وضعِ علامتِ مد (( ٓ ))

اگر آپ کالم لکھنا چاہتے ہیں یا لکھتے ہیں تو اپنی نوکِ قلم کے شہکار یہاں شئیر کریں
Post Reply
سید شاہ رُخ کمال
کارکن
کارکن
Posts: 18
Joined: Fri Dec 03, 2010 11:04 pm
جنس:: مرد
Location: پاکستانی
Contact:

وضعِ علامتِ مد (( ٓ ))

Post by سید شاہ رُخ کمال »

تحریر: صاحبزادہ سیّد شاہ رُخ کمال گیلانی

معزز قارئین کرام! السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!آج جس غلطی کی نشاندہی کے لیے میں نے اپنا قلم اٹھایا، وہ گو کہ صرف اُردُو لکھنے والوں میں ہی نہیں بلکہ بین الاقوامی سطح پر بے شمار مسلمان ممالک میں پائی جاتی ہے مگر اُردو لکھنے والوں میں اس غلطی کا پانا کوئی غیر معمولی بات نہیں۔ یہ غلطی قرآنِ پاک کے نسخہ میں متعلقہ علامتِ مد ہے۔ ان شاء اللہ العزیز، میں اس مضمون میں اپنی ناقص عقل کے مطابق اس غلطی کی ممکنہ وجہ بھی تحریر کرنے کی کوشش کروں گا۔
مجھ پر بھی اس غلطی کا انکشاف بچپن سے نہیں ہوا بلکہ صرف چند سال پہلے ہی یہ اختلاف میری نظر سے گزرا۔ پچھلے سال (۱۴۳۱ھ؁ بمطابق 2010ء؁ میں) حج سے واپسی کے موقع پر اس کی اصل حقیقت سے واقفیت ہوئی۔ ’’اصل حقیقت‘‘ اس وجہ سے لکھا کیونکہ جب غلطی‘ غلط العام ہو جائے تو وہ بھی ایک حقیقت ہی بن جاتی ہے اور لغت میں ایک مقام بنا لیتی ہے کہ جس کا انکار کرنا ناممکن ہوتا ہے۔ اور اگر زُبان میں یہ تبدیلیاں نہ ہوں اور زُبان ایک جگہ پر ٹھہر جائے تو اُسے زندہ نہیں بلکہ مردہ زُبان تسلیم کر لیا جاتا ہے۔
چند برس پہلے کی ہی بات ہے کہ جب میں نے مضامین لکھنے شروع کیے اور رسائل پڑھنے اور ان کی تصحیح کا کام شروع کیا۔ اب اس بات سے میں خود بھی بے خبر ہوں کہ میں ان چیزوں پر اتنا وقت کیوں ضائع کرتا ہوں مگر مجھے ان چیزوں نے کچھ نہ کچھ فائدہ تو پہنچایا ہی ہے۔ تو جب میں نے مضامین لکھنے شروع کیے تو اتفاقاً اُن کی کمپیوٹر پر کمپوزنگ بھی خود ہی کیا کرتا تھا۔ یوں تو میں بھی عام لوگوں کی طرح قرآن پڑھتا، چند آیات بمع ترجمہ یاد کرتا اور ان کو مخصوص اوقات پر بطورِ حوالہ پیش کر دیا کرتا۔ لیکن جب یہ حوالہ جات تحریر کا حصہ بننے لگے تو اب قرآن کی آیات کو شائع کرنے سے پہلے بار بار پڑھنا ہوتا تھا کہ کہیں کوئی اعراب بھی غلط نہ رہ جائے۔ اُس وقت میں نے یہ محسوس کیا کہ قرآن میں ایسے الفاظ بھی پائے جاتے ہیں کہ جن پہ عربی قرآن میں علامتِ مد نہیں پائی جاتی۔ یہاں ایک بات اور بھی تحریر کرتا چلوں کہ مد‘ عثمانی خط میں بھی پائی جاتی ہے۔ یہ ایک الگ بات ہے کہ جنوب ایشیا میں جو اعراب مستعمل ہیں اُن میں دو طرح کی الگ الگ مد نظر آتی ہیں؛ ایک کو چھوٹی مد کہا جاتا ہے جبکہ دوسری کو بڑی مد کہا جاتا ہے۔
اس سے پہلے کہ میں مد پر مزید کچھ لکھوں‘ میں چاہوں گا کہ قارئین بھی وہ عبارت پڑھ لیں کہ جس میں‘ عربی زُبان میں‘ مد کی اصل حقیقت واضح ہو جائے۔ حج سے واپسی کے موقع پر بادشاہِ سعودی عرب کی طرف سے قرآنِ کریم‘ بطورِ تحفہ‘ ہر حاجی کو دیا جاتا ہے۔ شاہ فھد کے زمانہ میں جب مرشدِ کریم حج کر کے آئے تو اُنہیں اُردو ترجمہ و تفسیر والا قرآنِ کریم ملا تھا۔ اس دفعہ حج پر صرف دو طرح کے قرآن دیئے گئے؛ ایک جنوب ایشیا کے اعراب اور خط کے مطابق تھا جبکہ دوسرا عثمانی خط و اعراب کے مطابق تھا۔ میں نے عثمانی خط و اعراب والا قرآن لیا اور لائونچ میں ہی بیٹھ کر مطالعہ شروع کر دیا۔ ورق گردانی کرتے ہوئے‘ آخر میں چند معلومات عربی زبان میں لکھی ہوئی تھیں۔ وہاں عثمانی اعراب کے استعمال کے بارے میں چند معلومات تھیں۔ وہاں میں نے علامتِ مد کے بارے میں جو عبارت پڑھی‘ وہ نیچے نقل کر رہا ہوں۔
وَ وَضَعَ ہٰـذِہ العَلامَۃ (( ٓ )): فَوقَ الْحَرفِ یَدُلّ علٰی لُزُوم مَدِّہ مَدًّا زَائِدًا عَلی المدِّ الطَّبیعِیّ الأَصْلِیّ: (الٓمٓ) (الطَّآمَّۃُ) (قُرُوٓءٍ) (سِیٓءَ بِہِمْ) (شُفَعَـٰٓـؤُا) (وَمَا یَعْلَمُ تَـأْوِیْلَہُوٓ اِلَّا اللّٰہُ) (اِنَّ اللّٰہَ لَا یَسْتَحْیِیٓ أَن یَضْرِبَ مَثَــلًا مَّا) (بِمَآ أُنزِل) علٰی تَفْصیلٍ یُعْلَم مِن فَنِّ التَّجْویدِ وَ لَا تُستعمَلُ ہٰـذِہ العَـلَامَۃ للدّلَالۃِ علٰی أَلِفٍ مَحذوفۃٍ بَعدَ أَلِفٍ مَکتُوبۃٍ مِثْلَ: (آمَنُوا) کما وُضعَ غَلَطًا فی بَعْضِ المَصَاحِفِ‘ بَلْ تُکْتَبُ (ءَ امَنُوا) بِہَمْزَۃٍ وَ أَلفٍ بَعْدَھَا۔
عربی سے بہت کم شناسائی کی وجہ سے یہ عبارت پڑھ کر سمجھ تو آ گئی لیکن اس کا ترجمہ کرنے کے لیے اپنے اسلامیات کے استاد محترم جناب بختیار احمد نبیل صاحب کو عبارت بھیجی۔ مزید میں نے فیس بُک پر اپنے عربی دوست سے اس عبارت کا مطلب معلوم کیا۔ ترجمہ ملاحظہ فرمائیں۔
اور حرف کے اوپر اگر یہ علامت آ جائے تو اصل زبر ’’طبیعی‘‘ پر زائد زبر کو کھینچنا لازم ہے: (الٓمٓ) (الطَّآمَّۃُ) (قُرُوٓءٍ) (سِیٓءَ بِہِمْ) (شُفَعَـٰٓـؤُا) (وَمَا یَعْلَمُ تَـأْوِیْلَہُوٓ اِلَّا اللّٰہُ) (اِنَّ اللّٰہَ لَا یَسْتَحْیِیٓ أَن یَضْرِبَ مَثَــلًا مَّا) (بِمَآ أُنزِل)۔اگر تجوید کا علم پڑھا جائے تو اس کی بہت تفصیل ہو جاتی ہے۔ یہ علامت الف مکتوبہ کے بعد الف محذوفہ پر دلالت کرنے کے لیے استعمال نہیں ہوتی۔ مثلا: (آمَنُوا)۔ بعض مصاحف میں یہ غلط وضع کیا گیا ہے۔ بلکہ (ءَ امَنُوا)۔ ہمزہ اور بعد میں الف کے ساتھ لکھا جاتا ہے۔
اس غلطی کی ممکنہ وجہ کی طرف بڑھنے سے پہلے ذرا مد کی لمبائی کو سمجھ لیا جائے۔ ہم نے جب بچپن میں قاری صاحب سے قرآن پڑھا تھا تو انہوں نے ہمیں اس کے بارے میں بتایا تھا مگر آج کل اکثر قراء حضرات خود بھی اس بات سے بے خبر ہوتے ہیں۔ یہ ہمیں بڑے ہو کر علم ہوا کہ دنیا میں مختلف علاقوں میں مختلف اعراب مستعمل ہیں اور عثمانی اعراب میں صرف ایک طرح کی مد ہوتی ہے۔ مگر پوری دنیا میں قرآن کی قریشی قرأت و لہجہ‘ تلفظ اور الفاظ ایک جیسے ہیں۔ تاریخ بتاتی ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے پوری دنیا میں اُس وقت موجود‘ قرآنِ کریم کے تمام نسخے منگوائے اور اتنے ہی قریشی لہجے میں یہ سوچ کر لکھوائے کہ قرآن قریشی عربی میں نازل ہوا تھا اور اِسے قریشی عربی میں ہی پڑھا جانا چاہیے۔ اور باقی تمام غلط نسخے جلوا دیئے گئے۔ اُس زمانہ میں قرآن جس خط میں لکھا گیا اُس کو عثمانی خط کہتے ہیں مگر اعراب حضرت عثمانِ غنی رضی اللہ عنہ کے دور میں نہ لگے۔ یہی وجہ ہے کہ سعودی حکومت زیادہ تر عثمانی خط میں قرآنِ کریم چھپواتی ہے۔
پاکستان میں جو اعراب عموماً مستعمل ہیں‘ اُن میں چھوٹی مد کی لمبائی تین الف تک اور بڑی مد کی لمبائی پانچ الف تک کھینچی جاتی ہے۔ مثلاً کہ الٓمٓ میں لام اور میم کی لمبائی کو پانچ الف تک کھینچا جائے گا۔ اِسی طرح اگر تو کسی لفظ کے اوپر کھڑا زبر یا کسی لفظ کے نیچے کھڑی زیر آ جائے تو اُسے دو الف تک کھینچا جائے گا جیسا کہ اٰمَنُوا میں۔ اب اگر آپ غور فرمائیں تو اٰمَنُوا اور ءَ امَنُوا میں بولنے کے اعتبار سے کوئی فرق نہیں جبکہ آمَنُوا میں اگر چھوٹی مد بھی لگائی جائے تو اُس کی لمبائی دو الف سے بڑھ کر تین الف تک ہو جاتی ہے۔ شاید کچھ لوگ یہ سمجھتے ہوں کہ قراء حضرات خوبصورتی کے لیے ایسے مواقع پر اپنی مرضی سے طول دیتے ہوں لیکن بات یہ ہے کہ کافی زبانوں میں لفظ کو طول دینے سے الفاظ کے معنٰی بدل جاتے ہیں۔
Wikipedia Encyclopeida میں اِس کے متعلق لکھا ہوا ہے:
Many languages, for example, use stress, pitch, duration and tone to distinguish meanings.
اگر میں اِن تمام‘ اِدھر اُدھر کی‘ لمبی چوڑی باتوں کا خلاصہ کروں تو وہ یہ ہے کہ (آمنو) کی طرح بہت سے عربی الفاظ ایسے ہیں کہ جن کے اوپر اکثر مد ڈال دی جاتی ہے حالاں کہ اصل عربی لفظ میں مد موجود نہیں ہوتی۔ مثلا: (قرآن) وغیرہ۔ اوّلاً تو تمام مسلمانوں کو‘ بالخصوص عربی قرآن شائع کرنے والے افراد کو (خواہ وہ کسی رسالہ‘ کسی اخبار یا کسی کتاب میں چھپے) اِس غلطی کی اصلاح کا علم ہونا چاہیے تاکہ اِس غلطی سے عربی قرآن کو محفوظ رکھا جا سکے۔
ثانیاً یہ کہ میں نے بھی تو اپنے مضمون میں کئی جگہوں پر قرآن کے الف کے اوپر مد لگائی ہے۔ آخر ایسا کیوں؟
اِس جواب کو ڈھونڈنے کے لیے میں نے اپنے آپ سے سوال کیا کہ کیا اُردو زُبان میں بھی عربی کی طرح مد کے چند خاص مطلب ہیں؟لفظ قرآن سے مجھے لفظ آم بھی یاد آ گیا جو کہ عربی تو دور‘ فارسی حرف بھی نہیں بلکہ ہندی حرف ہے۔ اسی طرح آج اگر اردو لغت اُٹھائیں تو اُس میں الف کے لیے ایک علیحدہ خانہ ہوتا ہے جبکہ الف ممدودہ کے لیے ایک علیحدہ خانہ ہوتا ہے۔ اگر آپ اردو لغت میں الف ممدودہ کی تعریف پڑھیں تو وہاں لکھا ہو گا کہ الف ممدودہ کو کھینچ کر پڑھتے ہیں اور اس کے اوپر مد ہوتا ہے۔ گویا اُردو زُبان میں ہر اُس لفظ کے اوپر مد آ جائے گی کہ جو ایک الف کی لمبائی سے زیادہ لمبا ہو۔ گو کہ اُردو زُبان میں بھی کھڑا زبر پایا جاتا ہے مگر وہ بھی چند عربی الفاظ پر پایا جاتا ہے مثلاً: فتویٰ‘ لہٰذا‘ اِلٰہی‘ حتیٰ وغیرہ۔
اب ایک سوال اور پیدا ہوتا ہے۔ اگر اُردو زبان میں کھڑا زبر والے الفاظ موجود ہیں تو پھر قرآن کے الف کے اوپر کھڑا زبر کیوں نہیں لگتا؟ تو اِس کا جواب جو میری ناقص عقل میں آتا ہے وہ یہ ہے کہ یہ الفاظ عربی سے نہیں بلکہ فارسی سے ہماری لغت میں شامل ہوئے ہیں۔ مد لگانا اصلاً تو اُردو کا قاعدہ نہیں۔ یہ الفاظ تو اُردو نے دوسری زُبانوں سے لیے ہیں اور فارسی زُبان کی تقلید کرتے ہوئے مد لگا دی ہے۔ حالاں کہ فارسی لغت میں بھی یہ عربی لغت سے شامل ہوئے تھے۔ لیکن چوں کہ فارسی زبان میں آنے کے بعد یہ غلطی‘ غلط العام ہو گئی تو اب ان کو واپس اصلی حالت میں لے کر جانا تھوڑا دشوار کام تھا۔ جیسا کہ آج اُردو لغت میں سوچ بطورِ مذکر بھی مستعمل ہے اور بطورِ مؤنث بھی جبکہ ایک وقت میں سوچ صرف بطورِ مذکر مستعمل تھا۔ اسی طرح آج لفظ (لیے/ لئے) کو دونوں میں سے کسی انداز میں بھی لکھا جا سکتا ہے۔
ان دو سوالوں سے مجھے ’’آخر ایسا کیوں؟‘‘ کا جواب یہی ملا کہ یہ کسی ایک شخص کی غلطی نہ تھی بلکہ پورے معاشرے کی غلطی تھی اور صرف ایک معاشرہ نہیں بلکہ کئی معاشروں کی غلطی تھی۔ عربیوں کو اپنی زُبان کی جامعیت پر شروع سے ہی ناز رہا ہے۔ عربی میں لفظ کی لمبائی کے کافی طریقے رائج تھے جبکہ دیگر معاشروں کی لغات اِس چیز سے خالی تھیں۔ لیکن جس جس طرح اسلام پھیلتا گیا، اُس اُس طرح مسلم ممالک اپنی لغات میں عربی اور فارسی کے الفاظ شامل کرتے رہے تاکہ اُن کو اسلام سمجھنے میں آسانی پیش آئے۔ اُردو کے علاوہ کئی ایسی زُبانیں ہیں کہ جو صفِ اوّل پہ نظر آتی ہیں۔ دولتِ عثمانیہ کے وقت میں جو تُرکی زُبان بولی جاتی تھی‘ وہ فارسی اور عربی سے لدی ہوئی تھی۔ حتیٰ کہ آج کی تُرکی زُبان میں سے دیگر زُبانوں کے ہزاروں الفاظ نکالنے کے باوجود بھی بے شمار عربی و فارسی الفاظ موجود ہیں۔
سیّد شاہ رُخ کمال
عبیداللہ عبید
ماہر
Posts: 512
Joined: Mon Dec 29, 2008 6:26 pm
جنس:: مرد
Location: Pakistan

Re: وضعِ علامتِ مد (( ٓ ))

Post by عبیداللہ عبید »

سید شاہ رخ کمال صاحب ایک ایسی تحریر پیش کی ہے آپ نے جس سے الجھن میں مبتلا ہوگیا ہوں ، خود علم قرائت کی منتہیات تک نہیں پہنچا لیکن جہاں تک مجھے معلوم ہے قرآن کریم کا رسم الخط توقیفی ہے .یعنی جیسا لکھا گیا ہے اس میں ردو بدل جائز نہیں ،

میں چونکہ ایک عربی سے اردو ٹرانسلیٹر بھی ہوں اس لیے کبھی کبھار دورانِ تلاوت میرے ذہن میں یہ بات آتی تھی کہ قرآن مجید کے متن میں فلاں جگہ ہمزہ یا کوئی دوسرا حرف عربی رسم الخط کے قواعد کے خلاف لکھا گیا ہے .

پھر کافی عرصہ بعد علم قراءت کی کتابوں میں یہ نکتہ نظر آیا کہ قرآنی عبارت جیسے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کاتبینِ وحی کو لکھنے کا حکم دیا ہے اسی طرح لکھی جائے گی.

اگرچہ حضور خود پڑھے ہوئے نہیں تھے لیکن کسی کتاب میں جو غالبا یہودی مستشرق ڈاکٹر گولڈ زیہر کی تردید میں لکھی گئی تھی یہ حدیث بھی نظر سے گزری تھی کہ حضورصلی اللہ علیہ والہ وسلم نے بعض حروف کی شکل کی ساخت کی تعیین فرمائی تھی کہ ایسی لکھا جائے .

ہاں آپ کی ایک بات قابلِ‌غور ہے کہ اعراب یعنی حرکات وسکنات خلافتِ راشدہ کے بعد لگائے گئے ہیں .تو کیا مد بھی حرکات وسکنا ت میں شامل ہے کیونکہ اعراب کا ایک اور مفہوم بھی عربی نحو (سینٹکس ) میں ہے وہ ہے فاعلیت ، مفعولیت وغیرہ کی علامت .............

بہرحال اس موضوع پر مزید تحقیق کرنی چاہیے اور یہ سمجھ کر نہیں بیٹھنا چاہیے کہ عالمِ‌ اسلام کی اکثریت غلط العام کی غلط فہمی میں مبتلا تھی .
Last edited by عبیداللہ عبید on Fri Oct 28, 2011 9:29 pm, edited 1 time in total.
User avatar
چاند بابو
منتظم اعلٰی
منتظم اعلٰی
Posts: 22224
Joined: Mon Feb 25, 2008 3:46 pm
جنس:: مرد
Location: بوریوالا
Contact:

Re: وضعِ علامتِ مد (( ٓ ))

Post by چاند بابو »

چونکہ میرا عربی زبان کے بارے میں علم تقریبا نا ہونے کے برابر ہے اس لئے میں اس موضوع پر کوئی رائے دینے سے قاصر ہوں۔
البتہ تمام احباب جو اردو اور عربی دونوں زبانوں میں مہارت رکھتے ہیں وہ اس نقطے پر ضرور بحث کریں تاکہ اگر یہ غلطی ہے تو اس کی اصلاح ہو سکے اور اگر یہ غلط تو سید شاہ رخ کمال صاحب کی اصلاح ہو سکے۔
قصور ہو تو ہمارے حساب میں لکھ جائے
محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو
میں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو
سید شاہ رُخ کمال
کارکن
کارکن
Posts: 18
Joined: Fri Dec 03, 2010 11:04 pm
جنس:: مرد
Location: پاکستانی
Contact:

Re: وضعِ علامتِ مد (( ٓ ))

Post by سید شاہ رُخ کمال »

:bismillah:;
a.a محترم عبید اللہ صاحب!

سب سے پہلا آپ کا سوال یہ ہے کہ کیا قرآن کا رسم الخط توقیفی ہے یا عثمانی. جناب اسے توقیفی کہا جاتا ہے لیکن چونکہ آپ کو یہ بھی معلوم ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے قرآن دوبارہ لکھوایا تھا اس لیے انہیں جامع القرآن بھی کہا جاتا ہے، اسی نسبت سے اس قرآن اور رسم الخط کے نام کے ساتھ حضرت عثمان کی نسبت جوڑی جاتی ہے.

جہاں تک ہمزہ کی بات ہے تو ہمزہ اور الف تقریبآ ایک ہی چیز ہیں. ہم جہاں کھڑا زبر استعمال کرتے ہیں وہاں سعودی عرب والے ہمزہ استعمال کرتے ہیں. دو ہمزہ (یعنی ایک ہمزہ اور ایک الف) یا الف اور کھڑا زبر ایک ہی جتنی آواز کھینچتے ہیں. تو اس چیز سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ آپ نے ہمزہ استعمال کیا یا کھڑا زبر.

ایک وضاحت جو میں کرنا ضروری سمجھتا ہوں وہ یہ ہے کہ قرآن ایک لہجے میں نہیں بلکہ سات لہجوں میں پڑھا جاتا تھا اور احادیث میں یہ بات بہت واضح لکھی ہے کہ قرآن سات لہجوں میں نازل ہوا. اس کی وجہ اُس وقت کے مسلمانوں کے لیے آسانی بتائی جاتی ہے. لیکن جب حضرت عثمان کو دور آیا تو انہوں نے قریشی لہجے کے علاوہ باقی تمام قرآن جلوا دیئے اور تب سے آج تک صرف قریشی لہجہ ہی مستعمل ہے.

چھوٹی مد در اصل حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دور میں مستعمل نہیں تھی. تمام اعراب بعد میں لگائے گئے. اسی لیے اس دور میں کھڑے زبر کی جگہ ایک ہمزہ زائد لگائی جاتی تھی. ہاں، آوازوں کی لمبائی وغیرہ اسی طرح تھی جس طرح آج تک پڑھی جاتی ہے. امام حسین علیہ السلام کے دور تک قرآن پر اعراب نہیں لگے تھے. بعد میں حجاج بن یوسف نے قرآن پر اعراب لگوائے. یہ محمد بن قاسم کا چچا تھا اور یہی وہ شخص تھا جس نے خانہ کعبہ کی بے حرمتی بھی کی تھی.

غلط العام کا لفظ میں نے اس وجہ سے استعمال کیا کیونکہ آپ کو پورے قرآن نے کہیں بھی لفط "قران" کے اوپر مد نہیں نظر آئے گی چاہے عثمانی نسخہ اٹھا لیں یا آج کل کا قرآن اٹھا لیں. اگر کبھی آپ عربی بھی پڑھیں تو اس میں بھی لفظ قرآن میں الف ممدودہ استعمال نہیں ہوتا. اس سے ہمیں یہی بات پتا چلتی ہے کہ عربی میں لفظ قرآن میں الف ممدودہ نہیں بلکہ الف بمع ہمزہ ہے. اگر آپ فارسی ادب پڑھیں تو اس میں لفظ قرآن الف ممدودہ کے ساتھ لکھا جاتا ہے اور اردو میں بھی اسی طرح مستعمل ہے. اس سب سے یہی پتا چلتا ہے کہ لفظ قرآن پر پہلی دفعہ مد ایرانیوں نے لگائی.
چونکہ اب لفظ قرآن الف ممدودہ کے ساتھ ہی مستعمل ہے اور لوگ بھی اسی طرح لکھتے اور پڑھتے ہیں، اس لیے اسے اسی طرح ہی لکھا جاتا ہے اور اس پر اعتراض نہیں کیا جاتا. اعتراض، قرآن میں ان جگہوں پر الف ممدودہ لگانے میں آتا ہے جہاں الف ممدودہ نہیں بلکہ الف بمع ہمزہ لگتا ہے. جیسا کہ آمنو، قرآن وغیرہ.

اس کے بعد بھی اگر کوئی سوال آپ کے ذہن میں ہے تو ضرور کیجئے تاکہ ذہن میں کوئی الجھن نہ رہے.
سیّد شاہ رُخ کمال
عبیداللہ عبید
ماہر
Posts: 512
Joined: Mon Dec 29, 2008 6:26 pm
جنس:: مرد
Location: Pakistan

Re: وضعِ علامتِ مد (( ٓ ))

Post by عبیداللہ عبید »

اس نازک موضوع پر بحث کرنے سے پہلے میں آپ سے ایک درخواست کرتا ہوں کہ

اگر آپ اپنی تحریر ان پیج میں لکھ کر کورل ڈرا سے ایک پی ڈی ایف فائل بنواسکیں تو مہربانی ہوگی

کیونکہ یونیکوڈ میں آپ کی تحریر کچھ خلط ملط ہوگئی ہے

اور پھر ویب پیج ڈیزائننگ کی وجہ سے پیج کو قابو میں رکھنے کے لیے کھینچا تانی مزید الجھن میں مبتلا کردیتی ہے ۔

میں نے یہاں سے کاپی کرکے ایم ایس ورڈ میں پیسٹ کیا لیکن قرآنی الفاظ یا حرکات و سکنات میں اونچ نیچ اور جوڑ توڑ وغیرہ پھر بھی اسی طرح تھیں سب چیزیں ۔

آپ بھی دیکھیں میں بھی کوشش کرتا ہوں کہ اپنی الجھن دور کردوں ، دوسرے احباب بھی جو اسلامی علوم میں متخصص ہوں بالخصوص علم قرائت میں سبعہ عشرہ سے تعلق رکھنے والے ‌۔

عربی رسم الخط کے بارے ایک نکتے کی وضاحت کردوں کہ جدید عربی رسم الخط اور قرآنی رسم الخط میں فرق موجود ہیں جنہیں ماہرین نے گوارا (جائز قراردینا ) کیا ہے البتہ قواعد (صرف و نحو )میں قرآن ہی اصل ہے کیونکہ یہ جاہلیت کے دور کے متصل زمانے کی زبان میں قریشی اور غیر قریشی دونوں لہجوں میں نازل ہوا ہے ۔

اور دوسرے غیر قریشی لہجوں پر مبنی قرآنوں کے جلانے کا مطلب یہ نہیں کہ وہ قرائتیں اب ہمارے پاس نہیں ہیں ۔ اب بھی علمِ قرائت کی کتابوں میں وہ تمام قرائتیں موجود ہیں اور مدارس میں اور عرب ممالک کی یونیورسٹیوں میں طلبہ کو پڑھائی ، سکھائی اور ان سے تحقیق کروائی جاتی ہیں۔

بہرحال اس بارے میں آپ کی تحریر ہرقسم کے ابہام ( یعنی کمپوزنگ وغیرہ )سے پاک اور خود کچھ مزید تحقیق اور مطالعہ کے بعد ہی کہا جاسکتا ہے ۔
بلال احمد
ناظم ویڈیو سیکشن
ناظم ویڈیو سیکشن
Posts: 11973
Joined: Sun Jun 27, 2010 7:28 pm
جنس:: مرد
Contact:

Re: وضعِ علامتِ مد (( ٓ ))

Post by بلال احمد »

علم نادارد
بڑی بے چین رہتی ہے طبیعت اب میری محسن
مجھے اب قتل ہونا ہے، مگر قاتل نہیں ملتا
سید شاہ رُخ کمال
کارکن
کارکن
Posts: 18
Joined: Fri Dec 03, 2010 11:04 pm
جنس:: مرد
Location: پاکستانی
Contact:

Re: وضعِ علامتِ مد (( ٓ ))

Post by سید شاہ رُخ کمال »

جناب میں نے تو بہت کوشش کی ہے لیکن نہ تو پی. ڈی. ایف فائل جُڑ رہی ہے، نہ ہی جی. آئی. ایف اور نہ ہی جے. پیگ فائل. پی. ڈی. ایف کا حجم زیادہ ہے جبکہ باقی دونوں غیر اجازت یافتہ ہیں.
براہِ کرم اگر آپ مجھے اس کا کوئی حل بتا دیں یا پھر اپنا ای-میل ایڈریس بھیج دیں تو میں آپ کو فائل بھیج دیتا ہوں.
سیّد شاہ رُخ کمال
عبیداللہ عبید
ماہر
Posts: 512
Joined: Mon Dec 29, 2008 6:26 pm
جنس:: مرد
Location: Pakistan

Re: وضعِ علامتِ مد (( ٓ ))

Post by عبیداللہ عبید »

کیا آپ کی فائل انپیج فارمیٹ میں ہے ؟

دوسری بات یہ ہے کہ میں آپ کو اپنا ای میل ایڈریس ذاتی پیغام کے ذریعے ارسال کررہا ہوں . پھر جیسے آپ مناسب سمجھیں .
عبیداللہ عبید
ماہر
Posts: 512
Joined: Mon Dec 29, 2008 6:26 pm
جنس:: مرد
Location: Pakistan

Re: وضعِ علامتِ مد (( ٓ ))

Post by عبیداللہ عبید »

عبیداللہ عبید wrote:کیا آپ کی فائل انپیج فارمیٹ میں ہے ؟

دوسری بات یہ ہے کہ میں آپ کو اپنا ای میل ایڈریس ذاتی پیغام کے ذریعے ارسال کررہا ہوں . پھر جیسے آپ مناسب سمجھیں .

ای میل ایڈریس ذاتی پیغام کے ذریعے ارسال نہ کرسکا ، اچانک اٹھنا پڑا ، معذرت چاہتا ہوں.



اب اپنے ای میل سے ایک میل آپ کو ارسال کیا ہے ، ان باکس چیک کریں.
عبیداللہ عبید
ماہر
Posts: 512
Joined: Mon Dec 29, 2008 6:26 pm
جنس:: مرد
Location: Pakistan

Re: وضعِ علامتِ مد (( ٓ ))

Post by عبیداللہ عبید »

صاحبزادہ سید کمال گیلانی صاحب !

میں نے آپ کے ارسال کردہ کئی ای میل فائلوں میں ، یہ فائل ‌یہاں اپلوڈ کیا ہے ، آپ اسے ڈاؤنلوڈ کرکے چیک کریں کہ یہ مکمل ہے یا نہیں ؟

دوسرے ساتھی اسے دیکھ لیں تاکہ اگر وہ کچھ مسئلہ سلجھا سکیں تو آسانی ہوگی کیونکہ فورم پر کچھ عبارت خلط ملط ہوگئی ہے ۔

میں نے اسے ایک کاغذ پر پرنٹ کیا ہے اور گھر لے گیا ہوں ، چونکہ نازک موضوع ہے اس لیے رائی زنی سے پرہیز کرتے ہوئے یقینی معلومات کے بعد اس پر کچھ بحث کریں گے ۔

فی الحال میں بحث کے لیے ، اس سے نکات جمع کر رہا ہوں پھر ایک ایک نکتے پر ماہرین سے اور خود سمجھنے کی کوشش کریں گے ۔

اللہ تعالیٰ مجھے اور آپ کو صراطِ مستقیم پر استقامت عطا کرے ۔آمین ، شکریہ
Post Reply

Return to “اردو کالم”