مشرف کا دور تصاویر کے آئینہ میں
- چاند بابو
- منتظم اعلٰی
- Posts: 22224
- Joined: Mon Feb 25, 2008 3:46 pm
- جنس:: مرد
- Location: بوریوالا
- Contact:
مشرف کا دور تصاویر کے آئینہ میں
چیف آف آرمی سٹاف جنرل مشرف
پہلی جنوری انیس سو ننانوے:
آرمی کے سربراہ جنرل پرویز مشرف جنہیں وزیرِ اعظم نواز شریف نے کئی دوسرے جنرلوں پر سبقت دیتے ہوئے ترقی دی تھی، وزیرِ اعظم کو ’ کارگل آپریشن‘ کے دوران بھارتی فوجیوں سے قبضے میں لی گئی ایک مشین گن دکھا رہے ہیں۔
جنرل مشرف سری لنکا میں
دس اکتوبر انیس سو ننانوے:
وزیرِ آعظم نواز شریف کا تختہ الٹے جانے سے قبل پرویز مشرف سری لنکا کی پچاسویں سالگرہ پر بھارتی وائس چیف آف آرمی سٹاف چندر شیکھر کے ساتھ فوجی پریڈ دیکھتے ہوئے۔
اقتدار پر قبضہ
بارہ اکتوبر اکتوبر انیس سو ننانوے:
آرمی کے جوان سرکاری ٹرانسمشن بند کرنے کے لیے اسلام آباد میں قومی ٹیلی ویژن کے ہیڈ کوارٹر کی عمارت میں گھس رہے ہیں۔ اس سے کچھ ہی گھنٹے قبل وزیرِ اعظم نواز شریف نے چیف آف آرمی سٹاف جنرل مشرف کو برطرف کردیا تھا۔
پیپلز پارٹی کے ارکان پرمسرت
تیرہ اکتوبر انیس سو ننانوے:
پیپلز پارٹی کے حامی وزیرِاعظم نواز شریف کی حکومت برطرف کئے جانے پر مٹھائی تقسیم کر رہے ہیں۔ اس موقع پر سابق وزیرِ اعظم بےنظیر بھٹو نے ایک انٹرویو میں کہا کہ اگر ملک میں آزادنہ اور شفاف انتخابات منعقد کرائے گئے تو وہ وطن واپس لوٹنے پر تیار ہیں۔
چیف ایگزیکٹو آف پاکستان
اٹھارہ اکتوبر انیس سو ننانوے:
پاکستان کے چیف ایگزیکٹو جنرل پرویز مشرف راوالپنڈی میں چیف آف آرمی سٹاف کی رہائش گاہ پر اپنے پیکنیز کتوں ’ڈاٹ‘ اور ’بڈی‘ کے ساتھ۔
جنرل صدر کا حلف
بیس جون دو ہزار ایک:
بدھ کے روز اسلام آباد میں صدر کے عہدے کا حلف اٹھانے کے بعد تقریر کرتے ہوئے۔
آگرہ مذاکرات
پندرہ جولائی دوہزار ایک:
پاکستانی صدر جنرل مشرف اور فرسٹ لیڈی صہبا مشرف انڈیا کے ساتھ کشمیر کے حل کے لیے تاریخی آگرہ مذاکرات کے موقع پر تاج محل کی سیر کے دوران۔
نائن الیون کے بعد
سولہ اکتوبر دوہزار ایک:
امریکی وزیرِ خارجہ کولن پاول اسلام آباد میں جنرل پرویز مشرف کے ساتھ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے۔ مسٹر پاول کا کہنا تھا کہ جنرل مشرف کے ساتھ مذاکرات کے دوران مرکزی نقطہ اسامہ بن لادن کی گرفتاری تھا تاہم باہمی امور کے دیگر معاملات پر بھی تبادلہِ خیالات ہوا۔
’فتح ہوگی اسلام کی‘
چھبیس اکتوبر دوہزار ایک:
کراچی، پاکستان میں ایک امریکہ مخالف احتجاج کے دوران مظاہرین۔
صدرِ پاکستان کے لیے ریفرنڈم
تیس اپریل دوہزار دو:
جنرل پرویز مشرف کی والدہ راوالپنڈی میں صدرِ پاکستان کے ریفرنڈم کے لیے ووٹ ڈالتے ہوئے۔
ایٹم بم کے خالق کے ساتھ
پندرہ جولائی دوہزار ایک:
فروری چار، دوہزار چار کو پریس انفارمیشن ڈیپارٹمینٹ نے جنرل پرویز مشرف اور ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی ملاقات کے بعد ان کی یہ پرانی تصویر ریلیز کی۔ حکومتِ پاکستان کے مطابق ڈاکٹر خان نے صدر سے جوہری توانائی کے راز ایران، لیبیا اور شمالی کوریا پر افشا کرنے کے لیے معافی کی درخواست کی۔
بلوچستان کی جنگ
اکتیس جنوری دوہزار چھ:
بلوچستان کے علاقے کاہان میں مری قبائل کے جنگجو حکومتی مورچوں پر حملے کے لیے تیار۔ بلوچستان میں ایک طویل عرصے تک مری اور بگٹی قبائل اور حکومت کے درمیان جنگ جاری رہی۔ اس دوران پاکستانی افواج نے بگٹی قبائل کے سربراہ نواب اکبر بگتی کو ہلاک کردیا۔
چیف جسٹس ’غیرفعال‘
بارہ مارچ دوہزار سات:
بارہ مارچ دو ہزار سات کو صدر جنرل پرویز مشرف نے چیف جسٹس آف پاکستان کو آرمی ہاؤس بلا کر کئی گھنٹے تک ان سے ’بات چیت‘ کی جس کے بعد ایک صدارتی ریفرنس کی بناء پر انہیں ’غیر فعال‘ کردیا گیا۔ اس کے نتیجے میں ملک بھر میں وکیلوں کی ایک تحریک اٹھ کھڑی ہوئی۔ اس تصویر میں لاہور کے وکیل جنرل مشرف کا پتلا جلا رہے ہیں۔
بارہ مئی کا کراچی
بارہ مئی دوہزار سات:
کراچی میں بارہ مئی کو چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن سے خطاب کے لیے متوقع آمد پر شہر کو بند کردیا گیا اور شہر بھر میں قتلِ عام ہوا جس میں کم از کم چالیس افراد ہلاک ہوئے۔ چیف جسٹس کو ائیرپورٹ ہی سے واپس بھیج دیا گیا۔ اس دن کے کراچی کی ایک تصویر۔
جنرل مشرف کا جلسہِ عام سے خطاب
بارہ مئی دوہزار سات:
اسلام آباد میں ایک ریلی سے خطاب کرتے ہوئے جنرل پرویز مشرف نے کہا کہ کراچی کے عوام نے اپنی طاقت دکھا دی ہے اور یہ کہ اس سے یہ ثابت ہو گیا ہے کہ پورے ملک کے عوام ان کے ساتھ ہیں۔
پہلی جنوری انیس سو ننانوے:
آرمی کے سربراہ جنرل پرویز مشرف جنہیں وزیرِ اعظم نواز شریف نے کئی دوسرے جنرلوں پر سبقت دیتے ہوئے ترقی دی تھی، وزیرِ اعظم کو ’ کارگل آپریشن‘ کے دوران بھارتی فوجیوں سے قبضے میں لی گئی ایک مشین گن دکھا رہے ہیں۔
جنرل مشرف سری لنکا میں
دس اکتوبر انیس سو ننانوے:
وزیرِ آعظم نواز شریف کا تختہ الٹے جانے سے قبل پرویز مشرف سری لنکا کی پچاسویں سالگرہ پر بھارتی وائس چیف آف آرمی سٹاف چندر شیکھر کے ساتھ فوجی پریڈ دیکھتے ہوئے۔
اقتدار پر قبضہ
بارہ اکتوبر اکتوبر انیس سو ننانوے:
آرمی کے جوان سرکاری ٹرانسمشن بند کرنے کے لیے اسلام آباد میں قومی ٹیلی ویژن کے ہیڈ کوارٹر کی عمارت میں گھس رہے ہیں۔ اس سے کچھ ہی گھنٹے قبل وزیرِ اعظم نواز شریف نے چیف آف آرمی سٹاف جنرل مشرف کو برطرف کردیا تھا۔
پیپلز پارٹی کے ارکان پرمسرت
تیرہ اکتوبر انیس سو ننانوے:
پیپلز پارٹی کے حامی وزیرِاعظم نواز شریف کی حکومت برطرف کئے جانے پر مٹھائی تقسیم کر رہے ہیں۔ اس موقع پر سابق وزیرِ اعظم بےنظیر بھٹو نے ایک انٹرویو میں کہا کہ اگر ملک میں آزادنہ اور شفاف انتخابات منعقد کرائے گئے تو وہ وطن واپس لوٹنے پر تیار ہیں۔
چیف ایگزیکٹو آف پاکستان
اٹھارہ اکتوبر انیس سو ننانوے:
پاکستان کے چیف ایگزیکٹو جنرل پرویز مشرف راوالپنڈی میں چیف آف آرمی سٹاف کی رہائش گاہ پر اپنے پیکنیز کتوں ’ڈاٹ‘ اور ’بڈی‘ کے ساتھ۔
جنرل صدر کا حلف
بیس جون دو ہزار ایک:
بدھ کے روز اسلام آباد میں صدر کے عہدے کا حلف اٹھانے کے بعد تقریر کرتے ہوئے۔
آگرہ مذاکرات
پندرہ جولائی دوہزار ایک:
پاکستانی صدر جنرل مشرف اور فرسٹ لیڈی صہبا مشرف انڈیا کے ساتھ کشمیر کے حل کے لیے تاریخی آگرہ مذاکرات کے موقع پر تاج محل کی سیر کے دوران۔
نائن الیون کے بعد
سولہ اکتوبر دوہزار ایک:
امریکی وزیرِ خارجہ کولن پاول اسلام آباد میں جنرل پرویز مشرف کے ساتھ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے۔ مسٹر پاول کا کہنا تھا کہ جنرل مشرف کے ساتھ مذاکرات کے دوران مرکزی نقطہ اسامہ بن لادن کی گرفتاری تھا تاہم باہمی امور کے دیگر معاملات پر بھی تبادلہِ خیالات ہوا۔
’فتح ہوگی اسلام کی‘
چھبیس اکتوبر دوہزار ایک:
کراچی، پاکستان میں ایک امریکہ مخالف احتجاج کے دوران مظاہرین۔
صدرِ پاکستان کے لیے ریفرنڈم
تیس اپریل دوہزار دو:
جنرل پرویز مشرف کی والدہ راوالپنڈی میں صدرِ پاکستان کے ریفرنڈم کے لیے ووٹ ڈالتے ہوئے۔
ایٹم بم کے خالق کے ساتھ
پندرہ جولائی دوہزار ایک:
فروری چار، دوہزار چار کو پریس انفارمیشن ڈیپارٹمینٹ نے جنرل پرویز مشرف اور ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی ملاقات کے بعد ان کی یہ پرانی تصویر ریلیز کی۔ حکومتِ پاکستان کے مطابق ڈاکٹر خان نے صدر سے جوہری توانائی کے راز ایران، لیبیا اور شمالی کوریا پر افشا کرنے کے لیے معافی کی درخواست کی۔
بلوچستان کی جنگ
اکتیس جنوری دوہزار چھ:
بلوچستان کے علاقے کاہان میں مری قبائل کے جنگجو حکومتی مورچوں پر حملے کے لیے تیار۔ بلوچستان میں ایک طویل عرصے تک مری اور بگٹی قبائل اور حکومت کے درمیان جنگ جاری رہی۔ اس دوران پاکستانی افواج نے بگٹی قبائل کے سربراہ نواب اکبر بگتی کو ہلاک کردیا۔
چیف جسٹس ’غیرفعال‘
بارہ مارچ دوہزار سات:
بارہ مارچ دو ہزار سات کو صدر جنرل پرویز مشرف نے چیف جسٹس آف پاکستان کو آرمی ہاؤس بلا کر کئی گھنٹے تک ان سے ’بات چیت‘ کی جس کے بعد ایک صدارتی ریفرنس کی بناء پر انہیں ’غیر فعال‘ کردیا گیا۔ اس کے نتیجے میں ملک بھر میں وکیلوں کی ایک تحریک اٹھ کھڑی ہوئی۔ اس تصویر میں لاہور کے وکیل جنرل مشرف کا پتلا جلا رہے ہیں۔
بارہ مئی کا کراچی
بارہ مئی دوہزار سات:
کراچی میں بارہ مئی کو چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن سے خطاب کے لیے متوقع آمد پر شہر کو بند کردیا گیا اور شہر بھر میں قتلِ عام ہوا جس میں کم از کم چالیس افراد ہلاک ہوئے۔ چیف جسٹس کو ائیرپورٹ ہی سے واپس بھیج دیا گیا۔ اس دن کے کراچی کی ایک تصویر۔
جنرل مشرف کا جلسہِ عام سے خطاب
بارہ مئی دوہزار سات:
اسلام آباد میں ایک ریلی سے خطاب کرتے ہوئے جنرل پرویز مشرف نے کہا کہ کراچی کے عوام نے اپنی طاقت دکھا دی ہے اور یہ کہ اس سے یہ ثابت ہو گیا ہے کہ پورے ملک کے عوام ان کے ساتھ ہیں۔
Last edited by چاند بابو on Mon Aug 18, 2008 11:18 pm, edited 1 time in total.
قصور ہو تو ہمارے حساب میں لکھ جائے
محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو
میں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو
محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو
میں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو
- چاند بابو
- منتظم اعلٰی
- Posts: 22224
- Joined: Mon Feb 25, 2008 3:46 pm
- جنس:: مرد
- Location: بوریوالا
- Contact:
لال مسجد
آٹھ جولائی دوہزار سات:
ایک طویل انتظار کے بعد حکومت نے ’ریاست کے اندر ایک اور ریاست قائم کرنے کی کوششوں‘ پر لال مسجد کے خلاف آپریشن کا فیصلہ کیا۔ فوجی دستوں نے مسجد کا محاصرہ کرلیا اورجنرل مشرف نے لال مسجد میں مورچہ بند جنگجوؤں کو وارننگ دی کہ یا وہ ہتھیار پھینک کر شکست تسلیم کریں یا مرنے کے لیے تیار ہوجائیں۔ ایک عورت محاصرے کے قریب جس کے عزیز مسجد کے اندر ہیں۔
لال مسجد ہلاکتوں پر احتجاج
تیرہ جولائی دوہزار سات:
لال مسجد آپریشن کے بعد مذہبی سیاسی اتحاد متحدہ مجلسِ عمل کا اسلام آباد میں مظاہرہ۔ وزیرِ داخلہ آفتاب شیر پاؤ کے مطابق آپریشن کے دوران مجموعی طور پر ایک سو دو افراد ہلاک ہوئے جن میں سے اکانوے سویلین، دس فوجی اور ایک رینجر کا اہلکار شامل تھے۔
چیف جسٹس بحال
بیس جولائی دوہزار سات:
سپریم کورٹ آف پاکستان کے فل بینچ نے چیف جسٹس آف سپریم کورٹ، پاکستان کو ایک تاریخی فیصلے کے نتیجے میں بحال کردیا۔ اسلام آباد میں وکلاء پرمسرت۔
نواز شریف پھر جلاوطن
دس ستمبر دوہزار سات:
سپریم کورٹ ہی کے ایک فیصلے کے نتیجے میں سابق وزیرِ اعظم نواز شریف پاکستان پہنچے تاہم انہیں اسلام آباد ائیرپورٹ ہی سے دوبارہ سعودی عرب جلاوطن کردیا گیا۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں نے اس دن اسلام آباد میں نواز شریف کی سیاسی جماعت کے کارکنوں کو ائیرپورٹ پہنچنے میں کامیاب نہیں ہونے دیا۔
جنرل مشرف کے صدارت کے لیے کاغذاتِ نامزدگی
انتیس ستمبر دوہزار سات:
الیکشن کمیشن میں جنرل مشرف کے کاغذاتِ نامزدگی کی جانچ پڑتال کے موقع پر وکلاء نے احتجاج کا اعلان کیا۔ اسلام آباد میں پولیس نے اس موقع پر صحافیوں اور وکلاء پر آنسو گیس اور لاٹھی چارج کا استعمال کیا۔
بے نظیر مشرف ڈیل
چار اکتوبر دوہزار سات:
بہت سی پیچیدگیوں اور متضاد بیانات کے بعد صدارتی الیکشن سے دو دن پہلے پیپلز پارٹی کی چیئر پرسن اور دو بار منتخب ہونے والی سابق وزیرِ اعظم بےنظیر بھٹو نے لندن میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ جنرل پرویز مشرف کے ساتھ اقتدار میں شراکت کی ڈیل کے بارے میں وہ ’پرامید‘ ہیں تاہم ابھی تک کوئی حتمی فیصلہ نہیں ہوا۔
ایک رات پہلے کا اسلام آباد
پانچ اکتوبر دوہزار سات:
صدارتی انتخاب سے ایک رات قبل ایک بچی اسلام آباد میں عید سے پہلے کی رونقوں میں ایک بھکاری اور ایک بچی۔
’جنرل مشرف اب صدر مشرف؟‘
چھ اکتوبر دوہزار سات:
غیر سرکاری نتائج کے مطابق جنرل مشرف غیرمعمولی اکثریت کے ساتھ صدارتی انتخابات میں کامیاب ہوگئے تاہم سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق نتائج کا سرکاری اعلان ان کے خلاف سپریم کورٹ میں زیرِ التواء درخواستوں کے فیصلے کے بعد کیا جائے
ایمرجنسی کا نفاذ، ایک بار پھر
تین نومبر دو ہزار سات کو سپریم کورٹ کا صدارتی انتخابات پر فیصلہ آنے سے قبل ہی جنرل مشرف نے ملک میں آئین کو معطل کرتے ہوئے ایمرجنسی نافذ کردی۔ اس ایمرجنسی کے تحت عدلیہ کے زیادہ تر ججز کو گھروں پر نظر بند کردیا گیا جنہوں نےپی سی او کے تحت حلف اٹھانے سے انکار کردیا اور نجی خبر رساں ٹی وی چینلز کو بند کردیا گیا۔ تاہم ایمرجنسی کے نفاذ پر امریکہ سمیت جنرل مشرف کے حلیفوں نے اپنے سخت ردعمل کا اظہار کیا۔
وردی میں آخری تقریبات
جنرل پرویز مشرف نے منگل ستائیس نومبر کوجوائنٹ سٹاف ہیڈ کواٹر راولپنڈی کا الوداعی دورہ کیا جس سے ان کے فوجی عہدہ چھوڑنے کے عمل کا باقاعدہ آغاز ہوگیا ہے۔صدارتی ترجمان راشد قریشی نے ایک دن قبل اعلان کیا تھا کہ جنرل پرویز مشرف بدھ کے روز فوجی عہدے سے سبکدوش ہو جائیں گے اور فوج کی کمان وائس چیف آف آرمی سٹاف جنرل اشفاق پرویز کیانی کے حوالے کر دیں گے۔
بالآخر جنرل (ریٹائرڈ) سید پرویز مشرف
اٹھائیس نومبر دو ہزار سات کو پاکستان فوج میں جنرل مشرف کا تقریباً چھیالیس سالہ عسکری کیرئر، جس میں نو برس بری فوج کے سپہ سالار کے طور پر خدمات بھی شامل ہیں، بالآخر اپنے اختتام کو پہنچ گیا۔ اس موقعہ پر جنرل مشرف نے کہا کہ ملک کا وجود فوج کے بغیر ممکن نہیں تاہم انہوں نے اعتراف کیا کہ فوج اس وقت دباؤ میں ہے۔ فوج پر تنقید کرنے والوں کو مخاطب کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’وہ بھٹکے ہوئے عناصر ہیں جو نہیں سمجھتے کہ پاکستان کی سالمیت و ترقی میں فوج کا اہم ترین کردار ہے۔‘ جنرل مشرف نے بھرائی ہوئی آواز میں کہا ’اس بات کا افسوس ہے کہ کل فوج کی کمان میں نہیں ہوں گا۔ یہ فوج میری زندگی ہے۔ یہ فوج میرا جنون ہے۔ اس فوج سے میں نے محبت کی ہے۔ یہ رشتہ ہمیشہ قائم رہے گا لیکن میں وردی میں اب نہیں رہوں گا۔
دوسری بار حلف
اُنتیس نومبر
صدر پرویز مشرف نے سویلین لباس میں دوسری بار ملک کے صدر کا حلف اُٹھا لیا۔ اسے کے بعد انہوں نے ایمرجنسی ختم کی اور عام انتخابات کا اعلان کر دیا۔
انتخابات میں ق لیگ کی شکست
اٹھارہ فروری
عام انتخابات میں صدر پرویز مشرف کی حامی جماعت مسلم لیگ قاف کو ناکامی ہوئی۔ انتخابات میں پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ نواز بڑی جماعتوں کے طور پر سامنے آئیں اور صدر مشرف پر استعفے کے لیے دباؤ پڑنا شروع ہوا۔
’ملک و قوم کی خاطر‘ مستعفی
اٹھارہ اگست
صدر پرویزمشرف نے قوم سے خطاب میں ’ملک و قوم کی خاطر‘ مستعفی ہونے کا اعلان کر دیا۔ انہوں نے اپنے خطاب میں اپنی حکومت کی کارکردگی کا دفاع کیا اور کہا کہ ملک کو درپیش بحران ان کی پالیسیوں کا نتیجہ نہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کے سیاسی دنگل میں ’میری کوشش مفاہمت کی رہی لیکن بدقسمتی سے میری تمام اپیلیں ناکام ہوگئیں‘۔
بشکریہ بی بی سی اردو
آٹھ جولائی دوہزار سات:
ایک طویل انتظار کے بعد حکومت نے ’ریاست کے اندر ایک اور ریاست قائم کرنے کی کوششوں‘ پر لال مسجد کے خلاف آپریشن کا فیصلہ کیا۔ فوجی دستوں نے مسجد کا محاصرہ کرلیا اورجنرل مشرف نے لال مسجد میں مورچہ بند جنگجوؤں کو وارننگ دی کہ یا وہ ہتھیار پھینک کر شکست تسلیم کریں یا مرنے کے لیے تیار ہوجائیں۔ ایک عورت محاصرے کے قریب جس کے عزیز مسجد کے اندر ہیں۔
لال مسجد ہلاکتوں پر احتجاج
تیرہ جولائی دوہزار سات:
لال مسجد آپریشن کے بعد مذہبی سیاسی اتحاد متحدہ مجلسِ عمل کا اسلام آباد میں مظاہرہ۔ وزیرِ داخلہ آفتاب شیر پاؤ کے مطابق آپریشن کے دوران مجموعی طور پر ایک سو دو افراد ہلاک ہوئے جن میں سے اکانوے سویلین، دس فوجی اور ایک رینجر کا اہلکار شامل تھے۔
چیف جسٹس بحال
بیس جولائی دوہزار سات:
سپریم کورٹ آف پاکستان کے فل بینچ نے چیف جسٹس آف سپریم کورٹ، پاکستان کو ایک تاریخی فیصلے کے نتیجے میں بحال کردیا۔ اسلام آباد میں وکلاء پرمسرت۔
نواز شریف پھر جلاوطن
دس ستمبر دوہزار سات:
سپریم کورٹ ہی کے ایک فیصلے کے نتیجے میں سابق وزیرِ اعظم نواز شریف پاکستان پہنچے تاہم انہیں اسلام آباد ائیرپورٹ ہی سے دوبارہ سعودی عرب جلاوطن کردیا گیا۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں نے اس دن اسلام آباد میں نواز شریف کی سیاسی جماعت کے کارکنوں کو ائیرپورٹ پہنچنے میں کامیاب نہیں ہونے دیا۔
جنرل مشرف کے صدارت کے لیے کاغذاتِ نامزدگی
انتیس ستمبر دوہزار سات:
الیکشن کمیشن میں جنرل مشرف کے کاغذاتِ نامزدگی کی جانچ پڑتال کے موقع پر وکلاء نے احتجاج کا اعلان کیا۔ اسلام آباد میں پولیس نے اس موقع پر صحافیوں اور وکلاء پر آنسو گیس اور لاٹھی چارج کا استعمال کیا۔
بے نظیر مشرف ڈیل
چار اکتوبر دوہزار سات:
بہت سی پیچیدگیوں اور متضاد بیانات کے بعد صدارتی الیکشن سے دو دن پہلے پیپلز پارٹی کی چیئر پرسن اور دو بار منتخب ہونے والی سابق وزیرِ اعظم بےنظیر بھٹو نے لندن میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ جنرل پرویز مشرف کے ساتھ اقتدار میں شراکت کی ڈیل کے بارے میں وہ ’پرامید‘ ہیں تاہم ابھی تک کوئی حتمی فیصلہ نہیں ہوا۔
ایک رات پہلے کا اسلام آباد
پانچ اکتوبر دوہزار سات:
صدارتی انتخاب سے ایک رات قبل ایک بچی اسلام آباد میں عید سے پہلے کی رونقوں میں ایک بھکاری اور ایک بچی۔
’جنرل مشرف اب صدر مشرف؟‘
چھ اکتوبر دوہزار سات:
غیر سرکاری نتائج کے مطابق جنرل مشرف غیرمعمولی اکثریت کے ساتھ صدارتی انتخابات میں کامیاب ہوگئے تاہم سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق نتائج کا سرکاری اعلان ان کے خلاف سپریم کورٹ میں زیرِ التواء درخواستوں کے فیصلے کے بعد کیا جائے
ایمرجنسی کا نفاذ، ایک بار پھر
تین نومبر دو ہزار سات کو سپریم کورٹ کا صدارتی انتخابات پر فیصلہ آنے سے قبل ہی جنرل مشرف نے ملک میں آئین کو معطل کرتے ہوئے ایمرجنسی نافذ کردی۔ اس ایمرجنسی کے تحت عدلیہ کے زیادہ تر ججز کو گھروں پر نظر بند کردیا گیا جنہوں نےپی سی او کے تحت حلف اٹھانے سے انکار کردیا اور نجی خبر رساں ٹی وی چینلز کو بند کردیا گیا۔ تاہم ایمرجنسی کے نفاذ پر امریکہ سمیت جنرل مشرف کے حلیفوں نے اپنے سخت ردعمل کا اظہار کیا۔
وردی میں آخری تقریبات
جنرل پرویز مشرف نے منگل ستائیس نومبر کوجوائنٹ سٹاف ہیڈ کواٹر راولپنڈی کا الوداعی دورہ کیا جس سے ان کے فوجی عہدہ چھوڑنے کے عمل کا باقاعدہ آغاز ہوگیا ہے۔صدارتی ترجمان راشد قریشی نے ایک دن قبل اعلان کیا تھا کہ جنرل پرویز مشرف بدھ کے روز فوجی عہدے سے سبکدوش ہو جائیں گے اور فوج کی کمان وائس چیف آف آرمی سٹاف جنرل اشفاق پرویز کیانی کے حوالے کر دیں گے۔
بالآخر جنرل (ریٹائرڈ) سید پرویز مشرف
اٹھائیس نومبر دو ہزار سات کو پاکستان فوج میں جنرل مشرف کا تقریباً چھیالیس سالہ عسکری کیرئر، جس میں نو برس بری فوج کے سپہ سالار کے طور پر خدمات بھی شامل ہیں، بالآخر اپنے اختتام کو پہنچ گیا۔ اس موقعہ پر جنرل مشرف نے کہا کہ ملک کا وجود فوج کے بغیر ممکن نہیں تاہم انہوں نے اعتراف کیا کہ فوج اس وقت دباؤ میں ہے۔ فوج پر تنقید کرنے والوں کو مخاطب کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’وہ بھٹکے ہوئے عناصر ہیں جو نہیں سمجھتے کہ پاکستان کی سالمیت و ترقی میں فوج کا اہم ترین کردار ہے۔‘ جنرل مشرف نے بھرائی ہوئی آواز میں کہا ’اس بات کا افسوس ہے کہ کل فوج کی کمان میں نہیں ہوں گا۔ یہ فوج میری زندگی ہے۔ یہ فوج میرا جنون ہے۔ اس فوج سے میں نے محبت کی ہے۔ یہ رشتہ ہمیشہ قائم رہے گا لیکن میں وردی میں اب نہیں رہوں گا۔
دوسری بار حلف
اُنتیس نومبر
صدر پرویز مشرف نے سویلین لباس میں دوسری بار ملک کے صدر کا حلف اُٹھا لیا۔ اسے کے بعد انہوں نے ایمرجنسی ختم کی اور عام انتخابات کا اعلان کر دیا۔
انتخابات میں ق لیگ کی شکست
اٹھارہ فروری
عام انتخابات میں صدر پرویز مشرف کی حامی جماعت مسلم لیگ قاف کو ناکامی ہوئی۔ انتخابات میں پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ نواز بڑی جماعتوں کے طور پر سامنے آئیں اور صدر مشرف پر استعفے کے لیے دباؤ پڑنا شروع ہوا۔
’ملک و قوم کی خاطر‘ مستعفی
اٹھارہ اگست
صدر پرویزمشرف نے قوم سے خطاب میں ’ملک و قوم کی خاطر‘ مستعفی ہونے کا اعلان کر دیا۔ انہوں نے اپنے خطاب میں اپنی حکومت کی کارکردگی کا دفاع کیا اور کہا کہ ملک کو درپیش بحران ان کی پالیسیوں کا نتیجہ نہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کے سیاسی دنگل میں ’میری کوشش مفاہمت کی رہی لیکن بدقسمتی سے میری تمام اپیلیں ناکام ہوگئیں‘۔
بشکریہ بی بی سی اردو
قصور ہو تو ہمارے حساب میں لکھ جائے
محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو
میں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو
محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو
میں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو
-
- معاون خاص
- Posts: 13369
- Joined: Sat Mar 08, 2008 8:36 pm
- جنس:: مرد
- Location: نیو ممبئی (انڈیا)
- چاند بابو
- منتظم اعلٰی
- Posts: 22224
- Joined: Mon Feb 25, 2008 3:46 pm
- جنس:: مرد
- Location: بوریوالا
- Contact:
رضی بھائی وہی قومیں ترقی کرتی ہیں جو اپنی تاریخ سے سبق حاصل کرتی ہیں۔ اگر پاکستانی عوام اپنی تاریخ سے سبق سیکھ جائے تو آئندہ کسی ڈکیٹیٹر کو دوبارہ ایسی جرات نہ ہو۔اور ایسی ہر کوشش کے سامنے قوم سینہ سپر ہو کر کھڑی ہو جائے۔ کل صدر پرویز مشرف کے استعفٰی پر بہت خوشیاں منائیں گئیں لیکن مجھے وہ دن بھی اچھی طرح یاد ہے جب بارہ اکتوبر 1999 کو مشرف نے اقتدار پر قبضہ کیا تھا تب بھی اس بھولی عوام نے اسی طرح خوشیاں منائیں تھیں۔ میری عوام کا مسئلہ ہی یہی ہے کہ جو اسے روٹی کپڑے مکان کا خواب دکھلاتا ہے وہ اس کے ساتھ ہو لیتی ہے اور انجام سے بے خبر اسی کا سہارا بنتی ہے اور جب وہ اس کے خوابوں کا پامال کرتا ہے تو اس کے خلاف نفرت کا اظہار کرتی ہے۔ خدا تعالٰی سے دعا ہے کہ اس قوم کو چشمِ بینا دے۔(آمین)
محبوب خان بھائی کاوش کو سراہنے کے لئے آپ کا بہت شکریہ۔
محبوب خان بھائی کاوش کو سراہنے کے لئے آپ کا بہت شکریہ۔
قصور ہو تو ہمارے حساب میں لکھ جائے
محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو
میں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو
محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو
میں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو
-
- معاون خاص
- Posts: 13369
- Joined: Sat Mar 08, 2008 8:36 pm
- جنس:: مرد
- Location: نیو ممبئی (انڈیا)