سرکار دو عالم ﷺ کی سیرت سے رہنمائی !

اس ہستی کی زندگی کے اہم پہلو
Post Reply
اعجازالحسینی
مدیر
مدیر
Posts: 10960
Joined: Sat Oct 17, 2009 12:17 pm
جنس:: مرد
Location: اللہ کی زمین
Contact:

سرکار دو عالم ﷺ کی سیرت سے رہنمائی !

Post by اعجازالحسینی »

آج دنیا امن‘ امن پکار رہی ہے اور ترساں ہے‘ لرزاں ہے‘ زمین پر بھی امن چاہیے ،ماحول میں بھی امن چاہیے‘ دلوں کے اندر بھی امن کی ضرورت گویا امن وسلامتی اس دور میں انسانوں کی سب سے بڑی ضرورت بن چکی ہے‘ دنیا بھر کے کرتاؤں دھرتاؤں نے امن وسلامتی لانے کی بھر پور کوششیں کرلی ہیں‘ دنیا کے لحاظ سے جتنے بڑے آدمی ہیں‘ اصحابِ علم وفن ‘ دانشورانِ اقوام‘ مفکرین اور اہلِ فراست نے مقدور بھر کوششیں کر دیکھیں مگر امن کم ہی ہوا۔ دنیا میں بڑھا نہیں‘ الٹا خوف ہی زیادہ ہوا ہے کم نہیں ہوا۔ ایسا نظر آنے لگا کہ کرتا دھرتا سب کے سب تھک ہار گئے ہوں اور گویا کہ خود امن وسلامتی کے انتظار میں ہوں کہ کہیں سے امن آئے‘ سب یہ چاہنے لگے ہیں کہ ہمارے ماحول میں امن وسلامتی آجائے‘ اس کٹھن اور مایوس کن موقع پر اگر انسان چاہیں کہ سب کو دیکھ سن لیا‘ لاؤ! ایک نظر اللہ کے آخری نبی اور رسول اللہ ا کی جانب بھی تلاش رہنمائی میں ڈالیں تو موقع اچھا ہے۔
اللہ کے رسول ا کی تو پوری سیرت ہی رہنمائی ہے‘قدم قدم رہنمائی ہے کہ خود رب العالمین کی تربیت‘ رہنمائی اور امتثال امر میں اٹھا ہے ہرقدم‘ محسن انسانیت ا نے فلاں وقت میں کیا عمل اختیار فرمایا‘ فلاں وقت میں کیاکیا‘ یہ ہے دیکھنے کی چیز۔ فلاں مقصد میں کیا عمل اختیار فرمایا اور کیا طریقہ اختیار فرمایا‘ یہ سب دیکھنے کی چیز ہے اور بحمد اللہ! ایک ایک بات محفوظ بھی ہے‘ ہم دیکھتے ہیں کہ جیسے سرکار دوعالم ا صبح کرتے تھے یا شام‘ اپنے کریم رب تعالیٰ سے عاجزانہ دعا مانگتے تھے:

”اصبحنا واصبح الملک لله رب العالمین‘ اللّٰہم انی اسئلک خیر ہذا الیوم وفتحہ‘ ونصرہ‘ ونورہ‘ وبرکتہ‘ وہداہ‘ واعوذ بک من شر ما فیہ وشر ما بعدہ“۔
شام ہوتی تو سرکار دوعالم ا یہ دعا مانگتے:

”امسینا وامسی الملک لله رب العالمین‘ اللّٰہم انی اسئلک خیر ہذا اللیلة فتحہا ونصرہا ونورہا وبرکتہا وہداہا واعوذ بک من شر ما فیہا وشر مابعد ہا“۔(ابوداود)
یعنی ہم اور سارا ملک اللہ ہی کے لئے ہے جو رب العالمین ہے‘ صبح کے وقت میں داخل ہوئے‘ اے اللہ! میں تجھ سے اس روز کی بہتری بھلائی کا سوال کرتا ہوں یعنی اس دن کی فتح اور مدد اور اس دن کا نور اور برکت اور ہدایت کا سوال کرتا ہوں اور ان چیزوں کے شر سے جو اس دن میں ہیں اور جو اس کے بعد ہوں گی تیری پناہ چاہتاہوں ۔
سرکار دو عالم ا نے اپنے کریم رب سے پانچ چیزیں خاص طور پر طلب فرمائیں: ۱:․․․فتح‘ ۲:․․․نصرت ومدد‘۳:․․․ نور،۴:․․․ برکت ،۵:․․․ہدایت۔
اب آپ آیئے ان پانچ باتوں کی طرف! جو سرکار دو عالم ا نے خاص طور سے ہر صبح وشام اپنے رب کریم سے مانگی ہیں اور انہیں ان کی ضد سے مقابل کرکے دیکھیں۔
پہلی چیز:․․․ آپ ا نے فتح طلب فرمائی ہے۔ فتح کی ضد آتی ہے شکست‘ خدانخواستہ کسی قوم پر شکست پڑجائے تو اسے امن وسلامتی کہاں سے ملے گی؟
دوسری چیز:․․․ آپ ا نے مانگی ہے: مدد ونصرت۔ اس کی ضد ہے دشمن کی مدد۔ جس کے دشمن کی مدد اللہ تعالیٰ کررہا ہو اس قوم کو امن وسلامتی کہاں سے ملے؟
تیسری چیز:․․․ سرکار دوعالم ا نے طلب فرمایاہے نور‘ اس کی ضد ہے ظلمت یا اندھیرا۔ جو قوم اندھیرے میں پڑی رہے‘ اسے امن وسلامتی کہاں سے ملے؟جو کوئی چاہے انہیں اچک لے جائے‘ ان کو نظر بھی کچھ نہ آئے گا ۔
چوتھی چیز :․․․جو حضور اقدس ا نے مانگی وہ ہے برکت۔ اس کی ضد آتی ہے بے برکتی۔ جن لوگوں پر اللہ کی طرف سے بے برکتی پڑی ہو‘ کسی کا کچھ بنتا ہی نہ ہو‘ چھینا جھپٹی چل رہی ہو‘ امن وسلامتی وہاں کہاں سے آئے؟
پانچویں چیز :․․․جو آپ ا نے مانگی وہ ہے ہدایت ۔ جو لوگ ہدایت سے بھٹک جائیں‘ کبھی کدھر‘ کبھی کدھر۔ ان کو امن وسلامتی کہاں سے ملے؟ اب آپ دیکھ لیجئے امن وسلامتی کے لوازم سرکار دو عالم ا نے اللہ رب العالمین سے ہر روز صبح شام مانگے ہیں کہ یہ ملیں گے تو امن وسلامتی ملے گی اور اس سے بڑھ کر اور بھی بہت کچھ ملے گا۔
اصل معانی اور مفاہیم ان اصطلاحات کے وہی ہیں جو قرآن مجید اور حدیث پاک میں وارد ہوئے ہیں۔ فارسی اور اردو لغات میں یا عرف میں جو معنی مستعمل ہیں وہ ثانوی درجہ کی چیز ہے۔ علمی رخ سے استفادہ کرنے کا ارادہ ہو تو فارسی اور اردو کے علماء سے بھی استفادہ کیا جاسکتا ہے۔ اصل ان چیزوں کے جاننے والے تو علمائے کرام ہی ہیں جنہوں نے زندگیاں حفاظت واشاعت دین پر وقف کیں ‘جنہیں قوم نے تقریباً پس پشت ہی ڈال رکھا ہے۔ اصل علمائے کرام ہی ہیں جنہوں نے جناب رسول اللہ ا کے دامن اقدس کو پکڑ رکھا ہے اور اسی در سے استفادہ حاصل کرتے ہیں۔ یہ حضرات سب جاننے سمجھنے کے باوجود دنیاوی لیڈروں کی طرح اپنے کو دانا نہیں جانتے‘ اپنے کو بینا نہیں سمجھتے اور بلند بانگ دعاوی کے نزدیک سے ہو کر نہیں گذرتے۔
سرکار دو عالم ا کے در اقدس سے علمی استفادہ حاصل کرنے والوں کو اللہ کریم نے ایسی حکمتیں عطا فرمائی ہیں کہ انہوں نے سلامتیوں کے دروازے اللہ پاک سے کھلوالئے ہیں‘ حفاظت کا ذمہ اللہ تعالیٰ نے لے لیا اور انسانوں کو حفاظت وسلامتی ملی۔ اپنے اسماء الحسنی جن کے اندر انوار ومعارف وکبریائی کے سمندر بند ہیں‘ جیسے: یا ہادی‘ یا نور‘ یا نصیر‘ یا حفیظ یا سلام‘ اللہ کریم اپنے انہی ورثةالانبیاء پر کھولتا ہے۔ کیا ہی اچھا ہو کہ امت اپنے ان بڑوں سے رجوع ہو اور امن وسلامتی پانے کے لئے رہنمائی حاصل کرے۔
حالاتِ عالم شاہد ہیں کہ سلامتی‘ امن‘ حفاظت ان سب کو حاصل کرنے کے لئے انسانی عقل کافی نہیں‘ اگر عقل کافی ہوتی تو سب کچھ حاصل ہوچکا ہوتا‘ مافوق البشر ہستی کی جانب رجوع بے حد ضروری ہے اور وہ اللہ تعالیٰ اور اللہ کے سچے رسول ا کا مقام ہے‘ رہنمائی کے لئے ادھر دیکھنا اور وہاں سے رہنمائی لینا ‘ اوامر واحکامات حاصل کرنا اور انہیں پورا کرنا اشدضروری ہے‘ اللہ والے تو منشا مبارک پہچاننے اور اسے پورا کرنے کی کی کوشش کیا کرتے ہیں ۔

امن سلامتی کا مطلب کیا؟
اللہ تعالیٰ نے اپنے پاک کلام اور آخری کتاب میں امن سے متعلق بہت ساری رہنمائی ہمیں عطا فرما رکھی ہے‘ ارشاد الٰہی ہے:

”افأمنوا اہل القریٰ ان یأتیہم بأسنا بیاتاً وہم نائمون‘اوامن اہل القریٰ ان یاتیہم بأسنا ضحی وہم یلعبون‘ افأمنوا مکر الله ،فلایأمن مکر الله الا القوم الخاسرون“ (الاعراف:۹۷تا۹۹)
ترجمہ:․․․”کیا بستیوں کے رہنے والے اس سے بے خوف ہیں کہ ان پر ہمارا عذاب رات کو واقع ہو اور وہ بے خبر سورہے ہوں؟ اور کیا اہل شہر اس سے نڈر ہیں کہ ان پر ہمارا عذاب دن چڑھے آنازل ہو اور وہ کھیل رہے ہوں؟ کیا یہ لوگ اللہ تعالیٰ کے داؤ کا ڈر نہیں رکھتے ‘ سن لو اللہ کے داؤں سے وہی لوگ نڈر ہوتے ہیں جو نقصان اٹھانے والے ہیں“۔
ایک جگہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

”افأمنوا ان تأتیہم غاشیة من عذاب الله او تأتیہم الساعة بغتة وہم لایشعرون“ ۔ (یوسف:۱۰۷)
ترجمہ:․․․” کیا یہ اس بات سے بے خوف ہیں کہ ان پر خدا کا عذاب نازل ہو جو ان کو ڈھانپ لے یا ان پر ناگہانی قیامت آجائے اور انہیں خبر بھی نہ ہو“۔
گذشتہ آیت میں شرک سے خبر دار فرمایا ہے جو بڑا گناہ ہے۔دوسری جگہ یوں ارشاد عالی ہے:

”افأمن الذین مکروا السیاٰت ان یخسف الله بہم الارض او یأتیہم العذاب من حیث لایشعرون۔ او یأخذہم فی تقلبہم فما ہم بمعجزین‘ او یأخذہم علی تخوف فان ربکم لرؤف رحیم“۔ (النحل:۴۵تا۴۷)
ترجمہ:․․․”کیا جو لوگ بری بری چالیں چلتے ہیں اس بات سے بے خوف ہیں کہ خدا ان کو زمین میں دھنسا دے یا (ایسی طرف سے) ان پر عذاب آجائے کہ ان کو خبر ہی نہ ہو یا ان کو چلتے پھرتے پکڑلے‘ وہ خدا تعالیٰ کو عاجز نہیں کرسکتے یا جب ان کو عذاب کا ڈر پیدا ہوگیا ہو تو ان کو پکڑ لے‘ بے شک تمہارا پروردگار بہت شفقت کرنے والا اور مہربان ہے“۔
سورہ یوسف کی گذشتہ آیت کے ذیل حاشیہ فتح الحمید میں لکھا ہے کہ:
”جو صفات ذات خدا تعالیٰ سے مخصوص ہیں ان کے بارے اعتقاد رکھنا کہ وہ کسی اور میں بھی پائی جاتی ہیں یہ بھی شرک ہے اور آج کل کے مسلمان جو خدائے پاک کے بھی قائل ہیں اور ساتھ ہی قبر پرستی اور تعزیہ پرستی بھی کرتے ہیں یعنی ان میں اور اسی طرح کی اور چیزوں میں اللہ تعالیٰ کے سے تصرفات مانتے ہیں‘ اس آیت کے مصداق ہیں۔ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو اس بات کی توفیق بخشے کہ وہ اس کواس طرح مانیں اور اس پر اس طرح ایمان رکھیں کہ اس میں شرک کی مطلق آمیزش نہ ہو‘ ان کا ایمان بے شائبہ شرک کے ہو اور وہ خالص مؤمن ہوں“۔
مذکورہ بالا آیات سے جو بات کھل رہی ہے وہ یہ کہ اللہ تعالیٰ جل جلالہ رب العالمین سے امن پانا چاہو تو اس سے بے خوف مت ہورہنا۔

پاور آف دابیلٹ
ایک چیز ہوتی ہے رعایا اور خلیفہ کے درمیان معاہدہ بیعت یا عہد وقول قرار۔ خلافت کی موجودگی تک ایک سلسلہ بیعت تھا کہ ہرمسلمان پورے عالم کے اندر اپنی اپنی حکومتوں کے ذریعے خلیفہ وقت سے بیعت کا ایک تعلق رکھتا تھا اور خلیفہ صاحب کو اپنا روحانی اور بعض علاقوں‘ ممالک کے اعتبار سے مجازی یا سیاسی رہنما‘ قائد اور سر پرست مانتا تھا۔ خلافت ( ۱۹۲۴میں ) جب سے ٹوٹی اب مسلمان اپنے اپنے سربراہ کے چناؤ یا انتخاب میں ایک رائے دے کر اس کے ساتھ تعلق ظاہر کرتا ہے۔ منتخب شخصیت اپنی جانب سے پوری قوم اور انسانیت کے سامنے حلف اٹھاتی ہے کہ جس نے رائے دی یا نہیں دی یا برخلاف دی‘ میں سب کا خیال رکھوں گا۔
صدر مملکت اور وزیر اعظم کے حلف نامے ایک سے ہیں‘فرق نہیں۔ امت کے اندر جہاں شاہی نظام ہے‘ جیسے: اردن‘ عرب ‘ مسقط‘ برونائی دار السلام‘ مراکش یا جہاں آئینی بادشاہت ہے جیسے: ملائیشیا وہاں بادشاہ اور ان کے وزرائے اعظم ایسا ہی حلف اٹھاتے ہیں‘ معمولی الفاظ کے فرق سے۔ ان احلاف سے بھی پتہ چلتا ہے کہ پوری امت کے اندر اہمیت اللہ کے دین کو حاصل ہوگی ‘یہی کافر ملک اور مسلمان ملک کا فرق ہے‘ آج کی دنیا میں۔ برطانیہ ‘ امریکہ‘ چین‘ جاپان اور ہندوستان وغیرہ کے آئین میں آپ کو اسلام اور نظریہ اسلام جیسا کوئی تذکرہ نہ ملے گا۔ فکر کی بات زیر غور یہ ہے کہ باوجود احلاف کے‘ اپنے لوگوں کو امن وسلامتی نہیں دلا سکے‘ وجہ کیاہے؟ کہہ دوں؟ آپ کے سامنے ہے وجہ‘ کہ رہنمائی کہیں اور تلاش کی جارہی ہے۔
دوسری چیز ہوتی ہے پرانوں اور تاریخ کے بڑوں کے واقعات جنہوں نے امن وسلامتی کے لئے جد وجہد کی۔ اس عنوان سے ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت صدیق اکبر  کے وقت پورا نقشہ درہم برہم تھا‘ باہر کے خطرات بھی سر پہ منڈ لارہے تھے‘ اندر کے ان سے زیادہ ۔بغاوت ہرطرف اور دشمن کے حملے کا ڈرہر وقت۔ دیکھئے! کیا اقدامات کئے‘ امن وسلامتی لانے کے لئے‘ کیا حکمت عملی اختیار فرمائی؟ سب سے پہلے اہمیت دین کو دی‘ کسی قبیلے نے کلمے کا انکار کیا تھا جیسے بنی حنیفہ وغیرہ ان کی جانب سب سے پہلے توجہ دی‘ گیارہ لشکر یکے بعد دیگرے روانہ کئے۔ بعض قبائل نے نماز کا انکار کیا اور بعض نے زکوٰة کا۔ پھر ان کی جانب خود متوجہ ہوئے۔ دین میں رعایتیں حاصل کرنے کو دباؤ ڈالنے جو قبائل مدینہ پر یلغار کو پہنچ گئے تھے ان کے مقابلہ کو خود نکلے۔ مگر ان سب سے پہلے اہمیت اس چیز کو دی جو اللہ کے آخری نبی اور رسول ا حکم کر گئے تھے۔ حضور اقدس ا نے اپنے ہاتھ سے جھنڈا بنا کر حضرت اسامہ بن زید  کے حوالہ کیا تھا اور انہیں روم پر اقدام کا حکم فرمایا تھا‘ حالات دگر گوں ہوئے تو یہ لشکر رک گیا‘ حضرت صدیق اکبر  نے بیٹھتے ہی اسے نکالنے کی ٹھانی۔ کہ اللہ کا حکم پورا ہوگا‘ اللہ کے رسول ا کا حکم پورا ہوگا۔باقی جو ہوتا ہو ہوتا رہے‘ پرواہ نہیں۔ اس اقدام کی دہشت ہی سے بیرونی خطرہ بھی رکا اور اندرونی سطح بھی قدرے ہموار ہوئی۔ اگر وقتی حالات کے دباؤ میں آکر اللہ ورسول کے احکامات کو مؤخر کردیا جاتا تو یہ خیر وخوبی اور امن وسلامتی شاید حاصل نہ ہوسکتی۔ اب رہنمائی کیا ملی؟ کہ حالات جو بھی ہوں ،سب سے پہلے اللہ اور رسول اللہ ا کے حکم کو پورا کرناہے۔
[center]ہوا کے رخ پے چلتا ہے چراغِ آرزو اب تک
دلِ برباد میں اب بھی کسی کی یاد باقی ہے
[/center]

روابط: بلاگ|ویب سائیٹ|سکرائبڈ |ٹویٹر
اعجازالحسینی
مدیر
مدیر
Posts: 10960
Joined: Sat Oct 17, 2009 12:17 pm
جنس:: مرد
Location: اللہ کی زمین
Contact:

Re: سرکار دو عالم ﷺ کی سیرت سے رہنمائی !

Post by اعجازالحسینی »

قوانین ومعاہدات امن
تیسری چیز ہیں وہ قوانین جن سے ملکوں نے امن پایا۔ جب دو ملک یا قومیں ٹکراتی ہیں‘ بدامنی‘ فساد‘ جنگ ہوتی ہے‘ خوب تباہی وبربادی کے بعد آخر جنگ بند کرنا پڑتی ہے۔ اس جنگ بندی معاہدے کے نتیجے میں امن لانے کی کوشش ہوتی ہے تاکہ آئندہ پھر نہ کہیں جنگ کا شعلہ بھڑکنے پائے۔
یورپی تاریخ میں جرمنی اور فرانس لڑتے آئے ہیں۔ دوسرحدی صوبے الساس اور لورین پر دونوں کا دعویٰ ہے۔ آج یہ صوبے فرانس کے پاس ہیں زبردست لڑائیوں میں سنہ ۱۸۳۹ء اور سنہ ۱۸۷۰ء مشہور ہیں جن کے بعد عالمی جنگ اول اور دوم لڑی گئیں۔ ہردفعہ معاہدہ ہوا لیکن چونکہ انصاف میں کسی نہ کسی کا پلہ بھاری اور جھکا رہا، اس لئے امن جس چیز کا نام تھا وہ مفقود رہی‘ گویا قوانین سازی تو ہوئی۔ تم یہ یہ کرنا‘ فلاں نے وہ وہ کرنا ہے اور فلاں یہ کرے گا‘ وہ کرے گا وغیرہ‘ مگر امن پائیدار نہ ہوا۔ امن عدل مانگتا ہے اور فاتح عدل کو جانتا نہیں۔ اگر ان دونوں پر چھوڑدیا جائے گا‘ امن کبھی قائم نہ ہوگا‘ کسی سطح پر قائم ہوبھی گیا تو وقتی ہوگا‘ عارضی ہوگا۔ ہرغالب قوت عدل کا مطلب اپنا بناتی ہے‘ وہ نہیں جو انسانیت کے فائدے کا ہو اور سب کو اپنا اپنا حق ملتا ہو۔ یہ چیز صرف دین سکھا تا ہے اور وہ بھی کامل شریعت جو دین کامل کے پاس ہے۔ پہلے ادیان کامل نہ تھے‘ ان کی شرائع بھی اپنے وقت تک ہی ٹھیک تھیں‘ سب زمانوں‘ مکانوں کے لئے نہیں۔ یورپ کو دیگر لوگوں سے زیادہ اس بات کا احساس ہے کہ یورپ کا امن جو سنہ ۱۹۴۵ء میں ٹریٹی آف ورسیلز کے ذریعہ دوسری عالمی جنگ ختم ہونے کے بعد قائم ہوا تھا‘ زیادہ دنوں چلے گا نہیں۔ اسی خطرے کے پیش نظر یورپین کمیشن اور کامن مارکیٹ اور اب یورپی یونین کی شکلیں ابھری ہیں‘ یہ سب کچھ کرکے بھی ان کے بڑے اندر اندر سے خائف ہیں کہ معلوم نہیں یہ امن کب رخصت ہو۔ وجہ؟ یورپی ذہن رومن لاء کے فریم ورک میں کام کرتا ہے اور رومی قانون بنیادی طور پہ ناہموار ہے۔ فاتح ‘مفتوح کو ایک سطح پر نہیں رکھتا‘ کالے گو رے کو ایک سطح پر نہیں دیکھ سکتا ۔حالیہ مثال اس امن کی وہ ہے جو بوسنیا میں سالوں مسلمان کو ختم کرنے اور ملک تباہ کرنے کی ہمہ جہات جنگ کے بعد بچے کھچے مسلمانوں کو دبا کر اور ان کے قاتل سرووں وغیرہ کو تمام مراعات واختیارات دے کر قائم کیا ہے۔ دراصل مغربی مفکر کے ذہن میں امن کا تصور اپنا ہے گورے کا امن وہ نہیں جو کالے کا امن ہے۔ یوں بے انصاف امن ایک وقتی دھونس دھاندلی ہوتی ہے‘ بس۔
انسانی کوشش اور الٰہی ترتیب میں ہمیشہ وہ فرق رہے گا جو محدود اور لامحدود کے درمیان رہتا ہے‘ اور جو فرق اس قدر وسیع ہے کہ اسے ناپنے کا آج تک کوئی پیمانہ‘ فٹا‘ اسکیل ایجاد نہیں ہوسکا ۔اسلام کے ہر کام کے اندر وسائل حاضرہ کو استعمال میں تولایا جاتا ہے لیکن بھروسہ ایک وحدہ لاشریک قوت وطاقت والی ذات عالی پہ رکھاجاتاہے۔ سرکار دو عالم ا چونکہ اپنے کریم رب تعالیٰ سے سب سے زیادہ قریب تھے‘ آپ کا اللہ جل شانہ کی جانب تبتل‘ کنارہ کشی اور التفات بھی ہر دم تھا اور سب لوگوں سے زیادہ مضبوط تھا۔ انسان کا جتنا تعلق اپنے کریم رب تعالیٰ سے مضبوط ہوگا اتنی اس کی دعا جاندار‘ شاندار اور مضبوط ہوگی۔ خالق ومالک کائنات اور شہنشاہ‘ بادشاہ عالم سے دعا مانگنا انسان کے ہاتھ میں ایک زبردست وسیلہ ہے‘ جسے آج کا مغرب زدہ مسلمان‘ کافر کی طرح اپنے وسائل میں شمار نہیں کرتا۔

پانچ چیزیں
آیئے اب ان پانچ مطلوب چیزوں کے معانی دیکھیں ‘جنہیں جناب رسول اللہ ا نے ہر صبح‘ ہر شام اپنے رب تعالیٰ جل جلالہ سے مانگا ہے :
پہلی چیز جو آپ ا نے مانگی‘ وہ ہے فتح۔ ہم فتح سے کیا مراد لیتے ہیں؟ سورة الفتح یہاں سے شروع ہوتی ہے: ”انا فتحنا لک فتحاً مبینا“ ۔․․․․”اے نبی ! ہم نے آپ کو کھلی فتح عطا فرمادی“۔
آیات کاشان نزول جاننے سے ان کے معانی سمجھنا آسان ہوتا ہے۔ اہل تفسیر نے لکھا ہے کہ سنہ :۶ ہجری میں جبکہ اسلام ہر طرف سے سخت دباؤ میں تھا اور چند ہی ماہ پہلے عرب اور یہود کی الائیڈ فورسز چڑھ کے مدینہ منورہ کو روندنے پہنچیں تھیں۔ خندق پر ۔آپ ا ۱۴۰۰ جان نثار صحابہ کرام کے ہمراہ عمرہ ادا کرنے مکہ مکرمہ کی جانب روانہ ہوئے۔قریش مکہ نے دشمنی کے سبب آپ کو روک دیا۔ بڑی تگ ودو کے بعد ایک معاہدہ طے ہوا جس کا نام صلح حدیبیہ پڑا کہ اس سال نہیں‘ اگلے سال آکر آپ تین روز میں عمرہ کرجایئے ۔یہ معاہدہ مسلمانوں پر کئی وجوہات سے بہت ہی بھاری پڑا تھا۔ لہذا سب کے سب نہایت رنجیدہ خاطر مدینہ منورہ کو واپس لوٹ رہے تھے کہ غالباً پہلی منزل پر یہ سورة نازل ہوگئی جس کے بارے میں حضور ا نے ارشاد فرمایا کہ: مجھ پر ایسی چیز اتری ہے جو دنیا ومافیہا سے زیادہ قیمتی ہے‘ گویا صلح حدیبیہ کو اللہ تعالیٰ عظیم الشان فتح ارشاد فرمارہے ہیں۔ کچھ زیادہ مدت نہ گذری کہ اس صلح کے فوائد ایک ایک کرکے کھلنے لگے ‘مثلاً: پہلی مرتبہ عرب میں ایک اسلامی ریاست کا وجودتسلیم کرلیا گیا اور یہ بھی اذن عام ہوا کہ جن قبائل اقوام نے کافروں مشرکوں کے ساتھ شامل ہونا ہے‘ ہوجائیں اور جنہوں نے مسلمانوں کے ساتھ شامل ہوناہے‘ ہوجائیں ۔
دوسری فتح یہ ہوئی کہ مسلمانوں کے لئے زیارت بیت اللہ کا حق تسلیم کرکے دشمن نے یہ مان لیا کہ اسلام کوئی بے دینی نہیں ہے جو بات کہ قریش اب تک کہتے آئے تھے۔
تیسری فتح‘ یہ کہ دس برس تک جنگ بندی کرکے اسلام کو تبلیغ اور دعوت عام کا موقع ہاتھ آگیا‘ پورا ملک اللہ کے پیغام کے لئے کھل گیا‘ یہ تھی عظیم فتح۔
چوتھی فتح: شمال اور وسطی عرب میں اللہ پاک نے یہود اور ان کے حلیف قبائل پردی اور اسی دورانیہ میں مسلم معاشرت مستحکم ہوئی۔ سال دوسال میں عرب کی طاقت کا توازن بدل چکا تھا‘ حتی کہ دو ہی سال بعد فتح مکہ سے پورا نقشہ ہی بدل گیا اور فوجاً فوجاً دور نزدیک کے قبائل اللہ کے دین میں داخل ہوگئے۔ یہ سب برکات اس چیز کے اندر چھپی تھیں جسے مسلمان تو بھاری سمجھ رہے تھے مگر خود خالق کائنات نے اسے فتح فرمایا تھا ۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود‘ حضرت جابر بن عبد اللہ اور حضرت براء بن عازب تینوں حضرات سے قریب ایک ہی معنی میں یہ قول منقول ہوا ہے کہ :
”لوگ فتح مکہ کو فتح کہتے ہیں حالانکہ ہم اصل فتح حدیبیہ کو سمجھتے ہیں“۔ (بخاری‘ مسلم‘ مسند احمد ‘ ابن جریر)
اب ایک نظر دوڑایئے آج کے عالم اسلام اور عالم کفر پر۔ ہم دیکھتے ہیں کہ خود مسلم ممالک فتح ہوئے پڑے ہیں کفار کے سامنے یعنی ہرطرح ان کے لئے مفتوح ہیں‘ کھلے پڑے ہیں کافروں کے لئے۔ مسلمان ممالک میں آنے جانے پر کوئی پابندی نہیں‘ پانچ سال کا ویزا فوراً لو۔ کوئی مسلمان آنا چاہے مسلمان کے ملک میں نہیں آسکتا‘ ویزا بند۔ کافر جتنی چاہے دولت مسلمان ملکوں میں لائے‘ لے جائے کوئی پابندی نہیں۔ مسلمان کافروں کے ملک میں دولت لاتو سکتا ہے‘ لے جا نہیں سکتا‘ سخت پابندی ہے۔ کافر کے ہر کباڑ‘ کچرا ،کنڈم مال کی منڈی ہم۔ ہمارا مال کافروں کے ملکوں میں جائے نہیں جا سکتا‘ کوٹہ لگا ہوا ہے‘ بیرئر لگے ہوئے ہیں‘ گاٹ لگاہوا ہے‘ ٹیرف لگا ہوا ہے‘ دیواریں کھڑی ہیں۔ تبلیغ‘ ان کے لئے ہماری جھگی جھونپڑی تک سب کھلی ہے‘ سوسو دو دو سو چینل چل رہی ہیں‘ مغربی ذرائع ابلاغ کیبل میں پہنچے ہمارے گھر گھر۔ ہماری کوئی تبلیغ نہیں جارہی کافر دیس۔ ویزا نہیں مل سکتا ‘ جاؤ‘ نہیں دیتے اجازت‘ کرلو جو کرناہے۔ نہ چل کر‘نہ اڑ کر‘ نہ ہوا کے دوش آپ کا پیغام وہاں پہنچ سکے۔ جنگی فتح کا حال دیکھناہو تو آپ دیکھ لیجئے مسلمانوں کے ملکوں پر بمباریاں چڑھائیاں ہیں عالم بھر میں یا کافروں کے ممالک پر؟ کس کی فوجیں کس کے ملک پر چڑھی بیٹھی ہیں؟ کیا مسلمانوں کو اپنے پیارے نبی پاک ا کی دعا کی ضرورت نہیں؟؟
۲:-دوسری چیز: آپ ا نے جو مستقل مانگی اپنے کریم رب تعالیٰ سے، وہ تھی نصرت‘ مدد۔ چنانچہ سورة الفتح ہی میں اللہ کریم نے ارشاد فرمایا:”ینصرک الله نصراً عزیزاً“ ․․․”اور تاکہ تم کو زبردست نصرت ومدد بخشے“۔
گویا اس صلح سے اللہ پاک نے آپ کی ایسی مدد فرمائی ہے جس سے آپ ا کے دشمن عاجز ہوجائیں گے اور یہ ایسی بے مثل مدد ہوگی کہ کسی کی ایسی مدد ہوئی نہیں۔ پھر سورة نصر جو قرآن مجید کی آخری سورت مانی جاتی ہے اس مضمون پراتری‘ اس میں بھی اللہ کی مدد اور فتح کا تذکرہ فرمایا ہے‘ شاید کہ یہاں اشارہ تکمیل امداد کی جانب ہو اور ایسی فتح کہ جس کے بعد کوئی اس دین کے خلاف سراٹھانے کے قابل نہ رہا‘ جیساکہ حضور اقدس ا کے اواخر ایام میں ہوا۔ اس کی عملی شکل کریم رب تعالیٰ نے یوں بتلائی کہ آپ خود بھی مشاہدہ فرمالیں کہ لوگ فوج در فوج اللہ کے دین میں داخل ہونے لگے یعنی کہاں یہ حالت تھی کہ ایک ایک دو دو کرکے بمشکل اسلام قبول ہور ہا تھا اور اب یہ کہ اقوام کی دوڑ ہے‘ کون پہلے اسلام لائے۔ اسے اللہ پاک نے زبردست مدد اور فیصلہ کن فتح ارشاد فرمایا ہے۔
کیا آج ہمیں اس چیز کی ضرورت نہیں؟ اقوام اور افراد دنیا بھر میں ہدایت کو تڑپ رہے ہیں‘ حق کو پانا چاہتے ہیں سچ کی تلاش میں ہیں‘ چاہے اکادکا ہی ہوں لیکن ان کے پیچھے اقوام ہیں مایوسی میں ڈوبی پڑی۔ راستہ نہیں مل رہا‘ اللہ کریم کی مدد آجائے فیصلہ کن تو اقوام عالم کے لئے اسلام میں داخلے کے گیٹ کھل جائیں گے کہ نہیں؟ جب قوموں کی قومیں اور ملکوں کے ملک داخل ہونے لگے اسلام کے اندر‘ انشاء اللہ آپ کو امن وسلامتی مل جائے گی اور یہ تو اس کی برکات کا بقول: جھونگا ہوگا‘ اصل فائدے منافع تو اور بہت۔
۳:-تیسری چیز: جو اللہ کے سچے نبی ا نے طلب فرمائی ہے مستقل‘ وہ کیا ہے؟ وہ ہے‘ نور۔ سورة النور میں ارشاد پاک ہوتاہے:
”․․․”اللہ ہے نور آسمانوں زمینوں کا“ آگے فرمایا:”راہ دکھلادیتا ہے اپنے نور کی جس کو چاہے“ آگے فرمایا: ․․․”اور جس کو اللہ نور نہ دے اسے کہیں سے بھی نور نہیں مل سکتا“۔(النور:۴۰)
دیگر مقامات پر ظلمات اور نور تقابلی انداز میں لائے ہیں‘ جیسے البقرة:۲۵۷۔ بقول واقدی: اس سے مراد ایمان اور کفر ہے (تفسیر مظہری) یوں مطلب اللہ پاک کی ذات عالی کو پانا بھی ہوسکتا ہے اور ایمان کامل پانا بھی۔
امت کے اندر معروضی حالات میں دیکھ لیں تو کیا ہمیں اس چیز کی ضرورت نہیں؟ اور سب کچھ پالیا ایک اللہ ہی کو نہ پایا تو کیا پایا؟ یا پھر پلازے بنالئے۔ ایک ایمان ہی نہ بنا یا تو کیا بنایا؟ ایک اللہ کی طرف انسانیت چل پڑے‘ اس کی رضا اور خوشنودی پانے کو بڑھے تو دنیا میں امن قائم ہوگا یا جنگ؟ پھر جنگ کس بات کی؟ سب ہی تو اللہ کے طالب۔ یوں قائم ہو سکتا ہے امن۔ ایمان بنانے میں جتنا بڑھے انسان۔ اللہ جل وعلیٰ کی خوشنودی پانے کو جتنا بڑھے‘ امن ہی امن۔ نور کامل اور کھلی روشنی میں چور ڈاکو اچکے اور دشمن سے بھی امن رہتا ہے اور آپس کا بھی پیار ومحبت‘ تعلق والفت بڑھتا ہے۔
۴:-چوتھی چیز‘ جو سرکار دوعالم ا نے مانگی ہے‘ مستقل صبح شام‘ وہ ہے برکت۔ اس کا مفہوم کیا ہے؟ سورة الاعراف میں ارشاد پاک ہوتا ہے:

”ولو ان اہل القریٰ آمنوا واتقوا لفتحنا علیہم برکٰت من السماء والارض ولکن کذبوا فاخذناہم بما کانوا یکسبون“۔ (الاعراف:۶۹)
ترجمہ:․․․”اگر ان بستیوں کے لوگ ایمان لے آتے اور پرہیز گار ہوجاتے تو ہم ان پر آسمان وزمین کی برکات کھول دیتے مگر انہوں نے تو جھٹلایا۔ پس ان کے اعمال کی سزا میں ہم نے ان کو پکڑلیا“۔
امام رازی  نے فرمایا ہے کہ: برکت کا لفظ دو معنی میں استعمال ہوتا ہے:۱:- ایک تو خیر باقی اور دائم کو برکت بولتے ہیں۔۲:- دوسرے کثرت آثار فاضلہ کو۔ یعنی غیر منقطع خوشحالی (تفسیر عثمانی) برکت کا لغوی مفہوم ہے زیادتی اور کسی چیز کا زوال نہ ہونا (تفسیر مظہری) اصل چیز واقع میں بڑھ جاتی ہے جیسے تھوڑے سے پانی سے پورا قافلہ سیراب ہوگیا تھوڑے سے کھانے سے ایک عظیم مجمع شکم سیر ہوگیا اور کبھی چیز اتنی ہی رہتی ہے مگر کام اس سے بہت زیادہ نکل آتے ہیں جیسے گھر کے کسی برتن یا کپڑے سے انسان کا زندگی بھر فائدہ اٹھانا۔ یہ برکت انسان کے مال جان وقت میں بھی ہوتی ہے (معارف القرآن) حضور ا نے یہ چیز صبح شام رب تعالیٰ سے مانگی ہے۔
اب ذرا نظر ڈالیئے امت کے حالاتِ حاضرہ پر ۔ وسائل بہت ہیں‘ فائدہ کچھ نہیں۔ تیل‘ ہیرے جواہر زمرد‘ معادن‘ افرادی قوت‘ صلاحیت سب ہے‘ پر غیروں کے کام آرہاہے۔ زمینی پیداوار پہلے سے بہت زائد ہے‘ استعمال اشیاء کی بہتات ہے‘ ایجادات بے حساب ہیں‘ انسان سخت پریشان ہے‘ بیمار ہے‘ تنگدست ہے۔ آرام راحت‘ امن واطمینان کا وجود نہیں‘ سامان سارے موجود ہیں‘ بکثرت موجود ہیں پر برکت مٹ گئی جو ایمان وتقویٰ پر موقوف تھی‘ چنانچہ تھوڑے والا بھی پریشان ہے زیادہ والا اس سے زیادہ پریشان‘ چھین جھپٹ‘ دھوکہ غبن‘ فراڈ‘ لالچ ‘ ہوس سے ماحول میں افراتفری ابھرتی ہے ۔ ایک دوسرے پر عدم اعتبار پیدا ہوتا ہے اور خوف ‘ نفسا نفسی‘ عدم اعتماد کی فضا جنم لیتی ہے جس کا جب داؤ لگے‘ لگائے۔ ایسی صورت میں امن کہاں سے آئے؟
۵:-پانچویں چیز: سرکار دوعالم ا نے مستقل جو مانگی ہے‘ وہ ہدایت ہے‘ چنانچہ اسی عالیشان سورة میں اللہ کریم ارشاد فرمارہے ہیں:

”لیغفر لک الله ما تقدم من ذنبک وما تاخر ویتم نعمتہ علیک ویہدیک صراطاً مستقیما“ ۔ (الفتح:۲)
ترجمہ:․․․”تاکہ اللہ اگلی پچھلی تمہاری ہرکوتاہی سے درگذر فرمائے اور تم پر اپنی نعمت کی تکمیل کردے اور تمہیں سیدھا راستہ دکھائے“۔
ہدایت کا تذکرہ لاتے ہوئے اللہ کریم نے یہاں اتمام نعمت کا بھی تذکرہ فرمادیایعنی مسلمان اپنی جگہ پر ہر خوف‘ مزاحمت اور بیرونی مداخلت سے محفوظ ہوکر پوری طرح دین اسلام کے قوانین ‘ احکامات ‘ تہذیب وتمدن‘ معاشرت‘ قضا وعدل کے ساتھ ترتیب زندگی قائم کرنے کو آزاد ہوجائیں اور ان کو یہ طاقت قوت بھی نصیب ہوجائے کہ وہ دنیا میں اللہ کا کلمہ بلند کر سکیں‘ گویا اسلام کی مزاحمت کرنے والی تمام قوتیں مغلوب ہوگئیں‘ گویا ہدایت کا سیدھا راستہ فتح وکامرانی کا اور تکمیل دین کا راستہ دکھادیا۔ یوں ملا تھا امن۔
آج امت کے حالات کیا ہیں؟ بیرونی مداخلت ہر طرف‘ دین کی مزاحمت ہر طرف‘ نہ اندون محفوظ نہ بیرون محفوظ تو کیا مسلمان کا کام نہیں کہ اپنے پیارے نبی ا والی دعا مانگنے لگے‘ تاکہ ہدایت کی ارزانی ہو اور دین اپنی مکمل شکل کے اندروجود پائے۔ یہ ہوگا تو امن سلامتی بھی مل جائے گی سب کو ۔ نہیں ہوگا تو نہیں ملے گی۔ صاف بات۔ اور کیا یہ سب فضل وکرم اللہ جل جلالہ کی نافرمانی‘ اس کے مقابلے‘ بغاوت اور گناہوں کے موجودہ شیوع کے ساتھ حاصل ہوجائے گا؟ گناہ کو تو چھوڑنا ہی ہوگا۔ اس غلاظت وتعفن سے ہم جتنا جلدی نکل آئیں اپنا ہی فائدہ ہے۔ تو بات اتنی ہوئی کہ جس چیز میں بھی رہنمائی کی ضرورت ہو‘ کامل نمونہ کی طرف دیکھنا‘ کسی اور جانب نہ دیکھنے لگ جانا۔ صحیح اور کامل رہنمائی سرکار دوعالم ا کی سیرت سے ملے گی اور یہی دونوں جہانوں میں کامیابی کا راستہ ہے۔

بشکریہ بینات
[link]http://www.banuri.edu.pk/ur/node/977[/link]
[center]ہوا کے رخ پے چلتا ہے چراغِ آرزو اب تک
دلِ برباد میں اب بھی کسی کی یاد باقی ہے
[/center]

روابط: بلاگ|ویب سائیٹ|سکرائبڈ |ٹویٹر
Post Reply

Return to “سیرت سرورِ کائنات”