوئے آواز کی طرف دوڑ پڑے۔ انھوں نے اپنے ھیجان میں چاروں طرف کچھ نہیں دیکھا اور زور زور سے ھانپتے اور شور مچاتے ھوئےخاردار جھاڑیوں کے اس پار دوڑے جن کے کانٹوں میں ان کی قباؤں اور شلواروں کے چیتھڑے پھٹ کر لٹک گئے۔

اس رات کو تو حرم سے ایک کیا ساری داشتائیں اغوا کی جا سکتی تھیں ۔

"جلدی کرو، جلدی" خواجہ نصرالدین برابر کہتے جاتے تھے۔

وہ دوڑ کر برج تک گئے اور زینوں پر چڑھے۔ خواجہ نصرالدین نے اپنے بستر کے نیچے سے ایک رسی نکالی۔ یہ انھوں نے پہلے سے تیار کرلی تھی۔

"بہت اونچا ھے۔۔۔ مجھے تو ڈر لگتا ھے" گل جان نے چپکے سے کہا لیکن خواجہ نصرالدین نے اس کو ڈانٹا تو اس نے اپنے اوپر قابو پالیا۔

خواجہ نصرالدین نے گل جان کے گرد ایک پھندا باندھ دیا اور کھڑکی کا جنگلہ نکال دیا جو انھوں نے پہلے ھی کاٹ ڈالا تھا۔ گل جان کھڑکی کے باھر پتھر پر بیٹھی تھی۔ وہ بلندی دیکھ کر کانپ گئی۔

"باھر نکلو!" خواجہ نصرالدین نے حکم دیا اور اس کو پیچھے سے ھلکا سا دھکا دیا۔

گل جان نے آنکھیں بند کرلیں ، چکنے پتھر پر سے پھسل کر ھوا میں لٹک گئی۔ زمین پر پہنچ کر اس کے حواس بجا ھوئے۔

"بھاگو، بھاگو!" اوپر سے آواز آئی۔ خواجہ نصرالدین کھڑی سے باھر جھکے ھوئے اپنے ھاتھ ھلا رھے تھے اور رسی اوپر کھینچ رھے تھے۔ گل جان نے جلدی سے اپنے کو رسی سے کھولا اور سنسان چوک میں سے ھو کر بھاگی۔

اس کو پتہ نہیں تھا کہ پورے محل میں زبردست ھنگامہ برپا ھو گیا ھے۔ خواجہ سراؤں کے داروغہ کے ناخوشگوار تجربے نے اس میں بے وقت کا جوش پیدا کردیا تھا اور وہ آدھی رات کو نئی داشتہ کے کمرے میں نگہبانی کے لئے پہنچ گیا لیکن وھاں تو بستر خالی تھا۔ وہ بھاگتا ھوا گیا اور امیر کو جگا دیا۔ امیر نے ارسلان بیک کو طلب کرلیا۔ ارسلان بیک نے محل کے پہرےداروں کو جگایا۔ مشعلیں روشن ھوگئیں ، نیزوں اور سپروں کی جھنکار گونجنے لگی۔
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

بغداد کے مولانا حسین کی طلبی ھوئی۔ امیر نے چیختے ھوئے شکایت کی:

"مولانا حسین! ھماری ریاست کی اب یہ حالت پہنچ گئی ھے کہ ھمیں ، امیر اعظم کو یہ بدمعاش خواجہ نصرالدین ھمارے محل تک میں چین سے نہیں بیٹھنے دیتا! ایسا تو کبھی سنا بھی نہیں گیا تھا کہ امیر کے حرم سے داشتہ چوری ھو جائے!"

"امیر اعظم" بختیار نے بولنے کی ھمت کی" شاید یہ خواجہ نصرالدین کی حرکت نہ تھی؟"

"اور کون ھو سکتا ھے؟" امیر تیز آواز میں چیخا۔ "صبح کو ھمیں رپورٹ ملی کہ وہ بخارا واپس آگیا ھے اور رات میں ھماری داشتہ غائب ھوگئی جو اس کی منگیتر تھی۔ اس کے سوا اور کون یہ کرسکتا تھا؟ اس کو تلاش کرو۔ ھرجگہ پہرے داروں کی تعداد تگنی کردی جائے۔ اس کو محل سے باھر نکلنے کا وقت نہیں ملا ھے۔ ارسلان بیک، یاد رکھو، تمھارے سر کی خیریت نہیں ھے!"

تلاش شروع ھوگئی۔ پہرے داروں نے محل کا کونہ کونہ چھان مارا۔ مشعلوں نے اپنے لہراتے ھوئے شعلوں سے سارا محل روشن کردیا۔ خواجہ نصرالدین ڈھونڈنے والوں میں سب سے پیش پیش تھے۔ انھوں نے قالین اٹھا اٹھا کر دیکھا۔ سنگ مرمر کے حوضوں میں عصا ڈال کر کھنگالا، غل مچایا، دوڑ دھوپ کی اور چائے دانیوں اور صراحیوں میں جھانک جھانک کر دیکھا حتی کہ چوھوں کے بل بھی نہ چھوڑے۔

امیر کی خواب گاہ میں جا کر انھوں نے رپورٹ پیش کی "شہنشاہ اعظم، خواجہ نصرالدین محل سے نکل گیا۔"

"مولانا حسین!" امیر نے غصے میں جواب دیا۔ "ھمیں تمھاری لاپروائی پر حیرت ھے۔ مان لو وہ کہیں چھپ گیا ھو تو؟ ارے، وہ تو میری خواب گاہ میں بھی گھس سکتا ھے۔ ارے، پہرےداروں کو بلاؤ، پہرے دارو ادھر آؤ!" امیر چلایا۔ وہ خود اپنے ھی تصور سے ڈر گیا تھا۔

باھر ایک توپ دغی۔ اس کا مقصد ھاتھ نہ آنے والے خواجہ نصرالدین کو خوف زدہ کرنا تھا۔ امیر ایک کونے میں گٹھری بنکر پڑگیا اور چلانے لگا:

"پہرے داروں کو بلاؤ! پہرے داروں کو بلاؤ!"

اس کا ڈر اسی وقت دور ھوا جب ارسلان بیک نے خواب گاہ کے دروازوں پر تیس پہرے دار تعینات کردئے اور ھر کھڑکی کے پاس دس دس پہرے دار مقرر کر دئے گئے۔ اب وہ کونے سے باھر نکلا اور فریاد آمیز لہجے میں کہنے لگا:

"مولانا حسین مجھے بتاؤ۔ کیا تمھارا خیال ھے کہ وہ بدمعاش میری خواب گاہ میں کہیں چھپا ہے؟"

"دروازوں اور کھڑکیوں پر پہرہ لگا دیا گیا ھے" خواجہ نصرالدین نے جواب دیا۔ "اس کمرے میں ھم دو ھیں ۔ خواجہ نصرالدین کہاں ھو سکتا ھے؟"

"اس کو ھماری داشتہ اغوا کرنے کی سزا بھگتنی پڑے گی!" امیر گرجا۔ اب اس کے خوف کی جگہ غصہ لے رہا تھا۔ اس نے اپنی انگلیوں کو اس طرح جھٹکا جیسے وہ خواجہ نصرالدین کا گلا گھونٹ رھا ھو۔ "ارے مولانا حسین" اس نے اپنی بات جاری رکھی "ھمیں بے انتہا غم و غصہ ھے! ھم اس کےپاس ایک بار بھی نہیں گئے۔ اس خیال سے ھمارا دل ملتا ھے۔ یہ سب تمھارے حماقت بھرے ستاروں کا قصور ھے، مولانا۔ اگر ھمارا بس چلتا تو اس گستاخی کے لئے ھم تمام ستاروں کا سر یکدم قلم کروا دیتے۔ لیکن اس بار خواجہ نصرالدین سزا پائے بغیر نہیں جاسکتا۔ ھم ارسلان بیک کو حکم دے چکے ھیں اور مولانا تم بھی اس بدمعاش کو گرفتار کرنے کی پوری کوشش کرو! یہ نہ بھولو کہ خواجہ سراؤں کے داروغہ کا معزز عہدہ تمھیں ملنے کا انحصار اس کام میں کامیابی پر ھے۔ کل تم محل سے جاؤ گے اور خواجہ نصرالدین کے بغیر واپس نہیں ھوگے۔"

خواجہ نصرالدین اپنی شرارت آمیز آنکھیں نچاتے ھوئے زمین تک جھک کر تعظیم بجا لائے۔
اختتام باب 32
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

باب 33

Post by سیدتفسیراحمد »

(۳۳)

باقی رات خواجہ نصرالدین امیر کو اپنے منصوبے بتاتے رھے کہ وہ خواجہ نصرالدین کو کس طرح گرفتار کریں گے۔ یہ منصوبے بڑی چالاکی کے تھے اور امیر ان کو سن کر بہت خوش ھوتا رھا۔

صبح کو خواجہ نصرالدین کو اخراجات کے لئے ایک خریطہ اشرفیوں کا عطا ھوا او روہ آخری بار اپنے برج کے زینوں پر چڑھے۔ انھوں نے یہ رقم ایک چمڑے کی دھمیانی میں رکھی اور چاروں طرف نظر ڈالی۔ انھوں نے ایک آہ بھری کیونکہ ان کو یہ جگہ چھوڑنے پر اچانک افسوس ھونے لگا تھا۔ انھوں نے اپنی بہت سی بے خواب راتیں نہ جانے کیا سوچتے ھوئے یہاں گذاری تھیں ۔ ان سنگین دیواروں کے پیچھے ان کی روح کا کوئی حصہ ھمیشہ کے لئے باقی رہ جائے گا۔

انھوں نے زور سے دروازہ بند کیا اور نیچے کی طرف زینوں پر بھاگے۔ وہ آزادی کی طرف جا رھے تھے۔ ایک مرتبہ پھر ساری دنیا ان کے سامنے ھوگی۔ سڑکیں ، پہاڑی درے اور راستے ان کو دور دراز کی سیا حت کے لئے پکار رھے تھے۔ سرسبز جنگلات ان کے لئے اپنے سائے اور نرم پتیوں کے قالین پھیلائے کھڑے تھے۔ دریا اپنی خنک پانی سے ان کی پیاس بجھانے کے منتظر تھے۔ چڑیاں اپنے بہترین نغموں سے ان کے خیرمقدم کے لئے تیار تھیں ۔ زندہ دل آوارہ گرد خواجہ نصرالدین کافی دن تک سونے کے پنچرے میں بند رہا تھا۔ دنیا اس کی بڑی کمی محسوس کر رھی تھی۔

جب وہ پھاٹک پر پہنچے تو انھیں ایسا صدمہ ھوا جس سے ان کا دل دھل گیا۔ ان کا چہرہ سفید پڑ گیا۔ ان کو دیوار کا سہارا لینا پڑا۔

کھلے پھاٹک میں پہرےداروں سے گھرے ھوئے ان کے دوستوں کی لمبی قطار لگی تھی۔ ان کے ھاتھ بندھے تھے اور سر ڈھلکے ھوئے تھے۔ اس میں بڈھا کمھار نیاز، چائے خانے کا مالک علی، آھنگر یوسف اور بہت سے دوسرے لوگ تھے جن جن سے ان کی کبھی ملاقات ھوئی تھی، جن کے ھاتھ سے انھوں نے کبھی پانی پیا تھا یا مٹھی بھر گھاس اپنے گدھے کے لئے لی تھی۔ سب وھاں بندھے ھوئے تھے۔ ارسلان بیک اس اندوھناک جلوس کے پیچھے پیچھے تھا۔

جس وقت تک خواجہ نصرالدین کے حواس بجا ھوئے، پھاٹک بند ھو چکے تھے اور صحن خالی تھا۔ قیدی کال کوٹھریوں میں جا چکے تھے۔ خواجہ نصرالدین نے جلدی سے ارسلان بیک کو تلاش کیا۔

"جناب ارسلان بیک، کیا ھوا؟ یہ لوگ کہاں کے ھیں ؟ انھوں نے کیا گناہ کیا ھے؟"

"یہ لوگ پاجی خواجہ نصرالدین کے پناہ دینے والے اور اس کے ساتھ مل کر سازشیں کرنے والے ھیں !" ارسلان بیک نے فاتحانہ انداز میں جواب دیا۔ "میرے جاسوسوں نے ان کا پتہ لگایا ھے اور آج ان کو کھلے عام بری طرح موت کے گھاٹ اتار دیا جائے گا اگر انھوں نے خواجہ نصرالدین کا پتہ نہ بتایا۔ لیکن آپ اتنے زرد کیوں ھیں ، مولانا؟ آپ پریشان معلوم ھوتے ھیں ۔۔۔"

"زرد؟" خواجہ نصرالدین نے حیرت سے کہا۔ "اس کا مطلب یہ ھوا کہ انعام مجھ کو نہیں تم کو ملے گا!"
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

خواجہ نصرالدین کو مجبوراً محل میں ٹھہرنا پڑا۔ اس کے سوا ان کےلئے کوئی چارہ نہ تھا کیونکہ معصوم لوگوں کی جان کا خطرہ تھا۔

دوپہر کو چوک پر فوج تعینات ھوگئی۔ اس نے تین تین کی قطاروں میں چبوترے کے چاروں طرف حلقہ بنالیا۔ مجمع کو نقیبوں نے بتا دیا تھا کہ کچھ لوگوں کو سزائے موت دی جائے گی اور وہ خاموشی سے منتظر تھا۔ صاف آسمان سے چلچلاتی ھوئی دھوپ آرھی تھی۔

محل کے پھاٹک کھلے اور دستور کے مطابق پہلے آگے آگے دوڑتے ھوئے نقیب آئے، پھر پہرے دار اور ان کے پیچھے سازندے، ھاتھی اور درباری۔ آخر میں امیر کی پالکی آھستہ آھستہ بڑھتی ھوئی آئی۔ سارا مجمع تعظیم کے لئے جھک گیا۔ پالکی چبوترہ تک لائی گئی۔

امیر تخت پر بیٹھ گیا۔ مجرم پھاٹک سے باھر لائے گئے۔ ان کو دیکھ کر مجمع میں ھلکا شور ھوا۔ مجرموں کے رشتےدار اور دوست آگے کی قطاروں میں کھڑے تھے تاکہ وہ اچھی طرح دیکھ سکیں ۔

جلادوں نے اپنے تیشے، نوکیلے ستون اور رسیاں ٹھیک کرنا شروع کردیں ۔ ان کو پورا دن کام کرنا تھا کیونکہ یکے بعد دیگرے ساٹھ آدمیوں کو موت کے گھاٹ اتارنا تھا۔

اس جان لیوا جلوس میں بڈھے نیاز کا نمبر پہلا تھا۔ اس کے دائیں طرف سولی تھی اور بائیں طرف تختہ اور سامنے ایک نوکیلا ستون زمین سے اوپر ابھرا ھوا تھا۔

وزیر اعظم بختیار نے بڑی سنجیدہ اور پاٹ دار آواز میں اعلان کیا:

"اس اللہ کے نام پر جو رحیم و کریم ھے بخارا کے حکمران، آفتاب جہاں ، امیر بخارا نے میزان انصاف میں اپنی رعایا کے ساٹھ افراد کو تولنے کے بعد جو ناپاک امن شکن بانی شر و فساد خواجہ نصرالدین کو پناہ دینے سے متعلق ھیں مندرجہ ذیل حکم دیا ھے:

"کمھار نیاز کو خاص پناہ دینے والے کی حیثیت سے جس کے گھر میں متذکرہ بالا آوار گرد خواجہ نصرالدین نے بہت دن تک پناہ لی یہ سزا دی جاتی ھے کہ اس کا سر جسم سے جدا کر دیا جائے۔جہاں تک دوسرے مجرموں کا سوال ھے پہلی سزا تو ان کے لئے یہ ھوگی کہ وہ نیاز کی موت کا نظارہ کریں تاکہ وہ اس سے بھی زیادہ خوفناک انجام کی توقع کرکے کانپ سکیں ۔ ان میں سے ھر ایک کے لئے موت کے طریقے کا الگ الگ اعلان کیا جائے گا۔"

پورے میدان میں ایسا سناٹا چھایا ھوا تھا کہ بختیار کا ایک ایک لفظ مجمع کی آخری قطارون تک سنائی دے رھا تھا۔دانشکدہِ تفسیرسیدتفسیراحمد
رکن رکین
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

"اور سب کو یہ معلوم ھونا چاھئے" بختیار نے اپنی آواز اور بلند کرتے ھوئے اعلان جاری رکھا "کہ آئندہ بھی جو کوئی خواجہ نصرالدین کو پناہ دیگا اس کا یہی انجام ھوگا۔ ایک بھی جلاد کے ھاتھوں نہیں بچے گا۔ بہرحال اگر کوئی بھی مجرم اس ناپاک بدمعاش کا پتہ بتادیگا تو وہ نہ صرف اپنی جان کی امان پائے گا بلکہ وہ امیر کے انعام و اکرام اور دعاؤں کےساتھ دوسرے مجرموں کی جان بخشی کا باعث بھی ھوگا۔ کمھار نیاز کیا تو خواجہ نصرالدین کا پتہ بتا کر خود اپنے کو اور دوسروں کو نجات دلوائیگا؟

نیاز بڑی دیر تک سرجھکائے خاموش کھڑا رھا۔ جب بختیار نے اپنا سوال دھرایا تو نیاز نے جواب دیا "نہیں ، میں نہیں بتا سکتا کہ وہ کہاں ھیں ۔"

جلادوں نے بڈھے کو تختے کی طرف گھسیٹا۔ کوئی مجمع سے چیخا۔ بڈھا نیاز جھک گیا، اپنی گردن بڑھا کراپنا سفید بالوں والا سر تختے پر رکھدیا۔

اس لمحے خواجہ نصرالدین درباریوں کو ھاتھ سے ھٹاتے ھوئے آگے بڑھے اور امیر کے سامنے آئے۔

"ولی نعمت!" انھوں نے زور سے کہا تاکہ پورا مجمع سن سکے۔ "حکم دیجئے کہ سزا روک دی جائے۔ خواجہ نصرالدین کو یہاں اور ابھی گرفتار کیا جا سکتا ھے۔"

امیر نے ان کی طرف حیرت سے دیکھا۔ مجمع میں ھلچل ہوئی۔ امیر کے اشارے پر جلاد نے تیشہ اپنے قدموں تک نیچا کر لیا۔

"شہنشہاہ اعظم!" خواجہ نصرالدین نے بلند آوازمیں کہا۔ "کیا یہ انصاف ھوگا کہ ان حقیر پناہ دینے والوں کو سولی دی جائے اور بڑا پناہ دینے والا کوئی سزا نہ پائے، وہ جس کے گھر میں خواجہ نصرالدین اس زمانے میں رھتے تھے اور اب بھی ھیں ، جو ان کو کھانا دیتا ھے، ان کو انعام دیتا ھے اور ھر طرح ان کی خاطر مدارات کرتا ھے؟"

"تم ٹھیک کہتے ھو" امیر نے شان سے کہا "اگر ایسا پناہ دینے والا ھے تو انصاف کے مطابق اس کا سر سب سے پہلے قلم ھونا چاھئے۔ لیکن ھمیں بتاؤ تو وہ کون ھے، مولانا حسین؟"

سارے مجمع میں چاؤں چاؤں ھونے لگی۔ آگے جو لوگ تھے وہ پیچھے کے لوگوں کو بتانے لگے کہ امیر نے کیا کہا۔

"لیکن اگر امیر اعظم اس بڑے پناہ دینے والے کو سولی نہ دینا چاھیں ، اگر امیر اس کو زندہ رکھنا چاھیں تو کیا ایسی صورت میں ان حقیر پناہ دینے والوں کو سولی دینا انصاف ھوگا؟" خواجہ نصرالدین نے پوچھا۔

امیر نے اور زیادہ پریشان ھو کر جواب دیا " اگر ھم بڑے پناہ دینے والے کو سولی نہ دینا چاھیں تو واقعی ھمیں دوسروں کو آزاد کردینا چاھئے۔ لیکن ھماری سمجھ میں یہ نہیں آتا مولانا حسین کہ ھمیں کونسا سبب بڑے پناہ دینے والے کو سولی دینے سے باز رکھ سکتا ھے۔ ھم کو اس کا نام بتاؤ اور ھم فوراً اس کا سر گردن سے اڑا دینگے۔"
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

خواجہ نصرالدین مجمع کی طرف مڑے اور انھوں نے کہا:

"آپ نے امیر کے الفاظ سنے؟ بخارا کے حکمران نے فرمایا کہ اگر وہ بڑے پناہ دینے والے کو سولی نہیں دیتےجس کا نام میں ابھی ابھی بتاونگا تو ان تمام حقیر پناہ دینے والوں کو جو سولی پر کھڑے ھیں رھا کر دیا جائے گا اور وہ اپنے اپنے گھر والوں سے ملیں گے۔ میں نے سچ عرض کیا ھے نا، عالی جاہ؟"

"تم نے سچ کہا ھے، مولانا حسین" امیر نے تصدیق کی۔ "ھم قول دیتے ھیں اس لئے یہی ھوگا۔ لیکن جلدی کرو اور بڑے پناہ دینے والے کو بتاؤ۔"

"آپ سن رھے ھیں نا؟" خواجہ نصرالدین نے مجمع سے پوچھا۔ "امیر نے قول دیا ھے۔"

انھوں نے گہری سانس لی۔ انھوں نے دیکھا کہ ھزاروں نگاھیں ان کی طرف لگی ھیں ۔

"بڑا پناہ دینے والا۔۔۔" وہ رک گئے اور اپنے چاروں طرف دیکھا۔ بہت سے لوگوں نےان کے چہرے پر سخت پریشانی اور کوفت کے آثاردیکھے۔ وہ پیاری دنیا، لوگوں اور اپنے پیارے سورج سے رخصت ھو رھے تھے۔

"جلدی کرو!" امیر بےچینی سے چلایا۔ "جلدی بتاؤ، مولانا!"

خواجہ نصرالدین نے پرعزم گونجتی ھوئی آواز میں کہا:

"بڑے پناہ دینے والے۔۔۔ آپ ھیں ، اے امیر!"

اور یہ کہہ کر انھوں نے اپنا عمامہ اتار کر پھینک دیا اور اپنی مصنوعی داڑھی نوچ ڈالی۔

سارا مجمع ھکا بکا رہ گیا، اس میں ایک لہر سی پیدا ھوئی اور پھر مکمل سناٹا چھا گیا۔ امیر کی آنکھیں نکل پڑیں ، اس کے ھونٹوں میں حرکت ھوئی لیکن کوئی آواز نہیں نکلی۔ درباری اس طرح کھڑے تھے جیسے پتھرا گئے ھوں ۔

لیکن یہ خاموشی مختصر تھی۔

"خواجہ نصرالدین! خواجہ نصرالدین!" مجمع میں غلغلہ مچ گیا۔

"خواجہ نصرالدین!"درباریوں نے سرگوشی میں کہا۔

"خواجہ نصرالدین!"ارسلان بیک حیرت سے بولا۔

آخرکار امیر کے حواس اتنے بجا ھوئے کہ وہ بھی دھیمی آواز میں بڑبڑا سکا:

"خواجہ نصرالدین!"

"ھاں ، بذات خود۔ اچھا تو عالیجاہ حکم دیجئے ان کو کہ یہ آپ کا بڑے پناہ دینے والے کی حیثیت سے سرقلم کردیں ! میں آپ کے محل میں رھتا تھا۔ میں نے آپ کے ساتھ کھانا کھایا اور آپ سے انعامات حاصل کئے۔ میں آپ کا تمام امور میں خاص اور قریبی مشیر رھا۔ امیر، آپ پناہ دینے والے ھیں ۔ حکم دیجئے کہ وہ آپ کا سر قلم کردیں !"

خواجہ نصرالدین پکڑ لئے گئے۔ ان کے ھاتھ باندھ دئے گئے لیکن انھوں نے چھڑانے کی کوشش نہیں کی۔ انھوں نے زور سے کہا "امیر نے وعدہ کیا تھا کہ وہ مجرموں کو رھا کردینگے! آپ سب نے امیر کو قول دیتے سنا تھا!"

مجمع میں غل غپاڑہ ھونے لگا اور وہ آگے بڑھنے لگا۔ پہرے داروں کا تہرا حلقہ ان کو روکنے کے لئے پورا زور لگا رھا تھا۔ لوگ زیادہ زور زور سے چیخ رھے تھے:

"معتوبوں کو رھا کرو!"

"امیر نے قول دیا تھا!"

"رھا کرو!"

شور و غل بڑھ رھا تھا۔ پہرے داروں کا حلقہ ٹوٹنے لگا۔

بختیار نے جھک کر امیر سے کہا:

"آقائے نامدار، ان لوگوں کو آزاد کردینا چاھئے ورنہ عام بغاوت ھو جائے گی۔"

امیر نے سر ھلا دیا۔

" امیر اپنے قول پر قائم ھیں !" بختیار نے چلا کر کہا۔

پہرےداروں نے راستہ دے دیا اور معتوب لوگ فوراً مجمع میں غائب ھوگئے۔

خواجہ نصرالدین کو محل لے جایا گیا۔ بہت سے لوگ مجمع میں ان کے پیچھے روتے چلاتے رھے:

"خدا حافظ خواجہ نصرالدین! الوداع، پیارے، شریف دل خواجہ نصرالدین! آپ ھمارے دلوں میں ھمیشہ زندہ رھیں گے!"

خواجہ اپنا سر اونچا کئے ھوئے چل رھے تھے۔ ان کے چہرے سے نڈرپن کا اظہار ھوتا تھا۔ پھاٹک پر وہ مڑے، رخصت ھوتے ھوئے ھاتھ ھلایا۔ مجمع نے ایک زور کا نعرہ لگایا۔

امیر جلدی جلدی اپنی پالکی میں بیٹھ گیا اور شاھی جلوس واپس ھوگیا۔
اختتام باب 33
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

باب 34

Post by سیدتفسیراحمد »

(۳۴)

خواجہ نصرالدین کافیصلہ کرنے کے لئے مخصوص دیوان طلب کیا گیا۔

جب وہ سخت پہرے میں ھتکڑیاں پہنے ھوئے داخل ھوئے تو سارے درباریوں نے آنکھیں جھکا لیں ۔ ان کو ایک دوسرے کی طرف دیکھتے ھوئے شرم آتی تھی۔ دانا بھی تیوریاں چڑھائے اپنی داڑھیاں سہلا رھے تھے۔ امیر نے بھی منہ موڑ کر گہری سانس لی اور اپنا گلا صاف کرنے لگا۔

لیکن خواجہ نصرالدین بڑی جرأت کے ساتھ نگاہ ملا کر سب کو دیکھ رھے تھے۔ اگر ان کے ھاتھ پیچھے نہ بندھے ھوتے تو کوئی یہ نہیں کہہ سکتا تھا کہ ملزم وہ ہیں بلکہ یہ سب لوگ جو مجرم نظر آتے تھے جو ان کے سامنے بیٹھے تھے۔

بغداد کا دانا اصل مولانا حسین جو آخرکار اپنی قید سے نجات پاچکا تھا اس مجلس میں دوسرے درباریوں کے ساتھ حاضر تھا۔ خواجہ نصرالدین نے اس کی طرف دوستانہ انداز میں آنکھ ماری جس پر بغداد کا دانا اپنی جگہ پر کسمسایا اور غصے میں گہری سانس لی۔

فیصلہ ھونے میں دیر نہیں لگی۔ خواجہ نصرالدین کو سزائے موت دی گئی۔ صرف یہ طے کرنا باقی رہ گیا کہ ان کو کس طرح موت کے گھاٹ اتار ا جائے۔

"شہنشاہ اعظم" ارسلان بیک نے کہا "میرے خیال میں مجرم کو نوکیلے ستون پر بٹھا کر مارنا چاھئے تاکہ اس کی زندگی کا خاتمہ سخت کرب کی حالت میں ھو۔"

خواجہ نصرالدین نے اپنا رویاں بھی نہیں ھلایا۔ وہ خوش خوش مسکرا رھے تھے۔ انھوں نے اپنا چہرہ ایک سورج کی کرن کی طرف کر لیا جو اوپر کی کھلی ھوئی کھڑکی سے ھال میں آرھی تھی۔

"نہیں "امیر نے قطعی طور پر کہا "ترکی کے سلطان اس کافر کو نوکیلے ستون پر بٹھا کر ختم کرنے کی کوشش کرچکے ھیں ۔ غالباً وہ اس طرح کی موت سے بچنے کی صورت جانتا ھے، نہیں توبھلا یہ سلطان کے ھاتھ سے زندہ جان کیسے نکل سکتا تھا!"

بختیار نے مشورہ دیا کہ اس کا سر قلم کردیا جائے۔

"یہ سچ ھے کہ بہت ھی آسان موت ھوگی" اس نے کہا "لیکن یہ سب سے یقینی بھی ھے۔"

"نہیں " امیر نے کہا "خلیفہ بغداد نے اس کا سر قلم کروادیا لیکن وہ ابھی تک زندہ ھے۔"
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

یکے بعد دیگرے درباری اٹھ اٹھکر اپنی تجویزیں پیش کرنے لگے۔ کوئی کہتا کہ ان کو پھانسی پر لٹکا دیا جائے تو کوئی یہ مشورہ دیتا کہ ان کی کھال کھنچوا ئی جائے۔ اس نے خواجہ نے چہرے پر خوف کی کوئی نشانی نہ دیکھ کر یہ سمجھا کہ ان طریقوں کے ناکافی ھونے کا یہی ثبوت ھے۔

درباری لاچار ھوکر خاموش ھوگئے۔ امیر کے چہرے پر بےصبری اور غصے کے آثار نظر آنے لگے۔

بغداد کا دانا اٹھا۔ چونکہ وہ پہلی مرتبہ امیر کے سامنے زبان کھولنے جا رھا تھا اس لئے اس نے بڑی احتیاط کے ساتھ اپنے مشورہ کو تول لیا تھا تاکہ اپنے عقل و دانش کی برتری کا مظاھرہ کرسکے۔

"جہاں پناہ! اگر یہ مجرم ابھی تک تمام سزاؤں سے صحیح سلامت بچ نکلتا ھے تو کیا اس کا یہ مطلب ھے کہ اس کو ارواح خبیثہ سے، تاریکی کی ایسی بدروحوں سے مدد ملتی ھے جن کا نام امیر کی موجودگی میں لینا گستاخی ھوگی؟"

یہ کہکر دانا نے اپنے شانوں کے پر دعا پڑھکر پھونکی جس کی پیروی خواجہ نصرالدین کے سوا سب نے کی۔

"مجرم کے بارے میں تمام معلومات پر غور و خوض کرنے اور تولنے کے بعد" دانا نے اپنی بات جاری رکھی "ھمارے امیر نے اس کو موت کی سزا دینے کے تمام طریقوں کو اس خوف سے مسترد کردیا ھے کہ ارواح خبیثہ پھر مجرم کی مدد کرینگی اور وہ منصفانہ سزا سے بچ جائیگا۔ لیکن سزائے موت کا ایک اور طریقہ بھی ھے جو مبینہ ملزم پر نہیں آزمایا گیا اور وہ ھے۔ ڈبو دینا!"

بغداد کے دانا نے فخر سے سر اٹھا کر سارے مجمع کو دیکھا۔

خواجہ نصرالدین ھلکے سے چونک پڑے اور امیر نے اس حرکت کو دیکھ لیا " اچھا! تو یہ تھا اس کا راز"

اس دوران خواجہ نصرالدین سوچ رھے تھے:

"یہ بڑی اچھی علامت ھے کہ ان لوگوں نے ارواح خبیثہ کا ذکر چھیڑدیا ھے۔ اس کا مطلب یہ ھوا کہ ابھی امید نے بالکل سانس نہیں توڑدی ھے۔"

"میں نے جو کچھ سنا اور پڑھا ھے اس سے مجھے علم ھے" دانا نے اپنی بات جاری رکھی "کہ بخارا میں ایک مقد س تالاب ھے جس کو شیخ احمد کا تالاب کہتے ھیں ۔ ظاھر ھے کہ ارواح خبیثہ اس تالاب کے قریب بھی نہیں پھٹک سکتیں ۔ اس لئے جہاں پناہ، اس کا یہ مطلب ھوا کہ مجرم کو کافی دیر تک اس مقدس پانی میں ڈبوئے رکھا جائے۔ اس کے بعد وہ مر جائے
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

"یہ مشورہ انعام کے قابل ھے!" امیر نے کہا۔

خواجہ نصرالدین نے مولانا حسین سے مخاطب ھو کر ملامت آمیز لہجے میں کہا:

"مولانا حسین! جب تم میرے بس میں تھے تو کیا میں نے تمھارے ساتھ ایسا ھی سلوک کیا تھا؟ اس کے بعد انسان کیسے کسی کے احسان کا اعتبار کرسکتا ھے!"

یہ طے کیا گیا کہ خواجہ نصرالدین کو غروب آفتاب کے بعد شیخ احمد کے مقدس تالاب میں سر عام ڈبو دیا جائے گا۔ اس خیال سے کہ وہ راستے میں بھاگ نہ سکیں ان کو ایک چمڑے کے تھیلے میں تالاب تک لے جایا جائیگا اور اسی میں ان کو دبو دیا جائے گا۔

۔۔۔سارے دن بڑھئیوں کے بسولے تالاب کے کنارے گونجتے رھے جہاں ایک پلیٹ فارم بنایا جا رھا تھا۔ وہ جانتے تھے کہ امیر کو وھاں پلیٹ فارم کی کیوں ضرورت ھے لیکن ان کے لئے چارہ ھی کیا تھا جب ھر بڑھئی کے سر پر ایک پہرے دار سوار تھا؟ وہ خاموشی سے کام کر رھے تھے۔ ان کے چہرے افسردہ اور ملول تھے۔ جب کام ختم ھو گیا تو ان کو جو معمولی اجرت دی جا رھی تھی وہ اس سے انکار کرکے سرجھکائے وھاں سے چلے گئے۔

پلیٹ فارم اور تالاب کا وہ کنارہ جس پر پلیٹ فارم تھا قالینوں سے ڈھک دئے گئے۔ سامنے کا کنارہ عام لوگوں کے لئے چھوڑ دیا گیا۔

جاسوسوں نے مخبری کی کہ سارے شہر میں بڑا ھنگامہ ھے۔احتیاط کے لئے ارسلان بیک نے تالاب کے چاروں طرف بےشمار سپاھی تعینات کردئے اور توپیں لگا دیں ۔ اس ڈر سے کہ مبادا لوگ خواجہ نصرالدین کو راستے میں نہ چھڑالیں ارسلان بیک نے چار بورے چیتھڑوں سے بھر والئے۔ اس کا ارادہ یہ تھا کہ وہ ان چاروں بوروں کو عام سڑکوں سے علانیہ تالاب تک بھیجے گا اور جس بورے میں خواجہ نصرالدین ھوں گے اس کو ویران گلیوں سے لایا جائے گا۔ اس نے اپنے پرفن منصوبے میں یہ اضافہ کیا کہ نقلی بوروں پر تو آٹھ آٹھ پہرے دار رکھے اور اصلی کے ساتھ صرت تین۔

"میں تمھیں تالاب سے ھرکارہ بھیجونگا" ارسلان بیک نے پہرے داروں سے کہا "اور تم نقلی بورے فوراً یکے بعد دیگرے روانہ کردینا اور پانچواں جس میں مجرم ھوگا ذرا بعد میں اس طرح بھیجنا کہ لوگوں کی توجہ اس طرف نہ جائے، اس وقت جبکہ پھاٹک کا مجمع نقلی بوروں کے پیچھے ھولے، سمجھے نا؟ یار رکھو کہ یہ تمھارے سر دھڑ کا سوال ھے۔"

شام کو نقاروں کی گونج نے بازار ختم ھونے کا اعلان کیا۔ ھر طرف سے لوگوں کا سیلاب امنڈ کر تالاب کی طرف چلا۔جلد ھی امیر بھی اپنے ماھی مراتب کے ساتھ پہنچ گیا۔ پلیٹ فارم پر اور اس کے چاروں طرف مشعلیں جلا دی گئیں ۔ ان کی لوئیں ھوا میں پھن پھنا اور لہرا رھی تھیں اور پانی پر خونیں شعاعیں ڈال رھی تھیں ۔سامنے والا کنارہ تاریکی میں غلطاں تھا۔ پلیٹ فارم سے مجمع تو نہیں دکھائی دیتا تھا لیکن اس کے چلنے پھرنے کی ھلچل تو سنائی دے رھی تھی جو رات کی ھوا کے جھونکوں میں غیر واضح اور بےچین آوازوں کا اضافہ کر رھی تھی۔
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

بختیار نے پاٹ دار آواز میں خواجہ نصرالدین کی سزائے موت کے لئے امیر کا فرمان پڑھا۔ اس لمحے ھوا بھی ساکن ھو گئی اور ایسی مکمل خاموشی چھا گئی کہ تقدس مآب امیر کا دل بھی کانپ اٹھا۔ پھر ھوا نے آہ بھری اور اس کے ساتھ ھزاروں سینوں سے بھی آہ نکلی۔

"ارسلان بیک" امیر نے گھبرا کر کہا "دیر کیوں ھو رھی ھے؟"

"عالی جاہ! میں نے ھرکارہ روانہ کردیا ھے۔"

اچانک اندھیرے سے غل غپاڑے اور ھتھیاروں کی جھنکار کی آواز آئی۔ کہیں لڑائی چھڑ گئی تھی۔ امیر اچھل پڑا اور چاروں طرف دیکھنے لگا۔ ایک منٹ بعد پلیٹ فارم کے سامنے روشنی کے حلقے میں آٹھ پہرے دار خالی ھاتھ آئے۔

"مجرم کہاں ھے؟" امیر گرجا۔ "انھوں نے پہرےداروں سے چھین لیا! وہ بھاگ نکلا! یہ سب تیری وجہ سے ھوا، ارسلان بیک!"

"عالی جاہ!" ارسلان بیک نے جواب دیا۔ "آپ کا ناچیز غلام یہ سب پہلے سے جانتا تھا۔ بورا تو پرانے چیتھڑوں سے بھرا تھا۔"

سامنے والے کنارے سے پھر لڑائی کی آواز آرھی تھی۔ ارسلان بیک نے جلدی جلدی امیر کو اطمینان دلایا:

"آقائے نامدار! ان کو بورا لے جانے دیجئے۔ یہ بھی پرانے چیتھڑوں سے بھرا تھا۔"

پہلا بورا تو پہرے داروں سے چائے خانے کے مالک علی اور اس کے دوستوں نے چھینا تھا اور دوسرا یوسف کی قیادت میں آھنگروں نے۔ پھر کمھاروں نے تیسرا بورا چھینا۔ لیکن اس میں صرف چیتھڑے بھرے تھے۔ چوتھے بورے کو پہرے دار بلا روک ٹوک لے گئے۔ پہرے داروں نے اس کو مشعلوں سے روشن پانی پر سارے مجمع کے سامنے الٹ دیا۔ وہ چیتھڑوں سے بھرا تھا۔

پریشان اور متحیر مجمع خاموش کھڑا تھا۔ یہ تھا ارسلان بیک کا منصوبہ کیونکہ وہ جانتا تھا کہ تذبذب کا نتیجہ لاچاری ھوتا ھے۔

اب پانچویں بورے سے نبٹنے کا وقت آگیا تھا۔ اس دوران میں ان پہرے داروں کو جو اسے لا رھے تھے راستے میں دیر ھوگئی تھی اور وہ ابھی تک نہیں آئے تھے۔
اختتام باب 34
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

باب 35

Post by سیدتفسیراحمد »

از: سیدتفسیراحمد بتاریخ: پیر ستمبر 01, 2008 6:03 am

(۳۵)

جب پہرے داروں نے خواجہ نصرالدین کو کال کوٹھری سے نکالا تو انھوں نے کہا:

"تو تم مجھ کو یہاں سے اپنی پیٹھ پر لے جاؤگے؟ افسوس کہ میرا گدھا یہاں نہیں ھے ورنہ وہ تو ھنستے ھنستے دم توڑ دیتا۔"

"بندکرو اپنی زبان! تو خود جلدی روئیگا!" پہرے داروں نے ڈانٹ بتائی۔ وہ اس کو معاف نہیں کرسکتے تھے کہ خواجہ نے خود کو اپنے آپ امیر کے حوالے کرکے ان کو انعام سے محروم کردیا تھا۔

انھوں نے تنگ بورے کو پھیلا کر اس میں خواجہ نصرالدین کو ٹھونسنا شروع کردیا۔

"ارے شیطان کے بچو!" خواجہ نصرالدین جو تہرے ھوچکے تھے چلائے "تم کو اس سے بڑا بورا نہیں ملا؟"

"چپ رہ!" پہرےداروں نے ھانپتے اور پسینہ پونچھتے ھوئے جواب دیا۔ "زیادہ دیر نہ لگے گی۔ دیکھ حرامزادے، زیادہ پھیلنے کی کوشش نہ کر، نہیں تو ھم تیرے گھٹنے تیرے پیٹ میں اتار دیں گے!"

اب ھاتھا پائی شروع ھوگئی جس کی وجہ سے محل کے سارے ملازم جمع ھوگئے اور بڑی کشمکش کے بعد پہرے دار خواجہ نصرالدین کو بورے میں ٹھونس کر اس کو رسی سے باندھ سکے۔ بورے میں بڑی امس، تاریکی اور بدبو تھی۔ خواجہ نصرالدین کے دل پر ایک سیاہ غبار چھا گیا۔

فرار کا کوئی راستہ نہیں دکھائی دیتا تھا۔ انھوں نے قسمت اور ھمہ گیر طاقت رکھنے والے موقع سے اپیل کی۔

"اے قسمت جس نے ماں کی طرح مجھے پالا ھے اور اے ھمہ گیر طاقت رکھنے والے موقع جس نے ابھی تک مجھے باپ کی طرح بچایا ھے تم کہاں ھو؟ تم خواجہ نصرالدین کی مدد کو جلدی سے کیوں نہیں آتے؟ اے قسمت! اے ھمہ گیر طاقت رکھنے والے موقع!"

اس دوران میں پہرے دار تالاب کا آدھا فاصلہ طے کرچکے تھے۔ وہ باری باری بورے کو لے جا رھے تھے۔ دوسو قدم کے بعد بدلی کرلیتے تھے۔ خواجہ نصرالدین رنج و غم کے مختصر وقفوں کو گن رھے تھے اور پتہ چلا رھے تھے کہ کتنا فاصلہ ھوچکا ھے اور کتنا باقی ھے۔

وہ جانتے تھے کہ قسمت اور موقع اس کا کبھی ساتھ نہیں دیتے جو عمل کرنے کی بجائے صرف رونا پیٹا اور فریاد کرتا رھتا ھے۔ وھی آدمی منزل تک پہنچتا ھے جو آگے بڑھتا رھتا ھے۔ اگر اس کے پیر کمزور ھوں اور کام نہ دیں تو اسے چاروں ھاتھوں پیروں پر آگے بڑھتے رھناچاھئے۔ تو پھر ضرور اس کو رات میں دور شعلہ ور الاؤ اور صحیح راستے پر چلنے والا کارواں نظر آئیگا اور اپنی منزل تک پہنجنے کے لئے اس کو فاضل اونٹ بھی مل جائے گا۔ جبکہ وہ آدمی جو سڑک کے کنارے بیٹھ کر یاس سے ھار مان لے گا، اس کے لئے سنگ دل پتھروں میں کوئی ھمدردی نہ پیدا ھوگی وہ چاھے جتنا روئے اور فریاد کرے۔ وہ ریگستان میں پیاسا مر جائے گا، اس کی لاش بدبودار لکڑبگھوں کی خوراک بن جائے گی اور اس کی ھڈیاں تپتی ھوئی ریت میں دفن ھوجائینگی۔ کتنے ھی آدمی وقت آنے سے پہلے مرگئے کیونکہ ان میں زندہ رھنے کا عزم مضبوط نہ تھا! خواجہ نصرالدین کسی حقیقی انسان کے لئے ایسی موت باعث شرم سمجھتے تھے۔
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

"نہیں " وہ دانت بھینچکر اپنے آپ سے بار بار کہہ رھے تھے "نہیں ، آج مجھے نہیں مرنا چاھئے! میں مرنا نہیں چاھتا!"

لیکن وہ کر کیا سکتے تھے۔ وہ تہرے گڑمڑائے اور بورے میں اس طرح ٹھنسے ھوئے تھے کہ ھلنا بھی ناممکن تھا۔ ان کے گھٹنے اور کہنیاں جسم سے چپکی ھوئی تھیں ۔ صرف ان کی زبان آزاد تھی۔

"ارے سورماؤ!" انھوں نے اپنے بورے کے اندر سے کہا۔ "ذرا رکو، میں مرنے سے پہلے دعا کرنا چاھتا ھوں تاکہ اللہ مجھ کو جوار رحمت میں جگہ دے۔"

پہرے داروں نے بورا زمین پر رکھ دیا۔

"اچھا چل دعا کر۔ لیکن ھم تجھ کو بورے سے باھر نہیں نکالیں گے۔ بورے کے اندر ھی دعا کر۔

"ھم کہاں ھیں ؟" خواجہ نصرالدین نے پوچھا۔ "مجھے جاننا چاھئے کیونکہ تمھیں میرا منہ قریب ترین مسجد کی طرف کرنا پڑیگا۔"

"ھم قرشی دروازے کے قریب ھیں ۔ یہاں تو چاروں طرف مسجدیں ھی مسجدیں ھیں ۔ جلدی سے دعا کر۔ ھم زیادہ دیر انتظار نہیں کرسکتے۔"

"شکریہ، پاکباز سورماؤ" خواجہ نصرالدین نے غمگین لہجے میں جواب دیا۔

ان کو کیا توقع تھی؟ یہ وہ خود بھی نہیں جانتے تھے۔ انھوں نے سوچا "میں چند منٹ کی مہلت حاصل کرلوں اور پھر دیکھا جائے گا۔ شاید کچھ ھو ھی جائے۔۔۔"

انھوں نے زور زور سے دعا شروع کی لیکن ساتھ ھی پہرےداروں کی باتیں بھی سنتے گئے۔

"ھم کیسے یہ نہ سمجھ پائے کہ نیا نجومی خواجہ نصرالدین ھے؟" پہرے دار افسوس کر رھے تھے۔ "اگر ھم اس کو پہچان کر پکڑ لیتے تو امیر سے ھمیں بڑا انعام ملتا۔"

وہ ھمیشہ کی طرح سوچ رھے تھے۔

دعا جلدی ختم کر" ایک پہرے دار نے بورے پر لات رسید کرتے ھوئے کہا۔ "سنتا ھے نا؟ اب زیادہ دیر نہیں انتظار کرسکتے۔"

"بس ایک منٹ اور، بہادر سورماؤ! مجھے اللہ سے بس ایک اور التجا کرنا ھے۔ اے پروردگار، رحیم و کریم! میری یہ دعا قبول کرلے کہ جو آدمی میرے دفن کئے ھوئے دس ھزار تانگے پائے وہ ان میں سے ایک ھزار مسجد لے جا کر ملا کو دے اور اس سے کہے کہ وہ میرے لئے پورے سال دعا کرے۔"
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

"نہیں " وہ دانت بھینچکر اپنے آپ سے بار بار کہہ رھے تھے "نہیں ، آج مجھے نہیں مرنا چاھئے! میں مرنا نہیں چاھتا!"

لیکن وہ کر کیا سکتے تھے۔ وہ تہرے گڑمڑائے اور بورے میں اس طرح ٹھنسے ھوئے تھے کہ ھلنا بھی ناممکن تھا۔ ان کے گھٹنے اور کہنیاں جسم سے چپکی ھوئی تھیں ۔ صرف ان کی زبان آزاد تھی۔

"ارے سورماؤ!" انھوں نے اپنے بورے کے اندر سے کہا۔ "ذرا رکو، میں مرنے سے پہلے دعا کرنا چاھتا ھوں تاکہ اللہ مجھ کو جوار رحمت میں جگہ دے۔"

پہرے داروں نے بورا زمین پر رکھ دیا۔

"اچھا چل دعا کر۔ لیکن ھم تجھ کو بورے سے باھر نہیں نکالیں گے۔ بورے کے اندر ھی دعا کر۔

"ھم کہاں ھیں ؟" خواجہ نصرالدین نے پوچھا۔ "مجھے جاننا چاھئے کیونکہ تمھیں میرا منہ قریب ترین مسجد کی طرف کرنا پڑیگا۔"

"ھم قرشی دروازے کے قریب ھیں ۔ یہاں تو چاروں طرف مسجدیں ھی مسجدیں ھیں ۔ جلدی سے دعا کر۔ ھم زیادہ دیر انتظار نہیں کرسکتے۔"

"شکریہ، پاکباز سورماؤ" خواجہ نصرالدین نے غمگین لہجے میں جواب دیا۔

ان کو کیا توقع تھی؟ یہ وہ خود بھی نہیں جانتے تھے۔ انھوں نے سوچا "میں چند منٹ کی مہلت حاصل کرلوں اور پھر دیکھا جائے گا۔ شاید کچھ ھو ھی جائے۔۔۔"

انھوں نے زور زور سے دعا شروع کی لیکن ساتھ ھی پہرےداروں کی باتیں بھی سنتے گئے۔

"ھم کیسے یہ نہ سمجھ پائے کہ نیا نجومی خواجہ نصرالدین ھے؟" پہرے دار افسوس کر رھے تھے۔ "اگر ھم اس کو پہچان کر پکڑ لیتے تو امیر سے ھمیں بڑا انعام ملتا۔"

وہ ھمیشہ کی طرح سوچ رھے تھے۔

دعا جلدی ختم کر" ایک پہرے دار نے بورے پر لات رسید کرتے ھوئے کہا۔ "سنتا ھے نا؟ اب زیادہ دیر نہیں انتظار کرسکتے۔"

"بس ایک منٹ اور، بہادر سورماؤ! مجھے اللہ سے بس ایک اور التجا کرنا ھے۔ اے پروردگار، رحیم و کریم! میری یہ دعا قبول کرلے کہ جو آدمی میرے دفن کئے ھوئے دس ھزار تانگے پائے وہ ان میں سے ایک ھزار مسجد لے جا کر ملا کو دے اور اس سے کہے کہ وہ میرے لئے پورے سال دعا کرے۔"
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

دس ھزار تانگوں کا نام سنتے ھی پہرےدار خاموش ھوگئے۔ حالانکہ خواجہ نصرالدین بورے سے دیکھ نہیں سکتے تھے لیکن وہ ٹھیک ٹھیک بتا سکتے تھے کہ ان کے چہروں کا کیا رنگ تھا، وہ کس طرح ایک دوسرے کی طرف دیکھ دیکھ کر کہنیاں مار رھے تھے۔

"اب مجھے اٹھاؤ" خواجہ نصرالدین نے بڑے عجز سے کہا "میں اپنی روح خدا کے حوالے کرتا ھوں۔"

پہرےدار تذبذب میں پڑ گئے۔

"ھم ذرا دیر اور آرام کر لیں " ایک پہرے دار نے چالاکی سے کہا۔ "ارے، خواجہ نصرالدین یہ نہ سمجھنا کہ ھم سنگ دل اور برے لوگ ھیں ۔ فرض سے مجبور ھیں ۔ اس لئے تمھارے ساتھ سختی سے پیش آتے ھیں ۔ اگر ھم امیر کی تنخواہ کے بغیر اپنے گھروں میں رہ سکتے تو ھمیں تم کو چھوڑ دینے میں کوئی تامل نہ ھوتا۔۔۔"

"ارے، کیا کہہ رھے ھو؟" دوسرے پہرےدار نے پریشان ھو کر چپکے سے کہا۔"اگرھم اس کو چھوڑ دیں تو امیر ھمارے سر قلم کروالیں گے۔"

"چپ رھو" پہلے پہرےدار نے اس کو سرگوشی میں ڈانٹا۔ "ھم تو اس کی رقم ھتھیانا چاھتے ھیں۔"

خواجہ نصرالدین ان کی کھسر پھسر تو نہیں سن سکے لیکن یہ تو سمجھ ھی گئے کہ کس کے بارے میں یہ سب ھو رھا ھے۔ "مجھے تم سے کوئی شکایت نہیں ھے، سورماؤ" خواجہ نصرالدین نے ریاکاری سے آہ بھر کر کہا۔ "میں کسی کو کیابرا سمجھونگا، میں خود بڑا گنہ گار ھوں ۔ اگر اللہ نے عقبی میں میرے گناہ معاف کردئے تو میں اس کے تخت کے نیچے تم لوگوں کی بخشائش کی دعائیں کرونگا۔ تم کہتے ھو کہ اگر امیر کی تنخواہ کا سوال نہ ھوتا تو تم مجھے بورے سے نکال دیتے۔ سوچو تو کیا کہہ رھے ھو! تم امیر کے حکم کی خلاف ورزی کرو گے جو بڑا گناہ ھے! نہیں ، میں یہ نہیں چاھتا کہ تم میری وجہ سے اپنی روح کو گناھوں سے آلودہ کرو۔ بورا اٹھاؤ اور مجھے تالاب تک لے جاؤ۔ امیر اور اللہ کی مرضی پوری ھونے دو!"

پہرے داروں نے گھبرا کر ایک دوسرے کی طرف دیکھا۔ وہ دل ھی دل میں خواجہ نصرالدین کو اس اچانک اور ناوقت توبہ کے لئے کوس رھے تھے۔

اب تیسرا پہرےدار جو اھی تک خاموش تھا اور کوئی اچھی ترکیب سوچ رھاتھا آخر کار بولا:

"موت کے وقت کسی آدمی کو اپنے گناھوں اور غلطیوں پرتوبہ کرتے دیکھ کر بڑی تکلیف ھوتی ھے" یہ کہہ کر اس نے اپنے ساتھیوں کی طرف آنکھ ماری۔ "لیکن میں اس طرح کا آدمی نہیں ھوں ۔ میں نے مدتوں ھوئے توبہ کرلی ھے اور جب سے پاکیزہ زندگی گذار رھا ھوں ۔ ایسی توبہ جس کے ساتھ کوئی عمل نہ ھو اللہ کو خوش نہیں کرسکتی" اس نے اپنی بات جاری رکھی جبکہ دوسرے دو پہرےدار اپنے منہ پر ہاتھ رکھے ھوئے اپنی ھنسی روک رھے تھے کیونکہ وہ جانتے تھے کہ یہ پہرے داربڑا جواری اور عیاش ھے۔ "اسی لئے میں اپنی توبہ کو اچھے اور پاک کاموں سے مضبوط کرتا رھتا ھوں ۔ میں اپنے گاؤں میں ایک بڑی مسجد بنوا رھا ھوں جس کے لئے میں اور میرا خاندان بھوکا تک رھتاھے۔
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

اب ایک پہرےدار سے ضبط نہ ھوسکا اور ھنستی سے بے اختیار ھو کر وہ تھوڑی دور چلا گیا۔

"میں ایک ایک پیسہ بچاتا ھوں " پہرےدار نے اپنی بات جاری رکھی "پھر بھی مسجد کی تعمیر اتنی سست رفتاری سے ھو رھی ھے کہ میرے دل کو صدمہ پہنچتا ھے۔ چند ھی دن ھوئے میں نے اپنی گائے بیچ دی ھے اور ممکن ھے کہ مجھے اپنا آخری جوڑا جوتا بیچنا پڑے۔ میں ننگے پیر رھنے کے لئے تیار ھوں اگر میں اس کام کی تکمیل کرسکوں جو میں نے شروع کیا ھے۔"

خواجہ نصرالدین نے بورے کے اندر سے سسکی بھری۔ پہرےداروں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا۔ ان کو کامیابی ھو رھی تھی۔ انھوں نےا پنے چالاک ساتھی کو کہنی ماری کہ جلدی کرے۔

"کاشکہ مجھے کوئی ایسا مل جاتا جو اس مسجد کی تکمیل کے لئے آٹھ دس ھزار تانگے دے دیتا!" اس نے کہا۔ "میں اس سے قسم کھا کر یہ وعدہ کرتا کہ پانچ سال یا دس سال تک بھی اس کا نام خوشبویات کے مرغولوں میں لپٹا مسجد کی محرابوں سے نکلتا اور تخت خداوندی کی طرف بلند ھوتا!"

دوسراپہرے دار بولا:

"ارے میرے پاکباز ساتھی! میرے پاس دس ھزار تانگے تو نہیں ھیں لیکن کیا تم میری ساری پونجی قبول کرو گے جو پانچ سو تانگے ھے۔ یہ میری حقیر پیش کش مسترد نہ کرو کیونکہ میں بھی اس پاک کام میں حصہ لینا چاھتاھوں ۔" "اور میں بھی" تیسرے نے اپنی ھنسی کو دبا کر، ھکلاتے ھوئے اور کانپتے ھوئے کہا" میرے پاس تین سو تانگے ھیں ۔۔۔"

"اے پاکباز انسان، اے مومن!" خواجہ نصرالدین رونی آواز میں چلائے ۔" کاشکہ میں تھماری قبا کا دامن چوم سکتا! میں بڑا گنہ گار ھوں لیکن میرے ساتھ عنایت کرو اور میرا تحفہ مسترد نہ کرو۔ میرے پاس دس ھزار تانگے ھیں ۔ جب میں دھوکہ دے کر امیر کی خدمت میں مقبول ھوگیا تو انھوں نے اکثر مجھے اشرفیوں اور چاندی کے سکوں کی ٹھیلیاں عطا کیں ۔ میں نے دس ھزار تانگے بچا کر ان کو چھپا دیا۔ ارادہ یہ تھا کہ بھاگے وقت ان کو نکال لونگا۔ چونکہ میں قرشی دروازے سے بھاگنا چاھتا تھا اس لئے میں نے قرشی قبرستان میں ایک پرانی لوح مزار کے نیچے ان کو دفن کر دیا تھا۔"

"قرشی قبرستان میں!" سب پہرے دار چلائے۔ "تب تو یہ رقم کہیں قریب ھی ھے۔"

"ھاں ، اب ھم قبرستان کے شمالی سرے پر ھیں اور اگر کوئی۔۔۔"

"ھم مشرقی سرے پر ھیں ۔ تھماری رقم کہاں ۔۔۔ کہاں دفن ھے؟"

"وہ قبرستان کے مغربی سرے پر دفن ھے" خواجہ نصرالدین نے کہا۔ "لیکن ایمان دار پہرےدارو! پہلے یہ قسم کھاؤ کہ واقعی دس سال تک مسجد میں میرے نام پر روز فاتحہ پڑھا جائے گا۔"
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

"میں قسم کھاتا ھوں " وہ پہرے دار چلایا جو بہت بےچین ھو رھا تھا۔ "میں خدا اور اس کے پیغمبر کی قسم کھاتا ھوں ! اب جلدی بتاؤ کہ رقم کہاں گڑی ھے؟"

خواجہ نصرالدین نے تھوڑا سا توقف کیا۔ "اگر انھوں نے مجھ کو پہلے تالاب پر لے جانے اور رقم کل تلاش کرنے کا فیصلہ کیا تو کیا ھوگا؟"

انھوں نے سوچا۔" نہیں ، یہ نہیں ھوگا۔ ان پر تو حرص اور بے صبری کا دیو سوار ھے۔ پھر ان کو ایک دوسرے پر بھی تو اعتبار نہیں ھے۔ اچھا تو کون سی جگہ بتانا چاھئے جہاں وہ امکانی طور پر زیادہ سے زیادہ دیر تک کھودتے رھیں ؟"

پہرےدار بورے پر جھکے کھڑے تھے۔ خواجہ نصرالدین ان کے ھانپنے کی آواز سن رھے تھے جیسے وہ کہیں سے دوڑ کر آرھے ھوں ۔

"قبرستان کے مغربی سرے پر تین پرانے مقبرے ایک مثلث کی صورت میں ھیں " خواجہ نصرالدین نے کہا۔ "ان میں سے ھر ایک کے نیچے میں نے تین ھزار تین سو تینتیس اور ایک تہائی تانگہ گاڑے ھیں۔"

"مثلث میں " پہرےداروں نے اس طرح ایک ساتھ دھرایا جیسے کسی عالم سے کوئی آیت حفظ کرنے کی کوشش کر رھے ھوں ۔ "ھر ایک کے نیچے تین ھزار تین سو تینتییس اور ایک تہائی تانگہ۔۔۔"

انھون نے یہ طے کیا کہ دو تو رقم تلاش کرنے جائیں اور تیسرا پہرے پر رھیگا۔ اس بات پر شاید خواجہ نصرالدین ناامید ھو جاتے اگر ان کو انسانی افعال کی پیش بینی کا تجربہ نہ ھوتا۔ ان کو یقین تھا کہ تیسرا پہرےدار بھی زیادہ دیر تک پہرے پر نہیں رھیگا اور انھوں نے غلطی نہیں کی تھی۔ تنہائی میں پہرے دار نےچینی سے آھیں بھرنے، کھانسنے اور ٹہلنے لگا۔ اس کے اسلحہ بج رھے تھے۔ ان آوازوں سے خواجہ نصرالدین اس کے خیالات کا اندازہ لگا رھے تھے۔ پہرے دار اپنے حصے کے تین ھزار تین سو تینتیس اور ایک تہائی تانگوں کے لئے پریشانی میں مبتلا تھا۔ خواجہ نصرالدین صبر سے انتظار کر رھے تھے۔

"ان کو بڑی دیر لگ رھی ہے"۔ پہرے دار نے کہا۔

"شاید وہ رقم کو کسی دوسری جگہ دفن کر رھے ھوں اور کل تم سب ملکر اس کو لے جاؤ گے۔ خواجہ نصرالدین نے کہا۔

یہ الفاظ کام کر گئے۔ پہرے دار کی سانس زور سے چلنے لگی اور پھر اس نے جماھی لینے کی بناوٹ کی۔

"میں مرنے سے پہلے تزکیہ نفس کے لئے کوئی کہانی سننا چاھتا ھوں " خواجہ نصرالدین اپنے بورے سے بولے۔ "شاید تمھیں کوئی یاد ھو، مہربان پہرےدار؟"

"نہیں !" پہرےدار نے غصےسے کہا۔" میں کوئی ایسی کہانی نہیں جانتا۔ اس کے علاوہ میں تھک گیا ھوں ۔ میں جا کر گھاس پر لیٹتا ھوں ۔"
Post Reply

Return to “اردو ناول”