پروین شاکر - مجموعہ کلام
-
- مشاق
- Posts: 1004
- Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am
پروین شاکر - مجموعہ کلام
سِر شاخِ گُل
(نذرِ احمد ندیم قاسمی)
وہ سایہ دار شجر
جو مجھ سے دُور ، بہت دُور ہے، مگر اُس کی
لطیف چھاؤں
سجل، نرم چاندنی کی طرح
مرے وجود،مری شخصیت پہ چھائی ہے!
وہ ماں کی بانہوں کی مانند مہرباں شاخیں
جو ہر عذاب میں مُجھ کو سمیٹ لیتی ہیں
وہ ایک مشفقِ ریرینہ کی دُعا کی طرح
شریر جھونکوں سے پتوں کی نرم سرگوشی
کلام کرنے کا لہجہ مُجھے سکھاتی ہے
وہ دوستوں کی حسیں مُسکراہٹوں کی طرح
شفق عذار،دھنک پیرہن شگوفے،جو
مُجھے زمیں سے محبت کا درس دیتے ہیں!
اُداسیوں کی کسی جانگذار ساعت میں
میں اُس کی شاخ پہ سررکھ کے جب بھی روئی ہوں
تو میری پلکوں نے محسوس کرلیا فوراً
بہت ہی نرم سی اِک پنکھڑی کا شیریں لمس!
(نِمی تھی آنکھ میں لیکن مَیں مُسکرائی ہوں!)
کڑی دھوپ ہے
تو پھر برگ برگ ہے شبنم
تپاں ہوں لہجے
تو پھر پُھول پُھول ہے ریشم
ہرے ہوں زخم
تو سب کونپلوں کا رَس مرہم!
وہ ایک خوشبو
جو میرے وجود کے اندر
صداقتوں کی طرح زینہ زینہ اُتری ہے
کرن کرن مری سوچوں میں جگمگاتی ہے
(مُجھے قبول،کہ وجداں نہیں یہ چاند مرا یہ روشنی مجھے ادراک دے رہی ہے مگر!)
وہ ایک جھونکا
جو اُس شہرِ گُل سے آیا تھا
اَب اُس کے ساتھ بہت دُور جاچکی ہُوں میں
میں ایک ننھی سی بچی ہوں ،اور خموشی سے
بس اُس کی اُنگلیاں تھامے،اور آنکھیں بندکیے
جہاں جہاں لیے جاتا ہے،جارہی ہوں میں!
وہ سایہ دار شجر
جو دن میں میرے لیے ماں کا نرم آنچل ہے
وہ رات میں ،مرے آنگن پہ ٹھہرنے والا
شفیق ،نرم زباں،مہرباں بادل ہے
مرے دریچوں میں جب چاندنی نہیں آتی
جو بے چراغ کوئی شب اُترنے لگتی ہے
تو میری آنکھیں کرن کے شجر کو سوچتی ہیں
دبیز پردے نگاہوں سے ہٹنے لگتے ہیں
(نذرِ احمد ندیم قاسمی)
وہ سایہ دار شجر
جو مجھ سے دُور ، بہت دُور ہے، مگر اُس کی
لطیف چھاؤں
سجل، نرم چاندنی کی طرح
مرے وجود،مری شخصیت پہ چھائی ہے!
وہ ماں کی بانہوں کی مانند مہرباں شاخیں
جو ہر عذاب میں مُجھ کو سمیٹ لیتی ہیں
وہ ایک مشفقِ ریرینہ کی دُعا کی طرح
شریر جھونکوں سے پتوں کی نرم سرگوشی
کلام کرنے کا لہجہ مُجھے سکھاتی ہے
وہ دوستوں کی حسیں مُسکراہٹوں کی طرح
شفق عذار،دھنک پیرہن شگوفے،جو
مُجھے زمیں سے محبت کا درس دیتے ہیں!
اُداسیوں کی کسی جانگذار ساعت میں
میں اُس کی شاخ پہ سررکھ کے جب بھی روئی ہوں
تو میری پلکوں نے محسوس کرلیا فوراً
بہت ہی نرم سی اِک پنکھڑی کا شیریں لمس!
(نِمی تھی آنکھ میں لیکن مَیں مُسکرائی ہوں!)
کڑی دھوپ ہے
تو پھر برگ برگ ہے شبنم
تپاں ہوں لہجے
تو پھر پُھول پُھول ہے ریشم
ہرے ہوں زخم
تو سب کونپلوں کا رَس مرہم!
وہ ایک خوشبو
جو میرے وجود کے اندر
صداقتوں کی طرح زینہ زینہ اُتری ہے
کرن کرن مری سوچوں میں جگمگاتی ہے
(مُجھے قبول،کہ وجداں نہیں یہ چاند مرا یہ روشنی مجھے ادراک دے رہی ہے مگر!)
وہ ایک جھونکا
جو اُس شہرِ گُل سے آیا تھا
اَب اُس کے ساتھ بہت دُور جاچکی ہُوں میں
میں ایک ننھی سی بچی ہوں ،اور خموشی سے
بس اُس کی اُنگلیاں تھامے،اور آنکھیں بندکیے
جہاں جہاں لیے جاتا ہے،جارہی ہوں میں!
وہ سایہ دار شجر
جو دن میں میرے لیے ماں کا نرم آنچل ہے
وہ رات میں ،مرے آنگن پہ ٹھہرنے والا
شفیق ،نرم زباں،مہرباں بادل ہے
مرے دریچوں میں جب چاندنی نہیں آتی
جو بے چراغ کوئی شب اُترنے لگتی ہے
تو میری آنکھیں کرن کے شجر کو سوچتی ہیں
دبیز پردے نگاہوں سے ہٹنے لگتے ہیں
-
- مشاق
- Posts: 1004
- Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am
-
- مشاق
- Posts: 1004
- Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am
-
- مشاق
- Posts: 1004
- Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am
-
- مشاق
- Posts: 1004
- Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am
-
- مشاق
- Posts: 1004
- Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am
-
- مشاق
- Posts: 1004
- Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am
-
- مشاق
- Posts: 1004
- Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am
-
- مشاق
- Posts: 1004
- Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am
کُھلی آنکھوں میں سپنا جھانکتا ہے
کُھلی آنکھوں میں سپنا جھانکتا ہے
وہ سویا ہے کہ کُچھ کُچھ جاگتا ہے
تری چاہت کے بھیگے جنگلوں میں
مرا تن، مور بن کے ناچتا ہے
مُجھے ہر کیفیت میں کیوں نہ سمجھے
وہ میرے سب حوالے جانتا ہے
میں اُس کی دسترس میں ہوں،مگر وہ
مُجھے میری رضا سے مانگتا ہے
کِسی کے دھیان میں ڈوبا ہُوا دِل
بہانے سے مُجھے ٹالتا ہے
سڑک کو چھوڑ کر چلنا پڑے گا
کہ میرے گھر کا کچا راستہ ہے
کُھلی آنکھوں میں سپنا جھانکتا ہے
وہ سویا ہے کہ کُچھ کُچھ جاگتا ہے
تری چاہت کے بھیگے جنگلوں میں
مرا تن، مور بن کے ناچتا ہے
مُجھے ہر کیفیت میں کیوں نہ سمجھے
وہ میرے سب حوالے جانتا ہے
میں اُس کی دسترس میں ہوں،مگر وہ
مُجھے میری رضا سے مانگتا ہے
کِسی کے دھیان میں ڈوبا ہُوا دِل
بہانے سے مُجھے ٹالتا ہے
سڑک کو چھوڑ کر چلنا پڑے گا
کہ میرے گھر کا کچا راستہ ہے
-
- مشاق
- Posts: 1004
- Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am
رقص میں رات ہے بدن کی طرح
رقص میں رات ہے بدن کی طرح
بارشوں کی ہَوا میں ،بَن کی طرھ
چاند بھی میری کروٹوں کا گواہ
میرے بستر کی ہر شکن کی طرح
چاک ہے دامن قبائے بہار
میرے خوابوں کے پیرہن کی طرح
زندگی، تجھ سے دُور رہ کر ،مَیں
کاٹ لُوں گی جلا وطن کی طرح
مُجھ کو تسلیم، میرے چاند، کہ میں
تیرے ہمراہ ہوں گہن کی طرح
بارہا تیرا انتظار کیا
اپنے خوابوں میں اِک دُلہن کی طرح
رقص میں رات ہے بدن کی طرح
بارشوں کی ہَوا میں ،بَن کی طرھ
چاند بھی میری کروٹوں کا گواہ
میرے بستر کی ہر شکن کی طرح
چاک ہے دامن قبائے بہار
میرے خوابوں کے پیرہن کی طرح
زندگی، تجھ سے دُور رہ کر ،مَیں
کاٹ لُوں گی جلا وطن کی طرح
مُجھ کو تسلیم، میرے چاند، کہ میں
تیرے ہمراہ ہوں گہن کی طرح
بارہا تیرا انتظار کیا
اپنے خوابوں میں اِک دُلہن کی طرح
-
- مشاق
- Posts: 1004
- Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am
سبز مدّھم روشنی میں سُرخ آنچل کی دھنک
سبز مدّھم روشنی میں سُرخ آنچل کی دھنک
سرد کمرے میں مچلتی گرم سانسوں کی مہک
بازوؤں کے سخت حلقے میں کوئی نازک بدن
سلوٹیں ملبوس پر،آنچل بھی کُچھ ڈھلکا ہُوا
گرمی رخسار سے دہکی ہُوئی ٹھنڈی ہوا
نرم زُلفوں سے مُلائم اُنگلیوں کی چھیڑ چھاڑ
سُرخ ہونٹوں پر شرارت کے کسی لمحے کا عکس
ریشمیں باہوں میں چُوڑی کی کبھی مدّہم کھنک
شرمگیں لہجوں میں دھیرے سے کبھی چاہت کی بات
دودلوں کی دھڑکنوں میں گونجتی اِک صدا
کانپتے ہونٹوں پہ تھی اللہ سے صرف اِک دُعا
کاش یہ لمحے ٹھہر جائیں ،ذرا
سبز مدّھم روشنی میں سُرخ آنچل کی دھنک
سرد کمرے میں مچلتی گرم سانسوں کی مہک
بازوؤں کے سخت حلقے میں کوئی نازک بدن
سلوٹیں ملبوس پر،آنچل بھی کُچھ ڈھلکا ہُوا
گرمی رخسار سے دہکی ہُوئی ٹھنڈی ہوا
نرم زُلفوں سے مُلائم اُنگلیوں کی چھیڑ چھاڑ
سُرخ ہونٹوں پر شرارت کے کسی لمحے کا عکس
ریشمیں باہوں میں چُوڑی کی کبھی مدّہم کھنک
شرمگیں لہجوں میں دھیرے سے کبھی چاہت کی بات
دودلوں کی دھڑکنوں میں گونجتی اِک صدا
کانپتے ہونٹوں پہ تھی اللہ سے صرف اِک دُعا
کاش یہ لمحے ٹھہر جائیں ،ذرا
-
- مشاق
- Posts: 1004
- Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am
-
- مشاق
- Posts: 1004
- Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am
پرزم
پانی کے اِک قطرے میں
جب سُورج اُترے
رنگوں کی تصویر بنے
دھنک کی ساتوں قوسیں
اپنی بانہیں یُوں پھیلائیں
قطرے کے ننھے سے بدن میں
رنگوں کی دُنیا کِھنچ آئے!
میرا بھی اِک سورج ہے
جو میرا تَن چُھوکر مُجھ میں
قوسِ قزح کے پُھول اُگائے
ذرا بھی اُس نے زاویہ بدلا
اور مَیں ہوگئی
پانی کا اِک سادہ قطرہ
بے منظر، بے رنگ
پانی کے اِک قطرے میں
جب سُورج اُترے
رنگوں کی تصویر بنے
دھنک کی ساتوں قوسیں
اپنی بانہیں یُوں پھیلائیں
قطرے کے ننھے سے بدن میں
رنگوں کی دُنیا کِھنچ آئے!
میرا بھی اِک سورج ہے
جو میرا تَن چُھوکر مُجھ میں
قوسِ قزح کے پُھول اُگائے
ذرا بھی اُس نے زاویہ بدلا
اور مَیں ہوگئی
پانی کا اِک سادہ قطرہ
بے منظر، بے رنگ
-
- مشاق
- Posts: 1004
- Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am
گئے جنم کی صدا
وہ ایک لڑکی
کہ جس سے شاید میں ایک پل بھی نہیں ملی ہوں
میں اُس کے چہرے کو جانتی ہوں
کہ اُس کا چہرہ
تُمھاری نظموں،تُمھارے گیتوں کی چلمنوں سے اُبھررہا ہے
یقین جانو
مُجھے یہ چہرہ تُمھارے اپنے وُجود سے بھی عزیز تر ہے
کہ اُ س کی آنکھوں میں
چاہتوں کے وہی سمندر چُھپے ہیں
جو میری اپنی آنکھوں میں موجزن ہیں
وہ تم کو اِک دیوتا بناکر،مِری طرح پُوجتی رہی ہے
اُس ایک لڑکی کا جسم
خُود میرا ہی بدن ہے
وہ ایک لڑکی____
جو میرے اپنے گئے جنم کی مَدھُر صدا ہے
وہ ایک لڑکی
کہ جس سے شاید میں ایک پل بھی نہیں ملی ہوں
میں اُس کے چہرے کو جانتی ہوں
کہ اُس کا چہرہ
تُمھاری نظموں،تُمھارے گیتوں کی چلمنوں سے اُبھررہا ہے
یقین جانو
مُجھے یہ چہرہ تُمھارے اپنے وُجود سے بھی عزیز تر ہے
کہ اُ س کی آنکھوں میں
چاہتوں کے وہی سمندر چُھپے ہیں
جو میری اپنی آنکھوں میں موجزن ہیں
وہ تم کو اِک دیوتا بناکر،مِری طرح پُوجتی رہی ہے
اُس ایک لڑکی کا جسم
خُود میرا ہی بدن ہے
وہ ایک لڑکی____
جو میرے اپنے گئے جنم کی مَدھُر صدا ہے
-
- مشاق
- Posts: 1004
- Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am
پہلے پہل
شِکن چُپ ہے
بدن خاموش ہے
گالوں پہ ویسی تمتماہٹ بھی نہیں ،لیکن،
میں گھر سے کیسے نکلوں گی،
ہَوا ،چخچل سہیلی کی طرح باہر کھڑی ہے
دیکھتے ہی مُسکرائے گی!
مجھے چُھوکر تری ہر بات پالے گی
تجھے مجھ سے چُرالے گی
زمانے بھر سے کہہ دے گی،میں تجھ سے مِل کے آئی ہوں!
ہَوا کی شوخیاں یہ
اور میرا بچپنا ایسا
کہ اپنے آپ سے بھی میں
تری خوشبو چُھپاتی پھررہی ہوں
شِکن چُپ ہے
بدن خاموش ہے
گالوں پہ ویسی تمتماہٹ بھی نہیں ،لیکن،
میں گھر سے کیسے نکلوں گی،
ہَوا ،چخچل سہیلی کی طرح باہر کھڑی ہے
دیکھتے ہی مُسکرائے گی!
مجھے چُھوکر تری ہر بات پالے گی
تجھے مجھ سے چُرالے گی
زمانے بھر سے کہہ دے گی،میں تجھ سے مِل کے آئی ہوں!
ہَوا کی شوخیاں یہ
اور میرا بچپنا ایسا
کہ اپنے آپ سے بھی میں
تری خوشبو چُھپاتی پھررہی ہوں
-
- مشاق
- Posts: 1004
- Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am
قریہ جاں میں کوئی پُھول کِھلانے آئے
قریہ جاں میں کوئی پُھول کِھلانے آئے
وہ مرے دِل پہ نیا زخم لگانے آئے
میرے ویران دریچوں میں بھی خوشبو جاگے
وہ مرے گھر کے دَر وبام سجانے آئے
اُس سے اِک بار تو رُوٹھوں میں اُسی کی مانند
اور مری طرح سے وہ مُجھ کو منانے آئے
اِسی کوچے میں کئی اُس کے شناسا بھی تو ہیں
وہ کسی اور سے ملنے کے بہانے آئے
اب نہ پُوچھوں گی میں کھوئے ہوئے خوابوں کا پتہ
وہ اگر آئے تو کُچھ بھی نہ بتانے آئے
ضبط کی شہر پناہوں کی،مرے مالک!خیر
غم کاسیلاب اگر مجھ کو بہانے آئے
قریہ جاں میں کوئی پُھول کِھلانے آئے
وہ مرے دِل پہ نیا زخم لگانے آئے
میرے ویران دریچوں میں بھی خوشبو جاگے
وہ مرے گھر کے دَر وبام سجانے آئے
اُس سے اِک بار تو رُوٹھوں میں اُسی کی مانند
اور مری طرح سے وہ مُجھ کو منانے آئے
اِسی کوچے میں کئی اُس کے شناسا بھی تو ہیں
وہ کسی اور سے ملنے کے بہانے آئے
اب نہ پُوچھوں گی میں کھوئے ہوئے خوابوں کا پتہ
وہ اگر آئے تو کُچھ بھی نہ بتانے آئے
ضبط کی شہر پناہوں کی،مرے مالک!خیر
غم کاسیلاب اگر مجھ کو بہانے آئے
-
- مشاق
- Posts: 1004
- Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am
چہرہ میرا تھا، نگاہیں اُس کی
چہرہ میرا تھا، نگاہیں اُس کی
خامشی میں بھی وہ باتیں اُس کی
میرے چہرے پہ غزل لکھتی گئیں
شعر کہتی ہوئی آنکھیں اُس کی
شوخ لمحوں کا پتہ دینے لگیں
تیز ہوئی ہُوئی سانسیں اُس کی
ایسے موسم بھی گزارے ہم نے
صبحیں جب اپنی تھیں‘شامیں اُس کی
دھیان میں اُس کے یہ عالم تھا کبھی
آنکھ مہتاب کی،یادیں اُس کی
رنگ جو ئندہ وہ،آئے تو سہی!
آنکھ مہتاب کی،یادیں اُس کی
فیصلہ موجِ ہَوا نے لکھا!
آندھیاں میری ،بہاریں اُس کی
خُود پہ بھی کُھلتی نہ ہو جس کی نظر
جانتا کون زبانیں اُس کی
نیند اس سوچ سے ٹوٹی اکثر
کس طرح کٹتی ہیں راتیں اُس کی
دُور رہ کر بھی سدا رہتی ہیں
مُجھ کو تھامے ہُوئے باہیں اُس کی
چہرہ میرا تھا، نگاہیں اُس کی
خامشی میں بھی وہ باتیں اُس کی
میرے چہرے پہ غزل لکھتی گئیں
شعر کہتی ہوئی آنکھیں اُس کی
شوخ لمحوں کا پتہ دینے لگیں
تیز ہوئی ہُوئی سانسیں اُس کی
ایسے موسم بھی گزارے ہم نے
صبحیں جب اپنی تھیں‘شامیں اُس کی
دھیان میں اُس کے یہ عالم تھا کبھی
آنکھ مہتاب کی،یادیں اُس کی
رنگ جو ئندہ وہ،آئے تو سہی!
آنکھ مہتاب کی،یادیں اُس کی
فیصلہ موجِ ہَوا نے لکھا!
آندھیاں میری ،بہاریں اُس کی
خُود پہ بھی کُھلتی نہ ہو جس کی نظر
جانتا کون زبانیں اُس کی
نیند اس سوچ سے ٹوٹی اکثر
کس طرح کٹتی ہیں راتیں اُس کی
دُور رہ کر بھی سدا رہتی ہیں
مُجھ کو تھامے ہُوئے باہیں اُس کی
-
- مشاق
- Posts: 1004
- Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am
کنگن بیلے کا
اُس نے میرے ہاتھ میں باندھا
اُجلا کنگن بیلے کا
پہلے پیار سے تھامی کلائی
بعد اُس کے ہولے ہولے پہنایا
گہنا پُھولوں کا
پھر جُھک کرہاتھ کرچُوم لیا!
پُھول تو آخر پُھول ہی تھے
مُرجھا ہی گئے
لیکن میری راتیں ان کی خوشبو سے اب تک روشن ہیں
بانہوں پر وہ لمس ابھی تک تازہ ہے
(شاخِ صنوبر پر اِک چاند دِمکتا ہے)
پُھول کا کنگن
پیار کا بندھن
اَب تک میری یاد کے ہاتھ سے لپٹاہُوا ہے
اُس نے میرے ہاتھ میں باندھا
اُجلا کنگن بیلے کا
پہلے پیار سے تھامی کلائی
بعد اُس کے ہولے ہولے پہنایا
گہنا پُھولوں کا
پھر جُھک کرہاتھ کرچُوم لیا!
پُھول تو آخر پُھول ہی تھے
مُرجھا ہی گئے
لیکن میری راتیں ان کی خوشبو سے اب تک روشن ہیں
بانہوں پر وہ لمس ابھی تک تازہ ہے
(شاخِ صنوبر پر اِک چاند دِمکتا ہے)
پُھول کا کنگن
پیار کا بندھن
اَب تک میری یاد کے ہاتھ سے لپٹاہُوا ہے
-
- مشاق
- Posts: 1004
- Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am
دھیان
ہرے لان سُرخ پُھولوں کی چھاؤں میں بیٹھی ہوئی
میں تجھے سوچتی ہوں
مری اُنگلیاں
سبز پتوں کی چُھوتی ہوئی
تیرے ہمراہ گزرے ہوئے موسموں کی مہک چُن رہی ہیں
وہ دلکش مہک
جو مرے ہونٹ پر آکے ہلکی گلابی ہنسی بن گئی ہے!
دُور اپنے خیالوں میں گُم
شاخ در شاخ
اِک تیتری،خوشنما پَر سمیٹے ہُوئے،اُڑرہی ہے
مُجھے ایسا محسوس ہونے لگا ہے
جیسے مجھ کو بھی پَر مل گئے ہوں
ہرے لان سُرخ پُھولوں کی چھاؤں میں بیٹھی ہوئی
میں تجھے سوچتی ہوں
مری اُنگلیاں
سبز پتوں کی چُھوتی ہوئی
تیرے ہمراہ گزرے ہوئے موسموں کی مہک چُن رہی ہیں
وہ دلکش مہک
جو مرے ہونٹ پر آکے ہلکی گلابی ہنسی بن گئی ہے!
دُور اپنے خیالوں میں گُم
شاخ در شاخ
اِک تیتری،خوشنما پَر سمیٹے ہُوئے،اُڑرہی ہے
مُجھے ایسا محسوس ہونے لگا ہے
جیسے مجھ کو بھی پَر مل گئے ہوں
-
- مشاق
- Posts: 1004
- Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am
عکسِ خوشبو ہوں،بکھرنے سے نہ روکے کوئی
عکسِ خوشبو ہوں،بکھرنے سے نہ روکے کوئی
اور بِکھر جاؤں تو مجھ کو نہ سمیٹے کوئی
کانپ اُٹھتی ہوں مَیں یہ سوچ کے تنہائی میں
میرے چہرے پہ ترا نام نہ پڑھ لے کوئی
جس طرح خواب مرے ہوگئے ریزہ ریزہ
اِس طرح سے نہ کبھی ٹُوٹ کے بکھرے کوئی
میں تو اُس دِن سے ہراساں ہوں کہ جب حُکم ملے
خشک پُھولوں کی کتابوں میں نہ رکھے کوئی
اب تو اس راہ سے شخص گزرتا بھی نہیں
اب کس اُمید پہ دروازے سے جھانکے کوئی
کوئی آہٹ ،کوئی آواز ،کوئی چاپ نہیں
دل کی گلیاں بڑی سنسان ہیں__آئے کوئی
عکسِ خوشبو ہوں،بکھرنے سے نہ روکے کوئی
اور بِکھر جاؤں تو مجھ کو نہ سمیٹے کوئی
کانپ اُٹھتی ہوں مَیں یہ سوچ کے تنہائی میں
میرے چہرے پہ ترا نام نہ پڑھ لے کوئی
جس طرح خواب مرے ہوگئے ریزہ ریزہ
اِس طرح سے نہ کبھی ٹُوٹ کے بکھرے کوئی
میں تو اُس دِن سے ہراساں ہوں کہ جب حُکم ملے
خشک پُھولوں کی کتابوں میں نہ رکھے کوئی
اب تو اس راہ سے شخص گزرتا بھی نہیں
اب کس اُمید پہ دروازے سے جھانکے کوئی
کوئی آہٹ ،کوئی آواز ،کوئی چاپ نہیں
دل کی گلیاں بڑی سنسان ہیں__آئے کوئی