ڈرے ہوئے لوگ خدا سے نہیں ڈرتے!

اپنے ملک کے بارے میں آپ یہاں کچھ بھی شئیر کر سکتے ہیں
Post Reply
اعجازالحسینی
مدیر
مدیر
Posts: 10960
Joined: Sat Oct 17, 2009 12:17 pm
جنس:: مرد
Location: اللہ کی زمین
Contact:

ڈرے ہوئے لوگ خدا سے نہیں ڈرتے!

Post by اعجازالحسینی »

ڈاکٹر محمد اجمل نیازی ـ
پاک دوستی کے ڈھونگ میں امن کی آشا چلانے والے ٹی وی چینل پر حامد میر نے اپنے پروگرام میں بڑے مضحکہ خیز انداز میں چہرہ چھپائے نوجوان سے گفتگو کی جس میں اس نے ”انکشاف“ کیا کہ کراچی مہران نیول بیس پر حملے کا منصوبہ پنڈی میں تیار کیا گیا تھا۔ یہ سب کچھ ایک پلاننگ کے تحت ہوا۔ اس کا مطلب ہے کہ یہ سب کچھ ہم نے خود کر دیا ہے امریکہ اور بھارت تو ہمارے سب سے بڑے خیر خواہ ہیں۔ اس جھوٹ کی پیشکش میں دیکھنے والوں کے لئے رونے اور ہنسنے کے بیک وقت مواقع موجود تھے۔ وقت ٹی وی کے پروگرام ”نوائے وقت ٹو ڈے“ میں کسی انڈین چینل کے حوالے سے اجمل قصاب کی باتیں تفتیش کے دوران سنوائی گئیں جو آنکھیں کھول دینے کے لئے کافی ہیں مگر ہم نے آنکھوں کے بجائے صرف جھولیاں کھولی (پھیلائی) ہوئی ہیں۔ ”مسلمان“ اجمل قصاب نے کئی بار بھگوان سے معافی مانگتے ہوئے اپنے جرم کا اعتراف کیا۔ کیا کوئی مسلمان بھول کر بھی اللہ کی بجائے بھگوان کا لفظ استعمال کر سکتا ہے۔ یہ تو بھارتی مسلمان بھی نہیں کرتے۔ ان مسلمانوں کے علاوہ جنہوں نے ہندو عورتوں سے شادیاں کی ہیں اور بھارتی حکومت سے فائدہ اٹھاتے ہیں جیسے پاکستان میں بھی کچھ مسلمان بھارتی حکومت سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ اجمل قصاب بہت بڑا جہادی (دہشت گرد) ہے اور اس کا تعلق لشکر طیبہ اور جماعت الدعوہ سے بھی جوڑا گیا ہے مگر اسے پتہ نہیں تھا کہ جہاد کیا ہے۔ پاکستان میں قصاب کے معنی کسی کو نہیں آتے سب قصائی بولتے ہیں۔ حامد میر کے ٹی وی چینل نے ہی بھارت کے بتائے ہوئے اجمل قصاب کے گاﺅں میں اپنی ٹیم بھیجی۔ گاﺅں والوں نے کہا کہ ہم ایسے کسی شخص کو نہیں جانتے پھر بھی اس ٹی وی چینل نے ثابت کر دیا کہ اجمل قصاب پاکستان کے اسی گاﺅں کا رہنے والا ہے۔ ٹی وی چینل کا کہنا ہے کہ یہ ہمارا بندہ ہے۔ ان کے پاس ایسے اور کتنے بندے ہیں اجمل قصاب کی اس گفتگو کے بعد بھی بھارت کی بات کو یہ پاکستانی لوگ جھٹلانا نہیں چاہتے۔ بھارت میں وہ خود ایسے واقعے کرتے ہیں اور الزام پاکستان پر لگا دیتے ہیں اور پاکستان میں سرکار اور میڈیا مان لیتے ہےں۔ اب کراچی کے بارے میں رحمان ملک کہہ رہے تھے کہ کچھ غیر ملکی طاقتیں بھی شامل ہیں مگر وہ بھارت کا نام لینے کی جرات نہیں کر سکے۔ کراچی کے دہشت گردوں میں کم از کم دو ایسے بندے ہیں جن کے ختنے بھی نہیں ہوئے۔ ان کی جگہ میڈیا والوں سے کلمہ طیبہ سن لو۔ ان کو بھی اب شاید کلمہ اور قومی ترانہ یاد نہیں ہے۔
حامد میر کے دوست نوجوان کو اداکاری کرنے کی کیا ضرورت تھی۔ اس نے بتایا کہ یہ حملہ پنڈی کے ایک فوجی کے گھر میں تیار کیا گیا۔ حامد میر کے پوچھنے پر اس نے بتایا کہ اس گھر میں میرا آنا جانا تھا۔ وہ میرے دوست ہیں یہ کس طرح کے دوست ہیں۔ اپنی پاک فوج کے خلاف اس طرح کی سطحی اور من گھڑت باتیں کرنا ظلم ہے۔ اس نے یہ بھی بتایا کہ اب وہ چکلالہ ائر بیس پر کھڑے امریکی طیاروں پر حملہ کریں گے۔ ان کے خیال میں امریکی اور پاکستانی طیاروں میں کوئی فرق نہیں۔ حامد میر نے ایک موقع پر نوجوان کی اصلاح بھی کی۔ اب چکلالہ ائربیس پر حملہ کرایا جائے گا تاکہ میڈیا کا جھوٹ، سچ ثابت کیا جا سکے۔ خواہ جھوٹ موٹ کا حملہ سہی۔ اس پروگرام پر تبصرہ تو شریک گفتگو وقاص اکرم نے کر دیا مجھے ان دہشت گردوں پر ہنسی آ رہی ہے کہ جنہوں نے اتنی بڑی معرکہ آرائی کی۔ اندھیرے میں بھی اپنے ٹارگٹ کو نشانہ بنایا۔ وہ سارا منصوبہ ایک ایسے نوجوان کے سامنے طے ہوتا رہا جو مخبوط الحواس ہے اور جسے جھوٹ بھی ٹھیک طرح نہیں بولنا آیا۔ جب کہ ہمارے یہ لوگ جھوٹ بولنے کے ماہر اور عادی ہو چکے ہیں۔ اسے یہ بات کرتے ہوئے اتنی تکلیف ہو رہی تھی کہ وہ صحیح طرح رو بھی نہیں نہ سکتا تھا۔ اسے ڈر تھا کہ بات کرتے کرتے میرا ہاسہ (ہنسی) نہ نکل جائے۔ پروگرام میں شریک عاصمہ جہانگیر اور ظفر علی شاہ بھی اپنی ہنسی روکتے ہوئے افسردہ ہو رہے تھے۔
یہ تو پاک فوج کو بدنام اور ناکام کرنے کی سازش ہے اور یہ کس کے حق میں ہے۔ ظاہر ہے کہ پاک فوج کو بھارت اور امریکہ مل کر ذلیل وخوار کرنا چاہتے ہیں۔ سیاست کے بعد فوج کی باری ہے۔ سول بیورو کریسی کی باری کبھی نہیں آئے گی۔ کہ امریکہ اور بھارت سے بڑھ کر پاکستان میں ان کا کام کر رہے ہیں۔ حامد میر نے تینوں شرکا کی بیزاری کو بھانپتے ہوئے یہ موضوع فوراً ختم کر دیا مگر آج اس کے اخبار میں پہلے صفحے پر نمایاں طور پر یہ خبر لگی ہوئی ہے کہ حامد میر نے بڑے دکھ سے کہا ہے کہ ایسے ”بہادر“ لوگوں کو تحفظ ملنا چاہئے جو جان ہتھیلی پر رکھ کر سامنے آ رہے ہیں۔ انہیں تو سامنے لایا جا رہا ہے۔ سامنے بھی کہاں لایا گیا ہے۔ اس نے عورتوں کی طرح منہ چھپایا ہوا تھا۔ یہ کام بھی ٹی وی والوں نے کیا تھا کہ اس کے منہ پر کالک سی نظر آ رہی تھی۔ چہرہ صاف دکھائی نہیں دیتا تھا۔ اپنی فوج کے خلاف اس طرح کی میڈیا مہم بھارت دوستی بلکہ پاکستان دشمنی کی ذیل میں آتی ہے۔ مجھے اپنی فوج سے اختلافات ہیں مگر اختلاف کرنے کا حق اسے ہے جو اعتراف کرنا جانتا ہو۔ کچھ سیاستدان اور کچھ میڈیا یک طرفہ مہم چلا رہے ہیں۔ ”سی آئی اے“ اور ”را“ آئی ایس آئی اور پاک فوج کے خلاف ہےں تو ہم کس کی راہ ہموار کر رہے ہیں۔
یہ کراچی نیول بیس پر حملے سے بھی زیادہ سنگین واقعہ ہے۔ اس کی مکمل تحقیقات ہونی چاہئے۔ اس آدمی کے بارے میں حامد میر سے پوچھنا چاہئے اور یہ معلوم کرنا بھی ضروری ہے کہ یہ سازش کہاں تیار ہوئی ہے۔ عسکری قیادت اور سیاسی قیادت میں ان دنوں کچھ یکجہتی سی ہے تو یکسوئی سے ان وارداتوں پر نظر رکھنا چاہئے۔ حامد میر میرے دوست، دردمند اور دلیر صحافی وارث میر کا بیٹا ہے۔ انہوں نے درویشی میں غریبی کے دن گزارے۔ سچ بولنے کی سزا ان کے دل نے قبول کی اور دھڑکنا بند کر دیا۔ حامد اپنے عظیم والد کی روایات کو لاوارث نہ کرے۔ حامد میر کی کچھ باتوں کے لئے میں نے اپنے کالم میں تعریف لکھی۔ تعریف اور تنقید میں معمولی فرق ہوتا ہے۔ وہ خود اسامہ بن لادن سے ملاقاتوں کا ذکر کرتا رہتا ہے میں نے بھی ہلکے پھلکے انداز میں بات کر دی شاید وہ خفا ہو گیا۔ مجھے اس کا گلہ نہیں۔ میں نے صاف ستھری مگر مشکل زندگی بسر کی ہے۔ آج بھی ساڑھے نو مرلے کے کوارٹر میں وحدت کالونی لاہور رہتا ہوں۔ جہاں میں 17ویں گریڈ میں آیا اور 20ویں گریڈ میں ریٹائر ہوا۔ اب اپنے بیٹے کے پاس ہوں۔ وہ بھی وحدت کالونی میں رہتا ہے۔ حامد میر کے لئے بات کرتے ہوئے اس کے عظیم والد کا چہرہ میرے سامنے ہوتا ہے۔ وہ ارب پتی ہو جائے مگر میرے دل میں پرانے تعلق کی خوشبو ہے۔ اور بھی میڈیا کے لوگ ارب پتی ہیں۔ میں ان کے ماضی سے بھی واقف ہوں۔ میری گزارش ہے کہ خدا کا خوف کریں۔ چند ٹکوں کی خاطر اتنے پیارے اور بے پناہ قربانیوں سے حاصل کئے ہوئے ملک کو برباد اور بدنام نہ کریں۔ آخر.... ڈرے ہوئے لوگ خدا سے کیوں نہیں ڈرتے۔؟!

نوائےوقت
[center]ہوا کے رخ پے چلتا ہے چراغِ آرزو اب تک
دلِ برباد میں اب بھی کسی کی یاد باقی ہے
[/center]

روابط: بلاگ|ویب سائیٹ|سکرائبڈ |ٹویٹر
Post Reply

Return to “پاک وطن”