کل یونہی فورم پر دوسرے احباب کی شئیرنگ دیکھتے دیکھتے میںپکچر آف دی ڈے پر پہنچا جہاںشازل بھیا نے ایک تصویر شئیر کی تھی جو کہ ٹیولپ فیلڈز یعنی گلِ لالہ کے کھیتوں کی تھی، اس تصویر کو دیکھتے ہی میں اچانک آج سے بیس سال پیچھے لوٹ گیا، اور اپنے خیالات کو تحریری شکل دے کر شازل بھیا کی اسی تصویر کے نیچے لگا دیا، لیکن پھر خرم ابنِ شبیر نے فرمائش کی کہ اس تحریر تو الگ سے لگایا جائے
خرم ابن شبیر wrote:چاند بابو اس تحریر کو ایک الگ دھاگے میں ارسال کریں پلیز بہت اچھی تحریر ہے آپ کی
اور میری بھی یہی خواہش ہے کہ اس تحریر کو الگ سے لگا دیا جائے تاکہ میری یادوں کا سلسلہ الگ سے چلے تاکہ ڈھونڈنے میں آسانی رہے۔
تو لیجئے پڑھئے۔
ارے شازل بھیا کیا یاد دلا دیا۔
ٹیولپ فیلڈز:
آپ کے لئے تو صرف خوبصورتی کی علامت ہے لیکن میرے لئے میری زندگی کے آغاز جیسا ہے۔
ان تصاویر اور اس کے متن کے ساتھ میرا ایک بہت گہرا رشتہ ہے، میری بڑی یادیں وابستہ ہیں اس تصویر سے۔
مجھے آج بھی اچھی طرح یاد ہے جب 31 مارچ 1990 کو میرا چوتھی جماعت کا رزلٹ آیا تو میں نے اپنے سکول میں دوسری پوزیشن حاصل کی۔
جس پر مجھے ایک نہایت خوبصورت سی ڈائری انعام میں ملی، پتہ نہیں کس نے یہ ڈائری کا انعام منتخب کیا تھا، کہ ایک چوتھی جماعت کے لڑکے کے لئے ڈائری شاید ایک فضول چیز تھی یا عام کاپیوں جیسی ایک کاپی۔
لیکن میرے لئے ایسا نہیں تھا، جب سے ہوش سنبھالا تھا اپنے ایک کزن کو ڈائری لکھتے دیکھتا آیا تھا، خیر وہ تو بہت دلچسپ پیرائے میں ڈائری لکھتے تھے اور کسی کو پڑھنے بھی نہیں دیتے تھے اور اگر اصرار کیا جاتا تو کوئی مخصوص صفحہ نکال کر سامنے کردیتے کہ بس صرف یہی پڑھنے کی اجازت ہے، جب تک پڑھ نہیں لیا جاتا تھا وہ سر پر موجود رہتے تھے تاکہ دھوکہ دہی سے کوئی اور صفحہ نا کھول لیا جائے، صفحہ مکمل ہوتے ہی ڈائری گدھے کے سر سے سینگ جیسے غائب ہو جاتی۔بعد ازاں شاید یہی وہ بڑی وجہ تھی جس نے ہمیں شرلاک ہومز بنا دیا اور پھر ہم نے ایک نہیں بلکہ کئی بار ان کی ڈائری پوری کی پوری پڑھی اور پورے اطمینان سے پڑھی مگر مجال ہے جو آج تک وہ جان پائے ہوں کہ ان کی ڈائری کسی نے پڑھی بھی ہے کہ نہیں، میں نے اس کے بعد کافی لوگوں کی ڈائری پڑھی کسی کی ان کی اجازت سے اور کسی کی اپنی ڈائری ڈھونڈنے کی مہارت سے لیکن ان کی ڈائری سے اچھی ڈائری آج تک نہیں پڑھنے کو ملی، وجہ یہ تھی کہ انہوں نے اپنی زندگی کے ہر اہم واقعے کو اس میں ایک بہت دلچسپ طریقے سے لکھا تھا ایسے جیسے ایک ناول لکھا جاتا ہے ساتھ میں منتخب تحاریر بھی موجود رہتی تھیں۔
خیر انعام میں ڈائری ملی تو میں نے بھی سوچا کہ ہمیں بھی ڈائری لکھنی چاہئے، لیکن کیا لکھا جائے کیسے لکھا جائے ہمیں تو اسوقت کتابوں کے سوا کچھ ملتا ہی نہیں تھا اور نہ ہی ہماری زندگی میں کوئی اہم واقعات رونما ہو رہے تھے جو ڈائری کی زینت بناتے، لیکن بس ایک دھن تھی جو سوار ہوچکی تھی کہ چاہے کچھ بھی ہو جائے ہم ڈائری لکھیں گے ضرور۔
جب کچھ نا ملا تو سوچا کہ چلو اخبارات سے اقتباسات ہی لکھتے ہیں، پھر کیا تھا پرانے اخبارات نکال لئے جو ابو دفتر سے واپسی پر گھر لے آتے تھے اور لگے پڑھنے، خیر سے جمعہ کی ابو کو دفتر سے چھٹی ہوتی تھی اور اسی دن کے اخبار کی بھی چھٹی مگر اسی دن میگزین آیا کرتا تھا جس میں ہمارے مطلب کی کافی چیزیں ہوا کرتی تھیں، اب میگزین تو دستیاب نہیں تھا لگے رنگین اوراق کی گردانی کرنے کہ شاید کوئی اچھا سا فیچر ہی مل جائے، لیکن اکثر سیاسی، معاشی اور سماجی فیچرز تھے جن کی ابھی تھوڑی سی بھی سوجھ بوجھ نہیں تھی۔پھر جمعرات کا اخبار ہاتھ لگا جس میں بچوں کا صفحہ ہوا کرتا تھا، وہیں سے ہمیں ایک بڑی ساری تحریر اور ڈھیر ساری ٹیولپ فیلڈزاور پھولوں کی تصویریں ملیں بس پھر کیا تھا ایک خزانہ ملا جیسے تمام تحریر اپنی ڈائری پر ہوبہو نقل کر ڈالی اسے گلِ لالہ کا ٹاٹئیل دیا ، اخبار کاٹ کر تمام تصاویر اس مضمون کے ساتھ ایسے چپکائیں جیسے آج کل بلاگ پر تحریر کے ساتھ دائیں یا بائیں چپکائی جاتی ہیں اور خالی جگہ میں متن لکھا جاتا ہے، لیجئے جناب ہماری زندگی کی پہلی تحریر جو گو کہ ہماری نہیں تھی لیکن جس ڈائری میں موجود تھی وہ ہماری اپنی تھی چونکہ ہمیں کاپی رائیٹ کا علم تو نہیں تھا اسوقت اس لئے تحریر بھی اپنی ہی سمجھتے تھے۔
یہ تھا اصل میں میری ادبی زندگی کا آغاز اور یہ تھا میرا ٹیولپ فیلڈز کی تصاویر کے ساتھ پہلا اور شاید آخری تعارف لیکن اس تعلق نے میری زندگی میں بہت بڑا بدلاؤ پیدا کر دیا، میں نے باقاعدہ ڈائری لکھنا شروع کر دی اور کئی سال تک وہی ڈائری لکھی، بہت کچھ لکھا اس میں کہیں شعر تو کہیں افسانے، کہیں اقوالِ زریں تو کہیں دل کی باتیں، اس ڈائری نے میرا اردو اور اردوادب کے ساتھ ایک تعلق قائم کر دیا جو آج نہیں ٹوٹ سکا البتہ یہ ضرور ہوا کہ اس کی شکل تبدیل ہو گئی ڈائری کی جگہ اردو نامہ کا صفحہ آ چکا ہے تو قلم کی جگہ ہاتھوں کی پوروں نے کی بورڈ کے بٹنوں سے شناسائی پیدا کر لی لیکن تعلق نہیں ٹوٹ پایا۔
اس ڈائری کے بعد دو تین سال پہلے تک میں نے بہت ساری ڈائریاں لکھیں، ان میں کچھ اپنی ذاتی زندگی کے حالات و واقعات پر مبنی تھیں تو کچھ تجربات پر کچھ میں انتخاب تھا تو کچھ میں صرف آٹو گراف لیکن جو مزہ اور جو فائدہ مجھے اس گلِ لالہ والی پہلی تحریر نے دیا بعد میں نا تو کبھی وہ مزا آیا اور نہ ہی وہ احساسات ۔ ڈائری لکھتے ہوئے کچھ شعوری طور پر اور کچھ لاشعوری طور پر اپنے اسی کزن کے طرزِ تحریر کو اپنانے کی کوشش کی جو کبھی کامیاب ہوئی اور کبھی نہیں لیکن میں سمجھتا ہوں کہ وہ جراثیم آج تک مجھ میں موجود ہیں اور جو بھی تحریر لکھتا ہوں اس میں مجھے آج بھی وہی انداز نظر آتا ہے جسے اپنانے کی خواہش میرے دل سے کبھی نہیں نکل سکی گو میں وہ انداز آج تک نہیں اپنا سکا لیکن اس میں کچھ نا کچھ دلچسپی والا عنصر آج بھی ڈالنے میں کامیاب ہو جاتا ہوں۔
تو شازل بھیا میں نہیں جانتا کہ آپ نے آج یہ تصویر کیوں اور کیسے یہاں لگائی لیکن تصویر دیکھ کر ایک لمحے کے ہزارویں حصے میں میری آنکھوں کے سامنے وہ بچہ آ کھڑا ہوا جو اپنے چھوٹے سے گھر کے آنگن میں لگے شیشم کے پیڑ کے نیچے بیٹھا صبح سے دوپہر تک اپنی ڈائری کے پہلے اوراق لکھنے میں مصروف تھا اور جب اس کے ہاتھوں وہ ڈائری کے صفحات مکمل ہو ئے تو اس کی خوشی دیدنی تھی اس کا سر فخر سے بلند ہو رہا تھا اور وہ اپنے چھوٹے سے قد سے بڑا نظر آنے کی کوشش کر رہا تھا۔
بس یہی وہ منظر تھا اور یہی اس معصوم بچے کا سنہرا بچپن تھا جسے پھر سے پانے کی حسرت نے آج بہت عرصے بعد ایک بار پھر سے میری آنکھوں میں آنسو آ گئے اور اس سب کے قصوروار آپ ہیں، کیونکہ آج نا تو وہ چھوٹا بچہ کوئی چھوٹا بچہ ہے نا اسے اس کا بچپن میسر ہے اور نہ ہی وہ شیشم کا پیڑ موجود ہے۔
[center][/center]
[center][/center]