Fawad – Digital Outreach Team – US State Department
عراق کے تيل پر قبضے کی امريکی سازش
يہ وہ نقطہ ہے جس کو بنياد بنا کر پاکستانی ميڈيا ميں بہت کچھ لکھا گيا ہے۔ اس فورم پر بھی کچھ دوستوں نے عراق پر حملہ بلکہ افغان جنگ کو بھی عراق کے تیل پر امريکی قبضے کی ايک عالمگير سازش قرار ديا ہے۔ يہ تاثر بھی عام ہے کہ امريکہ حکومت کے صدام حسين کے ساتھ دیرينہ تعلقات رہے ھيں۔ اور پھر يہ دليل بھی دی کہ امريکہ نے عراق پر تيل کے ليے حملہ کيا۔ اگر امریکہ کے صدام کے ساتھ تعلقات اتنے ہی ديرينہ تھے تو اسےاربوں ڈالرز کی لاگت سے جنگ شروع کر کے اپنے ہزاروں فوجی جھونکنے کی کيا ضرورت تھی۔ امريکہ کے ليے تو آسان راستہ يہ ہوتا کہ وہ صدام کے توسط سے تيل کی درآمد کے معاہدے کرتا۔
اس حوالے سے ميں نے يو – ايس – اسٹيٹ ڈيپارٹمنٹ سے جو اعداد وشمار حاصل کيے ہيں وہ آپ کے سامنے رکھ کر ميں فيصلہ آپ پر چھوڑتا ہوں کہ سچ کيا ہے اور افسانہ کيا ہے۔
عراق جنگ پر امريکی حکومت ماہانہ کئ بلين ڈالرز خرچ کر رہی تھی ۔ اگر ان اخراجات کا مقابلہ عراق ميں تيل کی مجموعی پیداوار سے لگايا جاۓ تو يہ حقيقت سامنے آتی ہے کہ عراق پر امریکی حکومت کے اخراجات عراق کی مجموعی پيداوار سے کہيں زيادہ ہيں۔ لہذا معاشی اعتبار سے يہ دليل کہ عراق پر حملہ تيل کے ليے کيا گيا تھا، بے وزن ثابت ہو جاتی ہے۔ يہ بھی ياد رہے کہ عراقی حکومت تيل کی پيداوار کے ذريعے ہی ملک کی معيشت چلا رہی ہے۔
ايک اور تاثر جو کہ بہت عام ہے اور اس کو بنياد بنا کر پاکستانی ميڈيا ميں بہت کچھ لکھا جاتا ہے وہ يہ ہے کہ امريکہ میں تيل کے استعمال کا مکمل دارومدار عرب ممالک سے برامد کردہ تيل کے اوپر ہے لہذا امريکی حکومت عرب ممالک اور اس کی حکومتوں پر اپنا اثرورسوخ بڑھانا چاہتی ہے۔ اس حوالے سے کچھ اعداد وشمار پيش خدمت ہيں۔
امریکہ اس وقت دنيا ميں تيل کی مجموعی پيداوار کے حساب سے تيسرے نمبر پر ہے۔ 1973 سے 2007 تک کے درميانی عرصے ميں امريکہ نے تيل کی مجموعی ضروريات کا 57 فيصد حصہ خود پورا کيا ہے۔ باقی 43 فيصد ميں سے صرف 8 فيصد تيل کا استعمال گلف ممالک کے تيل پر منحصر ہے۔ مغربی ممالک سے تيل کے استعمال کا 20 فيصد حصہ پورا کيا جاتا ہے اور 15 فيصد تيل کی ضروريات توانائ کے ديگر ذرائع سے پوری کی گئ۔
http://img522.imageshack.us/my.php?imag ... 811xz8.jpg
جہاں تک تيل کی درآمد کا تعلق ہے تو 1973 سے 2007 کے درميانی عرصے ميں امريکہ نے تيل کی مجموعی درآمد کا 47 فيصد حصہ مغربی ممالک سے درآمد کيا جو کہ امريکہ ميں تيل کے استعمال کا 20 فيصد ہے۔ اسی عرصے ميں 34 فيصد افريقہ، يورپ اور سابق سوويت يونين سے درآمد کيا گيا جو کہ امريکہ ميں تيل کے استعمال کا 15 فيصد بنتا ہے۔ گلف ممالک سے درآمد کردہ تيل کا تناسب صرف 19 فيصد رہا جو کہ مجموعی استعمال کا محض 8 فيصد ہے۔
http://img253.imageshack.us/my.php?imag ... 539xs7.jpg
اسی حوالے سے اگر آپ دنيا کے ديگر ممالک کا گلف مما لک کے تيل پر انحصار اور اس حوالے سے اعدادوشمار ديکھیں تو يہ حقيقت سامنے آتی ہے کہ جاپان امريکہ کے مقابلے ميں گلف ممالک کے تيل پر کہيں زيادہ انحصار کرتا ہے۔ 1992 سے 2006 کے درميانی عرصے ميں جاپان نے اوسطا 65 سے 80 فيصد تيل گلف ممالک سے درآمد کيا۔ اس کے علاوہ گزشتہ چند سالوں ميں امريکہ کے مقابلہ ميں جاپان کا گلف ممالک پر انحصار بتدريج بڑھا ہے۔ مندرجہ ذيل گراف سے يہ بات واضح ہے کہ گزشتہ چند سالوں ميں امريکہ کا گلف ممالک کے تيل پر انحصار مسلسل کم ہوا ہے۔
http://img253.imageshack.us/my.php?imag ... 245hl7.jpg
يہاں يہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ امريکی حکومت بذات خود تيل کی خريدوفروخت کے عمل ميں فريق نہيں ہوتی۔ بلکہ امريکہ کی نجی کمپنياں اپنے صارفين کی ضروريات کے تناسب سے سروس فراہم کرتی ہيں۔ امريکی کمپنياں انٹرنيشنل مارکيٹ ميں متعين کردہ نرخوں پر عراق سے تيل درآمد کرتی ہيں جو کہ عراق سے برآمد کيے جانے والے مجموعی تيل کا محض ايک چوتھائ حصہ ہے۔ باقی ماندہ تيل عراقی حکومت کی زير نگرانی ميں نا صرف دوسرے ممالک ميں برآمد کيا جاتا ہے بلکہ عراق کی مجموعی توانائ کی ضروريات پوری کرنے پر صرف ہوتا ہے۔ عراق تيل کے توسط سے ماہانہ 2 بلين ڈالرز سے زيادہ کا زرمبادلہ حاصل کرتاہے۔
ان اعداد وشمار کی روشنی ميں يہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ يہ تاثر دينا کہ امريکہ عراق ميں تيل کے ذخائر پر قبضہ کرنے کے منصوبے پر عمل پيرا ہے يا امريکہ تيل کی سپلائ کے ليے سارا دارومدار عرب ممالک کے تيل پر کرتا ہے قطعی بے بنياد اور حقيقت سے روگردانی کے مترادف ہے۔
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
digitaloutreach@state.gov
www.state.gov
http://www.facebook.com/pages/USUrduDig ... 320?v=wall