امجد اسلام امجد کی ایک خوبصورت نظم آپ کی نزر
[center]ملے کیسے صدیوں کی پیاس اور پانی، ذرا پھر سے کہنا
بڑی دلرُبا ہے یہ ساری کہانی، ذرا پھر سے کہنا
کہاں سے چلا تھا جدائی کا سایا، نہیں دیکھ پایا
کہ رستے میں تھی آنسوؤں کی روانی، ذرا پھر سے کہنا
ہَوا یہ خبر تُو سناتی رہے اور مَیں سُنتا رہوں
بدلنے کو ہے اب یہ موسم خزانی، ذرا پھر سے کہنا
مُکر جانے والا کبھی زندگی میں خوشی پھر نہ پائے
یونہی ختم کرلیں، چلو یہ کہانی، ذرا پھر سے کہنا
سمے کے سمندر، کہا تُو نے جو بھی، سُنا، پر نہ سمجھے
جوانی کی ندّی میں تھا تیز پانی، ذرا پھر سے کہنا[/center]
ذرا پھر سے کہنا
-
- ٹیم ممبر
- Posts: 40424
- Joined: Sun Aug 15, 2010 4:26 am
- جنس:: عورت
- Location: {الدمام}المملكةالعربيةالسعوديه
Re: ذرا پھر سے کہنا
کہاں سے چلا تھا جدائی کا سایا، نہیں دیکھ پایا
کہ رستے میں تھی آنسوؤں کی روانی، ذرا پھر سے کہنا
بہت خوب
آپ کا شکریہ ۔۔۔
کہ رستے میں تھی آنسوؤں کی روانی، ذرا پھر سے کہنا
بہت خوب
آپ کا شکریہ ۔۔۔
[center]یہ بھی انداز ہمارے ہے تمہیں کیا معلوم
ہم تمہیں جیت کے ہارے ہے تمہیں کیا معلوم[/center]
ہم تمہیں جیت کے ہارے ہے تمہیں کیا معلوم[/center]
Re: ذرا پھر سے کہنا
ذرا پھر سے کہنا
-
- ٹیم ممبر
- Posts: 40424
- Joined: Sun Aug 15, 2010 4:26 am
- جنس:: عورت
- Location: {الدمام}المملكةالعربيةالسعوديه
Re: ذرا پھر سے کہنا
علی عامر wrote:چائے کب پلاؤ گے ... بھیا
ذرا پھر سے کہنا
زرا پھر سے کہنا
[center]یہ بھی انداز ہمارے ہے تمہیں کیا معلوم
ہم تمہیں جیت کے ہارے ہے تمہیں کیا معلوم[/center]
ہم تمہیں جیت کے ہارے ہے تمہیں کیا معلوم[/center]