رات کی دھوپ

ملکی اور غیر ملکی شخصیات کا تعارف اور اردونامہ کے ان کے ساتھ کیئے گئے انٹرویو پڑھنے کے لئے یہاں تشریف لائیں
Post Reply
علی عامر
معاون خاص
معاون خاص
Posts: 5391
Joined: Fri Mar 12, 2010 11:09 am
جنس:: مرد
Location: الشعيبہ - المملكةالعربيةالسعوديه
Contact:

رات کی دھوپ

Post by علی عامر »

ثروت محی الدین بنیادی طور پر پنجابی زبان کی شاعرہ ہیں۔ ان کی شاعری کی چار کتابیں شائع ہو چکی ہیں ۔کنیاں ،سیک سنہرے ، دو پھول کھلے ماہیا اور ”گیت حیاتی ہوئے“ جوہنگری کے مشہور شاعر پٹوسی کے کلام کا منظوم پنجابی ترجمہ ہے اورجس کی ایک نہایت باوقار تقریب کچھ ہی عرصہ پہلے ہنگر ی کے سفارت خانہ اسلام آباد میں منعقد ہوئی تھی ۔
ثروت کا پنجابی ادبیات کا مطالعہ خاصا وسیع ہے ۔خاص طور پر صوفی شعراءکے کلام ،پیغام اور فلسفے پر ان کی گہر ی نظر ہے ۔وہ وارث شاہ اور بلھے شاہ کے بارے میں حلقہ اربابِ ذوق کی مجالس میں اپنے مقالات پر دادو تحسین حاصل کرچکی ہیں اور بابا فرید سے خواجہ فرید تک تمام صوفی شعراءپرمختلف ملکی و بین الاقوامی یونیورسٹیوں میں لیکچرز دے چکی ہیں ،جن میں سویڈن اور سیکنڈے نیویاکی تین بڑی یونیورسٹیاںa ,Lund ,Uppsalاور KTHیعنی رائل ٹیکنیکل یونیورسٹی آف سٹاک ہوم بھی شامل ہےں۔وہ مختلف اوقات میں بہت سے ممالک میں منعقد ہونے والی کانفرسوں میں پاکستان کی نمائندگی کر چکی اورانڈیا اور دیگر کئی ممالک سے ادبی اورثقافتی ایوارڈز حاصل کر چکی ہیں جوملک اورقوم کے لیے بھی ایک اعزاز ہےں ۔وہ پاکستان پنجابی ادبی بورڈ کی ایک عرصہ سے رکن چلی آرہی ہیں اور اس سلسلے میں بھی ان کی ادبی خدمات لائقِ تحسین ہیں ۔ وہ ایک ممتاز علمی اورادبی سید گھرانے سے تعلق رکھتی ہیں۔ پنجابی کے ممتاز شاعر،دانشوراور سکالر نجم حسین سید ان کے شوہر ضیا محی الدین کے چھوٹے بھائی اور ان کے دیور ہیں ۔لیکن پنجابی زبان و ادب کے حوالے سے ان کی شخصیت کا ایک منفردرخ یہ ہے کہ وہ برس ہابرس تک اسلام آباد کے پوش علاقہ کے سفید پوش خواتین و حضرات میں ہیروارث شاہ کا ذوق اور شوق پیدا کرتی اور انہیں وارث شاہ کی فلاسفی سمجھا تی رہیں۔
میں پنجابی شعرو ادب کی حد تک ان کی صلاحیتوں کا معترف تھا مگر انہوں نے اردو زبان میں سویڈن کا سفر نامہ ”رات کی دھوپ “لکھ کر حیران کر دیا ۔ اگرچہ سفر نامہ لکھنے کی ترغیب و تحریک انہیں نیلوفر اقبال اور شمیم اکرام الحق نے دی ۔ لیکن اس میں کچھ حصہ حلقہ ارباب ذوق اسلام آباد ،رابطہ اور فکشن فورم کے اراکین کا بھی ہے جنہوں نے اس سفرنامے کی اقساط سن کر ان کا خوب حوصلہ بڑھایا بلکہ فکشن فورم کی رکنیت حاصل کرنے کے لےے جس کوالی فیکیشن یعنی نثرنگارہونے کی شرط تھی، وہ ان کے سفرنامے کی ایک آدھ قسط ہی نے پوری کر دی۔یوں بھی وہ اپنی دیگر دوستوں نیلوفر اقبال ، شمیم اکرام الحق اور فریدہ حفیظ کی طرح اتنی اچھی میزبان ہیں کہ فکشن فورم انہیں نظر انداز کرنا افورڈ نہیں کر سکتا تھا ۔ نیلوفراقبال کے بارے میں توفورم اب تک یہ فیصلہ نہیں کرپایاکہ وہ افسانہ نگاراچھی ہیں یا میزبان یادونوں ۔بہرحال یہ ایک الگ موضوع ہے۔
آپ جانتے ہیںکہ ہمارے ہاں سفرنامے دلچسپی سے پڑھے جاتے ہیں۔ ریڈرز کے علاوہ پاکستان کے پبلشرز میں بھی ناول اور خودنوشت کی طرح سفر نامہ ایک مقبولِ عام اور منافع بخش صنف ہے بلکہ بعض رائٹرز کی توگزراوقات کاذریعہ ہی سفرنامے ہیں۔اور اگرچہ زیادہ تر سفر نامے مرد حضرات نے لکھے ہیں اور ان میں اکثررومانیت اورافسانہ طرازی سے آلودہ ہوتے ہیں(یہاں عطاءالحق قاسمی کاوہ لطیفہ یادکیجئے جب دورانِ سفرمیںایک خاتون بارباران کی طرف جھک رہی تھی توانہوں نے کہا تھاخاتون آپ کوشایدمغالطہ ہواہے ۔ میں پاکستانی ضرورہوں لیکن میرانام عطاالحق قاسمی ہے ) لیکن ثروت نے میرے اس خیال کو یقین میں بدل دیا ہے کہ خواتین مردوں کی نسبت زیادہ اچھا سفر نامہ لکھ سکتی ہیں بشرطیکہ وہ ثروت کی طرح ذہین اور اعلیٰ تعلیم یافتہ ہوں اور انہیں سیاحت کے دوران لوگوں سے ملنے اور ان سے تبادلہ خیال کی سہولت اور آزادی میسر ہو ۔میری اس بات کا ایک ثبوت یہ ہے کہ اتنابہت ساوقت گزرجانے اور دنیاکے تبدیل ہو جانے کے بعد بھی پڑھنے والے اب بھی بیگم اختر ریاض الدین کے سفر ناموں کوتلاش کرتے پھرتے ہیں ۔میرا خیال ہے کہ مردانہ سفرنامے زیادہ تر خارج کا اوربڑ ے بڑے اہم واقعات کا احوال سناتے ہیں جب کہ خواتین کے لکھے ہو ئے سفرنامے کسی سوسائٹی اور اس کے افراد کے باطن میں بھی ضرور جھانکتے ہیں اور چھوٹی چھوٹی جزیات سے انہیں بھرپوربناتے ہیں ۔
میراذاتی تجربہ ہے کہ میں اگرشادی کی کسی تقریب میں اکیلاجاو¿ں یعنی بیگم کے بغیرتوواپسی پربیگم کے سوالوں کے جواب میں صرف اتنابتاپاتاہوں کہ کھانا کیسا تھا ، برات میں کتنے آدمی تھے اوروہ کتنی دیرسے آئی تھی ۔ یازیادہ سے زیاہ مجھے یاد رہتاہے کہ چھوہارے سوکھے سڑے ہوئے تھے یاکم پڑگئے تھے اورحق مہرکے مسئلے پر شرعی اورمعجل اورغیرمعجل کا تنازعہ کھڑاہوگیاتھا۔اگر زیادہ قریبی لوگ نہ ہوںتو اکثرمجھے یاد نہیں ہوتاکہ دولہاکیساتھا ۔ کیوں کہ میں نے اس کویاد رکھ کرکیاکرناہوتاہے ۔ اگروہ پوچھ بیٹھے کہ لڑکا کیا کام کرتاہے تومیں جھنجھلاکرجواب دیتاہوں کہ کچھ نہ کچھ ضرورکرتاہوگا،اگرنہیںکرتاتواب کرنے لگے گا۔لیکن اگروہ اکیلی یامیرے ساتھ شادی کی تقریب میں جائے توواپسی پروہ مجھے، سنوں یانہ سنوں، بغیرپوچھے ساری تفصیل بتاتی رہے گی ۔دلہن نے کیاکچھ پہناہواتھا اورکیسی لگ رہی تھی ۔ اس کامیک اپ کیساتھااور نکاح کی رسم میں تاخیراس کے پارلرسے دیرسے آنے کی وجہ سے ہوئی ۔میکے والوںنے کتنے جوڑے اورکیاکیا زیور بنائے ،سسرال والے کیاکچھ لے کرآئے اور جہیز میں کیاکچھ دیاگیا، سلامیوں اورتحائف کی تفصیل اورسالیوںاوررشتہ دارلڑکیوں کو برات کاراستہ روکنے اور دولہا کی جوتیاں چرانے میں کامیابی پر کتناانعام ملا ۔ شادی اپنوں میں ہوئی یاغیروں میں ۔لڑکے کے کتنے بہن بھائی ہیں اورکس کس کی شادی ہو چکی ہے۔ لڑکی سے چھوٹی ابھی بن بیاہی کتنی بہنیں ہیں۔اسے یہ بھی معلوم ہوگاکہ برات لیٹ کیوں آئی اور لڑکے کے ماموں ،پھپھڑیابہنوئی کومنانے میں کتنی دیرلگ گئی۔ بیچ بیچ میںوہ پوچھتی رہتی ہے کہ میں سن رہاہوں یانہیںاورمیں جواب میں ہوں ہاں کرتے کتاب یارسالے کے پچاس ساٹھ صفحات پڑھ لیتا ہوں ۔تونتیجہ اس گفتگوکایہ نکلاکہ خواتین چھوٹی چھوٹی باتوں اورجزیات کابھی خیال رکھتی ہیںاسی لیے وہ اون اورسلائیوں سے لمبے لمبے سویٹراورجرسیاں بن سکتی اورموٹے موٹے ناول اورسفرنامے لکھ سکتی ہیں۔کم از کم ثروت کا سفرنامہ پڑھتے ہوئے مجھے یہی خیال آتا رہا ۔
ایک اور اہم بات یہ ہے کہ خواتین کی ترجیحات مختلف ہوتی ہیں ان کی توجہ سیاست سے زیادہ انسانی ،گھریلواورخاندانی معاملات،قدرتی خوبصورتیوں ، واقعات اورمناظر کے جمالیاتی پہلووں پر نسبتاًزیادہ ہوتی ہے ۔مرد کے لیے حسن اورخوب صورتی کامطلب ایک ہی ہوتاہے۔ نسائی حسن اوروہ بھی ظاہری ۔ مگر خواتین کی نظر ملنے جلنے والوں کے رویوں،چیزوں کی نفاست، ترتیب وتوازن ،میزبان کے سلیقے اورایسی ہی دیگرباتوں پر بھی ہوتی ہے ۔ چنانچہ ثروت جب سویڈن کے کسی گھرمیں جاتی ہیںتو گھرکے ڈیزائن،تعمیراورسجاوٹ کی خوبیاں یاخرابیاں ، کھڑکیوں کے پردوں،قالینوں،فرنیچر، کراکری ،کٹلری ،کچن کی اشیاسے لے کرمیزبانوں کے رہن سہن ،عادات اوررویوں کابھی نوٹس لیتی ہیں۔وہ مکینوں کے باہمی تعلقات ، طرزِبودوباش، ان کے حقوق اورفرائض، بچوں کی دلچسپیوں اورسرگرمیوںاور کھانے کے آداب،معاشرتی رسم و رواج ،کھانوں کی اقسام اور پکانے کے طریقوں کے بارے میں بھی تفصیل جانناچاہتی ہیں۔ وہ میزبان ملک کے ہرتہوار کاپس منظرجاننا چاہتی ہیں۔شادی یا کسی تہواریا قومی تقریب کے موقع پر پہنے جانے والے ملبوسات اور انہیں تیار کرنے کی تفصیل ،بچوں اوربڑوں کے پسندیدہ کھیل ،مذہبی تقریبات منانے کے طور طریقے غرض یہ کہ وہ سماجی زندگی کی چھوٹی چھوٹی باتوں اور جزیات کو جاننا اورپڑھنے والوں کو بتاناچاہتی ہیں ۔ اورجب وہ گھرسے باہر ہوتی ہیںتوکسی خوبصورت سیرگاہ یا دل فریب قدرتی منظر کی محض تصویر کشی نہیں کرتیں اس سے پیدا ہونے والی خوشی یا اداسی کا تاثربھی بیان کرتی ہیں ۔ دونوں طرح کی کیفیات ان دومثالوں سے واضح ہو جائے گی۔
پہلی مثال: ”کھڑکی کے ساتھ بالکنی میں کھلنے والے دروازے کے شیشے پر اس وقت بھی سنہری روشنی کا عکس پڑرہا تھا ۔میں نے پلٹ کر کچن کی طرف دیکھا ۔کھڑکی میں سے سورج اسی طرح دکھائی دے رہا تھا ایک طرف سنہرے تھال جیسا گول سورج اور دوسری طرف چاندنی جیسی روشنی لےے اتنا ہی بڑا گول چاند آسمان پر تقریباً ایک ہی اونچائی پر نظر آرہے تھے میں پہلے ایک کو اور پھر دوسرے کو دیکھتی رہی ۔لیکن اس وقت میرے لےے فیصلہ کرنا دشوار تھا کہ دونوں میں سے زیادہ خوبصورت کون ساہے“
دوسری مثال:”میں وہیں بس کے انتظار میں بیٹھی ہوئی دیکھتی رہی ۔ایک عجیب سی اداسی اور تنہائی کا احساس تھا۔جو اندر اور باہر دونوں جگہ موجود تھا ۔عجب ویرانی تھی جو چاروں طرف پھیلی ہوئی تھی انتہائی خوبصورت شہرکتنا اجاڑ دکھائی دے رہا تھا ۔معلوم نہیں اس وقت وہ ماحول کی اداسی تھی یا میرے گرد پھیلی ہوئی ویرانی۔یا پھر شاید اندر کی تنہائی تھی مگر ان سوکھے پتوں کو دیکھ کر مجھے شاہ حسین کی کافی یاد آنے لگی ۔
”تن من بچھڑے تو پھر نہ ملے ،جیسے پیڑ سے ٹوٹے پتے ۔ہوش اگر نہ آئی اب تو اے میری جان،کہیں بے خبری میں بیت نہ جائے یہ تیزی سے گزرتی رات“
ایک اور خوش کن خوبی مجھے اس سفرنامے اور ثروت میں یہ نظر آئی کہ وہ جس نئی یا اہم چیز کو دیکھتی ہیں اس کی پوری ماہیت اور تاریخ جاننے اوربتانے کی کوشش کرتی ہیں جس سے نہ صرف یہ سفر نامہ پڑھنے والوں کی معلومات میں اضافہ کرتا ہے بلکہ اس کی ریڈ ایبلٹی میں کئی گنا اضافہ ہوجاتاہے ۔مثلا انہوں نے سویڈش بحری جنگی جہازWASAکے آغازِ سفر میں ساحل کے قریب ڈوب جانے اورساڑھے تین سوسال بعد سمندرسے نکالے جانے کی ایسی دلچسپ تفصیل سنائی کہ میرا جی چاہنے لگا کہ معلوم کروں ٹائی ٹینک کی طرح اس پر بھی کوئی فلم بنائی گئی یا افسانے اور ناول لکھے گئے ۔میں نے انٹرنیٹ پر سرچ کیا تو پتہ چلا کہ اس پر بہت سا لٹریچر اوروڈیو فلمیں موجود ہےں اور نہ صرف واسا بلکہ کئی اور ایسے جہازو ں کی تفصیل بھی موجود ہے جوڈوب گئے۔جیسے سترھویں صدی میں نیدرلینڈز کے بحری جہاز باٹاویا (Batavia) کی دلچسپ اورولولہ خیز روداد،جو مغربی آسٹریلیاسے چالیس میل دورجکارتاکے قریب ڈوب گیاتھااورجس پر متعددفلمیںاورڈرامے بنائے جا چکے ہیں۔
ثروت ہمیں بہت سی کہانیاں سناتی ہیں۔سویڈن کی ٹیلی فون بنانے والی ایرکسن کمپنی اوراس کے بانی لارس میگنس ایرکسن کی کہانی ، جس کی صدسالہ تقریب میں شرکت کے لیے وہ میاں بیوی مدعوکئے گئے تھے۔ کاریں بنانے والی وولوو(Volvo )کمپنی اوراس کے بانی کی کہانی۔ کیمرے کاذکرآتاہے تووہ وہاں کےHasseblad کیمرے اورفوٹوگرافی کی تفصیل سناتی اوربتاتی ہیںکہ۹۶۹۱ میں سب سے پہلے انسان نے چاندپرقدم رکھاتووہاں پرکھینچی جانے والی تصویروں میں استعمال ہونے والا سویڈین کایہی کیمرہ تھا۔اورایسٹرڈ لنڈ گرین جیسی لونگ لیجنڈ رائٹر کی کہانی۔کرسٹلز کے بنانے اور ان کی تراش خراش کی کہانی۔ وہ سویڈن کے بادشاہو ں ،ملکاوں،شہزادوں اورشہزادیوں کی کہانیاں بھی سناتی ہیں۔خاص طورپر یہ واقعہ پڑھ کرتعجب ہوااور اپنے ملک کی شہید شہزاد ی یادآئی کہ۲۳۶۱ میں سویڈن کابادشاہ جنگ میں ماراگیاتو اس کی اکلوتی بیٹی شہزادی Kristina صرف چھ برس کی تھی جس کے اٹھارہ سال کی عمرکوپہنچ کرملکہ بننے تک سویڈن کی حکومت کی باگ ڈور چانسلر کے ہاتھ میں رہی جس نے شہزادی کی پرورش بڑی توجہ اورشفقت سے کی اوروقت آنے پراسے ملکہ کاتاج پہنایا۔
ثروت کوپرندوں اوردیگرجان داروں سے بھی خاصی رغبت ہے سوائے شہدکی مکھیوں کے جن سے اس کاطالب علمی میں پالاپڑا تھا اور جن کے کاٹنے سے وہ کئی روز تک بخارمیں پھنکتی رہی تھیں۔ مگرسویڈن میںجین اورلارس کے گھرمیں شہد کی مکھیوںکے ساتھ دوتین ہفتے گزارنے کے بعد ان کاڈرخاصی حدتک دور ہوگیا ہوگا ۔ ثروت نے شہدکی مکھیوں کے بارے میں بھی نہایت دلچسپ تفصیل لکھی ہے ۔اس میں بعض باتیں میرے لیے نئی تھیں۔وہ وہاں کی گلہریوں،چڑیوں اورتتلیوں کوبھی نہیںبھولتیں اور اسی طرح ایک جگہ وہ نقل مکانی کرنے والے پرندوں یعنی کونجوں کاذکرکرتی ہیں توبہت دلچسپ انداز میں ۔وہ بتاتی ہیں کہ جب کوئی پرندہ کمزوری یابیماری کی وجہ سے گرجاتاہے تواس کے ساتھی اسے اکیلانہیں چھوڑتے بلکہ ایک اورپرندہ اس کے ہمراہ نیچے اترآتاہے اور اس وقت تک اس کا ساتھ دیتاہے جب تک وہ دوبارہ اڑنے کے قابل نہ ہوجائے یادم توڑدے۔اس کے بعد وہ کسی دوسری ٹولی کاانتظارکرتاہے کہ اس میں شامل ہوسکے۔وہ اکیلے سفرنہیں کرتے اسی لیے ”کونج وچھڑگئی ڈاروں“ جیسے لو ک گیتوں میںان کاذکر اورحوالہ ملتاہے۔
بعض روزمرہ زندگی کی بظاہر عام اورمعمولی باتیں ہیں مگران سے ہم اپنے ملک اورمعاشرے کاتقابل کرسکتے ہیں۔ جیسے سویڈن میں ریٹائر منٹ کی عمر ،جوپینسٹھ برس ہے مگرتریسٹھ برس کی عمرمیں بھی پنشن کے ساتھ ریٹائرمنٹ لی جاسکتی ہے۔بیوی کو میٹرنٹی لیو اورآسائشوں کے علاوہ شوہرکوبھی میٹرنٹی لیو مل سکتی ہے۔ہمارے ہاں ایساہوتوبہت سے دفاتر ہمیشہ چھوٹے سٹاف سے خالی ملیں۔(پنشن سے یاد آیا کہ کتابت کی غلطی سے ایک جگہ بصارت کی بجائے بصیرت چھپ گیا ہے اورفقرہ یوں ہے کہ وہاں بصیرت سے محروم لوگوں کوبھی پنشن ملتی ہے۔حالاں کہ ایساصرف ہمارے ہاں ہوتاہے اورپنشن ہی نہیں بعض اوقات وزارت اورسفارت بھی مل جاتی ہے۔)
سویڈن میں لوگ ایک دوسرے کی زندگیوں میں دخل اندازی نہیں کرتے۔شایداسی لئے تنہائی کاشکاررہتے ہیں۔وہاں سال کے ہردن کاالگ نام ہوتاہے اوراکثرلوگ اپنے بچوں کے یہی نام رکھ لیتے ہیں۔سویڈن میں پچاسویں سالگرہ خوب دھوم دھام سے منائی جاتی ہے اوراس کے بعد بھی راو¿نڈفگرسالگرہ یعنی ساٹھ ،ستر،اسی اورنوے سال کاہونے پربھی اسی طرح خاص اہتمام کیا جاتا ہے ۔ وہاں کی نئی نسل بعض اوقات شادی کوضروری نہیںسمجھتی اورایک ساتھ رہناشروع کردیتے ہیں۔اس کی ایک وجہ انہیں یہ معلوم ہوئی کہ وہاں ٹیکس بہت بھاری ہیںاورمیاں بیوی کی مشترکہ آمدنی پرجوٹیکس لگتاہے وہ خاصا زیادہ ہوتاہے۔
ثروت نے سویڈن کی ایسی جامع اورہرلحاظ سے مکمل تصویرکشی کی ہے کہ زندگی اورمعاشرت کے ہرپہلوکی عکاسی ہوگئی ہے ۔قدرتی منظروں، پہاڑوں، جھیلوں،درختوں،پھولوں ،خوشبوو¿ں اور سردی، گرمی ،پت جھڑاوربرف باری کے موسموںکے ذکرسے تویہ کتاب بھری پڑی ہے ۔بلکہ کہناچاہیے کہ اس کتاب کا موضوع ہی دھوپ اور موسموں کاتغیروتبدل اورسویڈن کی قدرتی خوب صورتیاں ہے۔لیکن اس کتاب میں قاری کی دلچسپی اورمعلوماتِ عامہ کی بہت سی ضروی چیزیں بھی ہیں۔ جیسے سویڈن کاجغرافیہ ،تاریخ ،محل وقوع ،سیکنڈے نیویا کے ممالک میں اس کی حیثیت اور اہمیت۔ زراعت کے طریقے ، سمر ہاو¿سس اور سمرفارمز، موسمی ہنکاو¿ اورمویشیوںکی فارمنگ ، سویڈن کے لوک گیت ،لوگوں میں موسیقی کا ذوق ،مختلف تہوارمنانے کے انداز،موسیقی کی محفلیںاورکنسرٹس اوراہم موسیقاروں ،مصوروںاورآرٹسٹس کی تفصیل۔ گھروں کوموم بتیوںاورروشنیوںسے سجانا وغیرہ۔
سویڈن کونوبل ایوارڈ کی وجہ سے بھی دنیابھرمیں جاناپہچاناجاتاہے ۔ثروت نے اس عظیم شخص الفرڈ نوبل کی سوانح بھی بہت عمدہ طریقے سے لکھی ہے۔وہ بتاتی ہیںکہ وہ جن پانچ شعبوں میں انسانی سرگرمیوں کی حوصلہ افزائی کرناچاہتاتھا ان میں فزکس،کیمسٹری،فزیالوجی یامیڈیسن ،لٹریچراورانسانوں کے درمیان اخوت اوربھائی چارے کی فضاقام کرنے یعنی امن کے شعبے شامل ہیں۔ وہ واقعی ایک دوراندیش،انسان دوست اور عظیم شخص تھا۔
میں سمجھتاہوں کہ ثروت محی الدین کایہ سفرنامہ ایک ایسی دستاویز ہے جونہ صرف عام قارئین کے ذوق ِ مطالعہ کی تسکین کرے گی بلکہ سویڈن کے معاشرے اورتہذیب و ثقافت کوسمجھنے اورپاکستان اورسویڈن کے عوام کوایک دوسرے کے قریب آنے میں مدددے گی۔ خوب صورت اسلوب میں لکھے ہوئے اس سفرنامہ کی اشاعت پرمیں مصنفہ کومبارک بادپیش کرتاہوں ۔
(تبصرہ نگار : منشایاد)
User avatar
چاند بابو
منتظم اعلٰی
منتظم اعلٰی
Posts: 22226
Joined: Mon Feb 25, 2008 3:46 pm
جنس:: مرد
Location: بوریوالا
Contact:

Re: رات کی دھوپ

Post by چاند بابو »

بہت خوب، عامر بھیا آپ نے بہت اچھے انداز میں تعارف پیش کیا جس پر آپ کا شکریہ۔
تحریر تھوڑے سے غلط ذمرے میں لگی ہوئی تھی جسے اب اس کی صحیح جگہ پر منتقل کر دیا گیا ہے۔
قصور ہو تو ہمارے حساب میں لکھ جائے
محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو
میں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو
انصاری آفاق احمد
مشاق
مشاق
Posts: 1263
Joined: Sun Oct 25, 2009 6:48 am
جنس:: مرد
Location: India maharastra nasik malegaon
Contact:

Re: رات کی دھوپ

Post by انصاری آفاق احمد »

السلام عليكم ورحمۃ اللہ وبركاتہ
بہت خوب
یا اللہ تعالٰی بدگمانی سے بد اعمالی سےغیبت سےعافیت کے ساتھ بچا.
Image
رضی الدین قاضی
معاون خاص
معاون خاص
Posts: 13369
Joined: Sat Mar 08, 2008 8:36 pm
جنس:: مرد
Location: نیو ممبئی (انڈیا)

Re: رات کی دھوپ

Post by رضی الدین قاضی »

تعارف نامہ شیئر کرنے کے لیئے شکریہ عامر بھائی۔
Post Reply

Return to “ادبی شخصیات کا تعارف نامہ”