داستان خواجہ بخارا کی

اردو زبان میں لکھے جانے والے شہکار ناول، آن لائن پڑھئے اور ڈاونلوڈ کیجئے
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

لیکن اس نے یہ نہیں سوچا کہ سخت اور پتھریلی زمین پر اس کے قدموں کی آواز دور تک گونجتی ہے۔ پہلے تو وہ آھستہ چلا- پھر خواجہ نصرالدین نے اس کے تیز چلنے کی آواز سنی ۔ اب پہریدار دوڑنے لگا۔

اب عمل کا وقت آگیا تھا۔ لیکن خواجہ نصرالدین ادھر ادھر بے سود لنڈھک رھے تھے۔ رسی کسی طرح نہیں ٹوٹ رہی تھی۔

"راہ گیر!" خواجہ نصرالدین نے دعا کی۔ "اے قسمت، کوئی راہ گیر بھیجدے!"

اور قسمت نے ایک راہ گیر بھیجدیا۔

قسمت اور مناسب موقع ھمیشہ اس کی مدد کرتے ھیں جو مکمل عزم رکھتا ھے اور آخر تک ھاتھ پاؤں مارتا ھے (ھم یہ پہلے بھی کہہ چکے ھیں لیکن دھرانے سے حقائق کی اھمیت نہیں کم ھوتی) ۔ خواجہ نصرالدین پوری طاقت سے اپنی زندگی بچانے کے لئے جدوجہد کر رہے تھے اور قسمت مدد سے انکار نہیں کرسکتی تھی۔

راہ گیر آھستہ آھستہ آرھا تھا۔ خواجہ نصرالدین نے اس کے قدموں کی آواز سے بھانپ لیا کہ لنگڑا تھا اور معمر بھی کیونکہ وہ ھانپ رھا تھا۔

بورا سڑک کے بیچوں بیچ پڑا تھا۔ راہ گیر رک گیا۔ اس نے بڑی دیر تک بورے کو دیکھا اور اس میں دو تین بار چھڑی گڑوئی۔

"بورے میں کیا ھوسکتا ھے؟ یہ کہاں سے آیا؟" چچیاتے ھوئے لہجے میں راہ گیر نے کہا۔

مرحبا! خواجہ نصرالدین نے جعفر سود خور کی آواز پہچان لی۔اب ان کو اپنے بچ نکلنے کے بارے میں کوئی شبہ نہیں رھا۔ بس، پہرےدار ذرا جلدی نہ لوٹیں ۔

وہ اس طرح آھستہ سے کھانسے کہ سود خور گھبرائے نہیں ۔

"اچھا، اس کے اندر آدمی ھے!" جعفر نے پیچھے ھٹتے ھوئے کہا۔

"ھاں ، واقعی آدمی ھے" خواجہ نصرالدین نے اپنی آواز بدلتے ھوئے سکون سے کہا۔ "یہ کوئی عجیب بات ھے؟"

"عجیب بات؟ تم بورے میں کیوں گھسے؟"

"یہ میرا معاملہ ھے، اپنے راستے جاؤ اور اپنے سوالوں سے مجھے پریشان نہ کرو۔"

خواجہ نصرالدین سمجھ گئے کہ اب سود خور کو اشتیاق پیدا ھوگیا ھے اور وہ جائیگا نہیں
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

"یہ واقعی غیر معمولی بات ھے" سود خور نے کہا "کہ آدمی بورے میں بند ھو۔ کیا تم کو کسی نے زبردستی اس میں ٹھونسا ھے؟"

"زبردستی؟"خواجہ نصرالدین نے مذاق اڑاتے ھوئے کہا۔ "کیا میں اس بورے میں زبردستی ٹھونسے جانے کے چھ سو تانگے دیتا؟"

"چھ سو تانگے! تم نے یہ رقم کیوں دی؟"

"راہ گیر! میں تم کوسارا قصہ بتادونگا بشرطیکہ تم اس کو سننے کے بعد اپنی راہ لگواور مجھے زیادہ نہ چھیڑو۔ یہ بورا ایک عرب کا ھے جو ھمارے شہر بخارا میں رھتا ھے۔ اس بورے میں تمام بیماریوں اور جسمانی نقائص کواچھا کرنے کی صفت ھے۔ اس کا مالک صرف بڑی رقم پر اس کو مستعار دیتا ھے اور وہ بھی سب کو نہیں ۔ میں لنگڑا، کبڑا اور کانا تھا۔ میں شادی کرنا چاھتا تھا، میرے ھونے والے سسر نے یہ نہیں چاھا کہ میری دلھن کی نظر ان نقائص پر پڑے اس لئے وہ مجھے اس عرب کے پاس لے گئے جس نے مجھ کو یہ بورا چھ سو تانگے کے عوض میں چار گھنٹے کے لئے کرائے پر دیا ھے۔

"چونکہ یہ بورا صرف قبرستانوں کے قریب ھی اپنی معجز نما مسیحائی دکھاتا ھے اس لئے میں غروب آفتاب کے بعد قرشی کے اس پرانے قبرستان آیا ھوں ۔ میرے سسر نے جو میرے ساتھ آئے تھے رسی سے بورے کو باندھ دیا اور چلے گئے کیونکہ کسی دوسرے کی موجودگی میں علاج ناممکن ھے۔ بورے کے مالک عرب نے مجھے متنبہ کردیا ھے کہ جیسے ھی میں تنہا ھونگا تین جن خوب شور مچاتے اور تانبے کے پر کھڑکھڑاتے نمودار ھونگے۔ وہ انسانوں کی آواز میں مجھ سے پوچھیں گے کہ قبرستان کے کس حصے میں دس ھزار تانگے دفن ھیں ۔ اس کے جواب میں مجھے یہ پراسرار منتر پڑھنا چاھئے:'جس کے پاس تانبے کی ڈھال ھوتی ھے اس کا دماغ بھی تانبے کا ھوتا ھے۔ عقاب کی جگہ الو بیٹھا ھے۔ ارے جنو، تم وہ ڈھونڈ رھے ھو جو میں نے چھپایا ھی نہیں تھا۔ اس لئے میرے گدھے کی دم چوم لو!'

"سب کچھ عرب کے کہنے کے مطابق ھوا۔ جنوں نے آکر مجھ سے پوچھا کہ دس ھزار تانگے کہاں دفن ھیں ۔ میرا جواب سن کر وہ بھڑک اٹھے اور انھوں نے مجھے خوب پیٹا لیکن میں عرب کی ھدایت کو یاد رکھتے ھوئے برابر یہی چلاتا رھا: 'جس کے پاس تانبے کی ڈھال ھوتی ھے اس کا دماغ ب ھی تانبے کا ھوتا ھے۔ ۔۔۔میرے گدھے کی دم چوم لو!' پھر جن بورے کو اٹھا کر لے چلے۔۔۔ اس سے زیادہ مجھے کچھ یاد نہیں ۔ دو گھنٹے بعد جب میں ھوش میں آیا تو میں اسی جگہ پر تھا اور بالکل ٹھیک ھو گیا تھا۔ میراکوبڑ غائب ھو گیا ھے، میرا پیر سیدھا ھے اور میری آنکھ سے دکھائی دینے لگا ھے۔ اس کا یقین مجھے بورے کے ایک سوراخ سے جھانک کر ھوا جو شاید پہلے کسی نے بورے میں بنایا ھوگا۔ اب میں صرف اس کے اندر اس لئے بیٹھا ھوں کہ اتنی رقم دینے کے بعد اس کو ضائع کیوں کروں ۔ واقعی مجھے سے غلطی ھوئی۔ میں نے کسی اور آدمی سے سمجھوتہ کر لیا ھوتا جس میں بھی یہ نقائص ھوتے۔ تب ھم بورے کے کرائے کی رقم آدھی آدھی بانٹ لیتے۔ ھم دونوں دودو گھنٹے بورے میں رھتےاور اس طرحھمیں اپنے علاج کے تین تین سو تانگے فی کس پڑتے۔ لیکن کچھ نہیں ھوسکتا۔ رقم ضائع ہو جانے دو۔ بڑی بات تو یہ ھے کہ میں خدا خدا کرکے اچھا ھوگیا۔
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

"راہ گیر، اب تمھیں سارا قصہ معلوم ھو گیا ھے۔ اب اپنا قول پورا کرو اور یہاں سے چلے جاؤ۔ میں شفا پانے کے بعد کمزوری محسوس کر رھا ہوں اور میرے لئے بولنا مشکل ھے۔ تم سے پہلے نو آدمی مجھ سے یہی سوالات کرچکے ھیں اور میں بار بار یہ باتیں دوھرانے سے عاجز آچکا ھوں ۔"

سود خور بڑے غور سے سن رھا تھا۔ وہ خواجہ نصرالدین کے بیان کے درمیان بار بار حیرت کے الفاظ کہہ اٹھتا تھا۔

"بورے میں بیٹھنے والے، سن" سود خور نے کہا "ھم دونوں اپنی ملاقات سے فائدہ اٹھا سکتے ھیں۔ تجھ کو اس بات کا افسوس ھے کہ تو نے بورے کے کرائے میں کسی اپنے ایسے مریض کو حصہ دار کیوں نہ بنایا لیکن ابھی دیر نہیں ھوئی ھے۔ اتفاق سے میں ایک ایسا ھی آدمی ھوں جس کی تجھے ضرورت ھے۔ میں کوبڑا، لنگڑا اور کانا ھوں ۔ میں دوگھنٹے بورے میں رھنے کے لئے خوشی سے تجھ کو تین سو تانگے دے سکتا ھوں ۔"

"تم مجھے چڑھا رھے ھو!" خواجہ نصرالدین نے جواب دیا۔ "ایسا حیرت انگیز اتفاق ناممکن ھے! اگر تم سچ کہہ رھے ھو تو اللہ کا شکر ادا کرو کہ اس نے تم کو یہ موقع دیا۔ میں راضی ھوں ، اے راھگیر، لیکن میں تم کو بتائے دیتا ھوں کہ میں نے رقم پیشگی ادا کی ھے اور تمھیں بھی پیشگی ھی دینا ھوگا۔ میں ادھار نہیں رکھتا۔"

"میں پیشگی دونگا" سود خور نے بورے کو کھولتےھوئے کہالیکن وقت ضایع نہ کرنا چاھئے کیونکہ جو منٹ ابھی گذر رھے ھیں وہ میرے ھیں ۔"

خواجہ نصرالدین نے بورے سے باھر نکلتے ھوئے اپنا چہرہ آستین سے چھپا لیا۔ لیکن سودخور نے تو خواجہ پر نگاہ تک نہ ڈالی۔ وہ جلدی جلدی رقم گن رھا تھا۔ اس کو ھر منٹ گزرنے کا قلق تھا۔ وہ بہت مشکل سے کراہ کراہ کر بورے کے اندر گھسا اور اپنا سر بھی اندر کرلیا۔

خواجہ نصرالدین نے رسی باندھ دی اور پھر ذرا دور جا کر ایک درخت کے سائے میں چھپ گئے۔ انھوں نے ابھی یہ کیا ھی تھا کہ قبرستان کی طرف سے پہرے داروں کی آوازیں زور زور سے برا بھلا کہتی ھوئی آنے لگیں ۔ ٹوٹی ھوئی دیوار کےاندر سے پہلے ان کے لمبے سائے دکھائی دئے اور پھر وہ خود نموار ھوئے۔ ان کی پیتل کی ڈھالیں چاندنی میں چمک رھی تھیں ۔

اختتام باب 35
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

باب 36

Post by سیدتفسیراحمد »

دنیا زندہ تھی، سانس لے رھی تھی، وسیع دنیا جو سب کے لئے برابر کھلی تھی۔ اس کی بے پناہ وسعتیں چیونٹی ھو کہ چڑیا یا آدمی سب کے لئے یکساں مہمان نواز تھی اور معاوضے میں صرف یہ مطالبہ کرتی تھیں کہ اس خیرمقدم اور اعتماد کا غلط استعمال نہ کیا جائے۔ میزبان اس مہمان کو ذلیل کرکے نکال دیتاھے جو دعوت کے موقع پر عام گہما گہمی سے فائدہ اٹھا کر دوسرے مہمانوں کی جیب صاف کردیتا ھے۔ ایسا ھی چور یہ لعنتی سودخور تھا جو مسرت سے بھرپور دنیا سے نکالا جا رھا تھا۔

خواجہ نصرالدین کو اس کے لئے ذرابھی افسوس نہ تھا کیونکہ اس کے خاتمے سے ھزاروں انسانوں کی قسمت بن جانے والی تھی۔ خواجہ نصرالدین کو افسوس یہ تھا کہ سودخور اس دنیا میں آخری شیطان نہ تھا۔ کاشکہ ایک بورے میں تمام امرا اور عمائدین کو، ملاؤں کو اور سودخوروں کو بند کرکے ایک ساتھ شیخ احمد کے مقدس تالاب میں ڈبویا جاسکتا! تب ان کی گندی سانس درختوں کے پربہار پھولوں کو نہ کمھلا سکتی، اپنے پیسے کی جھن جھن، ان کے ریاکارانہ وعظ اور ان کی تلواروں کی جھنکار چڑیوں کی چہچہاھٹ پر نہ غالب آسکتی اور آدمی دنیا کے حسن سے لطف اندوز ھونے اور اپنا انتہائی اھم فرض ادا کرنے یعنی ھر وقت اور ھر چیز سے خوش رھنے کے لئے آزاد ھوتا!

اس دوران میں پہرےداروں نے تاخیر کا ازالہ کرنے کے لئے تیز تیز چلنا شروع کیا اور آخرکار دوڑنے لگے۔ سودخور جو بورے میں ھلنے جلنے سے چور ھوا جا رھا تھا اس غیر معمولی سفر کے خاتمے کا صبر کے ساتھ انتظار رھا تھا۔ وہ اسلحہ کی کھڑکھڑاھٹ اور پہرےداروں کے پیروں تلے پتھروں کی آواز سن کر حیرت کر رھا تا کہ یہ طاقتور جن دوڑنے اور زمین پر اپنے تانبے کے پر اس طرح رگڑنے کی بجائے جیسا کہ جوان مرغ مرغی کا پیچھا کرتے وقت کرتے ھیں آخر ھوا میں بلند ھوکر اڑتے کیوں نہیں ھیں ؟

آخرکار دور سے ایک عجیب گرجدار آواز سنائی دی جیسے کوئی پہاڑی چشمہ گرجتا ھوا بہہ رھا ہو۔ اس سے پہلے تو سود خور نے سوچا کہ جن اس کو کسی پہاڑ پر لائے ھیں ، شاید اپنے مسکن خان تنگری میں ۔ لیکن جلدی اس کو آوازیں سنائی دینے لگیں اور اس نے اندازہ لگایا کہ آدمیوں کا بڑا مجمع ھے۔ آواز سے یہ معلوم ھوتا تھا کہ بازار کی طرح ھزاروں آدمی جمع ھیں ۔ لیکن آخرکار بخارا میں رات کو کاروبار کب سے شروع ھوگیا؟

اچانک اس نے محسوس کیا کہ وہ اوپر اٹھایا جا رھا ھے۔ اوہ، آخرکار جنوں نے ھوا میں اڑنے کا فیصلہ کرلیا۔ اس کو کیا معلوم تھا کہ پہرےداربورے کو زینوں کے اوپر اٹھا کر پلیٹ فارم تک لا رے تھے۔ اوپر پہنچ کر انھوں نے بورا پٹک دیا۔ وہ پٹروں پر گرا جو اس کے وزن سے ھلنے اور کھڑکھڑانے لگے۔ سودخور زور سے کراھا۔

"ارے جنو!" وہ چلایا "اگر تم بور کو اس طرح پھینکو گے تو مجھے اچھا کرنے کی بجائے اپاھج بنادوگے!"

اس کا جواب ایک زوردار لات سے ملا۔

"حرامزادے، تیرا علاج جلد ھی احمد کے تالاب کی تہہ میں ھوگا!"
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

سودخور اچانک بدحواس ھوگیا۔ اس معاملے کا احمد کے مقدس تالاب سے کیا تعلق؟ اس کی پریشانی حیرت میں بدل گئی جب اس نے قریب ھی اپنے پرانے دوست، محل کے پہرےداروں اور فوج کے کماندار ارسلان بیک کی آواز سنی۔ وہ قسم کھا سکتا تھا کہ یہ ارسلان بیک ھی تھا۔ اس کا دماغ چکرا گیا۔ یہ ارسلان بیک اچانک کہاں سے کود پڑا؟ وہ جنوں کو راستے میں تاخیر کرنے کے لئے گالیاں کیوں دے رھا ھے اور جن اس کی بات کا جواب دیتے وقت خوف اور عاجزی سے کانپ کیوں رھے ھیں ؟ یہ تو ناممکن ھے کہ ارسلان بیک جنوں کابھی سردار ھو۔ وہ کیا کرے؟ خاموش رھے یا ارسلان بیک کو پکارے؟ چونکہ سود خور کو اس بارے میں کوئی ھدایت نہیں دی گئی تھی اس لئے اس نے خاموش رھنا ھی بہتر سمجھا۔

اس دوران میں مجمع کا شور و غل اوربڑھ گیا تھا۔ عام ھنگامے میں ایک لفظ سب سے زیادہ اور اکثر سنائی دے رھا تھا۔ ایسا معلوم ھورھا تھا جیسے زمین، فضا اور ھوا سبھی اس لفظ سےبھرے ھوئے ھیں۔ اس کی ھلکی بھن بھناھٹ ھوتی، پھر شور اور گرج دور تک گونجتی چلی جاتی۔ سود خور سانس روکے سب کچھ سن رھا تھا۔ آخرکار اس نے سنا۔

"خواجہ نصرالدین!" مجمع میں ھزارون لوگ چلا رھے تھے۔ "خواجہ نصرالدین! خواجہ نصرالدین!"

اچانک خاموشی چھاگئی اور سخت سناٹے میں سودخور نے شعلہ ور مشعلوں کے پھنکنے، ھوا کی سرسراھٹ اور پانی کی کھلبلاھٹ سنی۔ اس کی ٹیڑھی ریڑھ میں کپکپی سی دوڑ گئی اور وہ انتہائی ڈر گیا۔ خوف کی سرد سانس نے اس کو بالکل جما دیا۔

پھر ایک اور آواز سنائی دی اور سودخور یقین سے کہہ سکتا تھا کہ یہ وزیر اعظم بختیار کی آواز ھے:

"خدا کے نام پر جو رحیم و کریم ھے اور آفتاب جہان امیر بخارا کے حکم سے، مجرم، مرتد، امن شکن اور منافق خواجہ نصرالدین کو ایک بورے میں بندکرکے ڈبو کر ختم کردیا جائے گا۔"

بورے پر ھاتھ پڑے اور انھوں نے بورے کو اٹھا لیا۔ اب سود خور کو اپنی مہلک حالت کا پتہ چلا۔

"ٹھہرو! ٹھہرو!" وہ چلایا۔ "ارے تم کیا کر رھے ھو؟ ٹھہرو! میں خواجہ نصرالدین نہیں ھوں ۔ میں تو جعفر سود خور ھوں ! مجھے چھوڑ دو! میں جعفر ھوں ، میں خواجہ نصرالدین نہیں ھوں ! مجھے کہاں لے جا رھے ھوں ؟ میں کہہ رھا ھوں تم سے کہ میں جعفر سودخور ھوں !"

امیر اور اس کا عملہ سودخور کی فریاد خاموشی سے سنتا رھا۔ بغداد کے دانا مولانا حسین نے سرھلاتے ھوئے کہا:

"یہ مجرم تو انتہائی بے حیا ھے۔ ایک مرتبہ اس نے بغداد کے دانا مولانا حسین کا بہروپ بھرا اور اب ھم کو یقین دلانا چاھتا ھے کہ وہ جعفر سود خور ھے!"

"وہ خیال کرتا ھے کہ یہاں ایسے ھی احمق ھیں جو اس کی بات مان لیں گے" ارسلان بیک نے اضافہ کیا۔ "دیکھئے ، کس طرح اس نے اپنی آواز بدلی ھے۔"

"مجھے چھوڑ دو! میں خواجہ نصرالدین نہیں ھوں ، میں جعفر ھوں !" سود خور نے فریاد کی جب دو پہرے دار پلیٹ فارم کے کنارے آکر بورے کو جھلانے لگے تاکہ اسے کالے پانی میں پھینک دیں ۔ !میں خواجہ نصرالدین نہیں ھوں ! میں تو۔۔۔"

اسی لمحے ارسلان بیک نے اشارہ کیااور بورے نے ھوا میں بلند ھو کر کئی قلابازیاں کھائیں ۔ پھر زبردست بھچاکے کے ساتھ وہ پانی میں گرا جس سے ایک فوارہ سا بلند ھوا جو مشعلوں کی سرخ روشنی میں چمکا اور پھر گہرے پانی نے جعفر سودخور کے گنہ گار جسم اور گنہ گار روح کو اپنے آغوش میں لے لیا۔

مجمع سے ایک زبردست آہ بلند ھوکر رات میں پیوست ھوگئی۔ چند لمحے تک ایک بھیانک خاموشی رھی اور پھر اچانک ایک زوردار اور دل میں اتر جانے والی چیخ نے اس کو چکنا چور کردیا۔ یہ تھی گل جان جو چیخ پڑی تھی اور اپنے بڈھے باپ کے بازوؤں میں تڑپ رھی تھی۔

چائے خانے کے مالک علی نے اپنا چہرہ ھاتھوں میں چھپا لیا اور آھنگر یوسف اس طرح کانپنے لگا جیسے اس کو لرزے کا دورہ پڑا ھو۔
اختتام باب 36
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

باب 37

Post by سیدتفسیراحمد »

سزائے موت کے بعد امیر معہ اپنے ماھی مراتب کے محل واپس گیا۔

اس ڈر سے کہ کہیں مرنے سے پہلے مجرم کو بچا نہ لیا جائے ارسلان بیک نے تالاب کے چاروں طرف پہرہ لگا دیا اور حکم دے دیا کہ کسی کو قریب نہ آنے دیا جائے۔ مجمع پہرےداروں کے ریلنے پر پیچھے ھٹ گیا۔ پھر ایک بڑی ماتمی اور خاموش بھیڑ کی صورت میں اکٹھا ھوگیا۔ ارسلان بیک نے ان کو منتشر کرنے کی کوشش کی لیکن لوگ دوسری طرف ھٹ جاتے یا تاریکی میں چھپ جاتے اور پھر ذرا دیر بعد اسی جگہ واپس آجاتے۔

محل میں بڑی چہل پہل تھی۔ امیر اپنے دشمن پر فتح کا جشن منا رھا تھا۔ ھر طرف سونا چاندی چمک رھا تھا، کیتلیاں ابل رھی تھیں ، انگیٹھیوں سے دھواں نکل رھا تھا اور طنبوروں کےنغمے بکھر رھے تھے، نفیریاں بج رھی تھیں اور نقاروں کی آواز فضا میں گونج رھی تھی۔ جشن کے سلسلے میں اتنی روشنی تھی کہ اس کی سرخی سے سارے محل میں آگ سی لگی معلوم ھوتی تھی۔

امیر نے بڑی فیاضی سے انعامات تقسیم کئے۔ اس دن بہتوں پر نظر عنایت ھوئی۔ شاعروں کی آوازیں قصیدے پڑھتے پڑھتے بیٹھ گئیں اور چاندی اور سونے کے سکے جھک کر اٹھاتے اٹھاتے کمریں رہ گئیں ۔

"رقعہ نویس کو بلاؤ" امیر نے حکم دیا۔

رقعہ نویس دوڑتا ھوا آیا اور جلدی جلدی اپنے کلک کے قلم سے لکھنے لگا۔

"بخارا کے عظیم اور صاحب شان و شوکت، آفتاب کو شرمانے والے حکمران، بخارا کے سپہ سالار اور پیشوائے دین، امیر بخارا کی طرف سے عظیم اور صاحب شان و شوکت حکمران، خیوا کے سپہ سالار اور پیشوائے دین سلامتی اور خیرسگالی کے پھول قبول فرمائیں ۔ ھم آپ کو، اپنے عزیز اور شاہ بھائی کو ایک خبربھیج رھے ھیں جس سے آپ کا دل خوشی سے بھر جائے گا۔

"آج کے دن، 17 صفر کو، ھم نے،بخارا کے امیر اعظم نے، خواجہ نصرالدین کو سربازار سزائے موت دی۔ یہ مجرم ساری دنیا میں اپنی ناپاک اور مرتدانہ سرگرمیوں کے لئے مشہور تھا، خدا کی لعنت ھو اس پر۔ ھم نے اس کو ایک بورے میں بندکرکے ڈبو دیا۔ یہ واقعہ مابدولت کی موجودگی میں اور ھماری آنکھوں کے سامنے ھوا اس لئے ھم اپنے شاھانہ الفاظ کے ذریعے شہادت پیش کرتے ھیں کہ مندرجہ بالا بدمعاش، امن و امان شکن، مرتد اور منافق اب زندوں میں نہیں ھے اور اب آپ کو، ھمارے عزیز بھائی کو اپنی کفر کی باتوں سے پریشان نہیں کریگا۔"

اسی طرح کے خطوط بغداد کے خلیفہ، ترکی کے سلطان، ایران کے شاہ، قوقند کے خان اور افغانستان کے امیر اور بہت سے نزدیک و دور کے بادشاھوں کو لکھوائے گئے۔ وزیر اعظم بختیار نے خطوں کو لپیٹ کر ان پر مہر لگائی اور ھرکاروں کو یہ حکم دے کر حوالے کیا کہ وہ فوراً اپنی اپنی منزلوں کی طرف روانہ ھوجائیں ۔ اس رات بخارا کے سب کے سب گیارہ پھاٹک زور سے چرچراتے چیختے کھلے اور ھر طرف کی شاھراھوں پر ھرکارے چل پڑے۔ ان کے گھوڑوں کے سموں کے نیچے پتھر کھڑکھڑا رھے تھے اور چنگاریاں اڑ رھی تھیں ۔ وہ خیوا، تہران، استنبول، بغداد، کابل اور بہت سے دوسرے شہروں کو جا رھے تھے۔
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

باب 37

Post by سیدتفسیراحمد »

۔۔۔تالاب کے سناٹے میں، سزائے موت کے چار گھنٹے بعد، ارسلان بیک نے تالاب سے پہرہ ھٹا لیا۔

"وہ چاھے شیطان ھی کیوں نہ ھو، پانی کے اندر چار گھنٹے رہ کر زندہ نہیں رہ سکتا" ارسلان بیک نے کہا۔ "اس کو نکالنے کی ضرورت نہیں ھے۔ جو چاھے وہ اس مردار کی لاش لے جا سکتا ھے۔"

اندھیرے میں پہرےداروں کے غائب ھوتے ھی مجمع شور مچاتا ھوا تالاب کے کنارے کی طرف بڑھا۔ پہلے سے تیار کی ھوئی مشعلیں جو جھاڑیوں میں رکھی تھیں جلائی گئیں۔ عورتوں نے خواجہ نصرالدین کے انجام پر رونا دھونا شروع کردیا۔

"ھمیں ان کی تجہیز و تکفین ایک سچے مومن کی طرح کرنی چاھئے" بڈھے نیاز نے کہا۔ گل جان ساکت و صامت اپنے باپ کے سہارے کھڑی تھی۔

چائے خانے کا مالک علی اور آھنگر یوسف آنکڑے دار ڈانڈ لئے ھوئے پانی میں کودے۔ وہ بہت دیر تک تلاش کرتے رھے۔ آخرکار انھوں نے بورا پکڑ لیا اور اس کو گھسیٹ کر کنارے تک لائے۔ وہ سطح پر آیا۔ سیاہ، مشعلوں میں چمکتا ھوا بورا جو پانی کی گھاس سے اور بھی پھول گیا تھا۔ عورتوں نے اور زور سے رونا شروع کیا جس سے محل میں جشن کی آواز ڈوب گئی۔

درجنوں لوگوں نے بورے کو ھاتھوں ھاتھ لیا۔

"میرے ساتھ آؤ" یوسف نے اپنی مشعل سے راستہ دکھاتے ھوئے کہا۔

ایک چھتنارے درخت کے نیچے بورا رکھا گیا۔ لوگ خاموشی سے اس کے گرد جمع ھوگئے۔

یوسف نے ایک چاقو نکالا اور احتیاط سے بورے کو لمبائی میں کاٹا، غور سے مردے کا چہرہ دیکھا اور پیچھے ھٹ گیا۔ وہ اس طرح کھڑا تھا جیسے پتھر کا ھو گیا ھو۔ اس کی آنکھیں نکلی پڑ رھی تھیں اور زبان سے ایک لفظ نہیں نکل رھا تھا۔

علی یوسف کی مدد کے لئے لپکا تو وہ بھی اسی طرح متحیر کھڑا رہ گیا۔ اس نے اکڑوں بیٹھ کر دیکھا، اس کے منہ سے چیخ نکل گئی اور وہ چت گر پڑا۔ اس کی موٹی توند آسمان کی طرف اٹھی ھوئی تھی۔

"کیا معاملہ ھے؟ " مجمع میں چاؤں چاؤں ھوئی۔ "آؤ دیکھیں، ھمیں دیکھنے دو!"

گل جان روتی ھوئی لاش پر جھک گئی لیکن کسی نے اس کی طرف مشعل بڑھا دی اور وہ خوف و حیرت سے جھجک کر پیچھے ھٹ گئی۔
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

اب آدمی مشعلیں لئے ھوئے چاروں طرف سے جمع ھوگئے۔ تالاب کے کنارے کافی روشنی ھوگئی تھی۔ بہت سی آوازوں کی مشترکہ زبردست چیخ نے رات کی خاموشی کو چکنا چور کر دیا:

"جعفر!"

"یہ تو سود خور جعفر ھے!"

"یہ خواجہ نصرالدین تو نہیں ھیں!"

ذرا دیر گھبراھٹ اور انتشار کے بعد ھر ایک نے اچانک غل مچانا شروع کردیا۔ لوگ ایک دوسرے کو دھکا دیتے، دھکیلتے، ایک دوسرے کے کاندھوں پر لٹکتے اپنی آنکھوں سے دیکھنے کے لئے آگے بڑھ رھے تھے۔ گل جان کی حالت ایسی ھوگئی تھی کہ بڈھا نیاز اس کو تالاب کے کنارے سے دور لے گیا۔ اس کو ڈر تھا کہ کہیں وہ پاگل نہ ھوجائے۔ وہ رو اور ھنس رھی تھی۔ وہ شک و شبہ اور یقین کے درمیان معلق تھی اور ایک بار پھر دیکھنے کی کوشش کر رھی تھی۔

"جعفر! جعفر!" مسرت آمیز آوازیں گونج رھی تھیں جنھوں نے دور سے آتی ھوئی محل کی رنگ رلیوں کی آوازوں کو بالکل ڈبو دیا تھا۔ "یہ تو جعفر سود خور ھے! وھی ھے یہ۔ یہ رھا اس کا رسیدوں کا تھیلا۔"

کچھ دیر بعد کسی کو ھوش آیا اور اس نے مجمع سے عام سوال کیا:

"تو پھر خواجہ نصرالدین کہاں ھیں؟"

اب یہ سوال سارے مجمع نے دھرایا اور شور ھوا:

"تو پھر خواجہ نصرالدین کہاں ھیں؟ ھمارے خواجہ نصرالدین کہاں ھیں؟"

"یہاں ھیں!" ایک جانی پہچانی پرسکون آواز آئی۔ اور سب اس طرف مڑ گئے۔ خواجہ نصرالدین کو زندہ دیکھ کر وہ حیرت میں رہ گئے۔ ان کے ساتھ کوئی پہرے دار نہ تھا۔ وہ ان کی طرف اطمینان سے جماھیاں اور انگڑائیاں لیتے ھوئے بڑھ رھے تھے۔ خواجہ قبرستان کے قریب سو گئے تھے اسی لئے اتنی دیر سے یہاں پہنچے تھے۔

"میں یہاں ھوں" انھوں نے دھرایا "جو مجھ سے ملنا چاھتا ھے یہاں آجائے۔ بخارا کے محترم باشندو، آپ یہاں تالاب پر کیوں جمع ھیں اور کیا کر رھے ھیں؟"
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

"کیوں؟ ھم یہاں کیوں آئے ھیں؟" سیکڑوں آوازوں نے کہا۔ "خواجہ نصرالدین ، ھم یہاں آئے تھے آپ کو آخری بار الوداع کہنے، آپ کے لئے ماتم کرنے اور آپ کو دفن کرنے۔"

"مجھ کو؟" انھوں نے پوچھا۔" میرے لئے ماتم کرنے؟ بخارا کے شریف باشندو آپ خواجہ نصرالدین کو نہیں جانتے اگر آپ سمجھتے ھیں کہ ان کا مرنے کا ارادہ ھے! میں تو صرف آرام کرنے کے لئے قبرستان کے قریب لیٹ گیا تھا اور آپ سمجھنے لگے کہ میں مر گیا!"

ابھی وہ اتنا ھی کہہ سکے تھے کہ چائے خانے کا مالک علی اور آھنگر یوسف خوشی سے چیخیں مارکر ان سےاس طرح لپٹ گئے کہ بس جان بچانا مشکل ھوگئی۔ نیاز نے آگے بڑھنے کی کوشش کی لیکن وہ جلد ھی دھکم پیل میں پیچھے رہ گیا۔ خواجہ نصرالدین ایک بڑے مجمع میں گھرے تھے جہاں ھر شخص ان سے گلے ملنا اور ان کو خوش آمدید کہنا چاھتا تھا اور وہ ھر ایک سے گلے ملتے ھوئے اس طرف بڑھ رھے تھے جہاں سے گل جان کی بے چین اور غصے سے بھری ھوئی آواز آرھی تھی جو بھیڑ میں ان تک پہنچنے کی بے سود کوشش کر رھی تھی۔ او رآخرکار جب وہ ایک دوسرے سے دوچار ھوئے تو گل جان نے ان کے گلے میں باھیں ڈال دیں۔ خواجہ نصرالدین نے اس کی نقاب اٹھائی اور سارے مجمع کے سامنے اس کو چوم لیا اور وھاں پر موجود کسی بھی آدمی کو، ان لوگوں کو بھی جو رسم و رواج کے بڑے حامی تھے یہ بات بری نہیں معلوم ھوئی۔

خواجہ نصرالدین نے ھاتھ اٹھا کر لوگوں سے خاموش رھنے اور اپنی طرف متوجہ ھونے کے لئے کہا:

"آپ میرا ماتم کرنے آئے تھے، بخارا کے شریف باشندو! آپ نہیں جانتے کہ میں امر ھوں؟"

ھوں میں خواجہ نصرالدین ، آزاد سدا کا یہ جھوٹ نہیں، میں نہ مرا ھوں نہ مرونگا

وہ سنسناتی ھوئی مشعلوں کی روشنی میں کھڑے تھے۔ مجمع نے دھن اٹھائی جو رات کی تاریکی میں لپٹے ھوئے بخارا میں پرمسرت لہر کی طرح پھیل گئی۔

ھوں میں خواجہ نصرالدین ، آزاد سدا کا یہ جھوٹ نہیں، میں نہ مرا ھوں نہ مرونگا

اس خوشی کا محل کی رنگ رلیوں سے کوئی مقابلہ نہ تھا۔

"ھمیں بتائیے" کسی نے چلا کر پوچھا "کہ آپ نے اپنے بجائے جعفر سودخور کو ڈبونے کا کام کیسے کیا؟"

"آہ!" خواجہ نصرالدین کو اچانک یاد آگیا۔"یوسف، تم کو میری قسم یاد ھے نا؟"

"ھاں، ضرور" یوسف نے جواب دیا " اور آپ نے اسے پورا کیا، خواجہ نصرالدین !"
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

"وہ کہاں ھے؟" خواجہ نصرالدین نے کہا "سود خور کہاں ھے؟ تمھیں اس کا تھیلا مل گیا؟"

"نہیں، ھم نے اس کو چھوا نہیں۔"

"ارے!" خواجہ نصرالدین نے ملامت آمیز لہجے می کہا۔ "بخارا کے باشندو! آپ کے خیالات بہت شریفانہ ھیں لیکن سمجھ میں ذرا خامی ھے۔ کیا آپ نہیں جانتے کہ اگر یہ تھیلا سودخور کے وارثوں کو مل گیا تو وہ آپ سے قرض کا ایک ایک پیسہ وصول کرلیں گے؟ لائیے یہ تھیلا مجھے دیجئے۔"

درجنوں آدمی دھکم پیل کرتے اور غل مچاتے ان کا حکم پورا کرنے دوڑے۔ انھوں نے بھیگا تھیلا لاکر خواجہ نصرالدین کو دے دیا۔

انھوں نے ایک پرونوٹ اٹکل پچو نکلا لیا۔

"محمد زین ساز!" انھوں نے زو رسے پکارا۔ "محمد زین ساز کون ھے؟"

"میں" ایک دھیمی کاپنتی ھوئی آواز نے جواب دیا۔ مجمع سے ایک پستہ قد بڈھا نکلا جس کے چھدری داڑھی تھی۔ وہ ایک انتہائی پھٹی پرانی رنگین قبا پہنے تھا۔

"محمد زین ساز اس پرونوٹ کے مطابق تم کو کل پانچ سو تانگے ادا کرنا ھیں۔ لیکن میں، خواجہ نصرالدین تمھارا قرض منسوخ کرتا ھوں۔ یہ رقم تم اپنی ضرورتوں کے لئے استعمال کرو اور اپنے لئے ایک نئی قبا خرید لو۔ تمھاری قبا تو بس کپاس کے تیار کھیت کا منظر پیش کرتی ھے، ھر جگہ روئی نکلی ھوئی ھے۔"

یہ کہتے ھوئے انھوں نے پرونوٹ کے پرزے پرزے کردئے۔

خواجہ نصرالدین نے یہی گت سب پرونوٹوں کی بنائی۔

جب آخری پرونوٹ پرزے پرزے ھوچکا تو خواجہ نصرالدین نے تھیلا تالاب میں پھینک دیا۔

"اب اس کو ھمیشہ ھمیشہ کے لئے تالاب کی تہہ میں دفن ھوجانے دو!" انھوں نے زور سے کہا۔ "اب اس کو کوئی اپنے کندھے سے نہ لٹکاسکے گا۔ بخارا کے شریف باشندو! انسان کے لئے ایسا تھیلا لیکر چلنے سے زیادہ کوئی ذلت نہیں ھوسکتی۔ آپ کے لئے چاھے جو کچھ کیوں نہ ھو جائے، چاھے آپ دولت مند ھو جائیں، جس کی امید ھمارے آفتاب جیسے امیر اور اس کے نگراں وزیروں کی زندگی میں نہیں ھے، لیکن اگر ایسا کبھی ھو اور آپ میں سے کوئی دولت مند ھو جائے تو ایسا تھیلا لیکر کبھی نہ چلنا۔ ورنہ وہ اپنے کو اور اپنی آنے والی نسلوں کو چودہ پیڑھیوں تک ابدی ذلت میں مبتلا کردے گا! اسے یہ بھی نہ بھولنا چاھئے کہ اس دنیا میں خواجہ نصرالدین کا بھی وجود ھے جس کا ھاتھ بہت سخت ھے۔ آپ نے دیکھا کہ اس نے جعفر سودخور کو کیا سزا دی ھے۔ اب میں آپ سے رخصت ھونگا، بخارا کے شریف باشندو۔ مجھے ایک طویل سفر درپیش ھے۔ گل جان تم میرے ساتھ چلو گی؟"
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

"میں تمھارے ساتھ جہاں کہو گے چلونگی" گل جان نے جواب دیا۔

بخارا کے باشندوں نے خواجہ نصرالدین کو شاندار طور پر الوداع کہا۔ کارواں سرائے کے مالک ان کی دلھن کے لئے روئی جیسا سفید گدھا لائے۔ اس کی کھال پر ایک بھی سیاہ داغ نہ تھا اور وہ بڑے فخر کے ساتھ اپنے بھورے بھائی، خواجہ نصرالدین کی آوارہ گردیوں کے پرانے اور وفادار رفیق کے برابر کھڑا چمک رھا تھا۔ بھورے گدھے کو اپنے شاندار رفیق پر ذرا بھی رشک نہیں تھا اور وہ اطمینان سے مزیدار گھاس کھا رھا تھا اور اپنے تھوتھن سے سفید گدھے کو دھکا بھی دیتا جاتا تھا جیسے وہ دکھانا چاھتا ھو کہ رنگ میں اس کی ناقابل تردید برتری کے باوجود سفید گدھا خواجہ نصرالدین کی خدمت میں اس کا پاسنگ نہیں ھوسکتا۔

آھنگر اپنی بھٹی وغیرہ وھیں لائے اور دونوں گدھوں کے نعلیں لگائیں۔ زین سازوں نے دو زینیں بطور تحفہ پیش کیں۔ ایک مخمل سے سجی ھوئی خواجہ نصرالدین کے لئے تھی اور دوسری چاندی سے مرصع گل جان کے لئے۔ چائے خانے کے مالک دو چائے دان اور دو چینی کے بہت نفیس پیالے لائے۔ اسلحہ سازوں نے خواجہ نصرالدین کو مشہور گوردا فولاد کی تلوار دی تاکہ وہ اپنے کو راھزنوں سے بچا سکیں۔ قالین بنانے والے ان کے لئے زین پوش لائے، کمند سازوں نے گھوڑے کے بالوں کی بنی ھوئی کمند دی۔ یہ کمند جب کسی سونے والے مسافر کے گرد بچھا دی جاتی ھے تو وہ زھریلے سانپوں سے محفوظ رھتا ھے کیونکہ سانپ چبھنے والے بالوں کے اوپر نہیں رینگتے۔

بنکروں، ٹھٹھیروں، درزیوں اور موچیوں، غرض سب نے تحفے دئے۔ ملاؤں، عمائدین اور صاحب جائیداد لوگوں کے علاوہ سارے شہر بخارا نے خواجہ نصرالدین کے سفر کے لئے نئے ساز و سامان مہیا کیا۔

کمھار الگ افسردہ کھڑے تھے۔ ان کےپاس تحفے کے لئے کچھ نہ تھا۔ آدمی مٹی کی صراھی کا کیا کریگا جب کہ ٹھٹھیروں نے ان کو پیتل کی صراحی دی تھی؟

اچانک سب سے بڈھے کمھار نے جس کی عمر سو سال سے زیادہ تھی کہا "کون کہتا ھے کہ ھم کمھاروں نے خواجہ نصرالدین کو کچھ نہیں دیا ھے۔ کیا ان کی دلھن، یہ حسین دوشیزہ، کمھاروں کی مشہور اور لائق برادری کی نہیں ھے؟

کمھاروں نے خوش ھوکر زور کا نعرہ مسرت بلند کیا۔ پھر انھوں نے گل جان کو اچھی طرح نصیحت کی کہ وہ خواجہ نصرالدین کی وفادار اور پرخلوص رفیقہ حیات بنے اور اپنی برادری کے لوگوں کی شہرت اور عزت کو بٹہ نہ لگائے۔

"صبح صادق کا وقت ھونے والا ھے" خواجہ نصرالدین نے کہا "جلد ھی شہر کے پھاٹک کھل جائیں گے۔ مجھے اور میری دلھن کو چپکے سے نکل جانا چاھئے۔ اگر آپ سب مجھے رخصت کرنے آئے تو پہرےداروں کو خیال ھوگا کہ شاید بخار اکے سارے باشندے کہیں اور آباد ھونے جا رھے ھیں اور وہ پھاٹک بند کر لیں گے، کسی کو بھی باھر نہ جانے دیں گے۔ اس لئے آپ اپنے اپنے گھروں کو جائیے۔ میری دعا ھے کہ آپ سکھ چین کی نیند سوئیں، آپ پر مصیبت کا منحوس سایہ کبھی نہ پڑے اور کامیابیاں آپ کے ھمراہ رھیں! خواجہ نصرالدین اب آپ سے رخصت ھوتا ھے۔ کتنی مدت کے لئے؟ یہ میں خود نہیں جانتا۔"
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

"میں تمھارے ساتھ جہاں کہو گے چلونگی" گل جان نے جواب دیا۔

بخارا کے باشندوں نے خواجہ نصرالدین کو شاندار طور پر الوداع کہا۔ کارواں سرائے کے مالک ان کی دلھن کے لئے روئی جیسا سفید گدھا لائے۔ اس کی کھال پر ایک بھی سیاہ داغ نہ تھا اور وہ بڑے فخر کے ساتھ اپنے بھورے بھائی، خواجہ نصرالدین کی آوارہ گردیوں کے پرانے اور وفادار رفیق کے برابر کھڑا چمک رھا تھا۔ بھورے گدھے کو اپنے شاندار رفیق پر ذرا بھی رشک نہیں تھا اور وہ اطمینان سے مزیدار گھاس کھا رھا تھا اور اپنے تھوتھن سے سفید گدھے کو دھکا بھی دیتا جاتا تھا جیسے وہ دکھانا چاھتا ھو کہ رنگ میں اس کی ناقابل تردید برتری کے باوجود سفید گدھا خواجہ نصرالدین کی خدمت میں اس کا پاسنگ نہیں ھوسکتا۔

آھنگر اپنی بھٹی وغیرہ وھیں لائے اور دونوں گدھوں کے نعلیں لگائیں۔ زین سازوں نے دو زینیں بطور تحفہ پیش کیں۔ ایک مخمل سے سجی ھوئی خواجہ نصرالدین کے لئے تھی اور دوسری چاندی سے مرصع گل جان کے لئے۔ چائے خانے کے مالک دو چائے دان اور دو چینی کے بہت نفیس پیالے لائے۔ اسلحہ سازوں نے خواجہ نصرالدین کو مشہور گوردا فولاد کی تلوار دی تاکہ وہ اپنے کو راھزنوں سے بچا سکیں۔ قالین بنانے والے ان کے لئے زین پوش لائے، کمند سازوں نے گھوڑے کے بالوں کی بنی ھوئی کمند دی۔ یہ کمند جب کسی سونے والے مسافر کے گرد بچھا دی جاتی ھے تو وہ زھریلے سانپوں سے محفوظ رھتا ھے کیونکہ سانپ چبھنے والے بالوں کے اوپر نہیں رینگتے۔

بنکروں، ٹھٹھیروں، درزیوں اور موچیوں، غرض سب نے تحفے دئے۔ ملاؤں، عمائدین اور صاحب جائیداد لوگوں کے علاوہ سارے شہر بخارا نے خواجہ نصرالدین کے سفر کے لئے نئے ساز و سامان مہیا کیا۔

کمھار الگ افسردہ کھڑے تھے۔ ان کےپاس تحفے کے لئے کچھ نہ تھا۔ آدمی مٹی کی صراھی کا کیا کریگا جب کہ ٹھٹھیروں نے ان کو پیتل کی صراحی دی تھی؟

اچانک سب سے بڈھے کمھار نے جس کی عمر سو سال سے زیادہ تھی کہا "کون کہتا ھے کہ ھم کمھاروں نے خواجہ نصرالدین کو کچھ نہیں دیا ھے۔ کیا ان کی دلھن، یہ حسین دوشیزہ، کمھاروں کی مشہور اور لائق برادری کی نہیں ھے؟

کمھاروں نے خوش ھوکر زور کا نعرہ مسرت بلند کیا۔ پھر انھوں نے گل جان کو اچھی طرح نصیحت کی کہ وہ خواجہ نصرالدین کی وفادار اور پرخلوص رفیقہ حیات بنے اور اپنی برادری کے لوگوں کی شہرت اور عزت کو بٹہ نہ لگائے۔

"صبح صادق کا وقت ھونے والا ھے" خواجہ نصرالدین نے کہا "جلد ھی شہر کے پھاٹک کھل جائیں گے۔ مجھے اور میری دلھن کو چپکے سے نکل جانا چاھئے۔ اگر آپ سب مجھے رخصت کرنے آئے تو پہرےداروں کو خیال ھوگا کہ شاید بخار اکے سارے باشندے کہیں اور آباد ھونے جا رھے ھیں اور وہ پھاٹک بند کر لیں گے، کسی کو بھی باھر نہ جانے دیں گے۔ اس لئے آپ اپنے اپنے گھروں کو جائیے۔ میری دعا ھے کہ آپ سکھ چین کی نیند سوئیں، آپ پر مصیبت کا منحوس سایہ کبھی نہ پڑے اور کامیابیاں آپ کے ھمراہ رھیں! خواجہ نصرالدین اب آپ سے رخصت ھوتا ھے۔ کتنی مدت کے لئے؟ یہ میں خود نہیں جانتا۔"
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

مشرق میں ایک چھوٹی، مشکل سے دکھائی دینے والی روشنی کی ھلکی پٹی نمودار ھورھی تھی۔ تالاب سے ھلکا سا کہرا اٹھ رھا تھا۔ مجمع منتشر ھونے لگا۔ لوگ مشعلیں بجھا رھے تھے اور زور زور سے کہہ رھے:

"سفر بخیر، خواجہ نصرالدین ! اپنے وطن کو نہ بھولئے گا!"

آھنگر یوسف اور چائے خانے کے مالک علی سے رخصت کا منظر خاص طور پر متائثر کن تھا۔ موٹا علی اپنے آنسو نہ روک سکا، وہ اس کے گول سرخ رخساروں پر بہہ نکلے۔

خواجہ نصرالدین پھاٹک کھلنے کے وقت تک نیاز کے گھر میں ٹھہرے رھے۔ جیسے ھی مؤذن کی پرسوز آواز شہر میں گونجی خواجہ نصرالدین اور گل جان اپنے سفر پر روانہ ھوگئے۔ نیاز ان کے ساتھ قریب کے موڑ تک گیا۔ اس کے آگے خواجہ نصرالدین نے اس کو نہیں آنے دیا اور بڈھا آنکھوں میں آنسو بھرے اس وقت تک دیکھتا رھا جب تک کہ وہ موڑ پر نگاھوں سے اوجھ نہیں ھوگئے۔ صبح کی ٹھنڈی ھوا چلی اور اس نے سڑک پر سارے نشانات مٹا دئے۔

نیاز جلدی سے گھر واپس ھوا اور چھت پر چڑھ گیا۔ وھاں سے بہت دور تک شہر کی فصیلوں کے پار دکھائی دیتا تھا اور وہ بڑی دیر تک اپنی بوڑھی آنکھوں پر زور دیکر، بے اختیار آنسوؤں کو پونچھ کر بادامی رنگ کی دھوپ سے جھلسی ھوئی پہاڑیوں کی طرف دیکھتا رھا جن کے درمیان سڑک کا بھورا فیتہ دور لہراتا ھوا چلا گیا تھا۔ وہ اتنی دیر تک انتظار کرتا رھا کہ آخر میں پریشان ھوگیا۔ کیا خواجہ نصرالدین اور گل جان پہرےداروں کے ھاتھ آگئے؟

لیکن آخرکار اس کو دور فاصلے پر دو دھبے دکھائی دئے، ایک سفید اور دوسرا بھورا۔ وہ رفتہ رفتہ آگے بڑھتے اور چھوٹے ھوتے گئے۔ جلد ھی بھورا دھبہ پہاڑیوں میں مل جل کر غائب ھوگیا لیکن سفید دھبہ کافی دیر تک رھا۔ وہ گہرائیوں اور خموں میں غائب ھوجاتا اور پھر نمودارھوتا۔ پھر وہ بھی گرمی کے بڑھتے ھوئے دھند میں غائب ھوگیا۔

دن چڑھ رھا تھا اور اس کے ساتھ گرمی بھی بڑھ رھی تھی۔ بڈھا گرمی سے بے نیازغمگین خیالات میں ڈوبا ھوا چھت پر بیٹھا رھا۔ اس کا سفید سر ھل رھا تھا اور گلا رندھا جا رھا تھا۔ اس کو خواجہ نصرالدین اور اپنی بیٹی سے کوئی شکایت نہ تھی۔ وہ ان کی خوشی و سلامتی کا خواھاں تھا لیکن اس کو اپنے اوپر افسوس آرھا تھا۔ اب اس کا گھر خالی ھو گیا تھا اور اب اپنے زندہ دلانہ گیتوں اور قہقہوں سے اس کی زندگی میں خوشی لانے والا کوئی نہیں رھا تھا۔ گرم ھوا چلنے لگی، انگور کی بیلوں میں سرسراھٹ شروع ھوگئی اور گرد اڑنےلگی۔ ھوا کے پروں نے چھت پر سوکھتے ھوئے برتنوں کو چھوا اور وہ باریک اور فریاد آمیزآواز میں بج اتھے جیسے وہ گھر سے جانے والوں کے لئے غمگین ھوں۔

نیاز اپنے پیچھے ایک دھیمی سی آواز سے چونک پڑا۔ اس نے مڑ کر دیکھا کہ تین بھائی جو پڑوس میں رھتے تھے ایک دوسرے کے پیچھے زینوں پر چڑھ رھے تھے۔ وہ خوب تندرست خوبصورت نوجوان تھے اور سبھی کمھار تھے۔ وہ قریب آکر احترام کے ساتھ جھکے۔

"محترم نیاز" سب سے بڑا بھائی بولا " آپ کی بیٹی خواجہ نصرالدین کے ساتھ رخصت ھوگئی لیکن رنجیدہ اور پریشان نہ ھوں کیونکہ دنیا کا یہی قانون ھے۔ جب ھرنی ھرن کے بغیر نہیں، گائے بیل کے بغیر اور بطخ بلا نر کے نہیں رہ سکتی تو کیا کوئی دوشیزہ بلا کسی سچے اور پرخلوص رفیق کے رہ سکتی ھے؟ کیا اللہ نے دنیا کی تمام چیزوں میں جنسی تفریق نہیں کی ھے حتی کہ کپاس کے پودوں کی شاخوں تک میں نر و مادہ ھوتے ھیں۔

"بہرحال، ھم نہیں چاھتے کہ آپ کو بوڑھاپے میں رنج پہنچے اس لئے ھم تینوں نے آپ سے یہ کہنے کا فیصلہ کیا ھے کہ جس کا رشتہ خواجہ نصرالدین سے ھوا وہ بخارا کے تمام باشندوں کا رشتہ دار بن گیا اور اب آپ ھمارے رشتہ دار ھوگئے ھیں۔ آپ جانتے ھیں کہ پچھلے سال ھم نے اپنے باپ اور آپ کے دوست محترم و معظم عثمان علی کو کس رنج و غم کے ساتھ سپرد خاک کیا تھا اور اب ھمارے آتش دان کے قریب ایک جگہ بزرگ خاندان کے لئے خالی ھے او رھم اب اس روزمرہ کی خوشی سے محروم ھو گئے ھیں کہ کسی سفید داڑھی کی زیارت کر سکیں جس کے بغیر بچے کی چیخ پکار کی طرح گھر خالی خالی معلوم ھوتا ھے۔ کیونکہ آدمی کی روح کو اسی وقت سکون ملتا ھے جب وہ ایسے صاحب ریش آدمی کے پاس ھوتا ھے جس نے اس کو جنم دیا ھے اور اس کے یہاں پالنے میں وہ جھولتا ھے جس کو خود اس نے جنم دیا ھے۔

"اس لئے، محترم نیاز! ھم آپ سے درخواست کرتے ھیں کہ آپ ھمارے آنسوؤں کو دیکھیں اور ھماری درخواست سے انکار نہ کریں۔ ھمارے گھر آئیے اور آتش دان کے قریب وہ جگہ لیجئے جو بزرگ خاندان کے لئے مخصوص ھے۔ ھم تینوں کے باپ بنئے اور ھمارے بچوں کے دادا۔"

ان بھائیوں نے اتنا اصرار کیا کہ نیاز کو انکار کرتے نہ بنا۔ وہ ان کے گھر گیا اور اس کو ھاتھوں ھاتھ لیا گیا۔ اس طرح اس کو بوڑھاپے میں ایسی ایماندارانہ اور پاکیزہ زندگی نصیب ھوئی جو ایک مسلمان کے لئے اس دنیا میں ممکن ھے۔ وہ اب ایک بڑے خاندان کا بزرگ بن کر جس میں چودہ ناتی پوتے تھے نیاز بابا ھوگیا تھا۔ وہ انگور اور شہتوت کے رس سے بھرے گلابی گلابی گالوں کو دیکھ دیکھ کر خوش ھوا کرتا تھا۔ اس دن سے اس کے کان خاموشی سے کبھی نہیں اکتائے۔ کبھی کبھی وہ شور و غل سے گھبرا جاتا تو اپنے پرانے گھر آرام کے لئے چلا جاتا اور ان دونوں کو افسردگی سے یاد کرتا جو اس کے دل کے اتنے قریب تھے اور اب کہیں دور دراز کسی انجانی جگہ چلے گئے تھے۔

بازار کے دن وہ بازار جاتا اور کاروانوں میں جو دنیا کے تمام کونوں سے بخارا آتے تھے پوچھتا کہ کیا سڑک پر کہیں ان کی ملاقات دو مسافروں سے ھوئی۔ مرد ایک بھورے گدھے پر تھا اور عورت بے داغ سفید گدھے پر؟ ساربان اپنی سورج سے سنولائی ھوئی پیشانی پر بل ڈالکر سر ھلاتے کہ ان کی ملاقات ایسے لوگوں سے نہیں ھوئی۔

خواجہ نصرالدین حسب معمول بلا کسی پتے نشان کے غائب ھوگئے تھے تاکہ وہ پھر کہیں ایسی جگہ نمودار ھوں جہاں ان کی توقع بالکل نہ کی جاتی ھو۔ نئی کتاب کے ابتدائی باب کا کام دے سکتا ھے۔
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

باب 38

Post by سیدتفسیراحمد »

٣٨
(جو ایک نئی کتاب کی ابتدا کا کام کر سکتا ھے)

"میں نے سات سفر کئے اور ھر سفر کے بارے میں ایک ایسی غیر معمولی داستان ھے جو ذھن کو بےچین کردیتی ھے۔"

(الف لیلہ)

اور وہ پھر نمودار ھوئے، ایسی جگہ جہاں سب سے کم توقع کی جاتی تھی۔ وہ استنبول میں دکھائی دئے۔

یہ واقعہ امیر بخارا کا خط ترکی کے سلطان کو ملنے کے تین دن بعد ھوا۔ سیکڑوں نقیبوں نے عظیم سلطنت کے شہروں اور گاؤں میں خواجہ نصرالدین کی موت کا اعلان کیا۔ ملاؤں نے خوش ھوکر مسجدوں میں صبح شام دن میں دو بار امیر کا خط پڑھا اور اللہ کا شکر ادا کیا۔ سلطان نے محل کے باغ میں جشن کیا۔ وہ پوپلر کے درختوں کے خنک سائے میں بیٹھا تھا، فواروں کی ھلکی ھلکی پھوھار پڑ رھی تھی۔ اس کے چاروں طرف وزرا، عقلا، شعرا اور شاھی عملے کا مجمع تھا، سب لالچ سے شاھی داد و دھش کے متوقع تھے۔ حبشی غلام ان لوگوں کے درمیان بھاپ اٹھتی ھوئی کشتیاں، حقے اور صراحیاں لئے ھوئے آجا رھے تھے۔ سلطان بہت خوش تھا اور برابر ھنسی مذاق کر رھا تھا۔

"آج گرمی کے باوجود فضا میں خوشگوار لطافت اور مہک کیوں ھے؟" اس نے عقلا اور شعرا سے چالاکی سے آنکھیں نچاتے ھوئے پوچھا۔

"کون اس سوال کا معقول جواب دے سکتا ھے؟ "اور انھوں نے لالچ کے ساتھ اس تھیلی کی طرف دیکھتے ھوئے جو سلطان کے ھاتھ میں تھی جواب دیا۔

"شہنشاہ معظم کی سانس نے فضا میں سرایت کرکے یہ لطافت پھیلا دی ھے اور مہک کی وجہ یہ ھے کہ آخرکار خواجہ نصرالدین کی ناپاک روح کا تعفن ختم ھوگیا ھے جو دنیا کو زھر آلود کر رھا تھا۔"

تھوڑی دور پر محل کے پہرے داروں کا کماندار، استنبول کے امن و امان کا محافظ کھڑا یہ دیکھ رھا تھا کہ سب کچھ ٹھیک ٹھاک رھے۔ وہ اپنے ھم پیشہ بخارا کے ارسلان بیک سے اتنا مختلف ضرور تھا کہ وہ اس سے زیادہ ظالم اور غیر معمولی طور پر دبلا پتلا تھا۔ اس کی یہ دونوں باتیں اس طرح ایک دوسرے سے مربوط ھوگئی تھیں کہ استنبول کے شہریوں نے ان کو بہت دن پہلے ھی تاڑ لیا تھا اور وہ محل کے حمام کے خدمتگاروں سے ھر ھفتے پوچھتے رھتے تھے کہ کماندار کا وزن گھٹا یا بڑھا ھے۔ اگر خبر خراب ھوتی تو محل کے قریب رھنے والے بلا کسی سخت ضرورت کے گھروں کے باھر آئندہ حمام کے دن تک نہ نکلتے۔ تو اب یہ ھیبت ناک ھستی ذرا دور پر استادہ تھی۔ اس کے سر پر عمامہ تھا اور وہ اس طرح اس کی لمبی اور سوکھی گردن پر ابھرا ھوا تھا جیسے بانس پر لٹکا ھو (استنبول کے بہت سے شہری س تشبیہہ کو سنکر پراسرار طریقے پر آہ بھرتے)۔دانشکدہِ تفسیرسیدتفسیراحمد
رکن رکین
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

سب کچھ مزے میں چل رھا تھا، جشن زوروں پر تھا اور کسی انتشار کا گمان تک نہ تھا۔ کسی نے اس بات کی طرف توجہ نہیں کی کہ محل کا داروغہ اپنی حسب معمول پھرتی کے ساتھ چپکے سے درباریوں کے مجمع سے نکلا اور محل کے پہرےداروں کے کماندار کے کان میں کچھ سرگوشی کی۔ کماندار چونک پڑا، اس کے چہرے کا رنگ بدل گیا اور وہ جلدی سے داروغہ کے ساتھ باھر چلا گیا۔

چند منٹ میں وہ واپس آگیا۔ وہ زرد ھورھا تھا اور اس کے ھونٹ کانپ رھے تھے۔ درباریوں کو ھٹاتا ھوا وہ سلطان کے پاس پہنچا اور دھرا ھوکر تعظیم بجا لایا:

"سلطان معظم!۔۔۔"

"ھاں، کیا ھے؟" سلطان نے ناگواری کے انداز میں پوچھا۔ "کیا تم آج کے دن بھی جیل او رسزاؤں کی خبریں اپنے تک محدود نہیں رکھ سکتے؟ اچھا، بولو!"

"مقدس و معظم سلطان، میری زبان سے الفاظ نہیں نکلتے۔۔۔"

سلطان کی تیوریاں چڑھ گئیں۔ وہ کافی پریشان ھو گیا تھا۔ کماندار نے چپکے سے کہا:

"وہ استنبول میں ھے!"

"کون؟" سلطان نے درشت آواز میں پوچھا، حالانکہ وہ فوراً ھی سمجھ گیا تھا کہ کس سے مطلب ھے۔

"خواجہ نصرالدین !"

کماندار نے یہ نام بہت دھیمے سے لیا تھا لیکن درباریوں کے کان بہت تیز ھوتے ھیں۔ سارے محل میں منہ ھی منہ میں یہ بات پھیل گئی:

"خواجہ نصرالدین استنبول میں! خواجہ نصرالدین استنبول میں!"

"تمھیں کیسے معلوم ھوا؟" سلطان نے پوچھا۔ اس کی آوا ز اچانک بھرا گئی تھی۔ "تم سے کس نے کہا؟ یہ کیسے ممکن ھے جبکہ امیر بخارا نے اپنے خط میں شاھانہ الفاظ سے اس کا یقین دلایا ھے کہ خواجہ نصرالدین اب زندہ نہیں ھے؟"

کماندار نے محل کے داروغہ کو اشارہ کیا جو سلطان کے پاس ایک آدمی کو لے گیا جس کی ناک چپٹی تھی، چہرے پر چیچک کے داغ تھے اور ناچتی ھوئی زرد آنکھیں تھیں۔

"سلطان معظم!" کماندار نے وضاحت کی "یہ آدمی امیر بخارا کے دربار میں بہت دنوں تک جاسوس کی خدمات سرانجام دے چکا ھے اور خواجہ نصرالدین کو اچھی طرح جانتا ھے۔ جب یہ شخص استنبول آیا تو میں نے اس کو جاسوس کی حیثیت سے نوکر رکھ لیا اور وہ اس وقت بھی اپنے اس منصب پر ھے۔"

"تم نے اس کو دیکھا؟" سلطان نے بات کاٹتے ھوئے جاسوس سے پوچھا۔ " کیا تم نے اس کو اپنی آنکھوں سے دیکھا؟"

جاسوس نے ھاں میں جواب دیا۔

"شاید تم سے غلطی ھوئی ھو؟"

جاسوس نے نفی میں جواب دیا۔ وہ غلطی نہیں کر سکتا ۔ خواجہ نصرالدین کے ساتھ ایک عورت سفید گدھے پر سوار تھی۔

"تم نے اس کو اسی جگہ کیوں نہ گرفتار کرلیا؟"سلطان چلایا۔ "تم نے اس کو پہرےداروں کے حوالے کیوں نہیں کردیا؟"

"جہاں پناہ!" گھٹنوں کے بل گر کر گڑگڑاتےھوئے جاسوس نے جواب دیا۔ "بخارا میں ایک بار میں خواجہ نصرالدین کے ھاتھ آگیا اور پھر یہ اللہ ھی کی مہربانی تھی کہ میری جان بچ گئی۔ آج صبح کو جب میں نے اس کو استنبول کی سڑکوں پر دیکھا تو خوف سے میری آنکھوں پر اندھیرا چھا گیا اور جب میں اپنے ھوش میں آیا تو وہ جاچکا تھا۔"

"تو یہ ھیں تیرے جاسوس!" تعظیم سے جھکے ھوئے کماندار کی طرف دیکھتے ھوئے لال بھبوکا سلطان نے کہا۔ "کسی مجرم کو دیکھتے ھی ان کے حواس جاتے رھتے ھیں!"

اس نے چیچک رو جاسوس کو حقارت سے لات مار کر الگ کردیا اور خود خلوت خانے میں چلا گیا۔ اس کے پیچھے حبشی غلاموں کی ایک لمبی قطار تھی۔

وزرا، عمائدین، شعرا اور عقلا سب آپس میں چاؤں چاؤں کرتے باھر جا رھے تھے۔ چند منٹ میں کماندار کے سوا ایک نفس بھی باغ میں نہیں رہ گیا جو پھٹی پھٹی آنکھوں سے تکتا رھا اور پھر ایک سنگ مرمر کے فوارے کے کنارے بیٹھ گیا۔ وہ بڑی دیر تک بیٹھا پانی کی ھلکی بلبلاھٹ اور ھنسی سنتا رھا۔ اچانک سکڑ کر وہ اتنا دبلا ھو گیا تھا کہ اگر استنبول کے لوگ اس کو دیکھتے تو اپنے جوتے چھوڑ چھوڑ کر بھاگ کھڑے ھوتے۔

اس دوران میں چیچک رو جاسوس بےتحاشا سڑکوں پر بھاگتا ساحل کی طرف جا رھا تھا۔ وھاں ایک عرب جہاز روانگی کے لئے تیار کھڑا تھا۔ جہاز کے کپتان کو قطعی یقین ھوگیا کہ وہ کوئی قیدی ھے جو بھاگ رھا ھے اس لئے اس نے ایک بڑی رقم طلب کی۔ جاسوس بلا طے توڑ کئے عرشے پر آیا اور پھر ایک تاریک اندھیرے کونے میں گڑمڑا کر پڑ گیا۔ بعد کو جب استنبول کے چھریرے اور سڈول مینار نیلے دھند میں غائب ھوگئے اور تازہ ھوا بادبانوں میں بھرنے لگی تو وہ اپنی پناہ گاہ سے باھر آیا ، پورے جہاز کا چکر لگایا ، ھر چہرے کو غور سے دیکھا اور جب اس کو یہ یقین ھوگیا کہ خواجہ نصرالدین جہاز پر نہیں ھیں تو اسے اطمینان ھوا۔

اس دن سے اس چیچک رو جاسوس کی زندگی متواتر خوف و ھراس میں بسر ھونے لگی۔ جس شہر بھی وہ گیا خواہ وہ بغداد ھو یا قاھرہ، تہران یا دمشق، کسی جگہ بھی تین مہینے سے زیادہ نہ ٹھہر سکا کیونکہ خواجہ نصرالدین اس شہر میں ضرور نظر آتے اور جاسوس ان کی مڈھ بھیڑ کے ڈر سے اور آگے بھاگتا۔ یہاں خواجہ نصرالدین کا مقابلہ اس زبردست طوفان سے کرنا غلط نہ ھوگا جو اپنے آگے آگے اس مرجھائی ھوئی زرد پتی کو اڑائے اڑائے پھرتا ھے جس کو وہ گھاس سے، دراڑوں اور خولوں سے نکال لیتا ھے۔ اس طرح چیچک روجاسوس کو ان تمام برائیوں کی سزا ملی جو اس نے دوسرے لوگوں کے ساتھ کی تھیں۔

دوسرے ھی دن سے استنبول میں غیرمعمولی اور حیرت انگیز واقعات شروع ھوگئے۔۔۔ لیکن جو باتیں کسی نے ذاتی طور پر نہ دیکھی ھوں ان کی بابت کچھ نہ کہنا چاھئے اور جو ملک خود اس نے نہ دیکھے ھوں اس کی بابت نہ لکھنا چاھئے۔ اس لئے ان الفاظ کے ساتھ ھم اپنی کہانی کا آخری باب مکمل کرتے ھیں، جو استنبول، بغداد، تہران، دمشق اور بہت سے دوسرے مشہور شہروں میں خواجہ نصرالدین کے مزید کارناموں کے بارے میں ں نئی کتاب کے ابتدائی باب کا کام دے سکتا ھے۔

اختتام باب 38
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

[center]اختتام
داستان خواجہ بخارا کی
مترجم: ممتاز مفتی [/center]
Post Reply

Return to “اردو ناول”